مدارس رجسٹریشن اصل حقائق

ادھر ہمارا پورا عدالتی نظام برٹش لاء کے مطابق فیصلے کرتا ہے، جو انگریز کا ہی وضع کردہ ہے

میجر جنرل (ر) ڈاکٹر غلام قمر ،ڈی جی ، مذہبی تعلیم وفاقی وزارت تعلیم کا 3 اگست 2024 کو ایک قومی اخبار میں '' مدارس رجسٹریشن، حقیقت اور افسانہ'' کے عنوان سے کالم شایع ہوا ہے۔ اس میں مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے بعض باتیں حقائق کے برعکس ہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ ان باتوں کی وضاحت نہایت ضروری ہے۔

کالم میں مدارس رجسٹریشن، یکساں نصاب تعلیم اور اتحاد تنظیمات کے حکومتوں کے ساتھ مذاکرات کو موضوع بنایا گیا ہے۔''مصنف نے تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ 2019میں وزارت تعلیم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق دینی مدارس رجسٹریشن سے انکاری ہیں، اور وہ گورے انگریز کے بنائے ہوئے 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہی مدارس کی رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں "۔ اس سلسلے میں چند گزارشات پیش ہیں :

(1) حقیقت یہ ہے کہ 1860کے سوسائٹی ایکٹ کے قانون کے متعلق یہ بات درست نہیں کی گئی، ہم تو در حقیقت اس ایکٹ کے سیکشن 21 کے تحت رجسٹریشن چاہتے ہیں، 2004 میں سیکشن 21اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دور میں اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان اور حکومت کے مابین کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد حتمی اور طے ہوا تھا۔ وہ سیکشن 21گورے انگریز کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا اور حکومت پاکستان کے اداروں کا طے کردہ ہے۔

اس لیے یہ تاثر دینا غلط ہے کہ ہم گورے انگریزوں کے ایکٹ کے تحت رجسٹریشن چاہتے ہیں ؟ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ 2004 میں طے ہونے والا سیکشن 21 خاص دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ہی ہے۔ ہم نے اس وقت یہ بات کہی تھی کہ اگر اس میں کسی بھی وقت ترمیم کی ضرورت ہو تو وہ بھی باہمی مشاورت سے کی جاسکتی ہے۔یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ہم تو 1860 کے سیکشن 21 کی بات کرتے ہیں جو ہم مسلمانوں نے باہمی مشاورت سے طے کیا ، جب کہ حکومت نے تو 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کو اس کی روح کے مطابق اورتمام دفعات کو من وعن قبول کیا ہوا ہے۔ کیا اب بھی اس ایکٹ کے تحت مختلف ادارے اور سوسائٹیاں رجسٹرڈ نہیں ہوتیں؟ کیا اس ایکٹ کو کبھی ختم کرنے کا سوچا بھی ہے؟۔


ادھر ہمارا پورا عدالتی نظام برٹش لاء کے مطابق فیصلے کرتا ہے، جو انگریز کا ہی وضع کردہ ہے، کیا کبھی اس سے پیچھا چھڑانے کا سوچا گیا؟ ایک پہلو اور بھی ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن میں رکاوٹ کون ہے؟ کہیں یہ دباؤ کسی گورے یا کالے انگریزوں کی طرف سے تو نہیں؟ندر کی بات تو کوئی بھی نہیں بتا رہا۔بہر حال یہ 1860 کا سیکشن 21 متفقہ طور پر طے ہوا ، اب یہ قانون بن چکا ہے۔ اس کے مطابق قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی ہو چکی ہے۔ اور یہ جو وزارت تعلیم میں رجسٹریشن ہے؟ یہ تو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ہے ، اس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ہم جس قانون کی بات کر رہے ہیں وہ باقاعدہ قانون ہے، اور جس کی مصنف بات کر رہے ہیں وہ قانون ہے ہی نہیں۔اس کے علاوہ ہم نے کہا تھا کہ مدارس کے بند اکاؤنٹ کھلوائے جائیں اور نئے اکاؤنٹ کھلوانے میں بھی تعاون کیا جائے ؛ یہاں تو الٹا مدارس کے اکاؤنٹ بند کیے جا رہے ہیں۔ تو معاملہ صاف شفاف کیسے رہا ؟

(2) کالم میں لکھا گیاہے کہ : معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ڈائریکٹریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم کا قیام عمل میں لایا گیا ، مدارس کو چاہیے تھا کہ اپنی رجسٹریشن ڈی جی آر ای کے ساتھ کرتے لیکن اتحاد تنظیمات مدارس نے اپنے زیر انتظام والحاق مدارس کی رجسٹریشن کرانے سے انکار کر دیا وغیرہ۔

اس سلسلے میں عرض ہے کہ مدارس رجسٹریشن کے سلسلے میں کوئی الگ ڈائریکٹریٹ قائم کرنے کی بات تو معاہدے میں شامل ہی نہیں تھی ، معاہدے کا منشاء یہ تھا کہ دینی مدارس کی جو رجسٹریشن پہلے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت وزارت صنعت کے ساتھ ہوتی تھی ، اب وزارت تعلیم میں ہوگی ، جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اسی سادگی کے ساتھ ہوگی جس سادگی کے ساتھ وزارت صنعت میں ہوتی تھی اس کے لیے وزارت صنعت نے نہ کوئی الگ ڈائر یکٹوریٹ قائم کیا تھا نہ ملک بھر میں اس کام کے لیے الگ دفاتر قائم کیے تھے، نہ پانچ سال کے بعد رجسٹریشن کی تجدید ضروری تھی ، البتہ سالانہ کوئف بیشک بھیجے جاتے تھے۔

معاہدے میں 12 ریجنل سینٹر قائم کرنے کی بات تھی ، اس کے متعلق یہی خیال تھا کہ جس طرح ہر ضلع میں وزارت تعلیم کا دفتر ہوتا ہے، انھی میں 12 منتخب اضلاع میں ریجنل دفاتر قائم کر دیے جائیں گے جس کا عملہ وزارت تعلیم سے ہی منسلک ہوگا ، جہاں مدارس کی رجسٹریشن بآسانی سہولت کے ساتھ ہو جایا کرے گی اسی طرح جیسے دینی مدارس کی رجسٹریشن پہلے وزارت صنعت میں ہوتی تھی ، اس کے لیے کوئی الگ عملہ نہیں تھا، کوئی الگ دفاتر نہیں تھے ، جیسے دیگر اداروں اور سوسائٹیوں کی رجسٹریشن ہوتی تھی اسی طرح دینی مدارس کی بھی رجسٹریشن ہو جایا کرتی تھی ، مگر یہ کہ ایک الگ ڈائریکٹریٹ قائم ہوگا ، اس کا الگ عملہ ہوگا ، با قاعدہ اربوں روپے کا فنڈ ہوگا، پھر اس ادارے کے پورے ملک میں ذیلی ادارے ہوں گے؛ یہ چیز معاہدے میں شامل نہیں تھی بلکہ یہ تو قومی خزانے پر مزید بوجھ ڈالنے والی بات تھی۔ معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ ایسے کسی بھی اقدام سے قبل اتحاد تنظیمات مدارس کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ نیز ڈائیریکٹوریٹ کے تحت اتنے بڑے منصوبے کا لازمی نتیجہ یہ قرار دیا جائے گا کہ دینی مدارس اسی ڈائیریکٹوریٹ کے ماتحت اور تابع سمجھے جائیں گے اور زبانی طور پر کہا گیا تھا کہ مدارس وزارت تعلیم سے منسلک ہوں گے ، تابع نہیں ہوں گے، مذکورہ منصوبہ عملی طور پراس کی نفی کرتا ہے۔

پھر یہ بھی کہ ڈی جی آرای کا آفس اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے مدارس رجسٹریشن کے لیے آنے والے حضرات کی سفری مشکلات کا سبب بھی ہوتا۔ بہرحال یہ تمام باتیں معاہدے کے برعکس کی گئیں۔ ملک میں جتنے بھی عصری تعلیمی ادارے ہیں وہ اپنے اپنے ضلع میں متعلقہ محکمے میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں، مدارس کے ساتھ ہی یہ امتیازی سلوک کیوں کہ وہ ضرور ایک الگ تھلگ ادارے سے (جس کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں) منسلک ہوں؟(3)ہم بار بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ دینی مدارس اپنی آزادی اور خود مختاری کو کسی رکاوٹ کے بغیر قائم رکھنے کے لیے پر عزم ہیں، اور کسی حکومتی ادارے کے تابع یا ماتحت ہونے کو گوارا نہیں کر سکتے اور اگر اس آزادی و خود مختار کو باقی رکھنے کے لیے انھیں کوئی بھی قربانی دینی پڑے تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ (جاری ہے)
Load Next Story