چوہدری نثار کی ناراضگی عارضی ہے
چوہدری نثار علی خان ان دنوں اپنی قیادت سے بہت ناراض ہیں۔ قطعی طبی حوالوں سے ان کے دل کے معاملات بھی
چوہدری نثار علی خان ان دنوں اپنی قیادت سے بہت ناراض ہیں۔ قطعی طبی حوالوں سے ان کے دل کے معاملات بھی تسلی بخش نہیں۔ انھیں یقینا علاج کے ساتھ ساتھ تھوڑے دنوں کے لیے سیاسی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد مکمل آرام کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ ہر سال گرمیوں میں ایک ماہ کے لیے سب کچھ چھوڑ کر اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ان کا ویسے بھی جانا پہچانا معمول ہے۔ اس وقت انھیں اس سفر پر روانہ ہو جانا چاہیے۔ یہ ان کا حق بھی ہے اور ضرورت بھی۔
یہ سب لکھنے کے بعد چوہدری صاحب جیسے منجھے ہوئے سیاست دان کو مجھے یہ بات یاد دلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ان دنوں وزارتِ داخلہ کے اہم منصب پر فائز ہیں۔ بادی النظر میں وزیر داخلہ کو اسلام آباد کے ''سپر کمشنر'' کے سوا کچھ نہیں جانا جاتا۔ امن و امان صوبائی مسئلہ ہے اور 18 ویں ترمیم کے آ جانے کے بعد صوبائی حکومتیں اس شعبے میں وفاق کی مداخلت کو کچھ زیادہ پسند بھی نہیں کرتیں۔
ان کی پسند ناپسند سے قطع نظر حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس وقت رینجرز جیسے وفاقی حکومت کے ماتحت ادارے کی معاونت کے بغیر دیرپا امن کا قیام ممکن ہی نہیں۔ پولیس اور رینجرز کو اس شہر میں تخریب کاری پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت کی ایجنسیوں سے Actionable Intelligence بھی کل وقتی بنیادوں پر درکار ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی اپنے تئیں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتیں۔
سندھ اور بلوچستان میں کئی برسوں سے اُبلتے ہوئے لاوے پر پوری طرح قابو پائے بغیر اب شمالی وزیرستان میں آپریشن ''ضربِ عضب'' شروع کر دیا گیا ہے۔ فوری حوالوں سے یہ آپریشن افواج پاکستان کی Exclusive Domain ہے۔ مگر اس کی جنگی بنیادوں پر کامیابی کے بعد بھی سو طرح کے مسائل پیدا ہوں گے جن کا حل صرف سیاسی قیادت ہی ڈھونڈ سکتی ہے۔ ''ضربِ عضب'' شمالی وزیرستان میں اپنے اہداف خواہ بڑی جلدی بھی حاصل کر لے تو شکست کھائے ہوئے لوگ اپنا غصہ پاکستان کے بڑے شہروں میں Breaking News والی وارداتوں کے ذریعے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
شمالی وزیرستان سے فرار ہو کر شہروں میں پناہ گزین ہوئے افراد پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے Sleepers Cells کی نشاندہی صرف ایک ایسے ادارے کے ذریعے ممکن ہے جہاں تمام انٹیلی جنس اداروں کی معلومات یکجا ہوں اور ان کا بھرپور جائزہ لے کر Preventive Strikes اور گرفتاریاں کی جائیں۔ چوہدری نثار علی خان نے قومی سلامتی پالیسی کے ذریعے ایسے ہی ایک ادارے کے قیام کا وعدہ کیا تھا جس کی اپنی Force Rapid Response بھی ہونا تھی۔
مجھے حیرت ہے کہ ہمارے ہمہ وقت مستعد ہونے کے دعوے دار میڈیا نے اس سوال کا تن دہی سے پیچھا ہی نہیں کیا کہ چوہدری نثار علی خان کا تجویز کردہ ادارہ ان دنوں کس حال میں ہے۔ اس کا سربراہ کون ہے اور اس Directorate کا کیا ہوا جہاں 26 سے زیادہ ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کا جائزہ لیا جانا تھا۔ گزشتہ مہینے اسحاق ڈار کے پیش کردہ بجٹ پر بڑی دھواں دھار تقاریر ہوئیں۔ کسی ایک رکن اسمبلی نے وزارتِ داخلہ کے لیے مختص رقوم کا غور سے جائزہ لینے کے بعد اس معاملے پر بنیادی سوالات اٹھانے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔
ہمارے منتخب کردہ لوگوں کی ایسے معاملات پر خاموشی اس وقت اور بُری لگتی ہے جب وہ نجی محفلوں میں اپنی پسند کے صحافیوں کے ساتھ بیٹھ کر بے بسی سے شکوہ کرتے ہیں کہ انھیں ''دفاعی اور سیکیورٹی کے معاملات'' میں ''مداخلت کار'' سمجھا جاتا ہے۔ شاہ حسین نے کئی صدی پہلے کہہ دیا تھا کہ تخت مانگنے سے نہیں ملا کرتے۔ منتخب لوگوں کو اگر واقعی ''دفاعی اور سیکیورٹی کے معاملات'' کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے تو پہلے بڑی لگن کے ساتھ انھیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان معاملات پر گہری سوچ بچار کے بعد انھوں نے اپنی کوئی ٹھوس رائے بنائی ہے۔
مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے 342 اراکین قومی اسمبلی کی اکثریت کو اکیلے میں مل کر سوال کیجیے تو وہ فی الفور آپ کو یہ بھی نہیں بتا پائیں گے کہ بنوں کا حقیقی جغرافیہ کیا ہے۔ اس شہر کی آبادی کیا ہے اور وہاں کے موٹے موٹے Demographic Points کیا ہیں۔ شمالی وزیرستان اور اس کے گنجلک مسائل تو بہت دور کی بات ہے۔ ''میدانِ جنگ'' کے بنیادی حقائق کے بارے میں ایسی لاعلمی کے ہوتے ہوئے ہمارے سیاست دانوں کو اس بات پر شکوے شکایات کرنے کا کوئی حق نہیں کہ انھیں ''دفاعی اور سیکیورٹی کے معاملات'' پر فیصلے نہیں کرنے دیے جاتے۔
میں چوہدری نثار علی خان کو 1985ء سے جانتا ہوں۔ 1999ء سے پہلے میری تقریباََ ہر دوسرے تیسرے مہینے ان سے اکیلے میں بہت لمبی ملاقاتیں بھی ہو جایا کرتی تھیں۔ ایمان داری کی بات ہے کہ ان ملاقاتوں میں انھوں نے ہمیشہ لگی لپٹی کے بغیر چند حساس اور اہم ترین معاملات پر اپنا مؤقف کھل کر بیان کیا۔ نظر بظاہر وہ ان دنوں اپنی سیاسی قیادت اور مسلم لیگی ساتھیوں سے ناراض ہیں۔ ان کے ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے لیکن میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ان کی ناراضگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا ''قومی سلامتی پالیسی'' کے حوالے سے لگایا پودا پروان تو کیا پہنچا تھوڑی بہت نمو کے مراحل بھی نہ دیکھ پایا۔
چوہدری صاحب جیسے دبنگ سیاستدان سے مجھے جائز طور پر توقع ہے وہ ایک سوچی سمجھی تحریر کے ذریعے اس معاملے پر اپنا مؤقف کھل کر بیان کریں۔ اخلاقی طور پر بطور وزیر داخلہ ان کی سیاسی منظر سے ان دنوں عدم موجودگی کا کوئی ایک جواز بھی ڈھونڈا نہیں جا سکتا۔ انھیں خود استعفیٰ دے کر وزیر اعظم کو یہ موقعہ دینا چاہیے کہ وہ امن و امان کے حوالے سے پاکستان کو درپیش اس کڑے مرحلے سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی پسند کا کوئی نیا وزیر داخلہ چن لیں۔
یہ سب لکھنے کے باوجود میں اس قیاس آرائی کو ذرہ برابر اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوں جو چوہدری نثار علی خان میں ایک اور حامد ناصر چٹھہ یا جنرل مشرف کی آمد کے بعد والا چوہدری نثار علی خان نمودار ہوتا ہوا دیکھ رہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان اور شریف خاندان کی جدائی ممکن ہی نہیں۔ شدید ناراض تو چوہدری نثار علی خان نواز شریف سے 1990ء میں اس وقت بھی بہت ہوئے تھے جب غلام اسحاق خان نے محترمہ کی پہلی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ اس کے بعد مرکز میں غلام مصطفیٰ جتوئی کو قائم مقام وزیر اعظم لگایا گیا تو پنجاب مرحوم غلام حیدر وائیں کے حوالے کر دیا گیا۔ جب کہ وعدہ اس ضمن میں چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ہوا تھا۔
نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں احتساب والے سیف الرحمن نے چوہدری صاحب کو اہم امور کے قریب تقریباََ ڈیڑھ سال تک پھٹکنے بھی نہیں دیا تھا۔ شریف خاندان کی جلا وطنی کے ایام میں بھی چوہدری صاحب کے بارے میں کئی کہانیاں گردش میں رہیں۔ کہانیاں اب بھی بنتی رہیں گی۔ مگر چوہدری صاحب نواز شریف کو نہیں چھوڑیں گے۔ کچھ یا کافی عرصہ تک سیاسی منظر سے غائب رہنے کے بعد بالآخر ایک دن انگریزی والے Bang کے ساتھ دوبارہ نواز شریف کے ساتھ ہی کھڑے نظر آئیں گے۔
یہ سب لکھنے کے بعد چوہدری صاحب جیسے منجھے ہوئے سیاست دان کو مجھے یہ بات یاد دلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ان دنوں وزارتِ داخلہ کے اہم منصب پر فائز ہیں۔ بادی النظر میں وزیر داخلہ کو اسلام آباد کے ''سپر کمشنر'' کے سوا کچھ نہیں جانا جاتا۔ امن و امان صوبائی مسئلہ ہے اور 18 ویں ترمیم کے آ جانے کے بعد صوبائی حکومتیں اس شعبے میں وفاق کی مداخلت کو کچھ زیادہ پسند بھی نہیں کرتیں۔
ان کی پسند ناپسند سے قطع نظر حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس وقت رینجرز جیسے وفاقی حکومت کے ماتحت ادارے کی معاونت کے بغیر دیرپا امن کا قیام ممکن ہی نہیں۔ پولیس اور رینجرز کو اس شہر میں تخریب کاری پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت کی ایجنسیوں سے Actionable Intelligence بھی کل وقتی بنیادوں پر درکار ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی اپنے تئیں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتیں۔
سندھ اور بلوچستان میں کئی برسوں سے اُبلتے ہوئے لاوے پر پوری طرح قابو پائے بغیر اب شمالی وزیرستان میں آپریشن ''ضربِ عضب'' شروع کر دیا گیا ہے۔ فوری حوالوں سے یہ آپریشن افواج پاکستان کی Exclusive Domain ہے۔ مگر اس کی جنگی بنیادوں پر کامیابی کے بعد بھی سو طرح کے مسائل پیدا ہوں گے جن کا حل صرف سیاسی قیادت ہی ڈھونڈ سکتی ہے۔ ''ضربِ عضب'' شمالی وزیرستان میں اپنے اہداف خواہ بڑی جلدی بھی حاصل کر لے تو شکست کھائے ہوئے لوگ اپنا غصہ پاکستان کے بڑے شہروں میں Breaking News والی وارداتوں کے ذریعے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
شمالی وزیرستان سے فرار ہو کر شہروں میں پناہ گزین ہوئے افراد پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے Sleepers Cells کی نشاندہی صرف ایک ایسے ادارے کے ذریعے ممکن ہے جہاں تمام انٹیلی جنس اداروں کی معلومات یکجا ہوں اور ان کا بھرپور جائزہ لے کر Preventive Strikes اور گرفتاریاں کی جائیں۔ چوہدری نثار علی خان نے قومی سلامتی پالیسی کے ذریعے ایسے ہی ایک ادارے کے قیام کا وعدہ کیا تھا جس کی اپنی Force Rapid Response بھی ہونا تھی۔
مجھے حیرت ہے کہ ہمارے ہمہ وقت مستعد ہونے کے دعوے دار میڈیا نے اس سوال کا تن دہی سے پیچھا ہی نہیں کیا کہ چوہدری نثار علی خان کا تجویز کردہ ادارہ ان دنوں کس حال میں ہے۔ اس کا سربراہ کون ہے اور اس Directorate کا کیا ہوا جہاں 26 سے زیادہ ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کا جائزہ لیا جانا تھا۔ گزشتہ مہینے اسحاق ڈار کے پیش کردہ بجٹ پر بڑی دھواں دھار تقاریر ہوئیں۔ کسی ایک رکن اسمبلی نے وزارتِ داخلہ کے لیے مختص رقوم کا غور سے جائزہ لینے کے بعد اس معاملے پر بنیادی سوالات اٹھانے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔
ہمارے منتخب کردہ لوگوں کی ایسے معاملات پر خاموشی اس وقت اور بُری لگتی ہے جب وہ نجی محفلوں میں اپنی پسند کے صحافیوں کے ساتھ بیٹھ کر بے بسی سے شکوہ کرتے ہیں کہ انھیں ''دفاعی اور سیکیورٹی کے معاملات'' میں ''مداخلت کار'' سمجھا جاتا ہے۔ شاہ حسین نے کئی صدی پہلے کہہ دیا تھا کہ تخت مانگنے سے نہیں ملا کرتے۔ منتخب لوگوں کو اگر واقعی ''دفاعی اور سیکیورٹی کے معاملات'' کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے تو پہلے بڑی لگن کے ساتھ انھیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان معاملات پر گہری سوچ بچار کے بعد انھوں نے اپنی کوئی ٹھوس رائے بنائی ہے۔
مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے 342 اراکین قومی اسمبلی کی اکثریت کو اکیلے میں مل کر سوال کیجیے تو وہ فی الفور آپ کو یہ بھی نہیں بتا پائیں گے کہ بنوں کا حقیقی جغرافیہ کیا ہے۔ اس شہر کی آبادی کیا ہے اور وہاں کے موٹے موٹے Demographic Points کیا ہیں۔ شمالی وزیرستان اور اس کے گنجلک مسائل تو بہت دور کی بات ہے۔ ''میدانِ جنگ'' کے بنیادی حقائق کے بارے میں ایسی لاعلمی کے ہوتے ہوئے ہمارے سیاست دانوں کو اس بات پر شکوے شکایات کرنے کا کوئی حق نہیں کہ انھیں ''دفاعی اور سیکیورٹی کے معاملات'' پر فیصلے نہیں کرنے دیے جاتے۔
میں چوہدری نثار علی خان کو 1985ء سے جانتا ہوں۔ 1999ء سے پہلے میری تقریباََ ہر دوسرے تیسرے مہینے ان سے اکیلے میں بہت لمبی ملاقاتیں بھی ہو جایا کرتی تھیں۔ ایمان داری کی بات ہے کہ ان ملاقاتوں میں انھوں نے ہمیشہ لگی لپٹی کے بغیر چند حساس اور اہم ترین معاملات پر اپنا مؤقف کھل کر بیان کیا۔ نظر بظاہر وہ ان دنوں اپنی سیاسی قیادت اور مسلم لیگی ساتھیوں سے ناراض ہیں۔ ان کے ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے لیکن میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ان کی ناراضگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا ''قومی سلامتی پالیسی'' کے حوالے سے لگایا پودا پروان تو کیا پہنچا تھوڑی بہت نمو کے مراحل بھی نہ دیکھ پایا۔
چوہدری صاحب جیسے دبنگ سیاستدان سے مجھے جائز طور پر توقع ہے وہ ایک سوچی سمجھی تحریر کے ذریعے اس معاملے پر اپنا مؤقف کھل کر بیان کریں۔ اخلاقی طور پر بطور وزیر داخلہ ان کی سیاسی منظر سے ان دنوں عدم موجودگی کا کوئی ایک جواز بھی ڈھونڈا نہیں جا سکتا۔ انھیں خود استعفیٰ دے کر وزیر اعظم کو یہ موقعہ دینا چاہیے کہ وہ امن و امان کے حوالے سے پاکستان کو درپیش اس کڑے مرحلے سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی پسند کا کوئی نیا وزیر داخلہ چن لیں۔
یہ سب لکھنے کے باوجود میں اس قیاس آرائی کو ذرہ برابر اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوں جو چوہدری نثار علی خان میں ایک اور حامد ناصر چٹھہ یا جنرل مشرف کی آمد کے بعد والا چوہدری نثار علی خان نمودار ہوتا ہوا دیکھ رہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان اور شریف خاندان کی جدائی ممکن ہی نہیں۔ شدید ناراض تو چوہدری نثار علی خان نواز شریف سے 1990ء میں اس وقت بھی بہت ہوئے تھے جب غلام اسحاق خان نے محترمہ کی پہلی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ اس کے بعد مرکز میں غلام مصطفیٰ جتوئی کو قائم مقام وزیر اعظم لگایا گیا تو پنجاب مرحوم غلام حیدر وائیں کے حوالے کر دیا گیا۔ جب کہ وعدہ اس ضمن میں چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ہوا تھا۔
نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں احتساب والے سیف الرحمن نے چوہدری صاحب کو اہم امور کے قریب تقریباََ ڈیڑھ سال تک پھٹکنے بھی نہیں دیا تھا۔ شریف خاندان کی جلا وطنی کے ایام میں بھی چوہدری صاحب کے بارے میں کئی کہانیاں گردش میں رہیں۔ کہانیاں اب بھی بنتی رہیں گی۔ مگر چوہدری صاحب نواز شریف کو نہیں چھوڑیں گے۔ کچھ یا کافی عرصہ تک سیاسی منظر سے غائب رہنے کے بعد بالآخر ایک دن انگریزی والے Bang کے ساتھ دوبارہ نواز شریف کے ساتھ ہی کھڑے نظر آئیں گے۔