بصیرت کے راستے

اپنے حصّے کا سچ بیان کرنے کے صلے میں قلم کار کو اپنے کھرے پن کی تائید اور توثیق ضرور حاصل ہوجاتی ہے


Zahida Javaid September 22, 2012
زاہدہ جاوید

KARACHI: دانش کا منتہیٰ خیر کا پھیلائو ہے، جب عقل رسا حقانیت کا سراغ پالیتی ہے تو وہ فہم و ادراک جیسی نعمت کی زکوٰۃ خیر کی تقسیم سے ادا کرتی ہے اور اگر خیر کی تقسیم سے فکر کی تطہیر نہ کی جائے تو دانش کا خزانہ سانپ بن کر صاحبِ دانش پر گرفت کس لیتا ہے اور اس کے علم کی تاثیر ہذیان اور فساد کے سوا کچھ نہیں رہتی۔

تحریر وہ تخلیقی کام ہے جس میں لکھنے والا اپنے باطن کو ملوث کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تحریر نہ صرف لکھاری کی ذہنی رو کا سجھائو دیتی ہے بلکہ اس کی شخصی پرتوں کی تہیں بھی کھولتی ہے۔

اسی طرح ہر تحریر کا اپنا ایک ذائقہ اور لمس ہوتا ہے جو پڑھنے والے پر اپنا تاثر مرتب کرتا ہے۔ اگر تحریر کی تاثیر میں کڑواہٹ، دل شکستگی اور حواس سن کر دینے والی کیفیت ہے تو یہ علم کی فطرت کے منافی بات ہے۔ علم و دانش کی اصل تو گنجلک کو سادگی بخشنا اور بھول بھلیوں میں راستہ دِکھانا ہے۔

بصیرت کے راستے جو فہم اور ادراک قدرت ایک تخلیق کار کو ودیعت کرتی ہے، وہ سچ جان کر اگر صاحبانِ بصیرت خود اپنے ہی بال نوچنے لگ جائیں اور اپنا گریبان چاک کر ڈالیں تو اس عالمِ وحشت میں ان کے اٹھائے گئے نکتہ ہائے اسرار و رموز کا کشف اہلِ دل و نظر ہی کرسکتے ہیں۔

ان کے علم کی کرامات عوام تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اگر چیخ و پکار اور آہ و بکا سے لبریز تحریر شعور کو سوگوار کررہی ہے یا قلمکار کے قلم سے برسنے والا لعن طعن قاری کے فہم میں اضمحلال بھرتا چلا جارہا ہے تو یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ لکھنے والا قلم کا حق برتنے میں کوتاہی کا ارتکاب کر رہا ہے۔

اپنے عہد کا سچ بیان کرنا ہر تخلیق کار کی مجبوری ہوتی ہے اور اس حد تک مجبوری ہوتی ہے کہ یا سچ نہیں یا پھر قلم نہیں! یہاں سچ سے مراد صرف المناکی اور تصویر کا مکروہ پہلو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک تیر بہ ہدف نسخہ طے پاگیا ہے کہ قلمکار اپنی تمام تر فنی و فکری قوتیں یکجا کرکے اپنے چنیدہ موضوع کو حسبِ تخلیق اتنا گمبھیر اور سنگین بنا کر پیش کرے کہ قارئین اس کی باریک بینی اور نکتہ آفرینی کے قائل ہوجائیں۔

تخلیق کاروں نے اپنے اطراف سے موضوعات کو دونوں ہاتھوں یہاں تک کہ ناک سے کرید کرید کر چن لیا ہے اور ان کو ایسی فنی تراش خراش کے ساتھ احساس کی منڈی میں پیش کیا ہے کہ ہر موضوع اپنے عہد کا مسئلہ اعظم محسوس ہوتا ہے لیکن اس دردمندی اور تخلیقی حدّت کے باوجود جو منظر تشکیل پا رہا ہے وہ:

درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

کے مصداق ہے۔ کہنے کو قلم کار و تخلیق کار اپنے اپنے حصّے کا شعور بانٹ رہے ہیں اور اپنے زاویۂ فکر سے صورتحال کی منظرکشی کررہے ہیں، حالات و حقایق سے باخبر کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں مگر شعور کی یہ تقسیم اپنی بدنیتی کی نحوست کا شکار ہے اور عام آدمی کے حواس پر شعور اجاگر کرنے کا یہ عمل چپت در چپت ضربیں لگارہا ہے اور اس کی ہونقی اور نیم دلی کا یہ عالم ہے کہ وہ بیچارہ اب چپت لگانے والے کی جانب دیکھنے کے بھی قابل نہیں رہا سر جھکائے خاموشی سے چپتیں کھائے جارہا ہے۔

کھائے جارہا ہے اور جب یہ عام آدمی ضربات کی تاب نہ لاتے ہوئے دیوانہ وار چیختے چلاّتے کسی جانب بھاگ نکلتا ہے تو ''اپنے دور'' کے اہلِ خِرد و نظر اسے نوید انقلاب سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔

حیوانِ ناطق ہونے کے ناتے سب کو اپنی اپنی بولیاں بولنے کا حق ہے لیکن یہ صلاحیت جب مرض کے درجے پر پہنچ جاتی ہے تو آپ کے افکار، خیالات، نظریات سب اس سیلِ رواں میں تحلیل ہوجاتے ہیں مگر تخلیق کے یہ سوتے انسانی فکر کی آبیاری کے لیے بے فیض قرار پاتے ہیں۔ یہ نمو کے بجائے جمود اور تحریک کی جگہ بے حسی طاری کردیتے ہیں۔

اپنے حصّے کا سچ بیان کرنے کے صلے میں قلم کار کو اپنے کھرے پن کی تائید اور توثیق ضرور حاصل ہوجاتی ہے لیکن یہ سچّائی قاری کو راہِ عمل کی ترغیب دینے کے معاملے میں بنجر ثابت ہوتی ہے۔ آج جب کہ ذہن سازی کا بہ طور ہتھکنڈا استعمال کوئی مخفی بات نہیں رہی، ہماری وسعت ظرفی و قلبی کا یہ عالم ہے کہ ہم عوام میں محض شعور جگانے کی بات کرتے ہیں۔

دانش کی سطح سے عام سوچ کو باقاعدہ تحریک اور ترغیب فراہم کرنا معاشرے کو منظم اور مہذب بنانے کی تربیت کا نام ہے وگرنہ ہر قسم کے موضوعات پر بات کرنے اور ہر معاملے کو عام سطح پر اٹھانے اور پھر نتیجہ عام شعور کی خودساختہ آموزش پر چھوڑ دینے سے صرف بے سمتی اور بے راہ روی ہی مقدر بنتی ہے۔ دانش ور طبقہ اپنے علم و تدبر کی بنیاد پر عام سطح سے فوقیت اور فضیلت رکھتا ہے۔

انگشت نمائی، ہٹو بچو یا چور چور کا شور مچانے سے دانش کا حق ادا نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے آج تک ہم بہ طور قوم ایک سوچ اور نظریات پر متفق اور ہم آہنگ نظر نہیں آتے۔ باقاعدہ فکری تربیت کا نام و نشان بھی دور دور تک دِکھائی نہیں دیتا، اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہمارے ہاں دانش کی معراج اتفاق نہیں بلکہ اختلاف ہے۔

ابھی تو صاحبانِ قلم آپس میں گتھم گتھا ہیں اور کالم کے میدان میں مختلف النوع بحثوں سے دو دو ہاتھ کرنے میں مصروف ہیں اور اپنے اپنے محاذوں پر دانش کی بوچھاڑ نے قوم کی اتفاق رائے کی صلاحیت کو جو نقصان پہنچایا ہے، اس کی ان حقائق بیان کرنے کے خبط میں مبتلا اور سچ لکھنے میں مگن قلم کاروں کو پروا نہیں، ان کا واحد مقدس کام ہے اظہار، اظہار اور بس اظہار۔ اب اس کے ردعمل میں انتشار جنم لے کہ اضطراب اور خواہ نفاق! وہ تو سچ لکھتے ہی رہیں گے، لیکن کہیں حقائق کے آئینے میں سچ سے پردہ اٹھاتے اٹھاتے آخرکار اپنا ہی عکس نہ در آئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں