حکومت کا 15 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو ختم کرنے کا فیصلہ

201سے زیادہ یونٹ والے بجلی صارفین کے لیے 26روپے فی یونٹ سلیب مقرر کرنے پرغور کیا جا رہا ہے


ویب ڈیسک August 08, 2024
توانائی کے شعبے میں اصلاحات لا رہے ہیں، جس پر عمل یقینی بنایا جائے گا، وفاقی وزیر (فوٹو: فائل)

حکومت نے 15 آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے معاہدے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے مہنگی بجلی سے ستائے عوام کو ریلیف کے لیے اقدامات شروع کر دیئے، وزیر توانائی اویس لغاری کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس نے فریم ورک کو حتمی شکل دے دی۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے 15 آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت 90ء کی دہائی میں قائم 6 آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدے فوری ختم کیے جائیں گے اور 9 آئی پی پیز سے معاہدہ مرحلہ وار بنیادوں پر ختم کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق گل احمد انرجی لمیٹڈ، کوہ نور انرجی، لبرٹی پاور پروجیکٹ، ٹپال انرجی لمیٹڈ، اٹک جنریشن اور کیپ کو کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے مذکورہ آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں میں توسیع نہیں ہوگی۔

حکومتی ذرائع کے مطابق لال پیر، پاک جین، فوجی کبیر والا پاور، حبیب اللہ کوسٹل، جاپان پاور جنریشن، صبا پاور، حب کو، سدرن الیکٹریک پاور، روش پاور کے ساتھ بھی معاہدے مرحلہ وار ختم ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق 90ء کی دہائی میں لگنے والی آئی پی پیز کے ساتھ معاہے آئندہ تین سے پانچ سال میں مرحلہ وار بنیادوں پر ختم کیے جائیں گے۔

دریں اثنا 201 سے زائد یونٹ کے صارفین کے لیے بھی فریم ورک تیار کیا گیا ہے، جس کے مطابق 201سے زائد یونٹ صارفین کو 6 ماہ تک اسی سلیب میں رکھنے کی پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔


201سے اوپر یونٹ کے صارفین کے لیے خصوصی سلیب رکھے جائیں گے۔ 201سے زیادہ یونٹ والے بجلی صارفین کے لیے 26روپے فی یونٹ سلیب مقرر کرنے پرغور کیا جا رہا ہے۔


وفاقی وزیر اویس لغاری نے کہا ہے کہ شعبہ توانائی معیشت کےلیے اہم ہے، اس میں اصلاحات کررہے ہیں اور ان اصلاحات پر عمل بھی یقینی بنائیں گے۔


انہوں نے کہا کہ اصلاحات پرعمل درآمد کےلیے کوآرڈی نیشن ضروری ہے۔ قومی ٹاسک فورس شعبہ توانائی میں اصلاحات پر کام کرے گی۔ 20 نکاتی اصلاحات کاآغاز ہوچکاہے۔ جتنا جلد معاملات کو ٹھیک کریں گے اتنی ہی جلد معیشت پٹڑی پرچڑھے گی۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں