سیاسی جماعتوں کی بھرمار

پارٹی بنانا کوئی اتنا آسان کھیل نہیں ہے کہ جب چاہا ایک نئی پارٹی بنالی اور حکومت میں آگئے

mnoorani08@hotmail.com

مادر وطن پاکستان سیاسی پارٹیوں کے لحاظ سے بہت ہی زرخیز ملک ہے۔ یہاں جس کا دل چاہے اور جب چاہے ایک نئی پارٹی بنا لیتا ہے۔ تادم تحریر پاکستان الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی پارٹیوں کی تعداد 166 ہے اور ہوسکتا ہے مضمون کی اشاعت تک اس میں مزید اضافہ بھی ہوجائے، کیونکہ ابھی حال ہی میں عوام پاکستان پارٹی معرض وجود میں آئی ہے اور اس نے ابھی اپنا منشور یا آئین بھی نہیں بنایا ہے کہ سندھ کے ایک سابق گورنر عشرت العباد نے بھی اپنی کئی سالوں کی پراسرار خاموشی کے بعد وطن واپسی کے ارادوں کے ساتھ ایک نئی سیاسی پارٹی کی تشکیل کا عندیہ دے ڈالا ہے۔

پچھلے تین چار برسوں میں ہم نے ایک پارٹی استحکام پاکستان پارٹی کو بھی بنتے دیکھا اور ساتھ ہی ساتھ پرویز خٹک کی بھی ایک نئی پارٹی پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کو بھی الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ ہوتے دیکھا۔ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کی تحریک انصاف پارلیمنٹرین نے فروری 2024 کا الیکشن بھی لڑا اور اپنی قسمت کو آزمایا لیکن الیکشن نے نتائج سے انھیں ایسی مایوسی ہوئی کہ یہ دونوں حضرات آج کل گوشہ نشینی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انھیں کس نے ایسا کرنے اور ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے پر آمادہ کیا تھا لیکن اُن کی گوشہ نشینی بتا رہی ہے کہ یہ سب کچھ انھوں نے خود اپنے طور پر نہیں کیا تھا۔ وہ اب عوام کا سامنا کرنے سے بھی اجتناب برت رہے ہیں۔

پارٹی بنانا کوئی اتنا آسان کھیل نہیں ہے کہ جب چاہا ایک نئی پارٹی بنالی اور حکومت میں آگئے، اس کے لیے بہت جتن کرنا پڑتے ہیں۔ خان صاحب نے کئی سال گلیوں اور چوراہوں کی خاک چھانی ہے اور جسے وہ اپنی 22 سالہ جدوجہد کا نام دیتے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو وہ دراصل ناکامیوں کی ایک طویل داستان ہے۔

وہ 1996 سے لے کر 2011 تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر پائے اور ہر الیکشن میں صرف ایک دو نشستوں سے زیادہ کوئی کارنامہ نہیں دکھا پائے، وہ تو شکر کریں کہ 2011 سے کسی نادیدہ قوت نے اُن کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ پھر ہواؤں میں اُڑنے لگے۔ ویسے تو اُن کی شخصیت پہلے ہی سے جاذب نظر تھی لیکن وہ نجانے پندرہ سالوں تک اپنے طور پر اور اپنے بل بوتے پر ہمارے عوام کو متاثر کیوں نہ کرسکے۔

امپائرکی انگلی جب تک اُن کی حق میں بلند نہ ہوئی وہ کچھ نہ کرسکے۔ ہمارے سیاسی نظام میں جب تک غیبی قوتوں کی بھرپور مدد اور تعاون حاصل نہ ہو کوئی سیاستدان کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم نے عمران خان کے معاملے میں اس مفروضے کو حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کامیابی مل جانے کے بعد انسان غرور میں اپنی اصل حیثیت بھول جاتا ہے ۔ خان صاحب سے بھی یہی غلطی ہوئی اور وہ کسی اور کی مہربانیوں کو اپنی ہشیاری اور دانش مندی کا ثمر سمجھنے لگے، جس کا خمیازہ وہ آج بھگت رہے ہیں، وہ اور اُن کے چاہنے والے اس بات کو ابھی بھی ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ یہ ساری مقبولیت اور عوامی پذیرائی انھیں کسی اور کی مرہون منت ملی تھی، وہ آج بھی اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ وہ ایک بار پھر اپنے بل بوتے پر دوبارہ عروج پالیں گے۔


ہاں تو بات ہو رہی تھی، نئی سیاسی پارٹیوں کی۔ شاہد خاقان عباسی نے نئی پارٹی بنا لی لیکن وہ ابھی تک عوام کے سامنے نہیں لائے ہیں۔ ایوب خان کا زمانہ دوسرا تھا جب دس سالہ آمریت کے بعد ان کے اپنے وزیر خارجہ نے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایک نئی پارٹی بنا لی، وہ اس وقت ایک عوامی طرز کے آدمی تھے۔

کسی قسم کے پروٹوکول سے باہر نکل کر انھوں نے غریب عوام کو گلے لگا لیا۔ وہ اس ملک کے غریبوں کے لیڈر بن کر ابھرے۔ یہی وجہ تھی کہ کامیابی نے بہت جلد اُن کے قدم چومے، جب کہ خان صاحب غریبوں کے بجائے مراعات یافتہ لوگوں میں زیادہ مقبول و معروف ہوئے۔ اُن کے جلسوں اور بھٹو صاحب کے جلسوں میں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے۔ بھٹو صاحب کے جلسوں کی رونق غریب افراد تھے جب کہ خان صاحب کی جلسوں کی رونق امرا تھے۔ ان کے بعد ایسی رونق کوئی اور جمع نہیں کر پایا ہے۔ اسی طرح ہمیں پورا یقین ہے کہ خان صاحب جیسا اجتماع یا جلسہ ہمارے یہاں فی الحال کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے ۔

مذہبی پارٹیوں کی تو اپنی مجبوری ہے کہ وہ اس قسم کے حربے استعمال نہیں سکتی ہیں ۔ عشرت العباد کا ماضی میں جس پارٹی سے تعلق رہا ہے اس میں سے ایک اور شخص مصطفیٰ کمال نے بھی پاک سرزمین پارٹی بنا کرخود کو بہت آزمایا لیکن نتیجہ کیا نکلا وہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں ۔ بالآخر انھوں نے اپنی پرانی پارٹی ہی میں واپس سکونت اختیار کر لی۔ اس لیے ہمیں یقین ہے کہ اب اپنی ایک الگ نئی پارٹی بنانے والے بھی کوئی کرشمہ نہیں کر پائیں گے۔

ویسے بھی عشرت العباد کے چودہ سالہ گورنری دور میں ایسا کوئی کارنامہ درج نہیں ہے جس کا ذکر کر کے وہ عوام میں خود کو مقبول کروا پائیں گے۔ اُن کی شخصیت صرف ایک شہر اور ایک صوبے تک محدود ہے۔ سارے پاکستان میں وہ عوام کو اپنی طرف راغب نہیں کرپائیں گے۔

ہاں وہ شاید MQM پاکستان میں کوئی ڈینٹ لگا سکے تو لگا لیں گے جب کہ موجودہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے نامہ اعمال میں اُن سے زیادہ عوامی خدمت کے منصوبے درج ہیں۔ عشرت العباد نے گرچہ سب سے زیادہ دورگزار لیکن وہ اس تما م عرصے میں کوئی کارنامہ سرانجام نہ دے سکے۔ اس وقت قوم کوعمران خان کی طرح کا لیڈر درکار ہے جوجاذب نظر اوراسمارٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا بولنا بھی جانتا ہو۔ پرانے لوگوں کی اس ماحول اور صورت حال میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

ملک میں اس وقت 166 سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں لیکن غور کیا جائے تو صرف چند ہی اس قابل ہیں کہ قومی اسمبلی نہیں تو کم ازکم صوبائی اسمبلیوں میں قابل ذکر نمایندگی ثابت کر پائیں۔ اس ملک کو اس وقت کسی نئی سیاسی پارٹی کی نہیں بلکہ ایسی سیاسی شخصیت کی ضرورت ہے جو نئے جوش و جذبہ اور عزم و حوصلے کے ساتھ قوم کو اپنا فریفتہ بنا سکے ۔ پرانے آزمائے لوگوں کے لیے کوئی چانس نہیں ہے کہ وہ عوام کو اپنی جانب راغب کرسکیں۔ اس کے بعد بھی اگر کسی کی مرضی ہے کہ وہ سیاست میں سرگرم ہوکر اپنی قسمت آزمانا چاہے یا دوسرے الفاظ میں مزید عوامی تنقید کا نشانہ بننا چاہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔
Load Next Story