ماہ رمضان اور گراں فروشی
رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ یہی مہینہ ہے جس میں قرآن حکیم کا نزول ہوا ت
رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ یہی مہینہ ہے جس میں قرآن حکیم کا نزول ہوا تھا جو ہم سب کے لیے رہتی دنیا تک ایک نسخہ ہدایت ہے۔ قرآن پاک میں رب کریم کا فرمان ہے کہ ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم پرہیزگار بن سکو'' روزے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ کی جزا میں ہوں، اور روزہ کا بدل میں ہوں، روزہ میرے لیے ہے'' روزہ ضبط نفس اور تقویٰ کا متقاضی ہے اور تقویٰ دنیاوی زندگی کی آلائشوں سے دامن بچاکر گزرنے کا نام ہے۔
ہم پاکستانیوں کے لیے تو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی ایک خصوصی اہمیت ہے کیوں کہ ہمارا وطن عزیز اسی ماہ کے دوران معرض وجود میں آیا تھا چنانچہ ہم پر لازم ہے کہ اس کا بہت زیادہ احترام کریں۔ مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اس مبارک مہینے کی آمد کے موقعے پر بلکہ اس کے آغاز سے قبل ہی ہمارے یہاں مہنگائی کا ایک طوفان امڈ آتا ہے۔
کھجور اﷲ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی وہ نعمت ہے جس سے ہر روزہ دار روزہ افطار کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔کھجورکا وافر ذخیرہ موجود ہونے کی وجہ سے سال رواں کے دوران تھوک مارکیٹ میں اس کی قیمت میں کمی کا رجحان پایا گیا۔ ایرانی کھجور کی قیمت میں تو دس روز کے دوران 1000روپے فی من تک کمی واقع ہوگئی تھی لیکن بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ نمایاں کمی کے اس واضح رجحان کے باوجود ہمارے منافع خور خوردہ فروش دکاندار اسے مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں۔
رمضان المبارک کے دوران کھجور کی فروخت کے مقصد سے تجارتی سطح پر اس کی خریداری کا سلسلہ شعبان کے مہینے ہی میں شروع کردیا جاتاہے۔ درآمدی کھجور کی ملک بھر میں وسیع پیمانے پر ترسیل کی جاتی ہے جب کہ مقامی کھجور کے کولڈ اسٹوریج میں محفوظ کرکے رکھے گئے ذخیرے کو جب فروخت کے لیے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے تو اس کا اضافی خرچ بھی عام صارف سے ہی وصول کیا جاتاہے اور اس فالتو بوجھ کو بے چارے صارف کے ناتواں کاندھوں پر ہی ڈال دیا جاتاہے۔
صرف ایک کھجور ہی کیا رمضان المبارک کی آمد پر ہمارے بے ضمیر منافع خور کھانے پینے کی تقریباً تمام چیزوں کے نرخ بڑھا دیتے ہیں۔ اس میں آٹے، دال اور خوردنی تیل سے لے کر وہ تمام اشیا شامل ہیں جو ایک عام آ دمی کے روز مرہ استعمال کے لیے ناگزیر ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور افسران بالا کو تو آٹے دال کے بھائو سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے کیوں کہ وہ ان تمام جھمیلوں سے نا آشنا اور قطعی بے نیاز ہیں انھیں اس سے کیا غرض کہ غریب کا چولہا جلتا ہے یا ٹھنڈا پڑا رہتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب ریڈیو پاکستان کی صبح کی نشریات میں دن کے آغاز کے ساتھ بازار کے بھائو بتائے جاتے تھے اسے اب قصہ پارینہ ہی سمجھیے کیوں کہ اب تو کسی چیز کا کوئی مول بھائو مقرر نہیں ہے۔
فروخت کرنے والے بالکل آزاد ہیں کہ جو نرخ مرضی میں آئے وہ طلب کرلیں۔ انتظامیہ کی جانب سے وقفے وقفے سے اعلانات کیے جاتے ہیں اور پرائس لسٹیں بھی جاری کی جاتی ہیں جن کا مقصد چیزوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہوتاہے۔ دکان داروں سے کہا بھی جاتاہے کہ وہ اپنی دکانوں پر ان فہرستوں کی قیمتوں کو آویزاں بھی کریں ورنہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ بعض دکان دار سزا کے خوف سے اپنی دکانوں پر یہ فہرستیں آویزاں بھی کرلیتے ہیں مگر اصل معاملہ وہی ہوتاہے یعنی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ عملاً وہی ہوتا ہے جو دکاندار چاہتے ہیں۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی گلی محلے کے دکانداروں کی تو بات ہی کیا ہے شہر میں قائم سپر اسٹورز نے بھی گراں فروشی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ یہ سپر اسٹورز مقررہ نرخوں سے کہیں زیادہ قیمتیں وصول کررہے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔ مثلاً کنٹرولر جنرل آف پرائسز کی جاری کردہ کریانہ اشیا کی فہرست میں چنے کی دال درجہ اول فی کلو 63 روپے ہے لیکن سپر اسٹورز پر یہ دال 98 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت کی جارہی ہے۔ یہی حال مونگ کی دال کا بھی ہے جو کہ 157 روپے فی کلو سے مہنگی کرکے 190 روپے کلو بیچی جارہی ہے۔''
یہ منہ اور مسور کی دال والی کہاوت کی شہرت یافتہ دال مسور 112 روپے فی کلو سے مہنگی کرکے 145 روپے کل کی قیمت پر فروخت کی جارہی ہے، شہر بھر کے سپر اسٹورز پر دیگر اجناس اور اشیا کی گرانی کا بھی یہی حال ہے جس میں چینی، آٹا اور بیسن کے علاوہ سبزیاں، ترکاریاں اور پھل وغیرہ بھی شامل ہیں، بکرے کے گوشت کے سرکاری نرخ 550 روپے فی کلو مقرر ہیں مگر سپر اسٹورز پر یہ گوشت 750 روپے سے 800 روپے کلو تک کے نرخوں پر فروخت کیا جارہاہے بکرے کے گوشت کی آسمان کو چھولینے والی یہ قیمتیں شہر کے بعض علاقوں کے قصاب بھی کھلے عام وصول کررہے ہیں اور کوئی مائی کا لعل انھیں روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ کمپنیوں کی برانڈڈ اشیا کی قیمتوں پر اسٹیکرز چپکا چپکا کر بیشتر اشیاء اضافی نرخوں پر فروخت کی جارہی ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے ملک بھر میں قائم چھ ہزار سے زیادہ یوٹیلٹی اسٹورز پر رمضان المبارک سے پہلے ایک خصوصی ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جاچکا ہے جس میں آٹا، دالیں، بیسن، چاول، کھجوریں، چائے اور ٹھنڈے مشروبات جیسی وہ مختلف اشیا شامل ہیں جن کا روزے دار بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ دودھ، مصالحہ جات، کوکنگ آئل اور گھی بھی ان اسٹورز پر خصوصی رعایتی نرخوں پر فرروخت کیا جارہاہے، یوٹیلٹی اسٹورز کے منیجنگ ڈائریکٹر کی یہ یقین دہانی بھی خوش آیند ہے کہ اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں رعایت کے ساتھ ساتھ ان کے معیار اور کوالٹی کی بہتری کا بھی خیال رکھا جارہا ہے۔
ان کا یہ کہنا بھی حوصلہ افزا ہے کہ کسی بھی ریجن میں ان اشیا کی قلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگرچہ ماضی میں بھی اس قسم کے بیانات دیے جاچکے ہیں اور اس قسم کی یقین دہانیاں کرائی جاتی رہی ہیں جن پر کوئی عمل در آمد نہیں ہوسکا تاہم عوام کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اچھی توقعات وابستہ کریں کہ بہ قول شاعر
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
تاہم ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ملک کے طول وارض اور آبادی کے تناسب سے یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد بہت کم ہے جس کے سبب آبادی کے خاصے بڑے حصے کی رسائی ان اسٹورز تک ممکن نہیں ہے حالات اور طلب کا تقاضا ہے کہ ان اسٹورز کے نیٹ ورک کو زیادہ سے زیادہ وسعت دی جائے تاکہ عوام کی بڑی تعداد ان سے فائدہ اٹھاسکے۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بعض یوٹیلٹی اسٹورز ایسی جگہوں پر قائم جہاں عام آدمی کی پہنچ مشکل ہے اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے یوٹیلٹی اسٹورز پبلک ٹرانسپورٹ کی دستیابی سے کافی فاصلے پر واقع ہیں جس کی وجہ سے بسا اوقات صارفین کو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتاہے، لہٰذا ارباب بست کشاد سے ہماری درخواست یہ بھی ہے کہ آیندہ نئے یوٹیلٹی اسٹورز قائم کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جا ئے کہ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کے معاملے میں خواری نہ اٹھانی پڑے۔
یوٹیلٹی اسٹورز سے سامان خریدنے والے صارفین کو ماضی میں ایک یہ مسئلہ بھی درپیش رہا ہے کہ چینی اور آٹا جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا کی خریداری کے لیے یوٹیلٹی ا سٹورز کی جانب سے دیگر چیزوں کی خریداری کی شرط بھی عائد کردی جاتی ہے جس کے باعث عوام کو مجبوراً بعض غیر ضروری اشیا بھی خریدنی پڑتی ہیں جو ان کی جیب پر خوامخواہ کا اضافی بوجھ کا باعث ہوتا ہے۔ تاہم ان تمام باتوں کے باوجود حکومت کی جانب سے رمضان پیکیج کا اہتمام ایک لائق تحسین اقدام ہے۔
کراچی کے حوالے سے یہ خبر بھی خوش آیند ہے کہ کمشنر صاحب کی جانب سے بلائی گئی پریس کانفرنس کے دوران عوام کو مطلع کیا گیا ہے کہ اشیائے خورو نوش کی رعایتی قیمتیں مقرر کرکے 32 اشیا کی قیمتیں مستحکم کردی گئی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی اپنے فرائض بخوبی انجام دیںگی تاکہ ناجائز منافع خور روزے دار صارفین کی چمڑیاں ادھیڑنے سے باز رہیں۔اس سال رمضان المبارک کی آمد ایسے موقعے پر ہورہی ہے جب گرمی اپنے شباب پر ہے اوپر سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلط ہے تاہم یہ امر قابل تحسین ہے کہ وزیراعظم نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری واٹر اینڈ پاور کو بجلی کے معاملے میں عوام کو ممکنہ حد تک ریلیف دینے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔
ادھر کے الیکٹرک نے کراچی کے شہریوں کے لیے خصوصی اقدامات کے تحت رمضان المبارک کے دوران سحر و افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا، اس کے علاوہ رمضان المبارک کے تقدس کی خاطر شہر کی اہم مساجد کو بھی تراویح کے دوران لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔