احسان فراموش

چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پاکستان میں مزید قیام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ ہمارے فہم سے بالا ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

ہمارے وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، نے کہا ہے: '' کیا اِس سانحہ (جرمنی میں پاکستانی قونصلیٹ پر حملہ اسٹینڈ) کے بعد بھی ہم افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے رہیں؟ یہ لوگ احسان فراموش ہیں ۔ پاکستان اب بھی 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے۔ پاکستان نے افغانوں کے لیے رُوس سے جنگ لڑی اور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے ۔''

خواجہ محمد آصف ایسا جہاندیدہ ، تجربہ کار اور بزرگ سیاستدان اتنا تلخ کیوں ہو رہا ہے ؟ کیا پاکستان میں 4عشروں سے زائد عرصے سے مقیم 4ملین سے زائد افغان مہاجرین کے بارے میں پاکستانی سیاستدانوں اور پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ہے ؟یہاں تک کہ وزیر دفاع بھی اپنے ملک کی محبت وتحفظ میں تڑپ اُٹھے ہیں ۔

دراصل پچھلے دنوں ایک ایسے سانحہ نے جنم لیا کہ خواجہ آصف کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ جاری ہو گئے : فرینکفرٹ ( جرمنی ) میں پاکستانی قونصلیٹ پر افغان شر پسندوں نے حملہ کر دیا ۔ہم سب نے ویڈیو میں دیکھا ہے کہ افغانستان کا پرچم پکڑے افغان باشندوں نے پاکستانی سفارتخانے پر لہراتے پاکستانی پرچم کو نہائت توہین آمیز انداز میں اُتارا ۔ پھر اسے نذرِ آتش کرنے کی کوشش بھی کی ۔ حملہ آور مگر کسی کو بتا نہیں سکے کہ اُنہیں پاکستان سے کیا بڑی تکلیف پہنچی تھی کہ اُنہوں نے پاکستانی سفارتخانے پر حملہ بھی کیا اور پھر پاکستانی پرچم کو جلانے کی مذموم اور توہین آمیز کوشش بھی کی ۔

پاکستان کے سبھی اخبارات نے یہ خبر اپنے صفحہ اوّل پر شائع کی ہے ۔ حکومتِ پاکستان نے جرمنی سے بھی احتجاج کیا ہے کہ وہ ویانا کنونشن کے تحت پاکستانی قونصلیٹ کو افغان حملہ آوروں سے بچا نہ سکی ۔ بھارتی میڈیا نے پاکستانیوں کے دل جلانے کے لیے خاص طور پر یہ خبر شائع اور نشر کی ۔عالمی میڈیا کے توسط سے یہ خبر اور ویڈیو ساری دُنیا میں سنائی اور دیکھی گئی ہے ۔مجھ سمیت جس جس پاکستانی نے یہ دل آزار منظر دیکھا ہے ،تڑپ اُٹھاہے۔ اِس سانحہ پر 24کروڑ پاکستانیوں کے افغانستان کی مُلا طالبان حکومت اور پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان باشندوں کے بارے میں جو جذبات ہیں، اِن کا ہم سب بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

خدا کا شکر ہے کہ اِس سانحہ کے بعد پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف فسادات نہیں پھوٹ پڑے( جیسا کہ آجکل برطانیہ میںتارکین وطن کے خلاف زبردست فسادات ہو رہے ہیں) ۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان سمیت جس جس ملک میں افغان مہاجرین گئے ہیں، کوئی ملک ان کی شرارتوں اور مفسدانہ کارروائیوں سے محفوظ نہیں رہا ۔ جرمن میڈیا میں ہمیں درجنوں ایسی مثالیں ملتی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ افغان پناہ گزینوں نے جرمنی میں کیا کیا قیامتیں برپا کررکھی ہیں۔

کئی جرمن شہری ان کے ہاتھوں قتل بھی کیے جا چکے ہیں۔ اِسی لیے جرمنی کے چانسلر اولاف شُلز (Olaf Scholz)نے تنگ آکر کہا ہے کہ ہم قوانین میں ترمیم کرکے جرمنی میں مقیم اُن افغان پناگزینوں کو نکالنے کا پروگرام بنا رہے ہیں جو سنگین جرائم میں ملوث ہیں ۔ ایسے مجرموں کی تعداد کم نہیں ہے ۔ گویا تنگ آ کر ہمارے وزیر خارجہ نے جو کہا ہے ، وہی جرمنی کے چانسلر کہہ رہے ہیں ۔ اِسی لیے پچھلے ماہ جرمنی نے42ایسے افغان پناہ گزینوں کو جرمنی سے نکال باہر کیا تھا جو وہاں سیاسی پناہ کے پردے میں چھپنے کی کوشش کررہے تھے ۔


یہ امر تو اَب مسلّمہ ہو چکا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کا قیام پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے نقصان دِہ ثابت ہورہا ہے ۔ 9 مئی کے خونریز ، تاریخی اور منفرد سانحہ میں بھی کئی افغان باشندے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ طالبان کے افغانستان سے تربیت اور اسلحہ حاصل کرنے والے ٹی ٹی پی دہشت گرد تو ہزاروں کی تعداد میں ہمارے شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کی جانیں لے چکے ہیں ۔

اتنا جانی اور مالی نقصان تو پچھلے 75 برسوں میں بھارتی افواج نے بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو نہیں پہنچایا ہے جتنا نقصان ٹی ٹی پی اور افغان مہاجرین پاکستان کو پہنچا چکے ہیں ۔ اِسی لیے تو پاکستانیوں کی اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ جب تک پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کو بیک بینی و دوگوش نہیں نکالتا ، دہشت گردی کا کنواں صاف اور مصفا نہیں ہوگا ۔ ویسے پاکستانیوں کی اکثریت بجا طور پر یہ سوال بھی کرتی ہے : افغانوں کا کہنا ہے کہ ''امارتِ اسلامیہ افغانستان'' کی وجہ سے افغانستان میں امن اور خوشحالی واپس آ چکی ہے تو پھر پاکستان میں دندناتے یہ لاکھوں افغان مہاجرین اِس ''امارت اسلامیہ افغانستان'' کے ''فیوض و برکات'' سے مستفید ہونے کے لیے پاکستان سے نکل کیوں نہیں جاتے ؟

لیکن حکومتِ پاکستان کی پالیسیاں بھی سمجھ سے بالا ہیں۔ ایک طرف ہمارے وزیردفاع افغان مہاجرین کے بارے تلخ کام ہو رہے ہیں ، خود حکومتِ پاکستان بھی طالبان کی مُلا حکومت سے نالاں اور ناشاد ہے ، لیکن افغان مہاجرین کو ملک سے نکال باہر کرنے کے عملی اقدامات سے گریز پا ہے ۔ جس روز ہمارے وزیر دفاع نے مذکورہ بالا بیان دیا ، اور جس روز جرمنی میں افغان باشندوں نے پاکستانی سفارتخانے پر ہلّہ بولا، اُسی روز یہ خبر آئی کہ پاکستان نے ملک میں افغان مہاجرین کو نکالنے کا فیصلہ ایک سال کے لیے معطل و موخر کر دیا ہے ۔

مذکورہ خبر کے مطابق:'' حکومتِ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک بھر میں مقیم رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی مدت میں( مزید) ایک سال کی توسیع کر دی ہے ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق، اِس فیصلے کا اطلاق یکم جولائی 2024ء سے 30جون 2025ء تک ہوگا۔'' مجھ سمیت وہ سبھی پاکستانی جو پاکستان کو فوری طور پر افغان مہاجرین کے کمر شکن بوجھ سے نجات کی آس لگائے بیٹھے ہیں، حکومتِ پاکستان کے اِس فیصلے سے مایوس ہُوئے ہیں۔

چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پاکستان میں مزید قیام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ ہمارے فہم سے بالا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نے حکومتِ پاکستان پر متنوع قسم کے جو دباؤ ڈال رکھے ہیں ،افغان مہاجرین کے قیام میں ایک سال کی توسیع اِسی کا شاخسانہ ہے ۔ یہ بات مگر لکھ لیجئے کہ افغانوں اور افغانستان کو جتنی مرضی ہے سہولیات فراہم کر دی جائیں ، اِنہیں راضی کیا جا سکتا ہے نہ ڈھب پر لایا جا سکتا ہے ۔ وہ ہل من مزید کہتے رہیں گے۔ پوری پاکستانی قوم حیران ہے کہ جس روز جرمنی میں افغانوں نے پاکستانی قونصلیٹ پر حملہ کیا، اُسی روز یہ خبر بھی آئی کہ پاکستان نے چمن بارڈر ( بلوچستان) پر دھرنا دینے والوں کے سبھی مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں اور 10ماہ سے بند سرحد بھی کھول دی ہے ۔

یہی تو افغانستان کی مُلا طالبان حکومت چاہتی تھی۔ حکومتِ پاکستان کا یہ فیصلہ دراصل طالبان کے لیے وِن وِن پوزیشن ہے ۔ اب افغانی پاسپورٹ اورویزہ کی شرط کے بغیر پھر سے پاکستان آ جا سکیں گے ۔ پھر کسی دہشت گرد اور اسمگلر کی پہچان کیسے ہوگی ؟ حیرانی کی بات ہے کہ چمن بارڈر پر دیے گئے اِس دس ماہی دھرنے بارے ایک ادارے کے سربراہ کی پریس کانفرنس میں بھی ذکر کیا جاتا ہے مگر چمن بارڈر پر پاکستان کی ریاستی رِٹ قائم کرنے سے عملاً گریز کیا گیا ہے ۔ اس فیصلے سے بھی پاکستانیوں کو دھچکا پہنچا ہے ۔ اگر افغانیوں سے ہماری ریاستی محبت اتنی ہی گوڑی اور گہری ہے تو کشمیریوں کے لیے بھی سرحدیں کھول دینی چاہئیں تاکہ مقبوضہ کشمیر کے باسی بھی پاکستانی کشمیر میں بسنے والے اپنے رشتہ داروں سے بغیر کسی ویزہ اور پاسپورٹ کے مل جل سکیں ۔
Load Next Story