مہنگی بجلی کا حل
ہمارے لائن لاسز دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ یہ نقصانات عوام کی جیبوں سے پورے کیے جاتے ہیں
ملک میں بجلی کے بھاری بلوں اور شدید مہنگائی کے خلاف جماعتِ اسلامی کا احتجاجی دھرنا راولپنڈی میں جاری ہے۔سخت حبس،دھوپ اور بارشوں میں یہ لوگ حکومت سے عوام کو ریلیف دلوانے کے لیے سختی جھیل رہے ہیں۔ایک بڑے لمبے عرصے کے بعد پاکستان میں عوام کی بھلائی کے لیے ایک تعمیری دھرنا دیا جا رہا ہے ورنہ اس سے پہلے تو حکومتوں کو گرانے اور پیسے بٹورنے کے لیے دھرنے ہوتے رہے ہیں۔
خدا کرے جماعتِ اسلامی کا یہ دھرنا ثمر بار ہو۔بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اس لیے ہم سب کا فرض ہے کہ اس احتجاج کو اس وقت تک جاری رکھنے میں مدد گار ہوں،جب تک عوام کو خاطر خواہ ریلیف نہ مل جائے۔حکومت چاہے گی کہ یہ طوفان گزار دے لیکن یہ اب لوگوں پر ہے کہ وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اتحاد برقرار رکھتے ہیں یا پھر اسی تنخواہ پر کام جاری رکھتے ہیں۔
یہ 1994کی بات ہے،ملک میں بجلی کی پیداوار بہت کم تھی۔اس پیداوار کو بڑھانے کے لیے کوئی لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرنے کے بجائے جز وقتی حل تلاش کیا گیا اور پھر ہر آنے والی حکومت یہی کرتی رہی۔ ہائیڈل بجلی بہت سستی پڑتی ہے لیکن ایک لمبے عرصے سے ملک کے اندر کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا۔ہم علاقائی و گروہی سیاست میں الجھ کر ڈیم نہ بنا سکے۔ہماری پارلیمانی سیاست اگلے الیکشن میں کامیابی سے آگے نہیں سوچتی اور عوام شعور کو چھوڑے بیٹھے ہیں۔
ہم نے اپنے بجلی کے نظام کو بہتر بنانے پر ایک عرصے سے توجہ نہیں دی۔اس وقت ہماری بجلی بنانے کی کل صلاحیت 43 ہزار میگاواٹ ہے جب کہ نہ تو اتنی ضرورت ہے اور نہ ہی اتنی بجلی کو منتقل کرنے کی صلاحیت ہے۔جب ہم بجلی ترسیل کی ایک محدود صلاحیت رکھتے ہیں تو بلا سوچے سمجھے43 ہزار میگاواٹ پیداواری صلاحیت کیوںحاصل کی۔اس کا صاف صاف مطلب ہے کہ متعلقہ وزارت میں ایک لمبے عرصے سے بیٹھنے والے بیوروکریٹس اور سیاست دان اچھی پلاننگ کرنے سے قاصر تھے۔
ہمارے لائن لاسز دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ یہ نقصانات عوام کی جیبوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔وہ افراد جن کو بجلی مفت یا کم قیمت پر مل رہی ہے ان کے حصے کی قیمت بھی عوام ادا کر رہے ہیں۔بجلی بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے ہماری صنعت و حرفت اور زراعت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کارخانے دار بجلی استعمال کرتے ہوئے اور کاشتکار ٹیوب ویل چلاتے ڈرتے ہیں کیونکہ خرچہ بہت ہے۔پی پی پی کے بانی ممبر مرحوم ڈاکٹر مبشر حسن نے آئی پی پیز کو لائسنس دیے جانے کے موقع پر کہا تھا کہ یاد رکھنا بجلی اتنی مہنگی ہو جائے گی کہ ایک بلب جلاتے ہوئے ڈرو گے۔آج وہ وقت آ گیا ہے۔
1994میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بے نظیر بھٹو نے جلدی نتائج حاصل کرنے کے منصوبے پر عمل کیا۔اس وقت ایک اعلیٰ بیوروکریٹ نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ڈسٹری بیوشن کے نظام کو بظاہر موئثر بنانے کے لیے آئی پی پیز کا آئیڈیا دیا۔کسے معلوم تھا کہ ان کا دیا ہوا حل پاکستانی معیشت کو بدحال کر دے گا۔معاہدوں میںکہا گیا کہ بجلی کمپنی جتنی بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہوگی،حکومتِ پاکستان چاہے اتنی بجلی استعمال کرے یا نہ کرے لیکن Capacity Chargesادا کرے گی۔ہمارے بیوروکریٹ یا تو اتنے نا اہل ہیں یا پھر اپنے ذاتی مفاد کے لیے ملک کا بالکل نہیں سوچتے۔وہ عام طور پر ایسے معاہدے کرتے ہیں جن سے باہر نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہوتی۔تمام وزارتوں اور محکموں کے معاہدے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں مسئلے کاحل کیا ہے؟
ہمیں سب سے پہلے تو تمام آئی پی پیز کا Heatاور فورنزک آ ڈٹ کروانا چاہیے۔حکومتِ پاکستان کو آڈٹ کرا کے یقین کر لینا ہو گا کہ جو کیپیسٹی یعنی صلاحیت دکھائی گئی ہے وہ صحیح ہے بھی کہ نہیں۔اگر کمپنیوں کی دی گئی انفارمیشن غلط ہو تو دھوکہ دہی کی بنیاد پر نیا معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔آڈٹ کے علاوہ نرخ بھی چیک کرنے ہوں گے ۔
آئی پی پیز تنصیبات کے لیے حکومت، پاکستان نے ساورن گارنٹی دی ہوئی ہے،اس لیے یہ خیال کرنا کہ ہم انھیں ادائیگیاں روک دیں گے قابلِ عمل نہیں۔اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ کمپنیاں پاکستان کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں کیس کر دیں گی جس سے ملک کا بہت نقصان ہو گا۔اس لیے یہ تو طے ہے کہ ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ایسا کرنے سے ہماری جگ ہنسائی ہو گی،جرمانہ ہو گا،کریڈیبیلیتی پر حرف آئے گا۔چین ہمارا بہت اچھا دوست ملک ہے۔
چین سے درخواست کرنی چاہیے کہ ہماری معیشت اس وقت ان ادائیگیوں کی متحمل نہیں اس لیے ان ادائیگیوں کو چھ سات سال پر پھیلا دیا جائے۔اس سے پاکستانی معیشت سانس لینے کے قابل ہو جائیگی۔اس کے علاوہ گھریلو صارفین کے بجلی بلوں پر سترہ سے اٹھارہ فیصد سیل ٹیکس،ساڑھے سات فیصد ایڈوانس تیکس کے علاوہ ایکسٹرا ٹیکس بھی عائد کیا جاتا ہے۔اگر یہ ٹیکسز فوری طور پر ختم کر دئے جائیں تو گھریلو صارفین کے بلوں پر کم از کم 20فیصد اور صنعتی بلوں پر 30 فیصد ریلیف ممکن ہے۔
بجلی سستی ہونے سے صارفین بجلی کے زیادہ استعمال کی طرف مائل ہوں گے اور صنعت کا پہیہ بھی چل پڑے گا۔بجلی کے زیادہ استعمال سےCapaciy Chargesاور اصل استعمال شدہ بجلی ادائیگیوں میں تفاوت کم ہو جائے گا۔حکومتِ پاکستان وقتی طور پر ایم این ایز اور ایم پی ایز سے بات کر کے ان کو دئے جانے والے فنڈز کو روک کر پی ایس ڈی پی کا حجم کر سکتی ہے۔ منتخب نمایندوں کو قربانی دینی ہو گی۔پاکستانی مالکان کو آگے بڑھ کر اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالنا ہو گا۔
قارئینِ کرام،شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیشی ہیلی کاپٹر میں اگرتلہ پہنچیں اور وہاں سے ایک ہندوستانی ہوائی جہاز میں دہلی پہنچیں۔بھارتی ایجنسیRAWنے بنگلہ دیشی فوج کے ساتھ رابطہ کر کے اس آپریشن کا اہتمام کیا تھا۔بھارتی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی فوج کے ساتھ رابطے میں ہے۔عوامی لیگ کی تنظیم چھاترو لیگ اور پولیس کی فائرنگ سے400معصوم افراد جان بحق ہوئے۔بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس عبوری وزیراعظم ہوں گے۔ بنگلہ دیشن میں نوجوانوں کے ہجوم نے شیخ مجیب،حسینہ واجد اور اندرا گاندھی کے مجسموں کو مسمار کرتے ہوئے گاندھی کلچرل سینٹر کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔طلباء کی ایک تعداد بنگلہ دیش و پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتی نظر آئی۔کاش پاکستان اس وقت ایک خوشحال،ترقی کرتی ریاست کی مثال پیش کرتا۔ہم بے حسوں اور سوئے ہوؤںکے لیے بنگلہ دیش کے واقعے میں بڑا سبق ہے۔
خدا کرے جماعتِ اسلامی کا یہ دھرنا ثمر بار ہو۔بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اس لیے ہم سب کا فرض ہے کہ اس احتجاج کو اس وقت تک جاری رکھنے میں مدد گار ہوں،جب تک عوام کو خاطر خواہ ریلیف نہ مل جائے۔حکومت چاہے گی کہ یہ طوفان گزار دے لیکن یہ اب لوگوں پر ہے کہ وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اتحاد برقرار رکھتے ہیں یا پھر اسی تنخواہ پر کام جاری رکھتے ہیں۔
یہ 1994کی بات ہے،ملک میں بجلی کی پیداوار بہت کم تھی۔اس پیداوار کو بڑھانے کے لیے کوئی لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرنے کے بجائے جز وقتی حل تلاش کیا گیا اور پھر ہر آنے والی حکومت یہی کرتی رہی۔ ہائیڈل بجلی بہت سستی پڑتی ہے لیکن ایک لمبے عرصے سے ملک کے اندر کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا۔ہم علاقائی و گروہی سیاست میں الجھ کر ڈیم نہ بنا سکے۔ہماری پارلیمانی سیاست اگلے الیکشن میں کامیابی سے آگے نہیں سوچتی اور عوام شعور کو چھوڑے بیٹھے ہیں۔
ہم نے اپنے بجلی کے نظام کو بہتر بنانے پر ایک عرصے سے توجہ نہیں دی۔اس وقت ہماری بجلی بنانے کی کل صلاحیت 43 ہزار میگاواٹ ہے جب کہ نہ تو اتنی ضرورت ہے اور نہ ہی اتنی بجلی کو منتقل کرنے کی صلاحیت ہے۔جب ہم بجلی ترسیل کی ایک محدود صلاحیت رکھتے ہیں تو بلا سوچے سمجھے43 ہزار میگاواٹ پیداواری صلاحیت کیوںحاصل کی۔اس کا صاف صاف مطلب ہے کہ متعلقہ وزارت میں ایک لمبے عرصے سے بیٹھنے والے بیوروکریٹس اور سیاست دان اچھی پلاننگ کرنے سے قاصر تھے۔
ہمارے لائن لاسز دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ یہ نقصانات عوام کی جیبوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔وہ افراد جن کو بجلی مفت یا کم قیمت پر مل رہی ہے ان کے حصے کی قیمت بھی عوام ادا کر رہے ہیں۔بجلی بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے ہماری صنعت و حرفت اور زراعت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کارخانے دار بجلی استعمال کرتے ہوئے اور کاشتکار ٹیوب ویل چلاتے ڈرتے ہیں کیونکہ خرچہ بہت ہے۔پی پی پی کے بانی ممبر مرحوم ڈاکٹر مبشر حسن نے آئی پی پیز کو لائسنس دیے جانے کے موقع پر کہا تھا کہ یاد رکھنا بجلی اتنی مہنگی ہو جائے گی کہ ایک بلب جلاتے ہوئے ڈرو گے۔آج وہ وقت آ گیا ہے۔
1994میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بے نظیر بھٹو نے جلدی نتائج حاصل کرنے کے منصوبے پر عمل کیا۔اس وقت ایک اعلیٰ بیوروکریٹ نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ڈسٹری بیوشن کے نظام کو بظاہر موئثر بنانے کے لیے آئی پی پیز کا آئیڈیا دیا۔کسے معلوم تھا کہ ان کا دیا ہوا حل پاکستانی معیشت کو بدحال کر دے گا۔معاہدوں میںکہا گیا کہ بجلی کمپنی جتنی بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہوگی،حکومتِ پاکستان چاہے اتنی بجلی استعمال کرے یا نہ کرے لیکن Capacity Chargesادا کرے گی۔ہمارے بیوروکریٹ یا تو اتنے نا اہل ہیں یا پھر اپنے ذاتی مفاد کے لیے ملک کا بالکل نہیں سوچتے۔وہ عام طور پر ایسے معاہدے کرتے ہیں جن سے باہر نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہوتی۔تمام وزارتوں اور محکموں کے معاہدے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں مسئلے کاحل کیا ہے؟
ہمیں سب سے پہلے تو تمام آئی پی پیز کا Heatاور فورنزک آ ڈٹ کروانا چاہیے۔حکومتِ پاکستان کو آڈٹ کرا کے یقین کر لینا ہو گا کہ جو کیپیسٹی یعنی صلاحیت دکھائی گئی ہے وہ صحیح ہے بھی کہ نہیں۔اگر کمپنیوں کی دی گئی انفارمیشن غلط ہو تو دھوکہ دہی کی بنیاد پر نیا معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔آڈٹ کے علاوہ نرخ بھی چیک کرنے ہوں گے ۔
آئی پی پیز تنصیبات کے لیے حکومت، پاکستان نے ساورن گارنٹی دی ہوئی ہے،اس لیے یہ خیال کرنا کہ ہم انھیں ادائیگیاں روک دیں گے قابلِ عمل نہیں۔اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ کمپنیاں پاکستان کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں کیس کر دیں گی جس سے ملک کا بہت نقصان ہو گا۔اس لیے یہ تو طے ہے کہ ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ایسا کرنے سے ہماری جگ ہنسائی ہو گی،جرمانہ ہو گا،کریڈیبیلیتی پر حرف آئے گا۔چین ہمارا بہت اچھا دوست ملک ہے۔
چین سے درخواست کرنی چاہیے کہ ہماری معیشت اس وقت ان ادائیگیوں کی متحمل نہیں اس لیے ان ادائیگیوں کو چھ سات سال پر پھیلا دیا جائے۔اس سے پاکستانی معیشت سانس لینے کے قابل ہو جائیگی۔اس کے علاوہ گھریلو صارفین کے بجلی بلوں پر سترہ سے اٹھارہ فیصد سیل ٹیکس،ساڑھے سات فیصد ایڈوانس تیکس کے علاوہ ایکسٹرا ٹیکس بھی عائد کیا جاتا ہے۔اگر یہ ٹیکسز فوری طور پر ختم کر دئے جائیں تو گھریلو صارفین کے بلوں پر کم از کم 20فیصد اور صنعتی بلوں پر 30 فیصد ریلیف ممکن ہے۔
بجلی سستی ہونے سے صارفین بجلی کے زیادہ استعمال کی طرف مائل ہوں گے اور صنعت کا پہیہ بھی چل پڑے گا۔بجلی کے زیادہ استعمال سےCapaciy Chargesاور اصل استعمال شدہ بجلی ادائیگیوں میں تفاوت کم ہو جائے گا۔حکومتِ پاکستان وقتی طور پر ایم این ایز اور ایم پی ایز سے بات کر کے ان کو دئے جانے والے فنڈز کو روک کر پی ایس ڈی پی کا حجم کر سکتی ہے۔ منتخب نمایندوں کو قربانی دینی ہو گی۔پاکستانی مالکان کو آگے بڑھ کر اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالنا ہو گا۔
قارئینِ کرام،شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیشی ہیلی کاپٹر میں اگرتلہ پہنچیں اور وہاں سے ایک ہندوستانی ہوائی جہاز میں دہلی پہنچیں۔بھارتی ایجنسیRAWنے بنگلہ دیشی فوج کے ساتھ رابطہ کر کے اس آپریشن کا اہتمام کیا تھا۔بھارتی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی فوج کے ساتھ رابطے میں ہے۔عوامی لیگ کی تنظیم چھاترو لیگ اور پولیس کی فائرنگ سے400معصوم افراد جان بحق ہوئے۔بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس عبوری وزیراعظم ہوں گے۔ بنگلہ دیشن میں نوجوانوں کے ہجوم نے شیخ مجیب،حسینہ واجد اور اندرا گاندھی کے مجسموں کو مسمار کرتے ہوئے گاندھی کلچرل سینٹر کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔طلباء کی ایک تعداد بنگلہ دیش و پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتی نظر آئی۔کاش پاکستان اس وقت ایک خوشحال،ترقی کرتی ریاست کی مثال پیش کرتا۔ہم بے حسوں اور سوئے ہوؤںکے لیے بنگلہ دیش کے واقعے میں بڑا سبق ہے۔