تعلیم اور طلاق

دُنیا بھر کے (بالخصوص) شہری علاقوں میں بہ طور مجموعی طلاق کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے


Shaikh Jabir September 22, 2012
[email protected]

طلاق کو کہیں بھی،کبھی بھی،کسی نے بھی اچھّا نہیں سمجھا۔ بلا تخصیص رنگ ،نسل،زبان، مذہب و ملت ہر دور میں اس لفظ کے ساتھ ناپسندیدگی اور منفیّت جُڑی رہی ہے۔

عورت گوری ہو،رنگ دار یا زرد رُو،ماں ہو بہن ہو یا بیٹی، مطلّقہ ہو،بیوہ یا شادی شدہ ہر عورت کو طلاق کے لفظ ہی سے وحشت ہوتی ہے۔اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا بھر کے (بالخصوص) شہری علاقوں میں بہ طور مجموعی طلاق کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

'' ہفنگٹن پوسٹ،برطانیہ'' اپنی 11اپریل2012 کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ برطانیہ اور ویلز میں گزشتہ ایک صدی میںطلاق کی شرح میں 200گنا اضافہ ہوا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ''آج برطانیہ اور ویلز میںشرحِ پیدائش کم ہے،شادیاں کم ہیں اورہر برس ناجائز بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

یہ اعداد و شمار '' آفس آف نیشنل اسٹیٹسٹک'' کے حوالے سے پیش کیے گئے ہیں۔ برطانوی رجسٹرار جنرل برائے پیدائش، اموات اور شادی کی 74ویں سالانہ رپورٹ برائے 1911 کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ 1911 میں وہاں کی آبادی 6,070,492 3 تھی جو 2010 میں تقریباً دُگنی یعنی 62,262,000 ہو گئی۔

1911 میں برطانیہ اور ویلز میں 274,943شادیاں ریکارڈ کی گئیں۔ایک ہزار افراد میں 15.2افراد کی شادی کی شرح سے جب کہ 2010 میں صرف 241,100شادیاں ریکارڈ ہوئیں۔ایک ہزار پر 8.7افراد کی شرح سے۔

اس کے برعکس طلاق کی شرح بہت بڑھ گئی۔1911 میں صرف 580جوڑوں کے مابین طلاق ہوئی جو 2010 میں بڑھ کر 119589تک پہنچ گئی یعنی 11.1فی ایک ہزار جوڑا۔ یہ تعداد 2009 کے مقابلے میں 5فیصد زائد ہے۔

یورپ میں ایک جائزے کے مطابق شرحِ طلاّق میں 1960 سے 2002 تک 20فیصد اضافہ ہوا۔ آسٹریلیا میں ہر تیسری شادی طلاق پر منتج ہوتی ہے۔ جاپان میں صرف 2002 میں 290,000طلاقیں ہوئی تھیں۔جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ہر 42ویںمنٹ پر ایک شادی ہوتی ہے، لیکن محض 2منٹ سے قبل ایک طلاق بھی ہو جاتی ہے۔سنگاپور میں 1990کے مقابلے میں طلاق کی شرح 3گنا بڑھ چکی ہے۔

تھائی لینڈ میں یہ شرح اسی دورانیے میں دُگنی ہو گئی ہے۔یہاں تک کہ بھارت کہ جہاں طلاق کا کسی زمانے میں کوئی تصور ہی نہ تھا ، جہاں عورتیں اپنے آنجہانی شوہر کے ساتھ ستّی ہو جانا اعزاز سمجھتی تھیں وہاں طلاق ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔1991 میں ہی بھارت میں ایک ہزار افراد پر طلاق کی شرح 7.41ہوگئی تھی ۔ یہ بڑھتے بڑھتے 11افراد فی ایک ہزار سے بھی آگے نکل گئی ہے۔

ایسا صرف بھارت ہی میں نہ تھا کہ زمانہ قدیم میں طلاق شاذ ہو۔ چین، مصر، اور روم وغیرہ کی قدیم تہذیبوں میں بھی طلاق شاذ ہی ہوا کرتی تھی۔جنوبی کوریا میں طلاق کی شرح یورپی ممالک سے بھی آگے بڑھی ہوئی ہے۔ کوریا کے قانونی مدد فراہم کرنیوالے مرکز کے صدر''کواک بائی ہی'' کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا میں بھی غیر متوقع تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

سب سے زیادہ تبدیلی خاندانی نظام میں دیکھنے میں آئی ہے۔جوں جوں معیشت زراعت کے بجائے صنعت کی جانب تبدیل ہوئی، خواتین کی بڑی تعداد ملازمتوں میں شامل ہوتی گئی۔اُن کی باقاعدہ ماہانہ آمدنی ہونے لگی۔ تعلیم اور تنخواہ اس کی بنا پر شادیاںدیر سے ہونے لگیں۔آزادی کے نعروں نے شادی کے بندھن میں بندھا رہنا دشوار کر دیا۔آبادی کا رُخ شہروں کی جانب ہوا تو کثیرالمنزلہ عمارتوں نے بڑے خاندانوں کو توڑ دیا۔ اب چھوٹے گھروں میں تنہا ''مطلقین'' رہ گئے ہیں۔

طلاقوں کے بڑھتے رجحان کا سبب صنعتی انقلاب اور تعلیمِ جدید میں تلاش کرنیوالے ''کواک بائی ہی'' تنہا نہیں۔ ایسے کئی افراد ہیں ۔ مثال کے طور پر امریکا کہ جہاں نصف سے زائد شادیاں طلاق پر منتج ہو رہی ہیںکہ معروف ماہرِ عمرانیات ڈاکٹر ولیم جے گوڈی۔آپ '' اسٹنفورڈ یونی ورسٹی'' کے شعبہ عمرانیات میں تحقیق سے متعلق ایسوسی ایٹ پروفیسر رہے ہیں۔

آپ امریکی انجمن عمرانیات کے 63ویں صدر اور 20سے زائد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔آپ کے کام ''عالمی انقلاب اور خاندانی رجحانات'' نے ایک دنیا کو متوجہ کیا۔ پروفیسر ایمرطس ایلکس اِنکیلس نے آپ کو اپنے وقت کا ممتاز ماہرِعمرابیات قرار دیا ہے۔ ''گوڈی'' نے '' طلاق کے رجحانات پر عالمی تبدیلیوں'' کے عنوان سے برسوں پر محیط کام کیا۔

بیسیوں ملکوں کا مطالعہ کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ صنعتی انقلاب طلاقوں کے بڑھتے رجحان کا بڑا سبب ہے۔آپ کا کہنا ہے کہ فرد کا معاشرے میں رُتبہ نسبت وکردارکے بجائے مادی کامیابیوں سے جانچا جانے لگا ہے۔ لوگوں کا انحصار اپنے خاندانوں پر کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ افراد پر انفرادی ترقی کا شدید دبائو ہے۔صنعتی انقلاب و جدید تعلیم کے نتیجے میں افراد شادی کو بھی انفرادی ترقی کے تناظر میں دیکھنے لگے ہیں۔ اگرچہ یہ عمر بھر کا روحانی رشتہ اور ایک خاندانی ذمے داری تھی۔

امریکا میں ہر برس قریباً 10لاکھ بچے والدین کی طلاق کا شکار ہوتے ہیں۔ایسے بچے نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ یہ عام طور پرہجے اور ریاضی میں کمزور ہوتے ہیں۔امریکا میں 50فیصد ایسے بچے غربت کے اندھیاروں میں گم ہو جاتے ہیں۔

اور اب کچھ ذکر ارضِ پاک کا، اگرچہ ایشیائی ترقیاتی بینکwomen in Pakistan:country briefing papers (Dec 2000)میں لکھتا ہے، معاشرتی رسوائی کے سبب پاکستان میں شرحِ طلاق انتہائی کم ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں بھی شرح طلاق میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ایک اخباری اطلاع کے مطابق، صرف لاہور کی خانگی عدالتوں میں طلاق یا خلع کے اوسطاً 100کیس داخل ہو رہے ہیں۔

فروری 2005 سے جنوری 2008 تک طلاق کے تقریباً 75ہزار کیس داخل کیے گئے۔ فروری 2008 سے مئی 2011ء تک 124,141طلاق کے کیس داخل ہوئے۔ صوبائی اُم البلاد میں گزشتہ دہائی میں قریباً 259,064طلاقیں ہوئیں۔ 2010 میں طلاق یا خلع کے تقریباً 40,410کیسز داخل ہوئے۔

خانگی قوانین کے ماہر جناب ظفر اقبال نے کہا ''مسلم خانگی ایکٹ 2001'' میں تبدیلیوں کے بعد سے شرحِ طلاق میں اضافہ ہوا۔ آپ کے نزدیک اس اضافے کا سبب این جی اوز اور الیکٹرانک میڈیا ہے۔ 85فیصد محبت کی شادیوں کا انجام طلاق پر ہوتا ہے۔

انھوں نے طلاق اور خلع کے کیسز سماعت کرنیوالے ججوں پربھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انھیں مزید تجربہ کار ہونے کی ضرورت ہے۔ماہرِ نفسیات عرفان منیر کا خیال ہے کہ طلاق کی شرح تعلیم یافتہ گھرانوں میں زیادہ ہے۔ایک اور ماہرِ نفسیات نجیب ظہیر بھارتی اور مغربی ثقافتی یلغار کو شرحِ طلاق میں اضافے کا سبب سمجھتے ہیں۔

شادی خوشی کا نام ہے اور طلاق اس خوشی کی موت۔کیا موت پر خوش ہونیوالوں یا بہل جانیوالوں کو زندہ کہا جا سکتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔