چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کے لئے نامزد جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ مقدمات کے التوا کا کلچر ختم کرنا ہوگا، اگر ریاستی ادارے آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو عدالت مداخلت کا اختیار رکھتی ہے۔
سپریم کورٹ میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون کی پاسداری کے لئے اگر ریاستی ادارے آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو عدالت کو مداخلت کا اختیار ہے، آئین صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ قوم کی اجتماعی سوچ اور خواہشات کا عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین نےایگزیکٹوسمیت تمام اداروں کے حقوق اور اختیار متعین کردیئے ہیں، آئین میں ریاستی ستونوں کے اختیارات واضح ہیں اور ایگزیکٹو اور قانون سازوں کے غیر آئینی اقدامات کا جوڈیشل ریویو ہو سکتا ہے۔
جسٹس ناصرالملک کا کہنا تھا کہ گڈگورننس قانون پر عمل سےممکن ہے،اداروں کو ایک دوسرے کے امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اگر ریاستی ادارے ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے تو ڈر ہے کہ عوامی حقوق متاثر ہوں گے جبکہ عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے عدلیہ کا فعال کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اس موقع پر سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ آئین کی بالادستی اس وقت ممکن ہے جب عدالت کو کام کرنے دیا جائے، عدلیہ پر قدغن لگانے کے دن بھی دیکھے اور بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ میں چیلنجنگ اور ڈرامائی اتار چڑھاؤ دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ ،بلدیاتی انتخابات اور حلقہ بندیوں کے قانون میں سقم دور کرنا سپریم کورٹ کے اہم اقدامات ہیں۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی کا مزید کہنا تھا کہ آئین پاکستان دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کی بھی عزت کرتا ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے از خود نوٹس لینا شروع کئے اور اسی وجہ سے اوورسیز پاکستانیز سیل قائم کیا جہاں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی داد رسی کی جاتی ہے۔