مدارس رجسٹریشن اصل حقائق دوسرا اور آخری حصہ

ہم سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کی آزادی و خود مختاری ، خود داری ، اور حریت فکر و عمل سب سے اہم ہے

(4) جوڈائیریکٹوریٹ برائے مذہبی تعلیم قائم کیا گیا ہے، اْسے سرکاری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم بقدر ضرورت کے لیے استعمال کیا جائے اور اس کے ذریعے اتنی دینی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جائے جو ہر مسلمان کے لیے فرض ِعین ہے۔(5) 2019 میں وزارت تعلیم کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس پر خود وزارت تعلیم نے عمل نہیں کیا۔ مثلاً معاہدہ میں یہ طے تھا کہ جب تک مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم کے ساتھ مکمل نہیں ہو جاتی، ان کی پرانی رجسٹریشن کو تسلیم کیاجائے گا۔ لیکن اس معاہدے کے بعد اس بات کو ایک دن کے لیے بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔معاہدے کی دوسری شق یہ تھی کہ جن مدارس کے اکاؤنٹس بند کیے گئے ہیں، وزارت تعلیم وہ اکاؤنٹ کھلوائے گی بلکہ نئے اکاؤنٹس کھلوانے میں بھی مدد کرے گی، لیکن اس طرح کا کوئی تعاون نہیں ہوا۔ معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ مدارس کے کوائف اکٹھے کرنے کا واحد مجاز ادارہ محکمہ تعلیم ہوگا ، اس پر وزارت تعلیم ، حکومت ، معاہدے پر دستخط کرنے والوں حکومتی عہدیداروں اور متعلقہ اداروں نے عمل نہیں کیا۔

(6)جہاں تک یکساں نصاب تعلیم کی بات ہے تو اس کا ہم نے بالکل انکار نہیں، ہم تو چاہتے ہیں کہ ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو، یکساں نصاب تعلیم کی تدوین میں تو ہم نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور اس میں ہم نے عملی طور پر کام کیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یکساں نصاب تعلیم کو آکسفورڈ اور کیمبرج کے نام سے چلنے والے برینڈڈ عصری تعلیمی اداروں نے بھی تسلیم کیا ہے؟ یقیناً جواب نفی میں ہے۔ مدارس تو اب بھی کہتے ہیں کہ عصری مضامین کا جو بھی قومی نصاب تعلیم ہوگا، اسے اپنے ہاں ضرورت کے مطابق نافذ کریں گے۔ یہاں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ دینی مدارس اپنے ہاں عصری نصاب پڑھا بھی رہے ہیں۔ چناں چہ ابھی پچھلے دنوں میٹرک بورڈ ز کے جو امتحانی نتائج آئے ہیں اس میں ہمارے مدارس کے طلبہ نے اول دوم اور سوم پوزیشنیں لی ہیں ، آپ ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ساہیوال بورڈ ، راولپنڈی بورڈ ، آزاد کشمیر بورڈ ، اسی طرح فیڈرل بورڈ کے امتحانی نتائج کا جائزہ لے لیجیے ، مدارس کے طلبہ ٹاپ پہ نظر آئیں گے۔ اس سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ مدارس اپنے ہاں نہ صرف عصری تعلیم دے رہے ہیں بلکہ ان کا تعلیمی معیار بھی اتنا اعلیٰ ہے کہ طلبہ تعلیمی بورڈز میں ٹاپ پوزیشنیں لے رہے ہیں۔

ہم عصری تعلیم کے مخالف تھے نہ ہیں لیکن بتائیے کہ یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ میں رکاوٹ کون ہے؟ صورت حال تو یہ ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں نے یکساں نصاب تعلیم کے وژن کو قبول نہیں کیا۔ ایلیٹ کلاس کے جو تعلیمی ادارے ہیں ؟ اے لیول یا اولیول کراتے ہیں؛ وہ اسے قبول نہیں کر رہے۔ اب بتائیے کہ دینی مدارس کا اس میں کیا قصور ہے؟

(7) دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے مزید عرض کرتا چلوں کہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب جب پی ڈی ایم کے دور حکومت میں وزیر اعظم تھے ، تو ان سے ہمارے کئی گھنٹے تک مذاکرات ہوئے ، ان مذاکرات میں اس وقت کے وزیر تعلیم ، وزیر داخلہ اور دیگر متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے نمایندے موجود تھے، وزیر اعظم صاحب نے پوری بحث کے بعد ایک مسودے کی منظوری دی، اور حکم جاری کیا تھا کہ اس کے مطابق مدارس کو رجسٹریشن کا اختیار دے دیا جائے ، اس میں دونوں آپشن موجود تھے ، مدارس چاہیں تو اپنے آپ کو 1860ء کے سیکشن 21 کے تحت رجسٹرڈ کرالیں ، چاہیں تو وزارت تعلیم میں رجسٹرڈ کرالیں ، اس سے پہلے بھی مدارس کو اختیار رہا کہ چاہیں تو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوں، چاہیں تو ٹرسٹ کے قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم نے ہدایات جاری کر دیں، اور معاہدے کے مسودے پر دستخط کر دیے یعنی منظوری دے دی تو پھر اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟۔ اس پر بھی ذرا روشنی ڈالی جانی چاہیے۔


پھر جب پی ڈی ایم کی حکومت کا آخری دور تھا ، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی اور یہ عاجز بندہ ایک ہفتہ مسلسل اسلام آباد میں رہے، اس دوران ہماری ملاقاتیں عسکری حکام سے ہوئیں ، وزیر اعظم شہباز شریف صاحب سے حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مسلسل رابطے میں رہے ، ان مذاکرات اور رابطوں کے نتیجے میں ایک مسودے پر اتفاق بھی ہو گیا ، جس میں وزارت تعلیم کے اور اسی شعبے کو جو مدارس کے لیے قائم کیا گیا تھا؛ ان کی تجاویز کو بھی لیا گیا، اور انھیں اس مسودے میں شامل کیا گیا ، اسے خواندگی کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا تاکہ یہ با قاعدہ قانون بن جائے، پھر کیا وجہ ہوئی کہ اچانک اس پر عمل درآمد روک دیا گیا؟ اصل بات جو ہے وہ یہ کہ اس میں رکاوٹ کون بنا؟

ہم سمجھتے ہیں کہ ہم متعلقہ فریق ہیں، ہمارے تحفظات کو سامنے رکھ کر بات کی جائے۔ اور اگر کسی عالمی ادارے کی طرف سے مسئلہ ہے تو ہم اس کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ بہر حال قرائن اور علامات بتاتی ہیں کہ درون خانہ کوئی بات ضرور ہے، اسی لیے جب بھی طویل مذاکرات کے بعد کسی مسودے پر اتفاق رائے ہوتا ہے تو حکومت اچانک پیچھے ہٹ جاتی ہے۔

آخر میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مدارس کی دینی خدمات پر انھیں سراہنے اور ان کی خدمات کے اعتراف میں تنگ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ابھی میٹرک کے امتحانات میں مدارس کے طلبہ نے ٹاپ پوزیشنیں لی ہیں مگر کیا کسی بھی اعلیٰ حکومتی شخصیت یا سرکاری ادارے کی جانب سے اس بات کو سراہا گیا ہے؟ اس کی بجائے الٹا مدارس کو کبھی رجسٹریشن کے نام پر کبھی کوائف طلبی کے نام پر کبھی کسی اور بہانے سے تنگ اور پریشان کرنے کا عمل تسلسل سے جاری رہتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کی آزادی و خود مختاری ، خود داری ، اور حریت فکر و عمل سب سے اہم ہے، ہم اسے دینی علوم کے تحفظ ، امت مسلمہ کی صحیح دینی رہنمائی ، اور علوم اسلامیہ کی اشاعت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ان شاء اللہ اس سلسلہ میں ہم اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔ الحمدللہ تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس و جامعات کی اکثریت اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان میں شامل وفاق و تنظیموں سے وابستہ ہے اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کی مرکزی قیادت محب وطن اور علم وفضل میں مشہور و معتبر شخصیات پر مشتمل ہے اور یہی پاکستان کے تمام دینی مدارس و جامعات کے نمایندہ ہیں۔
Load Next Story