حکومت ڈلیور تو کرے

پنجاب (ن) لیگ کا گڑھ کیوں نہیں رہا اس پر میاں نواز شریف نے چار سال لندن میں رہ کر کبھی غور نہیں کیا


Muhammad Saeed Arain August 09, 2024
[email protected]

پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اگرکوئی خطرہ ہے تو پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں حکومت کو مضبوط کرنے کو تیار ہے مگر حکومت ڈلیور توکرے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو اگر خطرہ ہے تو ہم سے شیئرکیوں نہیں کیا؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو خطرہ ہے تو اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرا لے، حکومت اگر صدر زرداری کو اپنے خطرات سے آگاہ کرے گی تو وہ بھی اس سلسلے میں حکومت کی مدد کر سکتے ہیں مگر حکومت انھیں کچھ بتائے گی تب ہی صدر مملکت کوئی کردار ادا کر سکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور آئین پر عمل سے ہی مسائل کا حل نکلے گا۔

اس میں شک نہیں کہ (ن) لیگ کی حکومت خطرات اور مشکلات میں گھری ہوئی ہے جس کی ذمے دار حکومت ہے مگر میاں شہباز شریف نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لیے یہ خطرات مول لیے تھے مگر نواز شریف بھانپ گئے تھے کہ عوام نے مسلم لیگ (ن) کو ان کی خواہش کے مطابق دو تہائی اکثریت توکیا سادہ اکثریت بھی نہیں دی اور مسلم لیگ (ن) جو خود کو پنجاب تک محدود کر بیٹھی تھی کو اس کی ناقص کارکردگی اور مہنگائی کے باعث خود پنجاب میں عوام نے مسترد کر دیا حالانکہ نواز شریف نے پنجاب بھر میں نہیں بلکہ چند علاقوں میں ہی جلسے کیے تھے جب کہ وہ قومی رہنما ہیں۔

جنھوں نے نہ جانے کس خوش فہمی کے باعث ملک میں (ن) لیگ کے لیے انتخابی مہم نہیں چلائی تھی اور وہ صرف ایبٹ آباد کے عوام سے ووٹ مانگنے خود گئے تھے جو (ن) لیگ کا اپنا حلقہ تھا مگر وہاں بھی نواز شریف کے کہنے پر عوام نے (ن) لیگ کو ووٹ نہیں دیے اور وہاں بھی نواز شریف کو ناقابل شکست ہونے کے باوجود حیران کن شکست ہوئی اور اس سے ثابت ہو گیا کہ پی ڈی ایم حکومت میں اپنی ناقص کارکردگی کے باعث اب پنجاب بھی (ن) لیگ کا گڑھ نہیں رہا۔

پنجاب (ن) لیگ کا گڑھ کیوں نہیں رہا اس پر میاں نواز شریف نے چار سال لندن میں رہ کر کبھی غور نہیں کیا اور ان کے قریبی لوگوں نے انھیں ملک کے حقائق سے آگاہ نہیں کیا اور مسلم لیگ (ن) کے مخلص رہنماؤں نے انھیں لندن میں آگاہ کیا اس کے باوجود مسلم لیگ ن کی قیادت نے حقائق جاننے کی کوشش نہیںکی بلکہ صرف انھیں یہی یقین رہا کہ پنجاب ان کا گڑھ ہے ۔ ملک بھر سے (ن) لیگ کو سیاسی نقصان تو میاں نواز شریف اپنے تیسرے اقتدار ہی میں پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔

میاں صاحب نے سندھ سے مسلم لیگ (ن) کے مخلص رہنماؤں کو ناراض اور پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جو پیپلز پارٹی کو پسند نہیں کرتے تھے، وہ پی ٹی آئی میں چلے گئے اور وزیر اعظم نواز شریف نے سندھ پیپلز پارٹی کے حوالے کر دیا تھا جس کے نتیجے میں سندھ میں اب (ن) لیگ برائے نام ہی رہ گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سندھ تو کیا کراچی میں بھی (ن) لیگ پر توجہ دی نہ کراچی والوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کراچی کو کچھ دیا۔

کے پی میں جہاں دس سال پی ٹی آئی کی حکومت تھی وہاں (ن) لیگ کی حکومت نے پی ٹی آئی کی وجہ سے کچھ توجہ ضرور دی مگر اپنا مضبوط ضلع ایبٹ آباد بھی گنوا بیٹھی جہاں سے ان کے داماد کے بھائی تو کامیاب ہوئے تھے مگر 8 فروری کو وہاں سے نواز شریف بھی نہ جیت سکے۔

8 فروری کو (ن) لیگ کی ناکامی کے بعد نواز شریف نے عقل مندی دکھائی اور خود وزیر اعظم نہیں بنے مگر انھوں نے اپنے بھائی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کا شوق ضرور پورا کرا دیا جو پنجاب میں (ن) لیگ کی وفاقی حکومت میں من مانیوں کے عادی مکمل خود مختار وزیر اعلیٰ تو تھے مگر خادم پنجاب کے طور پر اچھی کارکردگی کے باعث ملک میں مشہور تھے مگر وزیر اعظم بن کر شہباز شریف وہ کارکردگی نہیں دکھا پا رہے ہیں، عوام ان سے جو توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ جس کی وجہ سے (ن) لیگ کی حکومت چند ماہ بعد ہی خود کو خطرے میں محسوس کر رہی ہے ۔

اس کی اہم حکومتی پارٹنر پیپلز پارٹی بھی ہیں اور نہیں بھی کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب موجودہ حکومت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ووٹوں سے برقرار ہے اور انھیں اعتماد میں نہیں لے رہی جس کی وجہ سے پی پی رہنما کہنے پر مجبور ہوگئے کہ حکومت اگر خطرے میں ہے تو قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرا لے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی وفاقی کابینہ میں وزراء کی اکثریت مسلم لیگ (ن) کی ہے۔ پیپلزپارٹی وزارتوں میں شامل نہیں ہے جب کہ ایم کیو ایم کے پاس صرف ایک وزارت ہے ۔ وزیر اعظم کسی معاملے پر اپنی کابینہ کو اعتماد میں نہیں لیتے، اس کے بارے میں پیپلز پارٹی کو کیسے پتہ ہے۔لگتا ہے حکومت کو خطرات خود حکومت اور پارٹی کے اندر سے ہیں جو وہ حلیفوں سے بھی چھپا رہی ہے جو بالکل غلط ہے۔

صدر مملکت حکومت کے اتحاد ہیں مگر ان کی پارٹی کے لیڈر کہتے ہیں کہ صدر کو بھی کچھ نہیں بتایا جا رہا اور ملک کی قسمت کے فیصلے وزیر اعظم اپنے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور مریم نواز کے کہنے پر کر رہے ہیں جس سے حکومت خطرات محسوس کر رہی ہے ۔ بہرحال رہی قومی اسمبلی توڑنے کی بات تو وزیر اعظم ایسی غلطی کبھی نہیں کریں گے کیونکہ قومی اسمبلی میں حکومت کے خلاف تحریک اعتماد اول تو پیش نہیں ہوگی اور اگر پیش ہوگئی تو کامیاب نہیں ہوگی۔

البتہ حکومت کو ایک بڑا خطرہ عدلیہ سے ہے کیونکہ عدلیہ کا فیصلہ اس کے لیے مسائل کا سبب بنا ہوا مگر حکومت یہ اظہار بھی نہیں کر سکتی۔ حکومت کا اب سارا دار و مدار پارلیمنٹ پر ہے جہاں وہ اپنے حلیفوں کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتی، اس لیے حکومت من مانی چھوڑے اور سب سے پہلے اپنے حلیفوں کو مجوزہ خطرات کا بتا کر انھیں اعتماد میں لے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔