دیہی سندھ کا ایک تاریخی گاؤں… پہلا حصہ

آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ، ٹائم میگزین کے سابق رپورٹر

آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ، ٹائم میگزین کے سابق رپورٹر، انڈیا کے نیویارک میں رہنے والے ناول نویس اروند اڑیگا نے 2008 میں اپنے ناول (وائٹ ٹائیگر) پر بوکر پرائز حاصل کیا، اس ناول میں وہ شمالی انڈیا کے دیہی علاقوں کا کچھ یوں خاکہ بیان کرتے ہیں، جسے وہ جہالت کا گڑھ بھی سمجھتے ہیں (گنگا کنارے چائے کی دکانیں، ان دکانوں پرکام کرنے والے انسان کم، انسان نما گرگٹ زیادہ لگتے ہیں۔

پیوند لگے ہوئے کپڑے، بڑھے ہوئے بال اور داڑھیاں، جسم کی ہڈیاں، پسلیاں باہر نکلی ہوئیں، یہ لوگ جوان ہوتے ہوئے بھی بوڑھے نظر آتے ہیں۔ ہوٹلوں پر کئی لوگ پرانے ردی اخباروں اور کتابوں میں منہ ڈالے ہوئے اور ریڈیو سنتے ہوئے اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ بجلی کے ٹوٹے ہوئے کھمبے، صحت کی سہولتیں صفر، آلودگی، ناانصافی اور بیماری سے لڑتے ہوئے لوگ روز موت کے منہ چلے جاتے ہیں، جہاں غریبوں کا استحصال اور سیاست میں کرپشن پائی جاتی ہے، جہاں پوتر گنگا میں گوبر کے ڈھیر پائے جاتے ہیں)۔

جب بھی میں سندھ کے دیہات کی حالت دیکھتا ہوں، تو یہ مناظر میرے ذہن پر تیر کر آتے ہیں، یقیناً اس انسانی تباہی کے ذمے دار ہمارے جاگیردار، منتخب نمایندے اور افسرشاہی ہیں، کسی حد تک عوام بھی۔ ایسی ہی مایوسی کے عالم میں، جب میں اپنے گاؤں میان (ضلع سانگھڑ، سندھ) سے شمال کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے درختوں کے جھرمٹ میں ایک لمبا، خوبصورت مینار نظر آتا ہے، یہ عیسائیوں کا گاؤں پادری گوٹھ ہے، جو اس علاقے میں ایک تاریخی اور مثالی گاؤں سمجھا جاتا ہے، تو لیتے ہیں ذرا اس کی خبر!

ہندوستان میں انگریزوں کا راج آنے کے بعد عیسائی مشنری والوں نے بھی اس علاقے کا رخ کیا اور اپنی تبلیغی سرگرمیاں پورے برصغیر میں شروع کیں۔ پہلے شمالی ہندوستان خاص طور پر سری لنکا اور گووا جیسے علاقوں پر کامیابی سے اثر انداز ہوئے اور پھر جنوب مغرب کا رخ کیا۔ یہ پاپائے روم کے رومن کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی تبلیغ کا بڑا نشانہ وہ غریب لوگ تھے، جن میں شعور اور تعلیم نام کی کوئی چیز نہ تھی۔

ان کی روزی روٹی کا دارومدار زراعت یا جو پیشے کے اعتبار سے اور غیر مسلم ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کی نفرت کا شکار تھے، اس لیے یہ سماجی طور پر الگ تھلگ لوگ تھے۔ 1848 میں عیسائی مشنری کی چھپی ہوئی کتاب In the land of Sindhis and Blochis کے مطابق (ایسے لوگوں کی اکثریت شہروں، راستوں اور ریلوے اسٹیشنز سے دور رہتی تھی لیکن زراعت کے پیشے میں کمال فن رکھتی تھی، اس لیے بہتر سے بہتر رزق کی تلاش میں وہ ہجرت کرتے رہتے تھے یا زمیندار کے قرضے سے تنگ ہو کر نکل جاتے تھے، جو پنجاب سے تعلق رکھتے تھے)۔

اس طرح سندھ میں زمینیں ملنے کے بعد ان لوگوں نے یہاں کا رخ کیا، کچھ خاندان اپنے گرائیں بھگ سنگھ کی زمینوں پر آکے رہے، جو موجودہ کوٹ نواب (نواب اکبربگٹی کی جاگیر) کے شمال میں تھی، یہ علاقہ آج بھی بھگ کے نام سے مشہور ہے۔ جولائی 1935 میں پاپائے روم نے ڈچ قوم سے تعلق رکھنے والے فرانسس کنز پادریوں کو سندھ اور بلوچستان میں تبلیغی سرگرمیوں کے لیے بھیجا، جنہوں نے اپنے پہلے قدم اس سر زمین پر کراچی میں رکھے۔ (فرانسس کنز کی نسبت سینٹ فرانسس سے ملتی ہے، جو 1182 میں اٹلی کے شہر اسیسی میں پیدا ہوئے۔ پہلے کھانے پینے کے شوقین تھے، لیکن بعد میں 20، 22 سال کی عمر میں مذہب کی طرف راغب ہوئے۔


عیسائی روایت کے مطابق انھیں الورنا نامی پہاڑ میں عبادت کرتے ہوئے پانچ نشانات ملے۔ اس طرح اسے عیاشیاں ترک کرنی پڑیں اور وہ پوپ کے بنائے ہوئے مذہبی قوانین اور ضوابط پر عمل کروانے کے ذمے دار تھے۔ (نرسوں کا پہلا ادارہ بھی انھوں نے کھولا)۔ 1936-37 میں پادریوں نے حیدرآباد سے سانگھڑ کی زمین پر اپنے پاؤں رکھے، جہاں انھیں کچھ ہم مذہب بھی مل گئے۔ ان لوگوں نے پادریوں سے فرمائش کی کہ انھیں اکٹھا رہنے اور کھیتی باڑی کرنے کے لیے الگ زمین خرید کر دی جائے۔

اس طرح 400 ایکڑ زمین مکھی جھیل کے جنوبی کنارے اور بچائو بند کے ساتھ خریدی گئی، جو اس وقت کہیں خشک تو کہیں کہیں پانی کے جوہڑ بھی موجود تھے۔ ہر طرف جھاڑیاں تھیں، جن کے بیچوں بیچ سانپ کی طرح زگ زیگ پگڈنڈی تھی، جسے (جھنگ واری ڈھوری) کہتے تھے، لیکن بعد میں انگریزوں نے ہرنی بھٹ سے نکلتی ہوئی برساتی چھنڈن کو بند کیا تو یہ زمین بھی خشک ہوگئی۔ یہ زمین اکتوبر 1938 میں خریدی گئی۔ مشنری والوں نے منصوبہ بندی کرنا شروع کی کہ کس طرح اس زمیں پر اپنے ہم مذہبوں کی زرعی کالونی آباد کی جائے اور باقی ماندہ زمین آباد کرائی جائے۔

اس طرح اس نئے گاؤں کا نام سینٹ ازیڈور رکھا گیا، جو بعد میں پادری گوٹھ کہلایا۔ (سینٹ ازیڈور، عیسائیوں کے ہاں زرعی خوشحالی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ 560 میں اسپین کے شہر Seville میں پیدا ہوئے، خود بھی پہلے کسان تھے، پھر مذہب کی طرف مائل ہوئے اور بعد میں اسپین کے چرچز کے قانون ساز کاؤنسل کے صدر بنے۔ ہر سال 4 اپریل کو گندم کی کٹائی کے وقت گاؤں کے لوگ ان کا مجسمہ بطور تبرک کھیتوں میں گھماتے ہیں اور وہ دن عید کے طور پر مناتے ہیں)۔

نومبر 1938 میں حیدرآباد سے فادر ہرمس باقاعدہ رہائش کے لیے یہاں آئے اور مذہبی معاملات سنبھالنے لگے، جب کہ کچھ دن بعد فادر ٹوبیس بھی پہنچ گئے جو دور دراز علاقوں سے اپنے ہم مذہبوں کو لے کر یہاں آباد کررہے تھے۔ پہلے خاندان گنگو، پیٹر، طفیل والے بھگ سنگھ کی زمینوں سے ہجرت کرکے یہاں آئے۔ سب سے پہلا بچہ اس گاؤں میں پیدا ہوا وہ بونافاسولد گنگو تھا، جس کی تیسری نسل بھی آج کپڑے سینے کا کام کرتی ہے۔ پھر فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بھی مختلف خاندان یہاں آئے۔

اپریل 1939 میں کچا چرچ اور پادریوں کی رہائش گاہ تعمیر کی گئی، ساتھ ہی میں گھوڑوں، بھینسوں اور گائے کے باڑے بنائے گئے، جو پادریوں کی ملکیت تھے۔ یہ مویشی سیکڑوں کی تعداد میں قریبی جنگل میں چرنے جاتے اور شام کو سورج کی لال دھیمی روشنی میں واپس آتے۔ ان دنوں قریبی جنگل سے گیدڑ، بھیڑیے رات کو گھروں میں آکر مویشی اور مرغیاں اٹھا کر لے جاتے ۔ کچھ ماہ بعد اس پورے علاقے میں پہلی ڈسپینسری بھی اسی گاؤں میں کھولی گئی، جس کے لیے نرسیں کراچی سے بلائی گئیں۔

(جاری ہے)
Load Next Story