فاقہ کش بدھ پر لاہور میوزیم میں کیا گزری

انھیں دنوں ہم نے ڈان میں ایک رپورٹ پڑھی تھی کہ لاہور میوزیم میں فاقہ کش بدھ کے اس مجسمہ


Intezar Hussain July 03, 2014
[email protected]

انھیں دنوں ہم نے ڈان میں ایک رپورٹ پڑھی تھی کہ لاہور میوزیم میں فاقہ کش بدھ کے اس مجسمہ پر جو گندھارا آرٹ کا نادر نمونہ مانا گیا ہے کیا افتاد پڑی۔ اس رپورٹ پر ہم چونکے اور پھر اس مجسمہ کی بدنصیبی پر افسوس ہوا کہ لاہور میوزیم میں رہائش اسے راس نہیں آئی۔ اس عجائب گھر میں رہتے ہوئے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی حادثہ گزرتا ہی رہتا ہے۔

مگر پھر ہم نے کسی اخبار میں اس حادثے کا کوئی ذکر فکر نہیں دیکھا۔ اس میوزیم کے متصل نیشنل کالج آف آرٹس ہے۔ جہاں نئے پرانے مصوروں کا آرٹ کے طلبا کا جمگھٹا رہتا ہے ادھر سے بھی کسی ردعمل کا اظہار نہیں ہوا۔ سو ہم نے سوچا کہ جتنا ہمیں معلوم ہے اس حوالے سے ہم ہی کچھ روئیں گائیں۔ اصل میں ہمیں وہ زمانہ یاد آ گیا جب پہلی مرتبہ اس مجسمہ کے ساتھ ایسی ہی واردات گزری تھی۔ اس وقت تو لاہور شہر کے فنکاروں' ادیبوں دانشوروں کے حلقوں میں اس خبر سے بہت بے چینی پھیلی تھی۔ یہ 1962ء کا ذکر ہے۔

مگر اس واقعہ سے پہلے اس مجسمہ کا ذکر حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت میں آیا تھا۔ وہ کس تقریب سے۔ تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ اعجاز حسین بٹالوی نے اپنے خطبہ صدارت میں تہذیبی ورثوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ ذکر کیا کہ فاقہ کش بدھ کا نادر مجسمہ لاہور میوزیم کی زینت تھا۔ اب وہ گوشہ جہاں یہ مجسمہ سجا ہوا تھا خالی پڑا ہے بلکہ اب گندھار آرٹ کی وہ پوری گیلری ہی خالی خالی نظر آتی ہے۔ کتنے سال ہو گئے جاپان کی حکومت نے یہ مجسمہ اپنی کسی نمائش کی تقریب سے منگوایا تھا۔

لاہور میوزیم نے یہ نادر مجسمہ بلا تکلف جاپان کی نذر کیا۔ اور اس کے بعد وہ اسے بھول گیا۔ نہ ادھر سے واپسی کے لیے تقاضا کیا گیا نہ ادھر سے امانت کو واپس کرنے کا تکلف کیا گیا۔ اور اس پر انھوں نے ٹکڑا لگایا کہ شاید ''پاکستان نے ابھی گندھارا آرٹ کو اپنائیت کی نظر سے نہیں دیکھا ہے نہ ہم نے موہنجو دڑو اور ہڑپے کے دفینوں سے اپنا تہذیبی رشتہ تلاش کیا ہے''۔

خطبہ صدارت میں یہ ذکر آنے کے بعد ادیبوں آرٹسٹوں اور دانشوروں کے حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ کیا پاکستان اس سرزمین کے قدیم تہذیبی ورثے کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کچھ اخباروں میں بھی اس کا تذکرہ ہوا۔

اس کا اثر اتنا تو ہوا کہ شاید ادھر سے تقاضا ہوا اور ادھر سے حکومت جاپان نے یہ مجسمہ واپس بھجوا دیا۔ سو جلد ہی یہ خبر آئی کہ لیجیے وہ مجسمہ واپس آ گیا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ایک خبر اور آئی کہ اس مجسمہ کے ساتھ ایک سانحہ گزر گیا ہے۔ اس کے سلسلہ میں بے احتیاطی برتی گئی جس کی وجہ سے مجسمہ کا بایاں بازو ٹوٹ گیا ہے۔

اس پر دانشوروں کے فنکاروں ادیبوں کے حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی اور سوال کیے جانے لگے کہ ایسے مجسمہ کے بارے میں جو گندھارا آرٹ کا ایک نادر نمونہ ہے آخر احتیاط کیوں روا نہیں رکھی گئی۔ بے احتیاطی کیسے ہوئی اور کون اس کا ذمے دار ہے۔ امکان یہ ظاہر کیا گیا کہ جاپان سے پاکستان تک کے سفر میں کسی مرحلہ میں ایسی بے احتیاطی ہوئی ہے کہ مجسمہ کو اس سے نقصان پہنچا۔

جب یہ بحث چل رہی تھی تو ہم نے اعجاز حسین بٹالوی سے یہ گزارش کی کہ اس مجسمہ کے بارے میں سب سے پہلے آپ ہی نے سوال اٹھایا تھا۔ سو آپ پر واجب آتا ہے کہ اس پر آپ باقاعدہ مضمون لکھیں۔ اس مجسمہ کا آرٹ کے اعتبار سے کیا رتبہ ہے۔ پھر یہ کہ آرٹ اور کلچر کی جس روایت کا یہ شاہکار ہے اس روایت کا اس سرزمین سے رشتہ تو ہے ہی ہماری آج کی تہذیبی روایت سے اس کا رشتہ کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے۔ اور پھر یہ سانحہ جو گزرا ہے اس کی تفصیل سامنے آنی چاہیے۔

ان دنوں 'ادب لطیف' کی ادارت ہمارے سپرد تھی۔ ہم نے تجویز پیش کی کہ یہ مضمون اس رسالہ میں چھپے اور ہم اپنے متعلقہ ادبی حلقوں کو اس پر بحث کی دعوت دیں۔

اعجاز صاحب نے جو مضمون لکھا وہ ادب لطیف کی جس اشاعت میں شایع ہوا وہ اس وقت میرے سامنے ہے۔ جنوری 63ء کے پرچے میں شایع ہوا ہے۔ یہ مضمون رسالہ کے ایڈیٹر سے خطاب کی صورت میں ہے۔ ویسے تو اس مضمون میں اس روایت سے جسے گندھارا آرٹ کہا جاتا ہے پاکستان کا کیا رشتہ ہے اور کیا ہونا چاہیے اس پر بھی بحث ہے مگر اسے چھوڑ کر ہم متعلقہ سانحہ سے متعلق ان کی تحقیق کو نقل کرتے ہیں۔

''...میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ جب تک احوال واقعی معلوم نہ ہو جائے مضمون لکھنا یا احتجاج کرنا بیکار ہو گا۔ پھر پاکستان ٹائمز میں عجائب گھر والوں کی طرف سے ایک مضمون چھپا کہ مجسمہ ٹوٹا نہیں بلکہ اس کا ایک جوڑ اپنی جگہ سے الگ ہو گیا تھا جسے پھر مرمت کر دیا گیا ہے۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد میں نے عجائب گھر میں جا کر ایک مرتبہ پھر اس مجسمہ کو دیکھا۔

''حالات یوں معلوم ہوئے کہ کوئی غیر ملکی فوٹو گرافر اس کی تصویر لینا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے یہ فرمایا کہ اول تو جہاں یہ مجسمہ رکھا ہے وہاں روشنی کافی نہیں۔ دوسرے اس کے پیچھے عجائب گھر والوں نے جو پردہ لٹکا رکھا ہے اس کا رنگ تصویر کے لیے مناسب نہیں اس لیے اٹھا کر کہیں دھوپ میں رکھا جائے۔ اسی لین دین میں یہ مجسمہ چوکیدار کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔

''میں اس سے پہلے بھی اَن گنت مرتبہ اس مجسمہ کو دیکھ چکا ہوں اور اس کے ہر روپ اور ہر زاویے سے واقف ہوں اور مجھے افسوس سے آپ کو یہ اطلاع دینی ہے کہ یہ مجسمہ ٹوٹ کر بہت بھونڈے طریقہ سے مرمت کیا گیا ہے۔ یہ کہ اس کا کوئی جوڑ الگ ہو گیا تھا جسے پھر سے اپنی جگہ لگا دیا گیا ہے احوال واقعی نہیں ہے۔ مجسمہ کا بایاں بازو بری طرح ٹوٹا ہے اور اس کی مرمت بہت بے توجہی سے کی گئی ہے''۔

آگے لکھتے ہیں ''آپ کا اختیار ہو تو عجائب گھر والوں سے یہ چند سوال پوچھ لیجیے کہ جب اس مجسمہ کو اپنی جگہ سے ہلایا گیا تو عجائب گھر کا کونسا ذمے دار ملازم اس وقت موجود تھا یا یہ کام چوکیدار کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ کیا اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے ٹرالی یا جو پہیہ گاڑی استعمال کی گئی تھی یا اسے ہاتھوں ہاتھ اٹھایا گیا تھا۔

اگر ٹرالی استعمال کی گئی تھی تو کیا اس پر پیڈ رکھے گئے تھے یا اس کی سطح برہنہ تھی۔

''اسی لیے تو عجائب گھر سجانے اور نوادرات کی حفاظت کرنے کو اور ملکوں نے تعلیم کا الگ شعبہ قرار دے کر اس کی تعلیم خاص کا انتظام کر رکھا ہے''۔

اعجاز حسین بٹالوی کا بیان ختم ہوا۔ مگر عجب بات ہے کہ جب اس مجسمہ کے ساتھ پہلے ایسا سانحہ گزرا تھا تو اس پر اچھی خاصی لے دے ہوئی تھی۔ اس کے بعد لاہور میوزیم کے ذمے داران کو سمجھ میں آ جانا چاہیے تھا کہ ایسے نوادرات بہت احتیاط مانگتے ہیں ؎

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

اگر ایسے کسی مجسمہ کو کسی خاص ضرورت کے تحت اپنی جگہ سے ہلانا پڑے تو اس کے لیے کتنی احتیاطی تدابیر کی جاتی ہیں۔ اعجاز صاحب نے جو سوال کیے ہیں کہ اس مجسمہ کو اپنی جگہ سے اٹھاتے وقت مطلوبہ احتیاطیں برتی گئی تھیں یا نہیں وہی اس کے غماز ہیں کہ ایسے نادر مجسموں کی حفاظت کے لیے کیسے جتن کیے جاتے ہیں لیکن اتنے بڑے نقصان کے بعد بھی لاہور میوزیم کی انتظامیہ کو ہوش نہیں آیا۔

نہ ایسی خصوصی مہارت رکھنے والے عملہ میں شامل ہیں نہ ٹوٹ پھوٹ کے تدارک کے لیے جو سائنٹفک طریقہ سے مسالے تیار کیے گئے ہیں وہ یہاں مہیا ہیں۔ نہ منتظم اعلیٰ ایسے موقعوں پر دیکھ بھال کے لیے کسی کو مقرر کرتا ہے۔ کھدائی سے کیسے کیسے نوادرات برآمد ہوئے ہیں اور ان کا انتظام کیسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اور زمانہ یہ ایسا ہے کہ کوئی انھیں ڈھنگ سے پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ کون پوچھے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں