’اب شہر میں ہر رند ِ خرابات ولی ہے‘

ذرایع ابلاغ کے سمندر پہ عین ’جنگل کا قانون ‘ والا محاورہ صادق آتا ہے


عابد میر July 03, 2014
[email protected]

ذرایع ابلاغ کے سمندر پہ عین 'جنگل کا قانون ' والا محاورہ صادق آتا ہے،جہاں خبر کا مگر مچھ خبر کی ہر چھوٹی مچھلی کوکھا جاتا ہے۔ بھلا کبھی آپ نے سنا کہ صوبے کے ایک حصے میں تعلیمی ادارے بوجوہ دو ماہ سے بند پڑے ہوں، اس موضوع پہ صوبے کے دارالحکومت میں واقع پریس کلب میں ایک سیمینار کا انعقاد ہو، جو تین سو سے زائد سامعین کے مابین تین گھنٹے پر محیط ہو، جہاں اہم سیاسی جماعتوں کے مرکزی سیاسی رہنما خطاب کریں ، نامور اہل دانش اپنے مضامین پیش کریں، حتیٰ کہ صوبے کا وزیر اعلیٰ گھنٹہ بھر تقریب میں موجود رہے، تقریربھی کرے اور یہ سرگرمی اہم اخبارات میں ایک کالمی جگہ بھی نہ پاسکے؟...بلوچستان بجا طور پر عجائبات کی سرزمین ہے!

مکران اور بالخصوص پنجگور میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے درپیش مسائل کا جب انتظامی سطح پہ کوئی تدارک ہوتا نظر نہیں آیا تو متاثرین نے ازخود حل کی جانب پیش رفت کی کوششیں شروع کردیں۔ پنجگور میں بیس سال اور تربت میں دس سال سے تعلیمی میدان میں سرگرم عمل احباب اس سرگرمی کے روحِ رواں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک ایسی سرگرمی صوبائی دارالحکومت میں کی جائے جوغفلت میں ڈوبی انتظامیہ کو جگا سکے۔

یہ کیونکہ صاحبِ علم لوگ ہیں، اس لیے انھوں نے ہر اہلِ علم سے اس سلسلے میں مشاورت اور معاونت چاہی۔ طرح طرح کے مشورے ملتے رہے اور یہ شریف آدمی ان مشوروں کو اپنے پروگرام میں شامل کرتے رہے۔نتیجہ یہ کہ پروگرام حتمی مراحل طے کرتا رہا۔ اس سیمینار کے حاصل وصول اور مذکورہ معاملے کی نئی جہات پہ تو ہم بعد میں بات کریں گے، فی الوقت آئیے میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہونے والی اس ہنگامہ خیز تقریب کی روداد سنیے۔

ابتدائی طور پر طے یہ پایا کہ اس سرگرمی کو خالص علمی بنیادوں پہ منعقد کیا جائے، سیاسی احباب سے پرہیزکیا جائے۔ دلیل یہ تھی کہ اول تو معاملہ خالص علمی ہے ، نہ کہ سیاسی۔ دوم یہ کہ سیاسی جماعتوں کے احباب کی ایک مجبوری یہ ہے کہ انھیں جہاں بیس لوگوں کا مجمع مل جائے یہ جلسہ شروع کر دیتے ہیں۔مؤقف ان کا رٹا رٹایا ہے، ان کی تقاریر روایتی پریس ریلیز سے آگے نہیں بڑھتیں، جو ہم اخبارات میں روز پڑھتے رہتے ہیں۔ نیز یہ کہ جن اہل دانش سے رابطہ کیا جائے ان سے باضابطہ تحریری مضمون کی گذارش کی جائے۔اس پہ اتفاق رائے بھی پایا گیا۔ لیکن تقریب کے انعقاد سے محض ایک روز قبل ہونے والے اجلاس میں یہ ساری ترتیب الٹ دی گئی۔ چند اہلِ فکر کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو دعوت نامے بھیج دیے گئے۔

یہ ساری سرگرمی چونکہ چند احباب کی نجی کاوشوں سے ہو رہی تھی، اس لیے طے پایا کہ پلیٹ فارم کے بطور کوئی ایسا نام دیا جائے جس سے کوئی مخصوص نشان دہی نہ ہوتی ہو،گویاجو 'اسٹیبلشمنٹ' کی طرح ہر جا ہو اور کہیں بھی نہ ہو۔اس کے لیے متفقہ طور پر 'سول سوسائٹی' کا نام طے پایا، جو درحقیقت بلوچستان میں کہیں بھی ٹھوس وجود نہیں رکھتی، لیکن کہنے کو ہر جا موجود ہے۔

البتہ چونکہ یہ نجی تعلیمی اداروں کا معاملہ تھا اور اس کے لیے قایم کردہ آل بلوچستان پروگریسو پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن معاملے میں شروع دن سے دلچسپی لے رہی تھی، اس لیے ان کی اجازت سے یہ نام بھی منتظمین میں شامل کر دیا گیا۔ تقریب کی صدارت کے لیے حکمران جماعت کی مختلف شخصیات سے نجی طور پر رابطے جاری رہے، بالآخر آخری لمحات میں صوبے کے وزیر اعلیٰ تک جونہی بات پہنچی، انھوں نے محدود وقت کی گذارش کے ساتھ شرکت پہ فوری رضامندی کا اظہار کیا۔

تقریب کا آغاز ہوا تو تین سو افراد کی گنجایش والے کوئٹہ پریس کلب کے ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔شرکا کی اکثریت طلبا پر مشتمل تھی۔ سیاسی رہنماؤں سے وقت کی کمی کی گذارش کے باوجود کوئی بھی رہنما اپنی تقریر مکمل کیے بنا اسٹیج سے نہ اترا۔ یہ سننے کے بعد کہ وزیر اعلیٰ تاخیر سے شریک ہوں گے، ہر ایک کا یہ مطالبہ رہا کہ اسے تاخیر سے ہی اسٹیج پہ بلایا جائے۔وزیر اعلیٰ آئے اور جتنی دیر اسٹیج پہ رہے، شدید تنقید کی زد میں رہے۔

کیا سیاسی مقرر، کیا ادیب، کیا ماہر تعلیم ، کیا شاعر ہر ایک نے اپنے حصے کا پتھر ضرور مارا۔ حتیٰ کہ سامعین بھی اس 'فرض' سے نہ چوکے۔ لیکن بدتہذیبی کی انتہا تب ہوئی جب اپنی تقریروں اور اشعار میں سنگ برسانے والے احباب وزیراعلیٰ کی تقریر کے دوران بھی اس سنگ باری سے باز نہ آئے۔ نتیجہ یہ کہ وزیر اعلیٰ اپنا مؤقف تک واضح نہ کر سکے۔ حالانکہ انھیں اسٹیج سے ایسے سخت سوالات کا سامنا بھی رہا کہ جس روز پنجگور میں بچیوں کے اسکو ل بند ہوئے اور ان پہ تشدد ہوا کیا آپ نے اُس روز جی بھر کے کھانا کھایا اور سکون کی نیند سوئے؟

چالیس دنوں سے جب کہ پنجگور میں تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں تو بتائیے کہ آپ اور آپ کے وزرا کے بچے کہاں پڑھ رہے ہیں؟ اگر یہ واقعہ آپ کے بچوں کے ساتھ ہوتا تو کیا آپ ایسی ہی بے بسی کا مظاہرہ کرتے؟ ...گو کہ انھوں نے اسٹیج پہ آتے ہی یہ کہہ دیا کہ وہ کسی کے سوالات کے جواب دینے کے پابند نہیں، لیکن ان کا وہ حوصلہ قابلِ تحسین رہا کہ جس خندہ پیشانی کے ساتھ انھوں نے یہ ساری تنقید برداشت کی اور کہیں بھی نہ تو جذباتی ہوئے نہ اس کا برا منایا۔

بلکہ سیاسی مخالفین کے لیے انھوں نے بلوچی کا ایک شعر پڑھ کر سب کے منہ بند کر دیے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ،'کون کتنا پارسا اور کون کیسا ولی، مجھے سب پتہ ہے، میرا منہ نہ کھلواؤ تو اچھا ہے۔' پرائیویٹ اسکولزایسوسی ایشن کے صدر کی بے سروپا جذباتی اور جلسے نما تقریر پہ طنز کرتے ہوئے انھوں نے خوب کہا کہ ،' یہ المیہ ہے کہ جنھیں تعلیم پہ بات کرنی چاہیے وہ سیاست پہ باتیں کررہے ہیں، اور ہم جیسے لوگ جنھیں سیاست کرنی چاہیے، تعلیم پہ کام کر رہے ہیں۔'

صوبے کے اولین مڈل کلاس و غیر سردار وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اس تقریب میں گو کہ حقیقی مسئلے کا کوئی حل پیش نہ کر سکے، لیکن تقریب کی نظامت کرتے ہوئے مجھ کم علم پہ کئی چہرے اور کئی حقائق 'منکشف' ضرور ہوئے۔ میرے لیے یہ بات کسی صدمے سے کم نہ تھی کہ سیاسی قوتوں کو جھوٹا اور غدار سمجھنے والا اپنے تئیں ہر 'انقلابی' انھی الزامات سے داغ دار وزیر اعلیٰ کے سامنے آنے اور اسے بے نقط سنانے کو بے قرار تھا ۔ اور ان میں سے اکثریت ان کی تھی جو آج تک کسی سردار، نواب کے سابقے لاحقے والے وزیراعلیٰ کے سامنے پَر مارنے کی جرأت بھی نہیں کر سکے،اوراپنے معمولی کاموں کے لیے جو اسی 'بے بس'اور 'منافق' وزیر اعلیٰ کے دفتر کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔

معمولی معمولی مراعات کے لیے یہ سب کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں لیکن اپنی تحریروں اور تقریروں میں یہ کفن بہ دوش سرمچار نظر آتے ہیں۔ہمارے ایک نہایت محترم اور اعلیٰ دانش ور اس بات پہ ہال سے اٹھ کر چلے گئے کہ انھیں وزیر اعلیٰ کے سامنے مضمون پڑھنے کے لیے نہیں بلایا گیا۔ ایک اور' سرمچار ادیب'بارہا یہ پیغام بھجواتے رہے کہ انھیں وزیر اعلیٰ کے سامنے تقریر کے لیے بلایا جائے۔ سول سوسائٹی کے نمایندے مونچھوں کو تاؤ دیتے نجانے کہاں سے عین تقریب کے وقت برآمد ہوئے اور تقریب کے مالک بن بیٹھے۔ انھیں بھی وزیر اعلیٰ کے سامنے اسٹیج پہ ماڈلنگ کا موقع نہ ملنے کی شکایت رہی۔

حتیٰ کہ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کا ہر فرد بھی اسی خواہش کا متمنی رہا۔گویا حقیقی مسئلہ کسی کا مطمع نظر رہا ہی نہیں۔ہماری اناؤں کا گند اس قدر بڑھ چکا کہ اب اس سے سڑاند آنے لگی ہے۔اور اس سب کے باجود جب دشنام ہمارے ہی حصے میں آیا، تو بے اختیار اپنے فیضؔ صاحب یاد آئے۔ انھیں دہرایا تو درد کچھ کم ہوا۔ سوچتا ہوں، کچھ اچھے انسانوں کے الفاظ کے مرہم نہ ہوتے تو لہجوں کے گھائل دیوانے کہاں جاتے...فیض ؔ نے کہا تھا؛

مے خانوں کی رونق ہیں کبھی خانقاہوں کی

اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے

دلداری واعظ کو ہمی باقی ہیں ورنہ

اب شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں