اگست 1947ء میں جب متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو ہجرت کے دوران لاکھوں لوگوں نے اپنا گھربارچھوڑا اور قربانیاں دیں ۔ ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی ہوئی اور بچوں کے گلے کاٹ دیے گئے۔ صدیوں سے ساتھ رہنے والے لمحوں میں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے تھے۔
حسین بی بی اور عالم بی بی دونوں بزرگ خواتین کا تعلق لاہور کے سرحدی علاقے ڈوگرائے کلاں سے ہے۔ 95 سالہ حسین بی بی بتاتی ہیں کہ جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو وہ اپنے خاندان سمیت امرتسر کے نواحی گاؤں بھینی راجپوتاں میں شادی کی تقریب میں شریک تھیں۔ عالم بی بی کہتی ہیں کہ آزادی کا اعلان ہوتے ہی ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور انہیں بھی اپنا گاؤں اور گھربارچھوڑناپڑا تھا۔
حسین بی بی کہتی ہیں ہم لوگ یہاں ڈوگرائے کلاں سے بارات کے ساتھ بھینی راجپوتاں گئے تھے۔ ان دنوں باراتیں چند روز لڑکی والوں کے گھر ہی قیام کرتی تھیں۔ اس لیے وہ لوگ ادھر ہی تھے کہ اعلان ہونا شروع ہوگئے، پاکستان اور انڈیا الگ الگ ملک بن گئے ہیں۔ شادی میں جو رشتہ دار مختلف علاقوں سے آئے تھے وہ فوراً واپس اپنے گھروں کی طرف دوڑ پڑے۔ ہم لوگ بھی واپس آگئے۔
انہوں نے بتایا کہ اس دوران بارڈر کے دونوں جانب ہنگامے پھوٹ پڑے تھے، انڈیا جو ٹرین واہگہ کے راستے پاکستان پہنچی اس میں کئی خواتین ایسی تھیں جن کی چھاتیاں کاٹ دی گئی تھیں۔ بچوں کی گردنیں کٹی ہوئی تھیں۔ بیل گاڑیوں اور پیدل آنے والے قافلوں میں کئی خاندان ایسے تھے جن کی جوان بیٹیوں کو بلوائی اٹھالے گئے ،خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ انہوں نے بتایا آج بھی جب انہیں وہ مناظریاد آتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
عالم بی بی کی عمر قیام پاکستان کے وقت 14 برس تھی۔ وہ بھینی راجپوتاں گاؤں کی رہائشی تھیں،یہ گاؤں اب امرتسر کا حصہ ہے۔ عالم بی بی نے بتایا ان کے گاؤں میں زیادہ ترمسلمان ہی تھے جب کہ بھینی رنگڑاں میں سکھ اورہندوآباد تھے۔ بزرگ یہ سمجھتے تھے کہ ان کا گاؤں پاکستان کا حصہ بن جائیگا لیکن جب بٹوارہ ہوا تو ان کا گاؤں انڈیا اور جو سکھوں کا گاؤں تھا وہ پاکستان میں چلاگیا۔ قریبی علاقوں سے ہنگاموں ، لوٹ مار اور قتل وغارت کی خبریں آرہی تھیں جس کی وجہ سے گاؤں کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ اب انہیں بھی ہجرت کرکے پاکستان چلے جانا چاہیے۔
عالم بی بی کہتی ہیں کہ ان کے گاؤں میں جو سکھ تھے انہوں نے کسی خاندان کو کچھ نہیں کہا،کیونکہ ہم کئی نسلوں سے اکٹھے رہ رہے تھے۔ ہماری زرعی زمینیں سانجھی تھیں۔ جولوگ لوٹ مار اور دنگافساد کررہے تھے وہ دوسرے علاقوں سے آئے تھے۔ ان کے گاؤں بھینی راجپوتاں سے چند خاندان شھورا گاؤں وہ علاقہ بھی انڈیا میں شامل ہوگیا تھا ،وہاں ان کے خاندان کے ایک نوجوان پرحملہ کرکے اس کا بازو کاٹ دیا گیا تھا۔ عالم بی بی کے مطابق وہ لوگ پیدل ہی سفر کرتے ہوئے یہاں پہنچے جہاں سکھوں اور ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے گھروں میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوائیوں کا کوئی مذہب نہیں تھا وہ بس لوٹ مارکررہے تھے، خواتین کی آبرو ریزی کرتے، مزاحمت پرکئی نوجوان مارے گئے۔ کئی نوجوان لڑکیوں نے کنووں اور نہرمیں چھلانگیں لگاکراپنی جانیں قربان کردی لیکن عزت پرحرف نہیں آنے دیا تھا۔
جس طرح پاکستان کے مختلف علاقوں سے سکھوں اور ہندوؤں کے قافلے انڈیا جارہے تھے اسی طرح ہندوستان کے مختلف علاقوں سے قافلے پاکستان پہنچ رہے تھے۔
ڈوگرائے کلاں کے رہائشی ملک بشیراحمد اعوان بتاتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا آنے جانے والے زیادہ ترقافلے جی ٹی روڈ جسے جرنیلی سڑک کہا جاتا ہے اسی کو استعمال کررہے تھے، یہاں انہیں فوج اور رضا کاروں کی سکیورٹی میسر تھی ، جو قافلے مرکزی سڑک سے ہٹ کرسفرکرتے ان پربلوائی حملہ کرتے تھے۔
ملک بشیر کہتے ہیں کہ ہندوستان سے پاکستان آنے والے قافلوں کا واہگہ بارڈر کےبعد پہلا پڑاؤ ان کے گاؤں میں ہی ہوتا تھا۔ یہاں ہم لوگ ان قافلوں کو کھاناپانی دیتے، زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی اور پھر یہ لوگ آگے روانہ ہوجاتھے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ مہاجرقافلوں جہاں ایک طرف بلوائی حملہ کرتے اورانہیں نقصان پہنچارہے تھے، وہیں دونوں جانب ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جنہوں نے اپنے اپنے گاؤں کے قافلوں کو بحفاظت بارڈر تک پہنچایا۔ ان کے گاؤں میں صرف دو ہندوخاندان آباد تھے، انہیں کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا،بلکہ انہیں یہاں رکنے پر اصرار کرتے رہے لیکن وہ لوگ انڈیا چلے گئے۔
اسی طرح جلوموڑ کے علاقے میں ایک ہندوخاندان تھا، جو پہلے انڈیا چلا گیا اور پھر چند روز بعد کچھ لوگ واپس آگئے اوراسلام قبول کرکے مستقل طور پر یہاں مقیم ہوگئے۔ ملک بشیر نے بتایا جلوموڑ کا جومرکزی قبرستان ہے یہاں آج بھی ان مہاجرین کی قبریں ہیں جو ہندوستان سے ہجرت کے دوران راستے میں زخمی ہوئے اوراس پاک سرزمین پر پہنچ کردم توڑ گئے تھے۔
ان بزرگوں نے بتایا کہ آج کی نوجوان نسل کو ان واقعات سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ یہ آزاد ملک کس قدرقربانیوں اورجدوجہد سے حاصل ہوا تھا۔ ہمیں اس ملک کی قدر کرنی ہے اورجن مقاصد کے لیے یہ پاک سرزمین حاصل کی گئی انہیں پایہ تکمیل کرنا ہے تاکہ قائد اعظم ؒ سمیت ان ہزاروں شہدا کی روحوں کو تسکین مل سکے۔