شہید الاقصیٰ اسماعیل ہنیہ
ان کے جنازے میں شریک تیس لاکھ سے زائد افرادکی شرکت نے صیہونیت پر لرزہ طاری کردیا ہے
بدھ 31 جولائی 2024 کو فجر سے پہلے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی المناک خبر نے پوری امت مسلمہ پر غم کی چادر تان دی، جس جس مسلمان تک یہ افسوسناک خبر پہنچی وہ غم و غصے کی تصویر بن گیا۔ مجھے جب دل دہلا دینے والی خبر ملی میری بھی یہی کیفیت تھی۔ اسماعیل ہنیہ تہران میں میزائل حملے میں شہید ہوئے یا ان کی قیام گاہ میں ریموٹ کنٹرول بم نصب کرکے ان کو شہید کیا گیا، یہ ابھی کنفرم نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ایران میں انقلاب پاسداران کے گیسٹ ہاؤس میں ان کی شہادت نے ایرانی حکومت کے گرد سوالیہ نشان لگا دیا ہے ایران یہ داغ کس طرح اپنے دامن سے مٹائے گا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
ایران اور حماس کی تصدیق کے باوجود میرے لیے یہ خبر ناقابل یقین تھی لیکن جب میں نے رسول مقبول ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قربانیوں، ارض فلسطین کی آزادی کے لیے جاری انقلابی تحریک، امارت اسلامیہ افغانستان، تحریک آزادی کشمیر جیسے دیگر انقلابی تحریکوں کی نوعیت اور مجاہدین کی طرف سے دی گئی قربانیوں پر نظر ڈالی تو میں نے ہوش کے ناخن لے کر اپنے جذبات پر قابو پایا اور اپنے توازن کوبحال کیا۔
بیشک اسماعیل ہنیہ کی زندگی اور ان کے کارناموں کو دیکھتے ہوئے، ان کی شہادت امت مسلمہ کا ناقابل تلافی نقصان اور ایک اہم واقعہ ہے جو فلسطینی جدوجہد اور ان کی تحریک کے لیے بظاہرایک بڑا نقصان ہے لیکن ان کے جنازے میں شریک تیس لاکھ سے زائد افرادکی شرکت نے صیہونیت پر لرزہ طاری کردیا ہے، یہ اس بات کی دلیل تھی کہ مسلم ممالک کے حکمران بیشک بے حسی کی چادرتان کر سو رہے ہیں لیکن امت کا بچہ بچہ اہل فلسطین اور حماس کے ساتھ کھڑا ہے۔
جب اکتوبر2023 میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اسے حماس کی غلطی سمجھ کر سارے حکمران سہم کر رہ گئے تھے تو اس وقت واحد مولانا فضل الرحمن تھے جو حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ سے اظہار یکجہتی کے لیے ان سے ملنے گئے، اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اصولًا تو تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کو ان کے جنازے میں جانا چاہیے تھا مگر ان کی شہادت کے بعد حماس کے زعما سے تعزیت کے لیے جانے میں بھی مولانا فضل الرحمن صاحب سب پر سبقت لے گئے۔ واقعی مولانا دلیر لیڈر ہیں۔ 23 جنوری 1963 کو پیدا ہونے والے اسماعیل ہنیہ فلسطینی سیاست دان اور تحریک حماس کے مرکزی رہنما تھے، جنھوں نے اپنی زندگی فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں گزاری۔ وہ 2023 سے قطر میں مقیم تھے جب کہ وہ اپنی شہادت کے وقت نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران کے سرکاری مہمان تھے۔
اسماعیل ہنیہ کا تعلق غزہ شہر کے ساحل پر واقع شاطی پناہ گزین کیمپ سے تھا، جہاں وہ ایک پناہ گزین خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا تھا۔ انھوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے اونروا کے زیر انتظام قائم کردہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کی بعد ازاں غزہ شہر کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور دوران طالب علمی اسلامی طلبہ تنظیم میں شامل ہوئے جو بعد میں حماس کی صورت میں سامنے آئی۔ 1987 میں اسرائیلی قبضے کے خلاف پہلے انتفادہ کے دوران ہنیہ فلسطینی نوجوانوں کے احتجاج میں شامل رہے اور اسی دوران حماس کی بنیاد رکھی گئی۔
اسماعیل ہنیہ نے صیہونی جبر و استبداد اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جلا وطنی کاٹی۔ آزادی فلسطین کی خاطر ولولہ انگیز قائدانہ سرگرمیوں کی بدولت وہ حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھی بن گئے انھوں نے شیخ احمد یاسین کے پرنسپل سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ اسماعیل ہنیہ نے 2009 میں اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔2017 میں انھیں خالد مشعل کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور 2023 سے وہ قطر میں قیام پذیر تھے۔ 2006 میں فلسطین کے الیکشن میں حماس کی اکثریت کے بعد اسماعیل ہنیہ کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ قرآن مجید فرقان حمید کے بہترین قاری بھی تھے، بدقسمتی سے حماس، فتح اختلافات کے باعث ان کی حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی لیکن غزہ میں حماس کی حکمرانی برقرار رہی اور اسماعیل ہنیہ ہی اس کے سربراہ تھے۔ اسماعیل ہنیہ فلسطین کی بین الاقوامی سفارت کاری کا چہرہ مہرہ تھے۔
ارض مقدس فلسطین کی آزادی کے لیے اسماعیل ہنیہ نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ غزہ میں گزشتہ سال 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی بربریت میں اب تک اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے درجنوں افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اپریل2024میں اسماعیل ہنیہ کے 3 بیٹے، 3 پوتیاں اور ایک پوتا اسرائیلی بمباری سے شہید ہوئے۔ جون 2024 میں اسرائیلی فضائی حملے میں اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے 10 افراد شہید ہوئے۔ حماس کے مطابق7 اکتوبرسے اب تک ہنیہ خاندان کے60 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔
جب آپ کے ساتھی شہید ہوئے یا جب آپ نے اپنے بیٹوں کو کھو دیا۔ اس طرح ان کی شہادت کا سانحہ اس امید کی علامت میں بدل گیا کہ اہل فلسطین فتح کے قریب ہیں، خاص طور پر جب مجھے ان کے خاندان کے افراد کی شہادت یا اپنے بھائیوں کی شہادتوں پر ان کا تبصرہ یاد آتا ہے، تو دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص صلاح الدین ایوبی کے بعدخاص طور پر اللہ رب العزت نے مقدس سرزمین کو صیہونی پنجوں سے نجات دلانے کے لیے بھیجا تھا، جس نے اپنے سمیت اپنے خاندان کو قربان کردیا لیکن صیہونیت کی بالادستی اور قبضے کو برداشت نہیں کیا۔
بہت سے لوگ عالم اسلام کے اس عظیم مجاہد کی شہادت پر مایوسی کا شکار ہیں، ان کے ذہنوں میں طرح طرح کے وسوسے آرہے ہیں، عجیب عجیب سوالات سر اٹھا رہے ہیں، وہ پریشان ہیں کہ کہیں اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے فلسطین کی تحریک آزادی تو دم نہیں توڑ جائے گی۔ ایسے تمام احباب سے گزارش ہے کہ وہ مایوس نہ ہوں،قانون قدرت ہے شہید کا خون کسی صورت رائیگاں نہیں جاسکتا۔ اسماعیل ہنیہ شہید کے خون کی برکت سے اللہ رب العزت بیت المقدس کی آزادی کے مجاہدین کے نئے لشکر تیار کریگا ان شاء اللہ۔
اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں حماس نے فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی اور ان کی شہادت سے فلسطینی عوام کے دلوں میں غم اور غصے کی لہر دوڑ گئی اور ان کے عزم کوپہلے سے بھی زیادہ مضبوط کیا۔ ہنیہ کی شہادت دیگر اسلامی تحریکوں پر بھی وسیع اور دور رس اثرات مرتب کرے گی۔ ان کی شہادت ان تحریکوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد سے تادم تحریر صیہونیت، اس کے سرپرست، سہولت کار اور ہینڈلرز خوفزدہ ہیں۔
کیونکہ اسرائیل نے جس جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے اب اس کے ردعمل سے پوری دنیا خوف کا شکار ہے۔ اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو شہید نہیں کیا بلکہ امن کے لیے کی جانے والی کوششوں پر خود کش حملہ کردیا ہے۔ اس وقت پورا خطہ بدامنی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ جنگ شدت اختیار کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل تو جلے گا، ان شاء اللہ اس کے سرپرست، سہولت کار اور ہینڈلرز بھی نہیں بچیں گے۔