اڑنے والی مشین
تاریخ انسانی میں راجر بیکن پہلا شخص تھا جس نے اڑنے کی مشین کا ڈائیگرام بنایا اور انسان کی پرواز کا تصور پیش کیا۔
مغربی ممالک میں تعلیم دی جاتی ہے کہ تاریخ انسانی میں راجر بیکن (Roger Bacon متوفی 1292) وہ پہلا شخص تھا جس نے اڑنے کی مشین کا ڈائیگرام بنایا اور انسان کی پرواز کا تصور پیش کیا۔
لیونارڈو ڈاونچی (Leonardo Da vinci) نے اڑنے والی مشینوں کے خاکوں کے علاوہ ان کے پروٹو ٹائپ بنائے لیکن بیسویں صدی کے تاریخ داں فلپ ہتی (Philip Hitti) کے مطابق امر واقعہ یہ ہے کہ قرطبہ کا باشندہ عباس ابن فرناس (متوفی 873) پہلا شخص تھا جس نے نویں صدی میں فلائنگ مشین بنائی اور تماشائیوں کے سامنے قرطبہ کی پہاڑی سے اس نے کچھ دور لمبی پرواز بھی کی مگر اس کے گلائیڈر (Glider) میں اترنے کے لیے پرندوں جیسی دم نہیں تھی اس لیے اس کو اترتے وقت چوٹیں آئیں۔
راجر بیکن نے عربی کتابوں سے پرواز کا علم کئی سو سال بعد حاصل کیا۔ بغداد ایئرپورٹ پر ابن فرناس کا مجسمہ نصب رہا۔ اسی طرح لیبیا نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی اس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جاری کیا تھا۔
مغرب میں کہا جاتا ہے کہ شیشے کے بنے ہوئے آئینوں کی ایجاد وینس میں 1291میں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اسپین میں شیشے کے آئینے گیارہویں صدی میں زیراستعمال تھے۔ وینس کے لوگوں نے شیشہ سازی کا علم شام کے ماہرین سے نویں اور دسویں صدی میں حاصل کیا تھا۔
چودہویں صدی تک دنیا میں صرف آبی گھڑیاں (Water Clocks) ہوتی تھیں۔ 1335 میں ملان (Milan) کے شہر میں پہلی میکانکی گھڑی بنائی گئی جو وزن سے چلتی تھی۔ بقول ول ڈیورانٹ (Will Durant) حقیقت یہ ہے کہ پہلی گھڑی اسلامی اسپین میں ابن فرناس نے نویں صدی میں بنائی جو ٹھیک وقت دیتی تھی' اس کا نام المقاطہ تھا۔ پھر مسلمانوں نے رصدگاہوں میں استعمال کے لیے ہیئتی گھڑیاں بنائی تھیں جن کے ڈائیگرام دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہارون الرشید کے زمانے میں گھڑیاں عام طور پر بنائی جاتی تھیں۔ چنانچہ اس نے اپنے ہم عصر فرانس کے بادشاہ شارلیمان کو ایک گھڑی تحفے کے طور پر بھیجی تھی۔ یہ یورپ میں پہنچنے والی پہلی گھڑی تھی۔ اس طرح بغداد کی مستنصریہ یونیورسٹی کی بڑی دیوار کے دروازے پر ایک گھڑی آویزاں تھی جس کا ڈائیل نیلے رنگ کا تھا۔ اس پر سورج مسلسل محو گردش رہ کر وقت بتاتا تھا۔ یورپ میں گھڑیاں بنانے کا علم عربی کتابوں کے لاطینی تراجم سے پہنچا۔
ابن شاطر نے دمشق کی امیہ مسجد کے مینار پر شمسی گھڑی 1371 میں بنائی تھی جو طلوع آفتاب' نصف النہار اور غروب آفتاب کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچوں نمازوں کے اوقات بتاتی تھی۔
مغرب میں کہا جاتا ہے کہ گیلی لیو نے سترہویں صدی میں پینڈولم (Pendulum) ایجاد کیا تھا۔ اس نے گرجاگھر میں لگے چہل چراغ کو ہوا کے جھونکے سے جھولتے دیکھا جس سے اس کو یہ تحریک ملی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پینڈولم مصر کے ممتاز سائنس دان ابن یونس نے دسویں صدی میں ایجاد کیا تھا۔ جس نے جھولنے والی گردش (Motion oscillatory) کو تحریر میں بیان کیا۔ مسلمان گھڑی سازوں نے اس کا استعمال گھڑیوں کی پندرہویں صدی میں کیا تھا۔
آئزک نیوٹن نے روشنی ' عدسہ (Lens) اور پرزم (Prism) کا صحیح مصرف بیان کیا جو علم مناظر (Optics) کی بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گیارہویں صدی کے مسلمان سائنس دان ابن الہیثم نے صدیوں قبل ایسے نظریات پیش کیے تھے جن کو بعد میں علم مناظر کی بنیاد بنایا گیا۔ بہت سے محققین نے اس کو علم بصریات کا جدامجد کہا ہے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپ میں جو کتابیں شایع ہوئیں ان میں ابن الہیثم کو بطور سند پیش کیا جاتا رہا۔ اس نے کیمرہ آبسکیورا (Camera Obscura) کا تصور پیش کیا جس سے جدید کیمرہ ایجاد ہوا۔
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ نیوٹن نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ سفید روشنی مختلف رنگوں کی شعاعوں سے بنی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا سہرا بھی ابن الہیثم اور چودہویں صدی کے ایرانی سائنس دان کمال الدین فارسی کے سر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریاضی میں ڈیسی مل فریکشن (Decimal Fraction) کا آغاز ایک ڈچ سائمن اسٹیون (Simon Stevin) نے 1589 میں کیا یعنی ½ کو 0.5 لکھا جا سکتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کا استعمال الکاشی نے اپنی کتاب مفتاح الحساب میں پندرہویں صدی میں کیا۔ قرین قیاس ہے کہ سائمن نے یہ آئیڈیا الکاشی کی کتاب پڑھ کر لیا ہو گا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ الجبرا کے سمبل X & Y کا استعمال فرانسیسی ریاضی داں ویٹا (Vieta) نے 1591 میں شروع کیا جس نے اپنی کتاب میں مساوات کا حل ان حروف سے کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ الجبرا کے موجد مسلمان تھے جنہوں نے نویں صدی میں الجبرا کی مساوات میں ایسے ہی حروف کا استعمال کیوبک ایکوئیشن (Cubic Equation) کے حل میں کیا تھا۔ اسی طرح یورپ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ صفر سے کم اعداد کا تصور (یعنی منفی نمبر) جیرانا موکارڈانو (Cardano) نے 1545 میں پیش کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ریاضی داں منفی نمبروں کا استعمال کارڈانو سے چار سو سال قبل کر چکے تھے۔
(محمد زکریا ورک کی کتاب''مسلمانوں کے
سائنسی کارنامے'' سے اقتباس)
لیونارڈو ڈاونچی (Leonardo Da vinci) نے اڑنے والی مشینوں کے خاکوں کے علاوہ ان کے پروٹو ٹائپ بنائے لیکن بیسویں صدی کے تاریخ داں فلپ ہتی (Philip Hitti) کے مطابق امر واقعہ یہ ہے کہ قرطبہ کا باشندہ عباس ابن فرناس (متوفی 873) پہلا شخص تھا جس نے نویں صدی میں فلائنگ مشین بنائی اور تماشائیوں کے سامنے قرطبہ کی پہاڑی سے اس نے کچھ دور لمبی پرواز بھی کی مگر اس کے گلائیڈر (Glider) میں اترنے کے لیے پرندوں جیسی دم نہیں تھی اس لیے اس کو اترتے وقت چوٹیں آئیں۔
راجر بیکن نے عربی کتابوں سے پرواز کا علم کئی سو سال بعد حاصل کیا۔ بغداد ایئرپورٹ پر ابن فرناس کا مجسمہ نصب رہا۔ اسی طرح لیبیا نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی اس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جاری کیا تھا۔
مغرب میں کہا جاتا ہے کہ شیشے کے بنے ہوئے آئینوں کی ایجاد وینس میں 1291میں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اسپین میں شیشے کے آئینے گیارہویں صدی میں زیراستعمال تھے۔ وینس کے لوگوں نے شیشہ سازی کا علم شام کے ماہرین سے نویں اور دسویں صدی میں حاصل کیا تھا۔
چودہویں صدی تک دنیا میں صرف آبی گھڑیاں (Water Clocks) ہوتی تھیں۔ 1335 میں ملان (Milan) کے شہر میں پہلی میکانکی گھڑی بنائی گئی جو وزن سے چلتی تھی۔ بقول ول ڈیورانٹ (Will Durant) حقیقت یہ ہے کہ پہلی گھڑی اسلامی اسپین میں ابن فرناس نے نویں صدی میں بنائی جو ٹھیک وقت دیتی تھی' اس کا نام المقاطہ تھا۔ پھر مسلمانوں نے رصدگاہوں میں استعمال کے لیے ہیئتی گھڑیاں بنائی تھیں جن کے ڈائیگرام دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہارون الرشید کے زمانے میں گھڑیاں عام طور پر بنائی جاتی تھیں۔ چنانچہ اس نے اپنے ہم عصر فرانس کے بادشاہ شارلیمان کو ایک گھڑی تحفے کے طور پر بھیجی تھی۔ یہ یورپ میں پہنچنے والی پہلی گھڑی تھی۔ اس طرح بغداد کی مستنصریہ یونیورسٹی کی بڑی دیوار کے دروازے پر ایک گھڑی آویزاں تھی جس کا ڈائیل نیلے رنگ کا تھا۔ اس پر سورج مسلسل محو گردش رہ کر وقت بتاتا تھا۔ یورپ میں گھڑیاں بنانے کا علم عربی کتابوں کے لاطینی تراجم سے پہنچا۔
ابن شاطر نے دمشق کی امیہ مسجد کے مینار پر شمسی گھڑی 1371 میں بنائی تھی جو طلوع آفتاب' نصف النہار اور غروب آفتاب کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچوں نمازوں کے اوقات بتاتی تھی۔
مغرب میں کہا جاتا ہے کہ گیلی لیو نے سترہویں صدی میں پینڈولم (Pendulum) ایجاد کیا تھا۔ اس نے گرجاگھر میں لگے چہل چراغ کو ہوا کے جھونکے سے جھولتے دیکھا جس سے اس کو یہ تحریک ملی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پینڈولم مصر کے ممتاز سائنس دان ابن یونس نے دسویں صدی میں ایجاد کیا تھا۔ جس نے جھولنے والی گردش (Motion oscillatory) کو تحریر میں بیان کیا۔ مسلمان گھڑی سازوں نے اس کا استعمال گھڑیوں کی پندرہویں صدی میں کیا تھا۔
آئزک نیوٹن نے روشنی ' عدسہ (Lens) اور پرزم (Prism) کا صحیح مصرف بیان کیا جو علم مناظر (Optics) کی بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گیارہویں صدی کے مسلمان سائنس دان ابن الہیثم نے صدیوں قبل ایسے نظریات پیش کیے تھے جن کو بعد میں علم مناظر کی بنیاد بنایا گیا۔ بہت سے محققین نے اس کو علم بصریات کا جدامجد کہا ہے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپ میں جو کتابیں شایع ہوئیں ان میں ابن الہیثم کو بطور سند پیش کیا جاتا رہا۔ اس نے کیمرہ آبسکیورا (Camera Obscura) کا تصور پیش کیا جس سے جدید کیمرہ ایجاد ہوا۔
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ نیوٹن نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ سفید روشنی مختلف رنگوں کی شعاعوں سے بنی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا سہرا بھی ابن الہیثم اور چودہویں صدی کے ایرانی سائنس دان کمال الدین فارسی کے سر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریاضی میں ڈیسی مل فریکشن (Decimal Fraction) کا آغاز ایک ڈچ سائمن اسٹیون (Simon Stevin) نے 1589 میں کیا یعنی ½ کو 0.5 لکھا جا سکتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کا استعمال الکاشی نے اپنی کتاب مفتاح الحساب میں پندرہویں صدی میں کیا۔ قرین قیاس ہے کہ سائمن نے یہ آئیڈیا الکاشی کی کتاب پڑھ کر لیا ہو گا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ الجبرا کے سمبل X & Y کا استعمال فرانسیسی ریاضی داں ویٹا (Vieta) نے 1591 میں شروع کیا جس نے اپنی کتاب میں مساوات کا حل ان حروف سے کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ الجبرا کے موجد مسلمان تھے جنہوں نے نویں صدی میں الجبرا کی مساوات میں ایسے ہی حروف کا استعمال کیوبک ایکوئیشن (Cubic Equation) کے حل میں کیا تھا۔ اسی طرح یورپ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ صفر سے کم اعداد کا تصور (یعنی منفی نمبر) جیرانا موکارڈانو (Cardano) نے 1545 میں پیش کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ریاضی داں منفی نمبروں کا استعمال کارڈانو سے چار سو سال قبل کر چکے تھے۔
(محمد زکریا ورک کی کتاب''مسلمانوں کے
سائنسی کارنامے'' سے اقتباس)