ہنی ٹریپ

کئی سال پہلے اسلام آباد کے ایک بک سیلر بھی ہنی ٹریپ کا شکار ہوئے تھے

fatimaqazi7@gmail.com

پچھلے دنوں سے '' ہنی ٹریپ'' کا ذکر اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر بہت چھایا ہوا ہے۔ ہنی ٹریپ ہے کیا؟ آپ کسی پلیٹ میں شہد ڈال کرکھلا چھوڑ دیجیے، مکھی آئے گی اور اس پر بیٹھے گی، اس کے پنجے شہد میں گڑجائیں گے اور وہ پھر اُڑ نہیں سکے گی۔ پچھلے دنوں لاہور میں بھی ہنی ٹریپ کا کیس سامنے آیا، ورنہ ہنی ٹریپ کے بہت سے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں، لیکن رپورٹ نہیں ہوئے۔ اکثر لوگ تاوان دے کر گھر پہنچ جاتے اور خاموش رہتے ہیں۔

کئی سال پہلے اسلام آباد کے ایک بک سیلر بھی ہنی ٹریپ کا شکار ہوئے تھے۔ ایک لڑکی ان کی شاپ پر اکثر آیا کرتی تھی، جب کئی بار کے آنے جانے کے بعد آشنائی ہوگئی تو ایک دن اس نے انھیں اپنے گھر مدعوکر لیا، موصوف شوگر کے مریض تھے اور روزانہ انسولین لینی پڑتی تھی، جب یہ وہاں پہنچے تو انھیں یرغمال بنا لیا گیا اور ان سے کافی بڑی رقم کا مطالبہ کیا گیا۔ انھیں دو تین دن رکھا گیا، اس عرصے میں ان کا انسولین لینے کا ناغہ ہوگیا، جب جان چھوٹی تو بہت دیر ہو چکی تھی، ان کی بینائی بھی متاثر ہوئی اور سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ کہ ان کی شوگر اتنی شوٹ کرگئی کہ ان کی ٹانگ کاٹنی پڑی۔ اﷲ ان کو غریق رحمت کرے کہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

یہ سوال بہرحال اپنی جگہ اہم ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار اور پڑھے لکھے اور خوشحال لوگ کسی خاتون کی باتوں میں کیسے آجاتے ہیں؟اور بغیر خطرے کا احساس کیے، خاتوں یا لڑکی کے گھر چلے جاتے ہیں یا کسی کو اپنے گھر بلا لیتے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود ستائی یا خود اعتمادی ہوتی ہے کہ شاید وہ یہ سوچتے ہوں کہ وہ کون سے بزنس ٹائیکون ہیں، جو وقت بے وقت کہیں جاتے ہوئے ڈریں؟ لیکن میرا خیال کچھ اور ہے۔ عام طور پر ہنی ٹریپ والے گروہ اس کام کے لیے خوب صورت لڑکیوں کو رکھتے ہیں اور فون پر بات کرنے کے لیے ایسی خواتین کو جن کی آواز اچھی ہو، مترنم ہو تاکہ بندہ آسانی سے پھنس سکے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ خوب صورت عورت مرد کی کمزوری ہے۔ یہ گینگ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر عورتوں کو استعمال کرتے ہیں۔

ہنی ٹریپ کا شکار ہونے والے کئی لوگ شاید اس زعم میں بھی ہوتے ہوں گے اور اس خوش فہمی کا شکار ہوں گے کہ جس خاتون یا لڑکی سے وہ ملنے جارہے ہیں، اس میں اتنی ہمت کہاں ہوگی کہ وہ اس پر ہاتھ ڈال سکے۔ میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔ میں پھر وہی بات کہوں گی کہ عورت مرد کی کمزوری ہے۔ بہت کم مرد ہوتے ہیں جو اس معاملے میں صاحب کردار ہوتے ہیں اور کسی کے خصوصاً عورت کے بہکاوے میں نہیں آتے۔ لیکن ہر زبان پر ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ کسی عورت کے بلانے پر فوراً اس کے گھر پہنچ جانا، سمجھ سے بالاتر ہے ۔ آخر کوئی عورت ایسا کیا سحرگھول کر اپنی آواز میں پلا دیتی ہے کہ بندہ فوراً اس سے ملنے اس کے اپارٹمنٹ جا پہنچے؟


لیکن آج بات کرنے کا موقع ملا ہے تو ڈراموں اور فلموں کے اسپکرٹ اور ڈائیلاگ پر ضرور بات کروں گی، جیسے کچھ عرصہ پہلے ایک کامیاب اور مقبول ڈرامے کا ایک متنازع ڈائیلاگ۔ اس ڈائیلاگ کو سمجھنے کی ضرورت مجھے یوں پیش آئی کہ اس ڈائیلاگ کی معنویت کو سمجھے بغیر اسے رگیدا گیا، دراصل کوئی بھی ڈائیلاگ ایک کردار کے لیے لکھا جاتا اور اس ڈائیلاگ کے ذریعے اس کردار کی ذہنی کیفیت کی عکاسی کرنا مقصود ہوتی ہے، یاد رہے کہ ڈرامہ یا افسانہ یا ناول لکھتے وقت کردار کی عمر، ذہنی کیفیت، اس کی سوچ اور اس کی سماجی حیثیت کے اعتبار سے ڈائیلاگ لکھے جاتے ہیں۔

ہمارے سوشل میڈیا کے بقراطوں کو کوئی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے بس اس پر صلواتیں سنانے میں بڑا مزہ آتا ہے کہ اس میں انھیں کرنا کچھ بھی نہیں پڑتا بلکہ سوال لکھ کر شرکاء کو دے دیے جاتے ہیں اور پنگ پانگ کی گیند کی طرح کبھی کسی کی طرف سوال اچھال دیا، کبھی کسی کی طرف، کبھی ایسے پروگراموں میں سنجیدہ لوگوں کو شرکت کرتے نہیں دیکھا کہ اتنی محنت کون کرے کہ ادیبوں اور لکھاریوں کو بلا کر ان سے بات کی جائے۔

اکثر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ میزبان کو مہمانوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا، میں ایسے کئی پروگراموں میں شرکت کر چکی ہوں جن میں میزبان خاتون کو کوئی نہیں جانتا تھا اور نہ میزبان مہمانوں کے بارے میں۔ اس نے پروڈیوسر کے کہنے کے مطابق گیند مہمانوں کے کورٹ میں ڈال دی کہ وہ خود اپنا تعارف کرائیں اور پھر اس نے لکھے ہوئے سوال پوچھنے شروع کر دیے جو پروڈیوسر نے اسے لکھ کر دیے تھے۔ وہی بات کہ:

ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

بہرحال مرد حضرات کو خصوصاً سرکاری افسران کو یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ کوئی خاتون ان سے بے تکلف بلاوجہ کیوں ہو رہی ہے۔ عموماً سرکاری افسران کے پاس جو کسی اہم عہدے پر ہوتے ہیں یا کوئی بزنس کمیونٹی کا شخص یا کوئی اور اہم شخصیت جسے ''ہنی ٹریپ'' کرنا ہو تو ایسی عورتیں زبردستی لوگوں سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور مرد کی فطری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر جب وہ اسے کہیں ملاقات کے لیے بلاتی ہیں تو وہاں خفیہ کیمرے لگے ہوتے ہیں جو ہر حرکت کو ریکارڈ کر رہے ہوتے ہیں جب بے تکلفی کا معاملہ زیادہ آگے بڑھتا ہے تو کوئی کارندہ پستول لیے اندر آ جاتا ہے اور پھر موبائل پر ساری حرکات و سکنات جو ریکارڈ ہو گئی تھیں، صاحب کو دکھاتا ہے اور پھر رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ بصورت دیگر وہ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پہ ڈالنے کی دھمکی دیتا ہے۔ تب اپنی عزت بچانے کے لیے اس کا مطالبہ پورا کر دیا جاتا ہے اور بدلے میں وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دیتا ہے اور کوئی بھی اس کی ایف آئی آر درج نہیں کرواتا۔ یوں یہ ہنی ٹریپ بدستور شکار کی تلاش میں بچھا رہتا ہے۔
Load Next Story