ملک میں پاور سیکٹر کا بحران انقلابی اقدامات کرنا ہونگے
ماہرین اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال
ملکی معیشت اور عوامی زندگی کے لیے بجلی بنیادی ضرورت ہے مگر حالیہ دنوں میں پاور سیکٹر میں جو بحران سامنے آیا ہے وہ ملک کے تمام شعبوں کو گہرے نئے بحران میں دھکیل رہا ہے۔
بجلی پر ٹیکسز اور کیپسٹی پیمنٹس نے جہاں شہریوں کے لیے پریشانی بڑھائی ہے وہاں چھوٹے، بڑے کاروباری طبقے کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ''پاکستان میں پاور سیکٹرکا بحران ، معیشت پر اس کے اثرات اور ممکنہ حل '' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ماہرین اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر خالد ولید
(ماہر امور توانائی)
مہنگی بجلی کی متعدد وجوہات ہیں، اس کی ذمہ دار کوئی ایک حکومت نہیں ہے۔2021ء تک انرجی چارج کیپسٹی چارج سے زیادہ تھا۔ کیپسٹی چارج ایک رینٹ ہے ۔ پیداوار بڑھانے سے فی یونٹ لاگت کم ہوتی ہے،کیپسٹی چارجز میں پچاس سے ساٹھ فیصدتک قرضہ جات کی مد میں صارفین کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ تمام پلانٹس چاہے وہ 1994ء کے ہوں، 2002ء یا پھر 2015ء ، سب قرض لے کر بنائے گئے لہٰذا پہلے قرض واپس کرنا ہے۔
اس پر سود دینا ہے اور پھر ریٹرن آن اکیوٹی بھی ادا کرنا ہے، یہ سب کی ذمہ داری صارف پر ہے۔ مثال کے طور پر ایک ہزارکیپسٹی چارج ہواور صارفین پانچ سو ہوں تو فی کس کیپسٹی چارج دو روپے ہو گا مگر صارفین اگر سو تک محدود ہو جائیں توہر صارف کو دو کی بجائے دس روپے ادا کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں 2022-23ء کا موازنہ کریں تو بجلی کی طلب کم ہو رہی ہے، ڈیمانڈ کم ہونے سے کیپسٹی چارجز فی یونٹ کے حساب سے زیادہ ہو جاتے ہیں اور اس حساب سے ٹیرف بڑھانا پڑتا ہے۔ بجلی کا ٹیرف بڑھنے سے صنعتکار ملک چھوڑ رہا ہے، صنعتکارنیشنل گرڈ کو چھوڑ رہا ہے جس سے عام صارف پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔
چین میں بجلی کی 50 فیصد صارف ان کی صنعت ہے جبکہ ہمارے ہاں رہائشی صارفین زیادہ ہیں،ڈالرز میں بنائی گئی بجلی کو غیر پیدواری شعبے میں خرچ کیا جا رہا ہے لہٰذا انڈسٹری کو قومی گرڈ پر لانا انتہائی ضروری ہے، اس کی ڈیمانڈ بڑھانا ہو گا ورنہ کیپسٹی چارجز سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ جب ٹیرف کی پالیسی لائی گئی تھی تب بجلی کی پیدوار کم اور طلب زیادہ تھی،اس وقت سلیب کا استعمال بڑھایا گیا۔ مسئلہ الٹ ہو چکا ہے۔
اب بجلی زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں سلیب کا میکنزم ختم یا تبدیل کرنا ہو گا تاکہ ان صارفین کو حوصلہ افزائی کی جاسکے جو زیادہ بجلی خرچ کرنا چاہتے ہیں،خاص کرکمرشل صارفین۔ سولر نیٹ میٹرنگ کے معاملہ پر اگر بات کریں تو ان کی بجلی کی کھپت بڑھانے کے لیے بہتر ہو گا کہ ان کے گیس کنکشن ختم کر دئیے جائیں ۔
حکومت کو آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی کھپت بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں، صرف رہائشی صارف ہی نہیں انڈسٹری کو بھی اس حوالے سے ریلیف دیا جانا چاہیے۔ ٹیکسٹائیل ملز نے کیپٹو پاور پلانٹ لگائے اور ایکسپورٹ کے نام پر ان کو سبسڈائزڈ ریٹ پر گیس دی گئی،وزیر توانائی کی تجویز ٹھیک ہے کہ ان کیپٹو پاور پلانٹس کو سبسڈائز ریٹ پر گیس دینے کے بجائے گرڈ سے منسلک کیا جائے۔
گرڈ کی ڈیمانڈ بڑھے گی تو فی یونٹ کیپسٹی چارجز کم ہوں گے۔ انڈسٹری مالکان چاہتے ہیں کہ ریجنلی کمپیٹو ٹیرف اور صاف شفاف بجلی ہو۔ یورپی یونین کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکنزم کے تحت 2030ء کے بعد یورپ جانے والی ٹیکسٹائیل ایکسپورٹ جو کوئلے سے بننے والی بجلی سے تیار ہو گی ، جس میں کاربن اجزاء زیادہ ہونگے پر ٹیکس لاگو ہو گا۔ کیپٹو پاور پلانٹس کو گرڈ سے منسلک کرکے ٹیرف کم ہونا چاہیے۔
ہمارے ملک میںپلاننگ کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔پاکستان میں توانائی کا بحران مختلف عوامل کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس میں بجلی کی پیداواری صلاحیت کی کمی بھی شامل ہے۔موجودہ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی ناکافی صلاحیت اور پرانے پلانٹس کی کارکردگی میں کمی بھی ایک وجہ ہے۔ بڑے ڈیمز کی تعمیر نہ ہونے اور ہائیڈرو پاور کے وسائل کا پورا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے پانی سے بجلی پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بجلی کے ترسیلی نظام کی خراب حالت اور لائن لاسز بھی بجلی کے اخراجات میں بے جا اضافہ کا سبب بنے ہیں۔ توانائی کے شعبے میں بھاری قرضے اور مالی مشکلات بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ کا سبب بنی ۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں اورپلاننگ کے فقدان کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ بجلی بحران ملک کی اقتصادی ترقی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بجلی کی کمی کے باعث صنعتی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے اور عوام کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت بجلی کی قیمتوں کو مستحکم اور قابل برداشت رکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نئے پاور پلانٹس، خصوصاً قابل تجدید توانائی کے منصوبے جیسے کہ شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کرے۔ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لئے خصوصی مالی مراعات اور سبسڈیز فراہم کرنی چاہئیں۔ بڑے ڈیمز اور ہائیڈرو پاور منصوبوں کی تکمیل سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کی اپگریڈنگ سے بجلی کے ترسیلی اور تقسیم کے نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے تاکہ لائن لاسز کو کم اور بجلی کی فراہمی کو موثر بنایا جا سکے۔ جدید ٹیکنالوجی اور انتظامی اصلاحات کے ذریعے تکنیکی نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کو بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے والے اداروں کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ قیمتیں معقول رہیں اور صارفین پر بوجھ نہ پڑے۔ کم آمدنی والا طبقہ اور اہم صنعتی شعبوں کے لئے بجلی پر سبسڈی فراہم کرنی چاہیے تاکہ ان پر مہنگی بجلی کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ حکومت کو بجلی کی چوری کی روک تھام کے لئے سخت قوانین اور نگرانی کا نظام وضع کرنا چاہیے۔ بجلی کے بلوں کی وصولی کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ واجبات کی بروقت وصولی ہو اور بجلی کی فراہمی کو مستحکم رکھا جا سکے۔
حکومت کو نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے منصوبوں میں سرمایہ کاری ہوسکے، اسی طرح پڑوسی ممالک سے بجلی کی فراہمی کے معاہدے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ حکومت اگر کثیر الجہتی اقدامات کرے تو نہ صرف توانائی کے بحران کا خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ ملک کی اقتصادی ترقی میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔
اجمل بلوچ
(تاجر رہنما)
آئی پی پیز کے معاہدوں نے ملک کا بیڑاغرق کر دیا ہے۔ 22 ہزار میگا واٹ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ باقی 28 ہزار میگا واٹ کا معاوضہ کمپنیوں کو نہیں دوسروں کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ تاجر کم و بیش سو روپے فی یونٹ بجلی خرید رہا ہے اور پیک آورز میں یہ ریٹ اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے، تاجر کے علاوہ کوئی بھی صارف اس قدر مہنگی بجلی نہیں خرید رہا ۔ اگر ہم پیک آورز میں بجلی کا استعمال بند کر دیں تو ملک میں بحران آ جائے گا۔
اس وقت سوا کروڑ تاجر ہے جو کمرشل میٹر استعمال کر رہا ہے۔ بجلی سپلائی کمپنیوں نے کمرشل ٹرانسفارمز اور بجلی کی تار کے اخراجات بھی تاجروں پر ڈال دئیے ہیں جو سراسر ظلم ہے۔ بجلی مہنگی دی جا رہی ہے تو کم ازکم ٹرانسفارمر اور سپلائی کے اخراجات تو کمپنیاں خود برداشت کریں۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ ماسوائے میڈیکل اور کریانہ سٹورز کے باقی تمام دکانداروں کو اپنا کاروبار چلانے کے لیے انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، 70فیصد خریداری کم ہو گئی ہے جس کے باعث تاجر کے پاس بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔حکومت باہر سے سرمایہ کاری اور سرمایہ کار ڈھونڈ رہی ہے مگر اپنا سرمایہ کار ملک سے بھاگ رہا ہے۔
سفارت خانوں کے باہر رش دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر لوگ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔کرونا میں انڈسٹری چلی تاہم اب مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ دوکان کے کرایہ سے زیادہ بجلی کا بل آرہا ہے، دکاندار اپنے اخراجات پورے نہیں کر پا رہا۔ لوگ سولر سسٹم لگوا رہے ہیں مگر اب خطرہ ہے کہ حکومت سولر پینلز پر پابندی لگا دے گی۔ مہنگی بجلی تاجروں اور کاروباری طبقے کے لئے متعدد مسائل پیدا کررہی ہے۔
اس کے باعث مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافی لاگت صارفین کو منتقل کی جاتی ہے جس سے مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں،منافع کم کریں تو یہ خرچ تاجروں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقت کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے۔ مہنگی مصنوعات کی وجہ سے برآمدات متاثر ہوتی ہیں اور مقامی منڈی میں بھی مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ مہنگی بجلی سے کاروباری اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے جس سے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے۔ سرمایہ کاری کی کمی سے کاروبار کی ترقی متاثر ہوتی ہے اور نئے روزگار کے مواقع کم پیدا ہوتے ہیں۔
مہنگی بجلی کے ساتھ ساتھ بجلی کی عدم فراہمی کی صورت میں بھی پیداواری عمل میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ بجلی کی بار بار بندش یا غیر یقینی فراہمی سے پیداواری عمل متاثر ہوتا ہے، جس سے کاروباری نقصان ہوتا ہے۔ مسلسل مہنگی اور غیر مستحکم بجلی کی فراہمی سے کاروباری تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کاروبار کی پائیداری اور ترقی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تاجروں کے لئے مالی منصوبہ بندی میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔
اخراجات کی غیر یقینی صورتحال سے بجٹ بنانا اور مالیاتی منصوبہ بندی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ مہنگی بجلی کی وجہ سے تاجر متبادل توانائی کے ذرائع جیسے جنریٹرز، سولر پینلز، اور دیگر ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں مگر ان متبادل ذرائع کی تنصیب اور دیکھ بھال کی لاگت بھی کاروبار کے لئے اضافی بوجھ بنتی ہے۔مہنگی بجلی تاجروں اور کاروباری طبقے کے لئے متعدد مسائل اور چیلنجز پیدا کرتی ہے۔ اس کے حل کے لئے ضروری ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں استحکام لایا جائے، بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دیا جائے تاکہ تاجروں کو بہتر اور سستی بجلی فراہم کی جا سکے اور ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔
عرفان احمد چٹھہ
(ماہر معاشیات)
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث کاروباری اور پیداواری اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوگیاہے۔ اس صورتحال میں کاروباری افراد بھی توانائی کا متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ عام صارف کو تب فائدہ ہے جب بجلی کا استعمال زیادہ ہومگر صارف اپنا فائدہ سوچتا ہے۔ کچھ کاروبار سولر پر منتقل ہو گئے ہیں،کچھ نے گیس کااستعمال شروع کر دیا ہے،اس کا حل یہی ہے کہ سب کو سستی بجلی فراہم کی جائے۔ کاروباری اخراجات کم کرنے سے ہی انڈسٹری چلا سکتی ہے،اگر اخراجات، آمدن سے زیادہ ہوں گے تو کاروبار کرنا مشکل ہے۔
اسی وجہ سے تاجر برادری اور خصوصا بڑا کاروباری طبقہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔ کاروباری طبقے کی بیرون ملک منتقلی سے صرف اشخاص نہیں ملک کا بڑا زرمبادلہ بھی باہر جا رہا ہے لہٰذا حکومت کو کاروبار کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ افسوس ہے کہ کاروبار کیلئے مشکلات بڑھا دی گئی ہیں، مہنگی بجلی ، اضافی ٹیکس، لیویز و دیگر بوجھ۔ حکومت کو سوچنا ہو گا کہ کاروبار بند ہونے سے ریاست کے لیے مشکلات بڑھنا شروع ہو جائیں گی جیسا کہ اب بھی ہم مشکل صورتحال سے دو چار ہیں۔ یہی حال رہا تو ملک میں امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا،چوری ڈکیتی اور قتل وغارت کی وارداتیں مزید بڑھ جائیں گی۔
ریاست کو اپنی عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ یہاں افراط زر اس قدر ہے کہ مڈل کلاس ختم ہوگئی ہے، عام آمدی کا جینا دو بھر ہوگیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی بجلی کی قیمتوں میں کمی کے نکتے پر بہت عرصہ بعد متحد ہو گئے ہیں۔ اگرچہ یہ اتحادعام طور پر گرمیوں میں ہی نظر آتاہے، سردیوں میں بجلی کااستعمال بڑھا دیں تو یہ کیپسٹی پیمنٹ کم ہو جائے گی،دیکھتے ہیں اس موسم گرما میں آئی پی پیز کا معاملہ حل ہو پاتا ہے یا نہیں۔ بجلی کے فی یونٹ ٹیرف میں سترہ سے اٹھارہ روپے کیپسٹی پے منٹ کی مد میں جا رہا ہے۔
پانچ سے دس سال قبل ستر سے اسی فیصد والے پاور پلانٹس کی کیپسیٹی مسلسل کم ہو رہی ہے جو اب پچاس فیصد پر آ چکی ہے،آئندہ چند سالوں میں خدشہ ہے کہ چالیس فیصد پر آجائے گی لہٰذا حکومتی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر ضرور نظر ثانی ہونی چاہیے۔آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات اور معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے ان کو آفرز دی جا ئیں ، بجائے کیپسٹی پیمنٹ کے، مختلف سرکاری اداروں میں انہہیں شیئرز دئیے جا سکتے ہیں۔ پی ایس او، ہائی وئیز یا دیگر منافع بخش اداروں میں حصص دیے جا سکتے ہیں۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ فی یونٹ قیمت کم ہو کر 10 روپے ہونی چاہیے۔ تونائی کا استعمال اور معیشت کا فروغ ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔
اس وقت توانائی کا استعمال کم ہو رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہماری معیشت جمود کا شکا ر ہے۔ اگر توانائی کی ڈیمانڈ نہ ہو تو مطلب کہ ملک آگے نہیں بڑھ رہا۔ پیٹرول کی برآمدنہ ہونے سے کرنٹ اکاؤنٹ بہتر ہوجاتا ہے لیکن اس کا براہ راست اثر معیشت پڑ تا ہے۔ گرڈ سے ملنے والی بجلی اس قدر مہنگی ہے کہ لوگ متبادل ذرائع پر منتقل ہو رہے ہیں۔ ،سترہ سے اٹھارہ روپے فی یونٹ کیپسٹی دینے پر یونٹ کاسٹ جب پچاس روپے تک پہنچے تو کاروبار کیسے چلے گا، کمرشل صارفین تو ویسے ہی الگ ٹیرف دے رہے ہیں۔ توانائی کے بحران کا پاکستان کی معیشت پر گہرا اور متنوع اثر پڑتا ہے،توانائی کے بحران کی وجہ سے اکثر صنعتوں کو طویل اور غیر یقینی مدت کے لئے بجلی کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں پیداوار کی شرح میں کمی آتی ہے اور کارخانوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کے مسائل سے پیداوار کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے اور کچھ صنعتیں مکمل طور پر بند ہو جاتی ہیں، دوسری جانب بات کریں توتوانائی کی عدم فراہمی سے صنعتی پیداوار میں کمی ہوتی ہے، جس کا براہ راست اثر برآمدات پر پڑتا ہے۔
عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل نہ رہنے کی وجہ سے برآمدات کم ہو جاتی ہیں جس سے ملک کی زرمبادلہ کی آمدن متاثر ہوتی ہے۔ جب مہنگی بجلی ملے گی اور صنعتکاروں کو مسائل کا سامنا پڑے گاتوصنعتی پیداوار میں کمی اور کارخانوں کی بندش کے نتیجے میں مزدوروں کی بے روزگاری بڑھتی ہے۔ بے روزگاری کے بڑھنے سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک کی اقتصادی حالت مزید خراب ہوتی ہے۔اس بحران کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کار نئے منصوبے شروع کرنے سے گریز کرتے ہیں، جس سے ملک کی مجموعی سرمایہ کاری کی شرح کم ہو جاتی ہے۔
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار بجلی کی فراہمی کے بحران سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس متبادل توانائی کے ذرائع کی فراہمی کے لئے وسائل کم ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور مالی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا اثر مجموعی طور پر اشیاء و خدمات کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔ بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ اور دیگر شعبوں میں لاگت بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی ہے۔زرعی شعبہ بھی توانائی کے بحران سے متاثر ہوتا ہے۔ پانی کی فراہمی کے لئے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور بجلی کی کمی سے زرعی پیداوار میں بھی کمی آتی ہے۔
اس سے ملک کی غذائی سلامتی متاثر ہوتی ہے اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی کی شرح متاثر ہوتی ہے۔ مختلف شعبوں میں پیداوار کی کمی، برآمدات میں کمی، بے روزگاری میں اضافہ اور سرمایہ کاری کی شرح میں کمی سے جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہو جاتی ہے۔توانائی بحران کے پاکستان کی معیشت پر وسیع اور گہرے اثرات ہیں۔ اس کے حل کیلئے ٹھوس اور مستقل اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی معیشت کو مستحکم اور عوام کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور بہتر انتظامی پالیسیاں اس بحران کے حل کی جانب مؤثر اقدامات ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر جنید زاہد
(تجزیہ نگار)
بحران صرف تکنیکی مسائل تک محدود نہیں بلکہ اس کی جڑیں پالیسی سازی کی ناکامیوں، انتظامی کوتاہیوں اور توانائی کی طلب و رسد میں عدم توازن میں بھی پیوست ہیں۔ حکومت کی جانب سے اصلاحات کی ضرورت کا بار بار ذکر کیا گیا ہے لیکن اب تک ان اصلاحات کی عملی صورت گری میں ناکامی نے بحران کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔یہ وقت ہے کہ ملک کی قیادت اور متعلقہ ادارے سنجیدگی سے اس مسئلے کی جانب توجہ دیں اور ایک جامع حکمت عملی تیار کریں جو نہ صرف فوری مسائل کا حل پیش کرے بلکہ مستقبل میں اس طرح کے بحرانوں سے بچاؤ کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرے۔ عوام اور معیشت کی فلاح و بہبود کے لیے یہ اقدام نہایت ضروری ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں آئی پی پیز کا مسئلہ بھی پاور سیکٹر میں اہمیت اختیار کرچکاہے۔ پاکستان کے توانائی کے سیکٹر میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے 1990ء کی دہائی میں ''آئی پی پیز''کی سکیم متعارف کرائی گئی۔ ان آئی پی پیز نے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا لیکن حالیہ برسوں میں ان کے ساتھ مسائل اور تنازعات نے توانائی کے بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے اکثر طویل مدتی اور پیچیدہ ہوتے ہیں جن میں بجلی کی قیمتیں، ادائیگی و دیگر شرائط شامل ہوتی ہیں۔ ان معاہدوں میں بعض صورتوں میں حکومت یا متعلقہ اداروں کی طرف سے مالی وعدوں کی تکمیل میں تاخیر کی گئی ۔
آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں میں بجلی کی قیمتیں عموماً حکومت کی سبسڈی کے تحت ہوتی ہیں لیکن قیمتوں میں تبدیلی کی صورت میں حکومت یا توانائی کی تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے ان قیمتوں میں کمی کی درخواستوں یا تبدیلیوں پر مسائل اٹھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اکثر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور توانائی کی پیداوار میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔آئی پی پیز کی بعض تنصیبات میں تکنیکی مسائل اور انتظامی کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں، بعض آئی پی پیز ماحولیاتی قوانین اور ضوابط کی مکمل پیروی نہیں کرتی جس کے باعث ماحولیاتی آلودگی اور مقامی ماحولیاتی نظاموں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ مسائل عوامی صحت اور ماحولیات کے لیے تشویش کا باعث بنے ہیں۔ حکومت نے آئی پی پیز کے مسائل کے حل کے لیے مختلف پالیسیاں اور اصلاحات متعارف کرائی لیکن ان کے نفاذ میں رکاوٹیں اور عملی مشکلات کی وجہ سے مکمل کامیابی حاصل نہیں کی جا سکی۔ ان اصلاحات میں توانائی کی قیمتوں کی درستگی، مالیاتی استحکام کی بہتری اور معاہدوں کی شفافیت کی کوششیں شامل ہیں۔ پاکستان میں آئی پی پیز کا مسئلہ ایک پیچیدہ اور متعدد جہات پر مشتمل چیلنج ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو فوری اور جامع اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی شفافیت، مالیاتی استحکام، تکنیکی اور انتظامی بہتری اور ماحولیاتی ضوابط کی پابندی یقینی بنانے کے لیے مربوط حکمت عملی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی اور نجی شعبے کے درمیان بہتر روابط اور تعاون بھی اس بحران سے نجات کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بجلی پر ٹیکسز اور کیپسٹی پیمنٹس نے جہاں شہریوں کے لیے پریشانی بڑھائی ہے وہاں چھوٹے، بڑے کاروباری طبقے کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ''پاکستان میں پاور سیکٹرکا بحران ، معیشت پر اس کے اثرات اور ممکنہ حل '' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ماہرین اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر خالد ولید
(ماہر امور توانائی)
مہنگی بجلی کی متعدد وجوہات ہیں، اس کی ذمہ دار کوئی ایک حکومت نہیں ہے۔2021ء تک انرجی چارج کیپسٹی چارج سے زیادہ تھا۔ کیپسٹی چارج ایک رینٹ ہے ۔ پیداوار بڑھانے سے فی یونٹ لاگت کم ہوتی ہے،کیپسٹی چارجز میں پچاس سے ساٹھ فیصدتک قرضہ جات کی مد میں صارفین کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ تمام پلانٹس چاہے وہ 1994ء کے ہوں، 2002ء یا پھر 2015ء ، سب قرض لے کر بنائے گئے لہٰذا پہلے قرض واپس کرنا ہے۔
اس پر سود دینا ہے اور پھر ریٹرن آن اکیوٹی بھی ادا کرنا ہے، یہ سب کی ذمہ داری صارف پر ہے۔ مثال کے طور پر ایک ہزارکیپسٹی چارج ہواور صارفین پانچ سو ہوں تو فی کس کیپسٹی چارج دو روپے ہو گا مگر صارفین اگر سو تک محدود ہو جائیں توہر صارف کو دو کی بجائے دس روپے ادا کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں 2022-23ء کا موازنہ کریں تو بجلی کی طلب کم ہو رہی ہے، ڈیمانڈ کم ہونے سے کیپسٹی چارجز فی یونٹ کے حساب سے زیادہ ہو جاتے ہیں اور اس حساب سے ٹیرف بڑھانا پڑتا ہے۔ بجلی کا ٹیرف بڑھنے سے صنعتکار ملک چھوڑ رہا ہے، صنعتکارنیشنل گرڈ کو چھوڑ رہا ہے جس سے عام صارف پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔
چین میں بجلی کی 50 فیصد صارف ان کی صنعت ہے جبکہ ہمارے ہاں رہائشی صارفین زیادہ ہیں،ڈالرز میں بنائی گئی بجلی کو غیر پیدواری شعبے میں خرچ کیا جا رہا ہے لہٰذا انڈسٹری کو قومی گرڈ پر لانا انتہائی ضروری ہے، اس کی ڈیمانڈ بڑھانا ہو گا ورنہ کیپسٹی چارجز سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ جب ٹیرف کی پالیسی لائی گئی تھی تب بجلی کی پیدوار کم اور طلب زیادہ تھی،اس وقت سلیب کا استعمال بڑھایا گیا۔ مسئلہ الٹ ہو چکا ہے۔
اب بجلی زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں سلیب کا میکنزم ختم یا تبدیل کرنا ہو گا تاکہ ان صارفین کو حوصلہ افزائی کی جاسکے جو زیادہ بجلی خرچ کرنا چاہتے ہیں،خاص کرکمرشل صارفین۔ سولر نیٹ میٹرنگ کے معاملہ پر اگر بات کریں تو ان کی بجلی کی کھپت بڑھانے کے لیے بہتر ہو گا کہ ان کے گیس کنکشن ختم کر دئیے جائیں ۔
حکومت کو آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی کھپت بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں، صرف رہائشی صارف ہی نہیں انڈسٹری کو بھی اس حوالے سے ریلیف دیا جانا چاہیے۔ ٹیکسٹائیل ملز نے کیپٹو پاور پلانٹ لگائے اور ایکسپورٹ کے نام پر ان کو سبسڈائزڈ ریٹ پر گیس دی گئی،وزیر توانائی کی تجویز ٹھیک ہے کہ ان کیپٹو پاور پلانٹس کو سبسڈائز ریٹ پر گیس دینے کے بجائے گرڈ سے منسلک کیا جائے۔
گرڈ کی ڈیمانڈ بڑھے گی تو فی یونٹ کیپسٹی چارجز کم ہوں گے۔ انڈسٹری مالکان چاہتے ہیں کہ ریجنلی کمپیٹو ٹیرف اور صاف شفاف بجلی ہو۔ یورپی یونین کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکنزم کے تحت 2030ء کے بعد یورپ جانے والی ٹیکسٹائیل ایکسپورٹ جو کوئلے سے بننے والی بجلی سے تیار ہو گی ، جس میں کاربن اجزاء زیادہ ہونگے پر ٹیکس لاگو ہو گا۔ کیپٹو پاور پلانٹس کو گرڈ سے منسلک کرکے ٹیرف کم ہونا چاہیے۔
ہمارے ملک میںپلاننگ کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔پاکستان میں توانائی کا بحران مختلف عوامل کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس میں بجلی کی پیداواری صلاحیت کی کمی بھی شامل ہے۔موجودہ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی ناکافی صلاحیت اور پرانے پلانٹس کی کارکردگی میں کمی بھی ایک وجہ ہے۔ بڑے ڈیمز کی تعمیر نہ ہونے اور ہائیڈرو پاور کے وسائل کا پورا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے پانی سے بجلی پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بجلی کے ترسیلی نظام کی خراب حالت اور لائن لاسز بھی بجلی کے اخراجات میں بے جا اضافہ کا سبب بنے ہیں۔ توانائی کے شعبے میں بھاری قرضے اور مالی مشکلات بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ کا سبب بنی ۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں اورپلاننگ کے فقدان کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ بجلی بحران ملک کی اقتصادی ترقی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بجلی کی کمی کے باعث صنعتی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے اور عوام کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت بجلی کی قیمتوں کو مستحکم اور قابل برداشت رکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نئے پاور پلانٹس، خصوصاً قابل تجدید توانائی کے منصوبے جیسے کہ شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کرے۔ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لئے خصوصی مالی مراعات اور سبسڈیز فراہم کرنی چاہئیں۔ بڑے ڈیمز اور ہائیڈرو پاور منصوبوں کی تکمیل سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کی اپگریڈنگ سے بجلی کے ترسیلی اور تقسیم کے نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے تاکہ لائن لاسز کو کم اور بجلی کی فراہمی کو موثر بنایا جا سکے۔ جدید ٹیکنالوجی اور انتظامی اصلاحات کے ذریعے تکنیکی نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کو بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے والے اداروں کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ قیمتیں معقول رہیں اور صارفین پر بوجھ نہ پڑے۔ کم آمدنی والا طبقہ اور اہم صنعتی شعبوں کے لئے بجلی پر سبسڈی فراہم کرنی چاہیے تاکہ ان پر مہنگی بجلی کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ حکومت کو بجلی کی چوری کی روک تھام کے لئے سخت قوانین اور نگرانی کا نظام وضع کرنا چاہیے۔ بجلی کے بلوں کی وصولی کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ واجبات کی بروقت وصولی ہو اور بجلی کی فراہمی کو مستحکم رکھا جا سکے۔
حکومت کو نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے منصوبوں میں سرمایہ کاری ہوسکے، اسی طرح پڑوسی ممالک سے بجلی کی فراہمی کے معاہدے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ حکومت اگر کثیر الجہتی اقدامات کرے تو نہ صرف توانائی کے بحران کا خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ ملک کی اقتصادی ترقی میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔
اجمل بلوچ
(تاجر رہنما)
آئی پی پیز کے معاہدوں نے ملک کا بیڑاغرق کر دیا ہے۔ 22 ہزار میگا واٹ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ باقی 28 ہزار میگا واٹ کا معاوضہ کمپنیوں کو نہیں دوسروں کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ تاجر کم و بیش سو روپے فی یونٹ بجلی خرید رہا ہے اور پیک آورز میں یہ ریٹ اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے، تاجر کے علاوہ کوئی بھی صارف اس قدر مہنگی بجلی نہیں خرید رہا ۔ اگر ہم پیک آورز میں بجلی کا استعمال بند کر دیں تو ملک میں بحران آ جائے گا۔
اس وقت سوا کروڑ تاجر ہے جو کمرشل میٹر استعمال کر رہا ہے۔ بجلی سپلائی کمپنیوں نے کمرشل ٹرانسفارمز اور بجلی کی تار کے اخراجات بھی تاجروں پر ڈال دئیے ہیں جو سراسر ظلم ہے۔ بجلی مہنگی دی جا رہی ہے تو کم ازکم ٹرانسفارمر اور سپلائی کے اخراجات تو کمپنیاں خود برداشت کریں۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ ماسوائے میڈیکل اور کریانہ سٹورز کے باقی تمام دکانداروں کو اپنا کاروبار چلانے کے لیے انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، 70فیصد خریداری کم ہو گئی ہے جس کے باعث تاجر کے پاس بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔حکومت باہر سے سرمایہ کاری اور سرمایہ کار ڈھونڈ رہی ہے مگر اپنا سرمایہ کار ملک سے بھاگ رہا ہے۔
سفارت خانوں کے باہر رش دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر لوگ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔کرونا میں انڈسٹری چلی تاہم اب مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ دوکان کے کرایہ سے زیادہ بجلی کا بل آرہا ہے، دکاندار اپنے اخراجات پورے نہیں کر پا رہا۔ لوگ سولر سسٹم لگوا رہے ہیں مگر اب خطرہ ہے کہ حکومت سولر پینلز پر پابندی لگا دے گی۔ مہنگی بجلی تاجروں اور کاروباری طبقے کے لئے متعدد مسائل پیدا کررہی ہے۔
اس کے باعث مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافی لاگت صارفین کو منتقل کی جاتی ہے جس سے مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں،منافع کم کریں تو یہ خرچ تاجروں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقت کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے۔ مہنگی مصنوعات کی وجہ سے برآمدات متاثر ہوتی ہیں اور مقامی منڈی میں بھی مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ مہنگی بجلی سے کاروباری اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے جس سے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے۔ سرمایہ کاری کی کمی سے کاروبار کی ترقی متاثر ہوتی ہے اور نئے روزگار کے مواقع کم پیدا ہوتے ہیں۔
مہنگی بجلی کے ساتھ ساتھ بجلی کی عدم فراہمی کی صورت میں بھی پیداواری عمل میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ بجلی کی بار بار بندش یا غیر یقینی فراہمی سے پیداواری عمل متاثر ہوتا ہے، جس سے کاروباری نقصان ہوتا ہے۔ مسلسل مہنگی اور غیر مستحکم بجلی کی فراہمی سے کاروباری تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کاروبار کی پائیداری اور ترقی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تاجروں کے لئے مالی منصوبہ بندی میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔
اخراجات کی غیر یقینی صورتحال سے بجٹ بنانا اور مالیاتی منصوبہ بندی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ مہنگی بجلی کی وجہ سے تاجر متبادل توانائی کے ذرائع جیسے جنریٹرز، سولر پینلز، اور دیگر ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں مگر ان متبادل ذرائع کی تنصیب اور دیکھ بھال کی لاگت بھی کاروبار کے لئے اضافی بوجھ بنتی ہے۔مہنگی بجلی تاجروں اور کاروباری طبقے کے لئے متعدد مسائل اور چیلنجز پیدا کرتی ہے۔ اس کے حل کے لئے ضروری ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں استحکام لایا جائے، بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دیا جائے تاکہ تاجروں کو بہتر اور سستی بجلی فراہم کی جا سکے اور ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔
عرفان احمد چٹھہ
(ماہر معاشیات)
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث کاروباری اور پیداواری اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوگیاہے۔ اس صورتحال میں کاروباری افراد بھی توانائی کا متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ عام صارف کو تب فائدہ ہے جب بجلی کا استعمال زیادہ ہومگر صارف اپنا فائدہ سوچتا ہے۔ کچھ کاروبار سولر پر منتقل ہو گئے ہیں،کچھ نے گیس کااستعمال شروع کر دیا ہے،اس کا حل یہی ہے کہ سب کو سستی بجلی فراہم کی جائے۔ کاروباری اخراجات کم کرنے سے ہی انڈسٹری چلا سکتی ہے،اگر اخراجات، آمدن سے زیادہ ہوں گے تو کاروبار کرنا مشکل ہے۔
اسی وجہ سے تاجر برادری اور خصوصا بڑا کاروباری طبقہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔ کاروباری طبقے کی بیرون ملک منتقلی سے صرف اشخاص نہیں ملک کا بڑا زرمبادلہ بھی باہر جا رہا ہے لہٰذا حکومت کو کاروبار کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ افسوس ہے کہ کاروبار کیلئے مشکلات بڑھا دی گئی ہیں، مہنگی بجلی ، اضافی ٹیکس، لیویز و دیگر بوجھ۔ حکومت کو سوچنا ہو گا کہ کاروبار بند ہونے سے ریاست کے لیے مشکلات بڑھنا شروع ہو جائیں گی جیسا کہ اب بھی ہم مشکل صورتحال سے دو چار ہیں۔ یہی حال رہا تو ملک میں امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا،چوری ڈکیتی اور قتل وغارت کی وارداتیں مزید بڑھ جائیں گی۔
ریاست کو اپنی عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ یہاں افراط زر اس قدر ہے کہ مڈل کلاس ختم ہوگئی ہے، عام آمدی کا جینا دو بھر ہوگیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی بجلی کی قیمتوں میں کمی کے نکتے پر بہت عرصہ بعد متحد ہو گئے ہیں۔ اگرچہ یہ اتحادعام طور پر گرمیوں میں ہی نظر آتاہے، سردیوں میں بجلی کااستعمال بڑھا دیں تو یہ کیپسٹی پیمنٹ کم ہو جائے گی،دیکھتے ہیں اس موسم گرما میں آئی پی پیز کا معاملہ حل ہو پاتا ہے یا نہیں۔ بجلی کے فی یونٹ ٹیرف میں سترہ سے اٹھارہ روپے کیپسٹی پے منٹ کی مد میں جا رہا ہے۔
پانچ سے دس سال قبل ستر سے اسی فیصد والے پاور پلانٹس کی کیپسیٹی مسلسل کم ہو رہی ہے جو اب پچاس فیصد پر آ چکی ہے،آئندہ چند سالوں میں خدشہ ہے کہ چالیس فیصد پر آجائے گی لہٰذا حکومتی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر ضرور نظر ثانی ہونی چاہیے۔آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات اور معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے ان کو آفرز دی جا ئیں ، بجائے کیپسٹی پیمنٹ کے، مختلف سرکاری اداروں میں انہہیں شیئرز دئیے جا سکتے ہیں۔ پی ایس او، ہائی وئیز یا دیگر منافع بخش اداروں میں حصص دیے جا سکتے ہیں۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ فی یونٹ قیمت کم ہو کر 10 روپے ہونی چاہیے۔ تونائی کا استعمال اور معیشت کا فروغ ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔
اس وقت توانائی کا استعمال کم ہو رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہماری معیشت جمود کا شکا ر ہے۔ اگر توانائی کی ڈیمانڈ نہ ہو تو مطلب کہ ملک آگے نہیں بڑھ رہا۔ پیٹرول کی برآمدنہ ہونے سے کرنٹ اکاؤنٹ بہتر ہوجاتا ہے لیکن اس کا براہ راست اثر معیشت پڑ تا ہے۔ گرڈ سے ملنے والی بجلی اس قدر مہنگی ہے کہ لوگ متبادل ذرائع پر منتقل ہو رہے ہیں۔ ،سترہ سے اٹھارہ روپے فی یونٹ کیپسٹی دینے پر یونٹ کاسٹ جب پچاس روپے تک پہنچے تو کاروبار کیسے چلے گا، کمرشل صارفین تو ویسے ہی الگ ٹیرف دے رہے ہیں۔ توانائی کے بحران کا پاکستان کی معیشت پر گہرا اور متنوع اثر پڑتا ہے،توانائی کے بحران کی وجہ سے اکثر صنعتوں کو طویل اور غیر یقینی مدت کے لئے بجلی کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں پیداوار کی شرح میں کمی آتی ہے اور کارخانوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کے مسائل سے پیداوار کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے اور کچھ صنعتیں مکمل طور پر بند ہو جاتی ہیں، دوسری جانب بات کریں توتوانائی کی عدم فراہمی سے صنعتی پیداوار میں کمی ہوتی ہے، جس کا براہ راست اثر برآمدات پر پڑتا ہے۔
عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل نہ رہنے کی وجہ سے برآمدات کم ہو جاتی ہیں جس سے ملک کی زرمبادلہ کی آمدن متاثر ہوتی ہے۔ جب مہنگی بجلی ملے گی اور صنعتکاروں کو مسائل کا سامنا پڑے گاتوصنعتی پیداوار میں کمی اور کارخانوں کی بندش کے نتیجے میں مزدوروں کی بے روزگاری بڑھتی ہے۔ بے روزگاری کے بڑھنے سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک کی اقتصادی حالت مزید خراب ہوتی ہے۔اس بحران کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کار نئے منصوبے شروع کرنے سے گریز کرتے ہیں، جس سے ملک کی مجموعی سرمایہ کاری کی شرح کم ہو جاتی ہے۔
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار بجلی کی فراہمی کے بحران سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس متبادل توانائی کے ذرائع کی فراہمی کے لئے وسائل کم ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور مالی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا اثر مجموعی طور پر اشیاء و خدمات کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔ بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ اور دیگر شعبوں میں لاگت بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی ہے۔زرعی شعبہ بھی توانائی کے بحران سے متاثر ہوتا ہے۔ پانی کی فراہمی کے لئے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور بجلی کی کمی سے زرعی پیداوار میں بھی کمی آتی ہے۔
اس سے ملک کی غذائی سلامتی متاثر ہوتی ہے اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی کی شرح متاثر ہوتی ہے۔ مختلف شعبوں میں پیداوار کی کمی، برآمدات میں کمی، بے روزگاری میں اضافہ اور سرمایہ کاری کی شرح میں کمی سے جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہو جاتی ہے۔توانائی بحران کے پاکستان کی معیشت پر وسیع اور گہرے اثرات ہیں۔ اس کے حل کیلئے ٹھوس اور مستقل اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی معیشت کو مستحکم اور عوام کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور بہتر انتظامی پالیسیاں اس بحران کے حل کی جانب مؤثر اقدامات ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر جنید زاہد
(تجزیہ نگار)
بحران صرف تکنیکی مسائل تک محدود نہیں بلکہ اس کی جڑیں پالیسی سازی کی ناکامیوں، انتظامی کوتاہیوں اور توانائی کی طلب و رسد میں عدم توازن میں بھی پیوست ہیں۔ حکومت کی جانب سے اصلاحات کی ضرورت کا بار بار ذکر کیا گیا ہے لیکن اب تک ان اصلاحات کی عملی صورت گری میں ناکامی نے بحران کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔یہ وقت ہے کہ ملک کی قیادت اور متعلقہ ادارے سنجیدگی سے اس مسئلے کی جانب توجہ دیں اور ایک جامع حکمت عملی تیار کریں جو نہ صرف فوری مسائل کا حل پیش کرے بلکہ مستقبل میں اس طرح کے بحرانوں سے بچاؤ کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرے۔ عوام اور معیشت کی فلاح و بہبود کے لیے یہ اقدام نہایت ضروری ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں آئی پی پیز کا مسئلہ بھی پاور سیکٹر میں اہمیت اختیار کرچکاہے۔ پاکستان کے توانائی کے سیکٹر میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے 1990ء کی دہائی میں ''آئی پی پیز''کی سکیم متعارف کرائی گئی۔ ان آئی پی پیز نے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا لیکن حالیہ برسوں میں ان کے ساتھ مسائل اور تنازعات نے توانائی کے بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے اکثر طویل مدتی اور پیچیدہ ہوتے ہیں جن میں بجلی کی قیمتیں، ادائیگی و دیگر شرائط شامل ہوتی ہیں۔ ان معاہدوں میں بعض صورتوں میں حکومت یا متعلقہ اداروں کی طرف سے مالی وعدوں کی تکمیل میں تاخیر کی گئی ۔
آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں میں بجلی کی قیمتیں عموماً حکومت کی سبسڈی کے تحت ہوتی ہیں لیکن قیمتوں میں تبدیلی کی صورت میں حکومت یا توانائی کی تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے ان قیمتوں میں کمی کی درخواستوں یا تبدیلیوں پر مسائل اٹھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اکثر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور توانائی کی پیداوار میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔آئی پی پیز کی بعض تنصیبات میں تکنیکی مسائل اور انتظامی کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں، بعض آئی پی پیز ماحولیاتی قوانین اور ضوابط کی مکمل پیروی نہیں کرتی جس کے باعث ماحولیاتی آلودگی اور مقامی ماحولیاتی نظاموں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ مسائل عوامی صحت اور ماحولیات کے لیے تشویش کا باعث بنے ہیں۔ حکومت نے آئی پی پیز کے مسائل کے حل کے لیے مختلف پالیسیاں اور اصلاحات متعارف کرائی لیکن ان کے نفاذ میں رکاوٹیں اور عملی مشکلات کی وجہ سے مکمل کامیابی حاصل نہیں کی جا سکی۔ ان اصلاحات میں توانائی کی قیمتوں کی درستگی، مالیاتی استحکام کی بہتری اور معاہدوں کی شفافیت کی کوششیں شامل ہیں۔ پاکستان میں آئی پی پیز کا مسئلہ ایک پیچیدہ اور متعدد جہات پر مشتمل چیلنج ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو فوری اور جامع اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی شفافیت، مالیاتی استحکام، تکنیکی اور انتظامی بہتری اور ماحولیاتی ضوابط کی پابندی یقینی بنانے کے لیے مربوط حکمت عملی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی اور نجی شعبے کے درمیان بہتر روابط اور تعاون بھی اس بحران سے نجات کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔