عقیدہ ختم نبوت
رسولِ اکرمﷺ کی بعثت کے بعد سلسلہِ نبوت و رسالت ختم کر دیا گیا
''عقیدہ ختم نبوت'' دین اسلام کی اساس و بنیاد ہے جس پر اعتقاد کے علاوہ بندہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، جن وانس کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کاعظیم الشان سلسلہ جاری فرمایا، اس سلسلہ کو سیدالمرسلین خاتم النّبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر مکمل فرمایا، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں جس طرح شرکت ممکن نہیں، اسی طرح حضرت محمدرسول اللہﷺ کے خاتم النبیین ہونے میں کوئی شک نہیں۔ جس طرح نبی کوصادق نہ ماننا اور ان کی تکذیب کرنا کفرہے، اسی طرح کسی جھوٹے مدعیان نبوت کوماننا اور تصدیق کرنا بھی کفرہے، رسول اللہﷺ کو نبی ماننے کے باوجود اگر کوئی بدنصیب آپﷺ کی ختمِ نبوت کا یقین نہیں رکھتا یا ختمِ نبوت میں کسی بھی طرح کی تاویل کرے، تووہ ایمان سے قطعاً محروم ہے۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی متعدد نصوص اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سیدنا محمد مصطفیﷺ قیامت تک اللہ کے آخری پیغمبر ہیں۔ آپﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے جب عالم کی بنیادرکھی، تو آدم علیہ السلام کی نبوت کے ساتھ قصرِنبوت کی پہلی اینٹ بھی رکھ دی، جس کو اپنا خلیفہ بنایا، اسی کوقصرنبوت کی خشتِ اول قرار دیا، اِدھر عالم بتدریج پھیلتارہا، اُدھر قصرِنبوت کی تعمیرہوتی رہی، آخرکار عالم کے لیے جس عروج پرپہنچنا مقدر تھا، پہنچ گیا، ادھرقصرِنبوت بھی اپنے جملہ محاسن اورخوبیوں کے ساتھ مکمل ہوگیا اور اس لیے ضروری ہوا کہ جس طرح عالم کی ابتداء میں رسولوں کی بعثت کی اطلاع دی تھی، اس کی انتہاء پررسولوں کی آمد کے خاتمے کا اعلان کردیاگیاکہ قدیم سنت کے مطابق آیندہ اب کسی رسول کی آمدکا انتظارنہ رہے۔
حضرت آدم ؑسے لے کر جناب عیسیٰ ؑ تک مختلف ادوار میں، مختلف اقوام اور قبیلوں میں بہت سے رسول آئے لیکن کسی ایک نے بھی خاتم النبین ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہر رسول نے اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت سنائی، حتیٰ کہ وہ زمانہ بھی آگیاجب کہ بنی اسرائیل کے سلسلہ کے آخری رسول نے ایسے رسول کی بشارت دے دی جس کا اسم مبارک جناب ''احمد'' صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جب اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپﷺ نے دنیا میں آکر اعلان کیا کہ میں اب آخری رسول ہوں، عالم کا زمانہ بھی آخری ہے اور ہاتھ کی دوانگلیوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکہ میں اورقیامت اس طرح قریب قریب ہیں۔
عالم اپنے عروج کو پہنچ چکاہے، قصر ِنبوت میں ایک ہی اینٹ کی کسرباقی تھی، وہ میری آمدسے پوری ہوگئی ہے، دونوں تعمیریں مکمل ہوگئیں ہیں، قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں واضح طور پر آپﷺ کی ختم نبوت کا ذکرکردیا گیا۔ محققین لکھتے ہیں کہ ختم نبوت کے اعلان میں حکمت یہ ہے کہ دنیامتنبہ ہوجائے کہ اب یہ پیغمبر آخری ہیں اوریہ دین آخری ہے، اب نہ کوئی رسول آئے گا، نہ نبی، نہ تشریعی نہ غیرتشریعی، نہ ظلی نہ بروزی، اس لیے کہ اب منصبِ نبوت کوختم کردیاگیاہے۔ مسند احمد میں آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ''میں کالے اور گورے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ''میں (عمومیت کے ساتھ) تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں، حالانکہ مجھ سے پہلے جو نبی مبعوث ہوئے، وہ خاص اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے۔''
رسولِ اکرمﷺ کی بعثت کے بعد سلسلہِ نبوت و رسالت ختم کر دیا گیا۔ اب ہدایت و راہ نمائی کا ابدی سرچشمہ قرآنِ کریم اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب، رسولِ اکرمﷺ آخری نبی اور آپﷺ کی عطا کردہ تعلیمات، شریعتِ محمدی قیامت تک انسانیت کی ہدایت و راہ نمائی کی ضامن، دین و دنیا میں فلاح اور آخرت میں نجات کی یقینی ضمانت ہیں۔ اب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ حضرت محمدﷺ کو اللہ تعالیٰ نے آخری نبی بنا کر پوری انسانیت کی ہدایت و رہبری کے لیے بھیجا۔
آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا، نہ کوئی نیا دین آئے گا، نہ کوئی شریعت آئے گی، نہ وحی نازل ہو گی اور نہ اللہ کا پیغام نازل ہوگا۔''ختمِ نبوت'' اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ قرآن و سنّت، تعاملِ اْمّت، صحابہ و تابعین اور پوری اْمّت کا اجماع ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کو ''خاتم النّبیین'' بناکر مبعوث فرمایا گیا، آپؐ پر دین کی تکمیل کردی گئی۔ آپﷺ اللہ کے آخری نبی، قرآن ہدایت و راہ نُمائی کا آخری اور ابدی سرچشمہ اور یہ اُمّت آخری اْمّت ہے۔
قرآن و سنّت میں اس حوالے سے بے شمار دلائل موجود ہیں۔ اُمّت کا اس امر پر اجماع ہے کہ ''عقیدہ ختمِ نبوت'' پر ایمان ایک ناگُزیر اور لازمی دینی تقاضا ہے، رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ پر سلسلہِ نبوت و رسالت کے اختتام کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ آپﷺ قیامت تک پوری انسانیت کے لیے نجات دہندہ اور ہادی و رہبر بناکر بھیجے گئے۔ جب آپﷺ کی ہمہ گیر شریعت، ختمِ نبوت اور آخری نبوت و رسالت کا اظہار قرآنِ کریم کررہا ہے، دین کی تکمیل اور شریعتِ محمدیﷺ کی ہمہ گیری اور منشورِ ہدایت ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ خُود فرما رہا ہے، تو پھرکسی اور نبی کے تصورکا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ قرآن و سنت، اجماعِ امّت اور بنیادی اسلامی تعلیمات اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ عقیدہ ختم دین کا بنیادی شعار، رسالت ِ محمدیﷺ کا امتیاز اور اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔
اس عقیدے پرایمان کے بغیراسلام اور ایمان کا تصور بھی محال ہے۔ ریاست مدینہ کے بعد پاکستان دنیا کی واحداسلامی ریاست ہے جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا۔ پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ" کے نعرہ مستانہ نے بر صغیر میں شمع رسالت کے پروانوں کو اس کے حصول کے لیے متحد کیا۔ جو قوت کسی ملک کی تخلیق کا سبب بنتی ہے وہی قوت اس کی بقا اور استحکام کی ضامن ہوا کرتی ہے۔ جو نظام اپنے تخلیقی چوکھٹ سے ہٹ جاتا ہے وہ شکست و ریخت کا شکار ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔
اپنے نصب العین سے ہٹ جانے کی وجہ سے ہم آدھا پاکستان کھوچکے ہیں مگر آج تک سقوط ڈھاکا کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، سیاستدان فوج اور فوج سیاستدانوں کو ذمے دار قرار دیتی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس ملک کو وہ نظام نہیں دیا جس کے لیے اسے حاصل کیا گیا تھا اس لیے ملک ٹوٹ گیا، یہ ملک ٹوٹنے کی بنیادی وجہ ہے باقی سب سیاسی قلابازیاں ہیں۔ انھوں نے 24 سال انتظار کیا جب مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگوں کو جوڑنے والا اسلامی نظام نہیں آیا تو دنیاوی مفادات اور محرومیوں کا نعرہ لگا کر انھوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا۔ مگر شکر الحمدللہ پاکستان میں عقیدہ ختم نبوت کا مسئلہ پارلیمنٹ سے باہر اور پارلیمنٹ کے اندر طویل جدوجہد کے نتیجے میں 7ستمبر 1974میں مکمل طور پر طے پاگیا۔
گزشتہ دنوں ایک عدالتی فیصلے کی بازگشت پارلیمان میں بھی سنائی دی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام کے قائدین مولانا عبدالغفور حیدری، صاحبزادہ حامد رضا، علی محمد خان، عبدالقادر پٹیل اور حنیف عباسی نے پارلیمنٹ میں اس فیصلے پر اعلائے کلمۃ الحق بلند کیا ہے پوری قو م انھیں سلام پیش کرتی ہے انھوں نے قوم کی حقیقی ترجمانی کی۔ قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کے تقاریر سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان اجتماعی طور پر عقیدہ ختم نبوت کے معاملے پر بہت حساس ہیں اور کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں جس طرح شرکت ممکن نہیں، اسی طرح حضرت محمدرسول اللہﷺ کے خاتم النبیین ہونے میں کوئی شک نہیں۔ جس طرح نبی کوصادق نہ ماننا اور ان کی تکذیب کرنا کفرہے، اسی طرح کسی جھوٹے مدعیان نبوت کوماننا اور تصدیق کرنا بھی کفرہے، رسول اللہﷺ کو نبی ماننے کے باوجود اگر کوئی بدنصیب آپﷺ کی ختمِ نبوت کا یقین نہیں رکھتا یا ختمِ نبوت میں کسی بھی طرح کی تاویل کرے، تووہ ایمان سے قطعاً محروم ہے۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی متعدد نصوص اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سیدنا محمد مصطفیﷺ قیامت تک اللہ کے آخری پیغمبر ہیں۔ آپﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے جب عالم کی بنیادرکھی، تو آدم علیہ السلام کی نبوت کے ساتھ قصرِنبوت کی پہلی اینٹ بھی رکھ دی، جس کو اپنا خلیفہ بنایا، اسی کوقصرنبوت کی خشتِ اول قرار دیا، اِدھر عالم بتدریج پھیلتارہا، اُدھر قصرِنبوت کی تعمیرہوتی رہی، آخرکار عالم کے لیے جس عروج پرپہنچنا مقدر تھا، پہنچ گیا، ادھرقصرِنبوت بھی اپنے جملہ محاسن اورخوبیوں کے ساتھ مکمل ہوگیا اور اس لیے ضروری ہوا کہ جس طرح عالم کی ابتداء میں رسولوں کی بعثت کی اطلاع دی تھی، اس کی انتہاء پررسولوں کی آمد کے خاتمے کا اعلان کردیاگیاکہ قدیم سنت کے مطابق آیندہ اب کسی رسول کی آمدکا انتظارنہ رہے۔
حضرت آدم ؑسے لے کر جناب عیسیٰ ؑ تک مختلف ادوار میں، مختلف اقوام اور قبیلوں میں بہت سے رسول آئے لیکن کسی ایک نے بھی خاتم النبین ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہر رسول نے اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت سنائی، حتیٰ کہ وہ زمانہ بھی آگیاجب کہ بنی اسرائیل کے سلسلہ کے آخری رسول نے ایسے رسول کی بشارت دے دی جس کا اسم مبارک جناب ''احمد'' صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جب اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپﷺ نے دنیا میں آکر اعلان کیا کہ میں اب آخری رسول ہوں، عالم کا زمانہ بھی آخری ہے اور ہاتھ کی دوانگلیوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکہ میں اورقیامت اس طرح قریب قریب ہیں۔
عالم اپنے عروج کو پہنچ چکاہے، قصر ِنبوت میں ایک ہی اینٹ کی کسرباقی تھی، وہ میری آمدسے پوری ہوگئی ہے، دونوں تعمیریں مکمل ہوگئیں ہیں، قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں واضح طور پر آپﷺ کی ختم نبوت کا ذکرکردیا گیا۔ محققین لکھتے ہیں کہ ختم نبوت کے اعلان میں حکمت یہ ہے کہ دنیامتنبہ ہوجائے کہ اب یہ پیغمبر آخری ہیں اوریہ دین آخری ہے، اب نہ کوئی رسول آئے گا، نہ نبی، نہ تشریعی نہ غیرتشریعی، نہ ظلی نہ بروزی، اس لیے کہ اب منصبِ نبوت کوختم کردیاگیاہے۔ مسند احمد میں آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ''میں کالے اور گورے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ''میں (عمومیت کے ساتھ) تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں، حالانکہ مجھ سے پہلے جو نبی مبعوث ہوئے، وہ خاص اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے۔''
رسولِ اکرمﷺ کی بعثت کے بعد سلسلہِ نبوت و رسالت ختم کر دیا گیا۔ اب ہدایت و راہ نمائی کا ابدی سرچشمہ قرآنِ کریم اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب، رسولِ اکرمﷺ آخری نبی اور آپﷺ کی عطا کردہ تعلیمات، شریعتِ محمدی قیامت تک انسانیت کی ہدایت و راہ نمائی کی ضامن، دین و دنیا میں فلاح اور آخرت میں نجات کی یقینی ضمانت ہیں۔ اب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ حضرت محمدﷺ کو اللہ تعالیٰ نے آخری نبی بنا کر پوری انسانیت کی ہدایت و رہبری کے لیے بھیجا۔
آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا، نہ کوئی نیا دین آئے گا، نہ کوئی شریعت آئے گی، نہ وحی نازل ہو گی اور نہ اللہ کا پیغام نازل ہوگا۔''ختمِ نبوت'' اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ قرآن و سنّت، تعاملِ اْمّت، صحابہ و تابعین اور پوری اْمّت کا اجماع ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کو ''خاتم النّبیین'' بناکر مبعوث فرمایا گیا، آپؐ پر دین کی تکمیل کردی گئی۔ آپﷺ اللہ کے آخری نبی، قرآن ہدایت و راہ نُمائی کا آخری اور ابدی سرچشمہ اور یہ اُمّت آخری اْمّت ہے۔
قرآن و سنّت میں اس حوالے سے بے شمار دلائل موجود ہیں۔ اُمّت کا اس امر پر اجماع ہے کہ ''عقیدہ ختمِ نبوت'' پر ایمان ایک ناگُزیر اور لازمی دینی تقاضا ہے، رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ پر سلسلہِ نبوت و رسالت کے اختتام کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ آپﷺ قیامت تک پوری انسانیت کے لیے نجات دہندہ اور ہادی و رہبر بناکر بھیجے گئے۔ جب آپﷺ کی ہمہ گیر شریعت، ختمِ نبوت اور آخری نبوت و رسالت کا اظہار قرآنِ کریم کررہا ہے، دین کی تکمیل اور شریعتِ محمدیﷺ کی ہمہ گیری اور منشورِ ہدایت ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ خُود فرما رہا ہے، تو پھرکسی اور نبی کے تصورکا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ قرآن و سنت، اجماعِ امّت اور بنیادی اسلامی تعلیمات اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ عقیدہ ختم دین کا بنیادی شعار، رسالت ِ محمدیﷺ کا امتیاز اور اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔
اس عقیدے پرایمان کے بغیراسلام اور ایمان کا تصور بھی محال ہے۔ ریاست مدینہ کے بعد پاکستان دنیا کی واحداسلامی ریاست ہے جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا۔ پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ" کے نعرہ مستانہ نے بر صغیر میں شمع رسالت کے پروانوں کو اس کے حصول کے لیے متحد کیا۔ جو قوت کسی ملک کی تخلیق کا سبب بنتی ہے وہی قوت اس کی بقا اور استحکام کی ضامن ہوا کرتی ہے۔ جو نظام اپنے تخلیقی چوکھٹ سے ہٹ جاتا ہے وہ شکست و ریخت کا شکار ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔
اپنے نصب العین سے ہٹ جانے کی وجہ سے ہم آدھا پاکستان کھوچکے ہیں مگر آج تک سقوط ڈھاکا کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، سیاستدان فوج اور فوج سیاستدانوں کو ذمے دار قرار دیتی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس ملک کو وہ نظام نہیں دیا جس کے لیے اسے حاصل کیا گیا تھا اس لیے ملک ٹوٹ گیا، یہ ملک ٹوٹنے کی بنیادی وجہ ہے باقی سب سیاسی قلابازیاں ہیں۔ انھوں نے 24 سال انتظار کیا جب مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگوں کو جوڑنے والا اسلامی نظام نہیں آیا تو دنیاوی مفادات اور محرومیوں کا نعرہ لگا کر انھوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا۔ مگر شکر الحمدللہ پاکستان میں عقیدہ ختم نبوت کا مسئلہ پارلیمنٹ سے باہر اور پارلیمنٹ کے اندر طویل جدوجہد کے نتیجے میں 7ستمبر 1974میں مکمل طور پر طے پاگیا۔
گزشتہ دنوں ایک عدالتی فیصلے کی بازگشت پارلیمان میں بھی سنائی دی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام کے قائدین مولانا عبدالغفور حیدری، صاحبزادہ حامد رضا، علی محمد خان، عبدالقادر پٹیل اور حنیف عباسی نے پارلیمنٹ میں اس فیصلے پر اعلائے کلمۃ الحق بلند کیا ہے پوری قو م انھیں سلام پیش کرتی ہے انھوں نے قوم کی حقیقی ترجمانی کی۔ قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کے تقاریر سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان اجتماعی طور پر عقیدہ ختم نبوت کے معاملے پر بہت حساس ہیں اور کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔