یوم استحصال کشمیر ظلم کی داستان
بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک سیاسی جماعت ہے
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 5 اگست 2019 کو بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے 5 برس مکمل ہونے پر یوم استحصال کشمیر منایا جارہا ہے تاکہ نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کی طرف سے 2019میں اس دن کیے گئے غیر قانونی اور دھوکا دہی پر مبنی اقدامات کے خلاف اپنا احتجاج درج کرا سکیں۔ پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ قومی قیادت بھی اس دن کے حوالے سے کشمیری عوام کے ہم آہنگ رہنے اور کشمیر کاز کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔
پون صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد اب بھی بھارت کی پورے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل اور بے دریغ پامالیاں جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کرہ ارض کا وہ واحد خطہ ہے جہاں محض چند ہزار مربع میل علاقے میں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوجی تعینات ہیں۔ بھارت سرزمین کشمیر پر جبری اور ناجائز فوجی تسلط کو جاری رکھنے کے لیے اپنے تمام وسائل اور ہتھکنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان نے کشمیریوں کی ہمیشہ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔ بھارت تمام تر ظلم و جبر، تشدد و گرفتاریوں اور ریاستی دہشت گردی کے باوجود اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا، کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کرسکا۔ ان کی جدوجہد کو روک نہیں سکا، اس بات کو کسی طور جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ مقبوضہ وادی کا بچہ بچہ، بزرگ، خواتین اور ہر جوان آزادی حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہے اور یہ بات اب بھارت کو بھی سمجھ لینی چاہیے۔ درحقیقت 5اگست 2019 مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا سب سے المناک، دردناک اور سیاہ ترین دن ہے۔ اپریل 2019 میں بھارت میں عام انتخابات ہوئے۔
ان عام انتخابات میں آر ایس ایس نواز بی جے پی جماعت کامیاب ہوئی اور نریندر مودی نے دوبارہ وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار کی کرسی سنبھا لی۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس حکومت نے سنگ دلی و عصبیت کا سب سے بڑا قدم اٹھایا اور کشمیر کی حق خود ارادیت پر شب خون مارتے ہوئے اس کی خود مختاری کو چیلنج کیا۔ بی جے پی حکومت کے قیام کو ابھی چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ انھوں نے پارلیمان سے اندھے قوانین پاس کرنے کا گھناؤنا عمل شروع کیا۔
5 اگست 2019 کو بھارتی پارلیمان نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا۔ آرٹیکل 370 کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے۔ کشمیر کو اپنا آئین اور اپنا جھنڈا دیتا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی اور اس کے آئین اور جھنڈے کو بھی ضبط کیا گیا۔اسی پر بس نہیں ہوا۔ بی جے پی حکومت نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے دفعہ 35 اے کو بھی ختم کردیا۔ دفعہ 35اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں و کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے، اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ دفعہ 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت کی دوسری ریاستوں سے لوگوں کی کشمیر میں آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ نتیجے کے طور پر گزشتہ پانچ برسوں میں جموں و کشمیر میں لاکھوں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے۔ ظلم پر ظلم سے جب بات نہیں بنی تو بھارت نے لاقانونیت کی ہر حد پار کردی۔6 اگست 2019 کو ری آرگنائزیشن کے نام سے ایک ایکٹ بھی منظور کرایا گیا۔
اس ایکٹ نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں (جموں و کشمیر اور لداخ) میں تقسیم کیا اور دونوں حصوں کو بھارتی مرکزی حکومت کے زیر انتظام بھی کیا اور اس کے لیے ایک قانون ساز اسمبلی کے قیام کی منظوری دی، جو بظاہر ایک بے اختیار قانون ساز اسمبلی ہے۔ یوں ایک دن کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کی گئی اور ا گلے روز تمام امور پر ان سے فیصلوں کا حق بھی چھینا گیا۔ ظلم اور لاقانونیت کی یہ داستان ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کالے قوانین کے اطلاق کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیر میں بلیک لسٹ بھی متعارف کرائی۔ اس لسٹ میں صرف منتخب نیوز سائٹ شامل ہوتی ہیں، جس کا انتخاب وہی کرتے ہیں جہاں کشمیریوں کا اس کے علاوہ باقی نیوز سائٹ تک رسائی ناممکن بنا دی گئی۔
بھارتی ظلم و جبر کی داستان محض کشمیر تک محدود نہیں۔ ہندوستان کے اپنے شہری اور اقلیت بھی ان کے شکنجے میں بری طرح پس رہے ہیں۔ آئے روز ان پر معمولات زندگی تنگ کی جا رہی ہے۔ قومی رجسٹر برائے شہریت نے تو گویا انھیں اپنا ماننے سے بھی انکار کردیا ہے۔ یہ رجسٹر شہریوں کو شہریت فراہم کرتی ہے۔ اس میں اپنا نام درج کرانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ شہری کے پاس لیگیسی دستاویز موجود ہوں، جو بھی اس دستاویز کو فراہم کرنے سے قاصر ہوتا ہے، اس کی شہریت ضبط کردی جاتی ہے۔
بھارت کے قومی رجسٹر برائے شہریت نے 31 اگست 2019 کو اپنی پہلی لسٹ شایع کی۔ اس لسٹ میں تقریبا آسام سے 19 لاکھ بنگالیوں کی شہریت ضبط کردی گئی اور انھیں شہری ماننے سے انکارکردیا گیا۔ اس کے کچھ ہی ماہ بعد 11 دسمبر 2019 کو citizenship amendment act بھی پاس کرایا گیا۔ اس ایکٹ کے بعد قومی رجسٹر برائے شہریت کا اطلاق پورے ہندوستان پر کیا گیا۔ لوگوں کی شہریت ضبط کی گئی، انھیں ملک بدر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ نومبر 2019 میں Unlawful activities prevention actپاس کیا جس نے دہشت گردی کی تعریف میں توسیع کرکے چھوٹے سے چھوٹا جرم کو بھی دہشت گردی قرار دیا گیااور پھر مئی 2019 جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔فسادات میںدو ہزار کے قریب مسلمان قتل ہوئے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد 1980میں رکھی گئی۔ آزادی کے بعد سے مودی حکومت ملک کی سب سے بدعنوان حکومت ہے۔ اس کی کارکردگی خراب اور قابل مذمت ہے۔ لوگوں میں خوف ہے کہ آمریت پسند مودی حکومت اگر اقتدار میں رہتی ہے تو ہندوستانی جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ عوام کو سمجھ میںآ گیا ہے کہ ان لوگوں نے ایسے وعدے دے کر ان سے جھوٹ بولا ہے جنھیں پورا کرنے کی ان کی منشا ہی نہیں تھی۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق منوج جھا نے بھارتی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بی جے پی کے قوم پرستی کے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں اور سیاسی فائدے کے لیے مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے غلط استعمال کو ظاہر کرتے ہیں۔
اعداد و شمار بی جے پی کے قوم پرستی کے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔منوج جھا نے بی جے پی اور کارپوریٹ مفادات کے درمیان مذموم رابطوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ جن پرائیویٹ کمپنیوں پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے چھاپے مارے انھیں کمپنیوں نے بعد میں انتخابی بانڈز خریدے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر و جرائم کے بھارتی تاریخ میں سب سے زیادہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارتیوں میں مسلمانوں کے خلاف رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے ریکارڈ شدہ 255 واقعات میں سے تقریباً 80 فیصد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر حکومت ریاستوں میں پیش آئے۔ مودی سرکار نے اس سے قبل تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کرنے پر جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر، مسلم لیگ، تحریک حریت، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ، دختران ملت اور مسلم کانفرنس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر کے آرٹیکل 1 میں حقِ خودارادیت سے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے، مگر صرف قوانین سے کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ عالمی برادری کی سیاسی رضامندی کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ اس کی مثال تقسیم سوڈان اور ایسٹ تیمور کی تخلیق ہے، جب کہ کشمیر و فلسطین آج بھی عالمی ضمیر و نظام پر ایک سوالیہ نشان ہیں ۔ اس کے علاوہ سیاسی نمایندگی، تعلیم، آزادی اظہار، زندگی کا حق جیسے بنیادی حقوق کشمیریوں کے لیے شاید ناممکن ہیں مگر حیف کہ عالمی جمہوری علمبردار اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی بدولت بھارت کی انسان دشمن پالیسیوں اور کالے قوانین پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔
اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹس کے بعد بھی بھارت کو روکنے اور کشمیریوں کے حق میں عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ غفلت نہیں تو اور کیا ہے؟ کشمیری عوام کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے حصول تک پاکستان کی جانب سے مضبوط اور ثابت قدم اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رہے گی۔ پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، تاہم اچھے تعلقات تنازعات سے انکار کے ذریعے نہیں بلکہ صرف تنازعات کے حل کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر ایک جہد ِ مسلسل ہے جس کو مخصوص دنوں سے منسوب کر کے صرف آواز بلند نہیں کی جانی چاہیے بلکہ ہر وقت، ہر لمحے، ہرگھڑی کشمیر کی آواز بن کر دنیا کے ایوانوں میں گونجنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری عوام کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ بھارت کے گھناؤنے اقدامات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق اپنی جدوجہد آزادی کو منزل کے حصول تک جاری رکھیں گے۔ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن جموں و کشمیر کے تنازع کے حل پر منحصر ہے۔
پون صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد اب بھی بھارت کی پورے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل اور بے دریغ پامالیاں جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کرہ ارض کا وہ واحد خطہ ہے جہاں محض چند ہزار مربع میل علاقے میں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوجی تعینات ہیں۔ بھارت سرزمین کشمیر پر جبری اور ناجائز فوجی تسلط کو جاری رکھنے کے لیے اپنے تمام وسائل اور ہتھکنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان نے کشمیریوں کی ہمیشہ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔ بھارت تمام تر ظلم و جبر، تشدد و گرفتاریوں اور ریاستی دہشت گردی کے باوجود اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا، کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کرسکا۔ ان کی جدوجہد کو روک نہیں سکا، اس بات کو کسی طور جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ مقبوضہ وادی کا بچہ بچہ، بزرگ، خواتین اور ہر جوان آزادی حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہے اور یہ بات اب بھارت کو بھی سمجھ لینی چاہیے۔ درحقیقت 5اگست 2019 مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا سب سے المناک، دردناک اور سیاہ ترین دن ہے۔ اپریل 2019 میں بھارت میں عام انتخابات ہوئے۔
ان عام انتخابات میں آر ایس ایس نواز بی جے پی جماعت کامیاب ہوئی اور نریندر مودی نے دوبارہ وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار کی کرسی سنبھا لی۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس حکومت نے سنگ دلی و عصبیت کا سب سے بڑا قدم اٹھایا اور کشمیر کی حق خود ارادیت پر شب خون مارتے ہوئے اس کی خود مختاری کو چیلنج کیا۔ بی جے پی حکومت کے قیام کو ابھی چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ انھوں نے پارلیمان سے اندھے قوانین پاس کرنے کا گھناؤنا عمل شروع کیا۔
5 اگست 2019 کو بھارتی پارلیمان نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا۔ آرٹیکل 370 کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے۔ کشمیر کو اپنا آئین اور اپنا جھنڈا دیتا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی اور اس کے آئین اور جھنڈے کو بھی ضبط کیا گیا۔اسی پر بس نہیں ہوا۔ بی جے پی حکومت نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے دفعہ 35 اے کو بھی ختم کردیا۔ دفعہ 35اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں و کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے، اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ دفعہ 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت کی دوسری ریاستوں سے لوگوں کی کشمیر میں آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ نتیجے کے طور پر گزشتہ پانچ برسوں میں جموں و کشمیر میں لاکھوں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے۔ ظلم پر ظلم سے جب بات نہیں بنی تو بھارت نے لاقانونیت کی ہر حد پار کردی۔6 اگست 2019 کو ری آرگنائزیشن کے نام سے ایک ایکٹ بھی منظور کرایا گیا۔
اس ایکٹ نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں (جموں و کشمیر اور لداخ) میں تقسیم کیا اور دونوں حصوں کو بھارتی مرکزی حکومت کے زیر انتظام بھی کیا اور اس کے لیے ایک قانون ساز اسمبلی کے قیام کی منظوری دی، جو بظاہر ایک بے اختیار قانون ساز اسمبلی ہے۔ یوں ایک دن کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کی گئی اور ا گلے روز تمام امور پر ان سے فیصلوں کا حق بھی چھینا گیا۔ ظلم اور لاقانونیت کی یہ داستان ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کالے قوانین کے اطلاق کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیر میں بلیک لسٹ بھی متعارف کرائی۔ اس لسٹ میں صرف منتخب نیوز سائٹ شامل ہوتی ہیں، جس کا انتخاب وہی کرتے ہیں جہاں کشمیریوں کا اس کے علاوہ باقی نیوز سائٹ تک رسائی ناممکن بنا دی گئی۔
بھارتی ظلم و جبر کی داستان محض کشمیر تک محدود نہیں۔ ہندوستان کے اپنے شہری اور اقلیت بھی ان کے شکنجے میں بری طرح پس رہے ہیں۔ آئے روز ان پر معمولات زندگی تنگ کی جا رہی ہے۔ قومی رجسٹر برائے شہریت نے تو گویا انھیں اپنا ماننے سے بھی انکار کردیا ہے۔ یہ رجسٹر شہریوں کو شہریت فراہم کرتی ہے۔ اس میں اپنا نام درج کرانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ شہری کے پاس لیگیسی دستاویز موجود ہوں، جو بھی اس دستاویز کو فراہم کرنے سے قاصر ہوتا ہے، اس کی شہریت ضبط کردی جاتی ہے۔
بھارت کے قومی رجسٹر برائے شہریت نے 31 اگست 2019 کو اپنی پہلی لسٹ شایع کی۔ اس لسٹ میں تقریبا آسام سے 19 لاکھ بنگالیوں کی شہریت ضبط کردی گئی اور انھیں شہری ماننے سے انکارکردیا گیا۔ اس کے کچھ ہی ماہ بعد 11 دسمبر 2019 کو citizenship amendment act بھی پاس کرایا گیا۔ اس ایکٹ کے بعد قومی رجسٹر برائے شہریت کا اطلاق پورے ہندوستان پر کیا گیا۔ لوگوں کی شہریت ضبط کی گئی، انھیں ملک بدر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ نومبر 2019 میں Unlawful activities prevention actپاس کیا جس نے دہشت گردی کی تعریف میں توسیع کرکے چھوٹے سے چھوٹا جرم کو بھی دہشت گردی قرار دیا گیااور پھر مئی 2019 جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔فسادات میںدو ہزار کے قریب مسلمان قتل ہوئے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد 1980میں رکھی گئی۔ آزادی کے بعد سے مودی حکومت ملک کی سب سے بدعنوان حکومت ہے۔ اس کی کارکردگی خراب اور قابل مذمت ہے۔ لوگوں میں خوف ہے کہ آمریت پسند مودی حکومت اگر اقتدار میں رہتی ہے تو ہندوستانی جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ عوام کو سمجھ میںآ گیا ہے کہ ان لوگوں نے ایسے وعدے دے کر ان سے جھوٹ بولا ہے جنھیں پورا کرنے کی ان کی منشا ہی نہیں تھی۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق منوج جھا نے بھارتی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بی جے پی کے قوم پرستی کے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں اور سیاسی فائدے کے لیے مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے غلط استعمال کو ظاہر کرتے ہیں۔
اعداد و شمار بی جے پی کے قوم پرستی کے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔منوج جھا نے بی جے پی اور کارپوریٹ مفادات کے درمیان مذموم رابطوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ جن پرائیویٹ کمپنیوں پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے چھاپے مارے انھیں کمپنیوں نے بعد میں انتخابی بانڈز خریدے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر و جرائم کے بھارتی تاریخ میں سب سے زیادہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارتیوں میں مسلمانوں کے خلاف رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے ریکارڈ شدہ 255 واقعات میں سے تقریباً 80 فیصد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر حکومت ریاستوں میں پیش آئے۔ مودی سرکار نے اس سے قبل تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کرنے پر جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر، مسلم لیگ، تحریک حریت، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ، دختران ملت اور مسلم کانفرنس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر کے آرٹیکل 1 میں حقِ خودارادیت سے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے، مگر صرف قوانین سے کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ عالمی برادری کی سیاسی رضامندی کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ اس کی مثال تقسیم سوڈان اور ایسٹ تیمور کی تخلیق ہے، جب کہ کشمیر و فلسطین آج بھی عالمی ضمیر و نظام پر ایک سوالیہ نشان ہیں ۔ اس کے علاوہ سیاسی نمایندگی، تعلیم، آزادی اظہار، زندگی کا حق جیسے بنیادی حقوق کشمیریوں کے لیے شاید ناممکن ہیں مگر حیف کہ عالمی جمہوری علمبردار اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی بدولت بھارت کی انسان دشمن پالیسیوں اور کالے قوانین پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔
اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹس کے بعد بھی بھارت کو روکنے اور کشمیریوں کے حق میں عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ غفلت نہیں تو اور کیا ہے؟ کشمیری عوام کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے حصول تک پاکستان کی جانب سے مضبوط اور ثابت قدم اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رہے گی۔ پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، تاہم اچھے تعلقات تنازعات سے انکار کے ذریعے نہیں بلکہ صرف تنازعات کے حل کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر ایک جہد ِ مسلسل ہے جس کو مخصوص دنوں سے منسوب کر کے صرف آواز بلند نہیں کی جانی چاہیے بلکہ ہر وقت، ہر لمحے، ہرگھڑی کشمیر کی آواز بن کر دنیا کے ایوانوں میں گونجنے کی ضرورت ہے۔ کشمیری عوام کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ بھارت کے گھناؤنے اقدامات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق اپنی جدوجہد آزادی کو منزل کے حصول تک جاری رکھیں گے۔ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن جموں و کشمیر کے تنازع کے حل پر منحصر ہے۔