بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے آمرانہ دور کا خاتمہ

عوامی لیگ کے آمرانہ طرزِ حکومت نے بنگلہ دیشی عوام کو اپنی بانی سیاسی جماعت سے متنفر کردیا


عوامی لیگ کے طویل دور حکومت اور مقبولیت نے اس جماعت میں آمرانہ سوچ کو جنم دیا۔ (فوٹو: فائل)

بنگلہ دیش کی بانی جماعت عوامی لیگ نے اپنے ملک میں مجموعی طور پر 30 سال کے لگ بھگ حکومت کی، جن میں سے 20 سال شیخ حسینہ واجد کی حکومت رہی۔ یہ جماعت اگرچہ ابتدا میں مقبولیت کی انتہاؤں پر تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ جماعت اپنی مقبولیت کھوتی رہی اور اب حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کی وزیراعظم کو استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔


عوامی لیگ کے اس قدر طویل دور حکومت اور مقبولیت نے اس جماعت میں آمرانہ سوچ کو جنم دیا۔ عوامی لیگ کے دور حکومت میں آمرانہ طرز عمل کے متعدد واقعات سامنے آئے، جو ملک کی سیاست اور عوامی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کے بعد ملک کو سیاسی استحکام دینے کی کوشش کی۔ لیکن 1974 کے قحط کے دوران عوامی لیگ کی حکومت پر ناکافی اقدامات اور بدعنوانی کے الزامات عائد ہوئے، جس کی وجہ سے عوام میں عدم اطمینان پیدا ہوا۔ اس قحط نے عوامی لیگ کی حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کو اجاگر کیا اور عوامی اعتماد کو متاثر کیا۔


1980 کی دہائی میں، عوامی لیگ نے سیاسی بے چینی اور تشویش کا سامنا کیا۔ اس دور میں، عوامی لیگ نے اپوزیشن کے خلاف سخت اقدامات کیے، جن میں مظاہرین پر طاقت کا استعمال شامل تھا۔ اس سیاسی تناؤ نے عوامی لیگ کے آمرانہ طرز عمل کو مزید اجاگر کیا، جس میں سڑکوں پر احتجاج اور سیاسی تصادم کے دوران سخت کارروائیاں شامل تھیں۔ اس دور کے واقعات نے عوامی لیگ کی حکومتی پالیسیوں پر سوال اٹھایا اور سیاسی استحکام کی کوششوں کو مشکل بنادیا۔


2000 کی دہائی کے دوران، عوامی لیگ نے مزید چیلنجز کا سامنا کیا۔ 2001 کے انتخابات کے بعد، عوامی لیگ پر دھاندلی اور عدم شفافیت کے الزامات عائد ہوئے، اور 2007 میں ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ اس ایمرجنسی کے دوران، عوامی لیگ نے اپوزیشن کے رہنماؤں کے خلاف کارروائی کی اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں، جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے الزامات سامنے آئے۔ یہ اقدامات عوامی لیگ کی آمرانہ پالیسیوں کو مزید واضح کرتے ہیں۔


2014 اور 2018 میں ہونے والے انتخابات نے عوامی لیگ کے آمرانہ طرز عمل کو ایک نئے مرحلے میں داخل کردیا۔ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی اور شفافیت کے مسائل سامنے آئے، اور عوامی لیگ نے اپوزیشن کی احتجاجی تحریکوں کو کچلنے کےلیے سخت کارروائیاں کیں۔ ان انتخابات کے دوران، عوامی لیگ پر سیاسی مخالفین کو دبانے اور آزادی اظہار پر پابندیاں لگانے کے الزامات لگے، جس نے ملک کی سیاسی فضا کو مزید متنازع بنادیا۔


حالیہ برسوں میں، عوامی لیگ نے میڈیا اور آزادی اظہار پر پابندیاں عائد کیں، اور اپوزیشن کے خلاف سخت کارروائیاں کی ہیں۔ بدعنوانی اور معیشت کی خرابی کے الزامات بھی عوامی لیگ کے خلاف سامنے آئے ہیں، جس نے عوامی اعتماد کو مزید متاثر کیا۔ اس دور میں، عوامی لیگ کی حکومت نے سیاسی مخالفین کو دبانے اور آزادی اظہار کو محدود کرنے کےلیے سخت اقدامات کیے، جس سے ملک میں سیاسی تناؤ اور عوامی بے چینی میں اضافہ ہوا۔


جولائی اور اگست 2024 میں بنگلہ دیش میں طلبا کی طرف سے کوٹہ سسٹم اور دیگر مسائل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔ طلبا نے تعلیمی اداروں میں اصلاحات، مہنگائی کے خلاف اور حکومتی بدعنوانی کے مسائل پر آواز اٹھائی۔ ان مظاہروں نے جلد ہی بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل کی، لیکن عوامی لیگ کی حکومت نے اس تحریک کو دبانے کےلیے سخت اقدامات کیے۔


حکومت نے احتجاجی مظاہرین کے خلاف پولیس اور دیگر فورسز کے ذریعے طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین ہلاک ہوئے۔ جولائی اور اگست 2024 کے دوران، 20 سے زائد مظاہرین کی ہلاکت کی رپورٹس سامنے آئیں، جن میں زیادہ تر طلبا شامل تھے۔ حکومت نے مظاہرین کی گرفتاریوں اور میڈیا پر پابندیوں کے ذریعے احتجاجی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی۔ آزادی صحافت پر قدغن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات نے بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش پیدا کی۔


اس دوران، عوامی لیگ کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف شدید عوامی دباؤ اور احتجاجی تحریک کی وجہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ بڑھ گیا۔ وزیراعظم نے ملکی صورتحال کے پیش نظر استعفیٰ دینے کی پیشکش کی، لیکن حکومت کے آمرانہ رویے اور احتجاجی مظاہرین پر طاقت کے استعمال نے ملک کی سیاسی فضا کو مزید کشیدہ کردیا۔ یہ دور عوامی لیگ کی حکومت کے آمرانہ طرز عمل اور سیاسی تناؤ کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ بہرحال شیخ حسینہ واجد کو طویل دور اقتدار کے بعد استعفیٰ دینا پڑا جس سے عوامی لیگ کے آمرانہ دور کا خاتمہ ہوا۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں