مذہبی انتہا پسندی اور دنیا کا مستقبل

دنیا کو آج جن خطرناک مسائل کا سامنا ہے، ان میں مذہبی انتہا پسندی ایک بہت بڑا اور خطرناک مسئلہ ہے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

دنیا کو آج جن خطرناک مسائل کا سامنا ہے، ان میں مذہبی انتہا پسندی ایک بہت بڑا اور خطرناک مسئلہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس بدترین اور خطرناک ترین مسئلے کو حل کرنے کے لیے عالمی سطح پر جن سنجیدہ اقدامات اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اس پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے دنیا میں مذہبی انتہاپسندی کے حوالے سے اگرچہ مسلم قوم بدنام ہے اور دنیا کی توجہ اس انتہا پسندی پر مرکوز ہے لیکن مسلم انتہا پسندی کے جواب یا رد عمل میں دوسرے مذاہب میں مذہبی انتہا پسندی جس طرح فروغ پا رہی ہے۔ اس کے سنگین مضمرات پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ میانمار میں بدھوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان ایک عرصے سے قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے جس میں ہزاروں انسان ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔

تازہ اطلاعات کے مطابق جمہوریہ وسطی افریقہ کے دارالحکومت ہنگوئی سے 380 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع کان کنی کے حوالے سے ایک معروف قصبے میں تین روزہ فرقہ وارانہ فسادات میں اب تک 50 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اینٹی بلاکا کے نام سے سرگرم عیسائی ملیشیا کے مسلح کارندوں کے مسلمانوں پر حملے کے بعد صورت حال انتہائی کشیدہ ہوگئی ہے۔ عیسائی ملیشیا کے مسلمانوں پر قاتلانہ حملوں کے بعد مشتعل مسلم نوجوانوں نے جوابی کارروائیاں شروع کردی ہیں یہ فسادات اب پورے ملک میں پھیل گئے ہیں، ملک میں موجود غیر ملکی امن دستے ان فسادات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والے فسادات میں ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں لگ بھگ دس لاکھ افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑا ہے ان فسادات سے خوفزدہ مسلمان شمالی علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان فرقہ وارانہ فسادات کا عالمی سطح پر سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا جا رہا ہو لیکن عیسائی ملیشیا اینٹی بلاکا کے نام سے جس مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور جواب میں مسلم مشتعل نوجوان جس جوابی انتہاپسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان فسادات میں ایک سال کے دوران ہزاروں افراد قتل اور دس لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔

دنیا میں مذہبی انتہا پسندی مذہبی نفرتوں مذہبی جنگوں کا سلسلہ سیکڑوں سالوں پر پھیلا ہوا ہے۔ صلیبی جنگوں سے لے کر 1947 کی بھیانک خونریزی کشمیر اور فلسطین میں ہونے والی قتل و غارت گری انسانی تاریخ کے چہرے کا وہ کوڑھ ہے جس نے انسان کو اس قدر بدصورت بنادیا ہے کہ اس بدصورتی پر خود انسانیت شرمسار ہے ماضی بعید کی مذہبی جنگوں کے لیے تو یہ جواز پیش کرکے مطمئن ہونے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماضی بعید کا انسان غیر مہذب اور جاہل تھا لیکن آج کا انسان مہذب بھی ہے اور تعلیم یافتہ بھی ہے لیکن مذہبی نفرت، مذہبی قتل و غارت گری ماضی بعید کے مقابلے میں آج زیادہ شدید زیادہ بھیانک شکل میں موجود ہے۔

ہر مذہب کے ماننے والوں کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ان کا مذہب امن آشتی محبت اور بھائی چارے کا سبق دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر مذہب میں انتہا پسندی دیوانگی اور جنون تک پہنچی ہوئی ہے اور جب مذہبی انتہا پسندی دیوانگی اور جنون تک پہنچ جاتی ہے تو اپنے پرائے کی تمیز کھو دیتی ہے۔آج کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو مذہبی انتہا پسندی مذہبی دیوانگی مذہبی جنون کے ایسے بھیانک مناظر سامنے آتے ہیں کہ انسان کا انسانیت پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے مسلم قوم سب سے زیادہ بدنام ہے لیکن اس مذہبی انتہاپسندی کا المیہ یہ ہے کہ مسلمان، مسلمان کو اس قدر وحشت اور بربریت کے ساتھ قتل کر رہا ہے کہ تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔

افریقہ سے مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے پاکستان تک مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل کی بھیانک داستانیں ہر روز میڈیا کے چہرے پر کوڑھ کی طرح نظر آتی ہیں مسلکی اور فقہی اختلافات نے انسان کو ایسا حیوان بنا دیا ہے کہ اس کی نظروں میں مذہبی رشتے مذہبی حرمت حرف غلط بن کر رہ گئی ہیں ۔عراق مسلکی نفرتوں کی بھٹی میں اس طرح جل رہا ہے کہ اس کے شعلے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ شام میں ہونے والی فقہی خونریزی ہزاروں انسانوں کی جانیں لے رہی ہے لاکھوں انسانوں کو دربدرکر رہی ہے۔ افریقہ کے کئی ملک اس جنون میں اندھے ہو رہے ہیں۔ پاکستان مذہبی انتہا پسندی نے 50 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا خون پی لیا ہے۔


افغانستان اس بے لگام مذہبی انتہاپسندی میں لہولہان ہے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان 66 سالوں سے جو محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے اس کے پیچھے بھی یہی مذہبی دیوانگی کارفرما ہے ۔ 1947 میں تقسیم کے دوران جس مذہبی دیوانگی کا مظاہرہ کیا گیا مذہبی دیوانگی کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی لگ بھگ 22 لاکھ انسان اس مذہبی دیوانگی کی آگ میں جل گئے۔ ہزاروں خواتین نے انسان نما حیوانوں کی حیوانیت سے بچنے کے لیے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں۔

حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کرکے پیٹوں میں پلنے والے بچوں کو قتل کردیا گیا۔ گجرات کا المیہ تازہ ہے جس میں مذہبی انتہاپسندوں نے ہزاروں مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔بھارت کی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ 2014 کے الیکشن میں ایک بار پھر وہ پارٹی برسر اقتدار آئی ہے جس کی وجہ شہرت مذہبی انتہاپسندی ہے بھارت کی جمہوریت نے جس شخص کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سجایا ہے وہ گجرات کے قتل عام کا مرکزی کردار ہے بی جے پی بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے۔ بھارت میں 20 کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں جو ان تبدیلیوں سے فکر مند اور خوفزدہ ہیں مذہبی دیوانگی کی ایک چنگاری شعلہ جوالا بن کر ہزاروں انسانوں کو جلا دیتی ہے۔

دنیا کے مہذب ملک دنیا کا ترقی یافتہ انسان مذہبی انتہا پسندی کے خونین واقعات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے مذمت کرتا ہے اور متاثرین کے لیے امدادی سامان بھیج کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ دنیا کے دانشور دنیا کے تفکر دنیا کے فلسفی دم سادھے ان خونیں واقعات کو دیکھ رہے ہیں ان کے خلاف نہ کوئی منظم آواز اٹھ رہی ہے نہ کوئی فکر کوئی فلسفہ حرکت میں آرہا ہے اہل سیاست کی بازی گریوں میں اس طرح کھوئے ہوئے ہیں کہ انسان کے مستقبل پر ان کی نظر ہی نہیں جاتی جو آگ آج مسلکی اختلافات کی شکل میں ایک کمیونٹی کے درمیان بھڑک رہی ہے کل وہ جنگل کی آگ بن کر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

کرہ ارض کا انسان مذہب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا لیکن مذہب اگر انسانوں سے اس کا زندہ رہنے کا حق ہی چھین لے تو مذہب مذہب نہیں رہتا مذہب دیوانگی میں بدل جاتا ہے۔ آج مسلم دنیا میں سیکڑوں مذہبی انتہا پسند تنظیمیں مختلف ناموں سے سرگرم عمل ہیں جس کے ردعمل میں دوسرے مذاہب جس میں بھی مذہبی انتہاپسند تنظیمیں سر اٹھا رہی ہیں۔ جمہوری وسطی افریقہ میں ''اینٹی بلاکا'' کے نام سے جو عیسائی ملیشیا سرگرم عمل ہے اگر عالمی سطح پر اس بلا کو روکنے اس کا حل تلاش کرنے اس کا خاتمہ کرنے کی منظم مربوط اور منصوبہ بند کوشش نہ کی گئی تو یہ بلا آہستہ آہستہ دنیا کے ہر ملک میں سر اٹھالے گی اور اس کا سر کچلنا ناممکن ہوجائے گا۔

خدا اور مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے پتھر کے دور کا انسان بھی خدا کا نام لیوا تھا لیکن وہ ہر اس طاقت کو خدا مانتا تھا جو اسے نقصان یا فائدہ پہنچاتی تھی آج کے مہذب انسان کا گزارا بھی خدا اور مذہب کے بغیر ممکن نہیں لیکن خدا اور مذہب محبت اور بھائی چارے کی علامتیں ہیں اگر ان مقدس علامتوں کو نفرت دہشت قتل و غارت گری کا وسیلہ بنادیا جائے تو اس میں نہ خدا کی مقدس ذات کا کوئی دخل ہوگا نہ مذاہب کے تقدس کا اس میں کوئی کردار ہوگا۔

سارا قصور اس انسان کا ہوگا جو خدا اور مذہب کا نام لے کر کرہ ارض پر خدا کی مخلوق کا قتل عام کر رہا ہے۔ خدا کی مخلوق کے درمیان نفرتوں کے پہاڑ کھڑے کر رہا ہے اس وحشیانہ کلچر کے خلاف سیاسی سماجی سطح پر جو کچھ کیا جاسکتا ہے کیا جانا چاہیے لیکن اس کلچر میں تبدیلی کے لیے ادب شاعری اور فن کو بھی ایک مثبت کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ فکری تبدیلی کے بغیر یہ نفرتوں کا کلچر ختم نہیں ہوسکتا اور فکری تبدیلی میں ادب شاعری فن کے علاوہ آج کا ترقی یافتہ میڈیا بہت فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔
Load Next Story