خیالی پلاؤ میں بھی’’بدتمیز‘‘ ہوں
کسی بھی شاگرد کو بدتمیز قرار دے کر کلاس سے نکال باہر کرنا ، استاد کا بہت کارآمد ہتھیار ہے۔
KARACHI:
'' تمہیں استاد سے بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا...تم بدتمیز ہو...!''
استاد صمد پر برہم تھے۔ مؤودب صمد اپنی صفائی میں کہے جا رہا تھا، میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، میں نے فقط آپ کے لیکچر کا عنوان جاننے کی جسارت کی ہے، مگر دوسری طرف استاد کی آنکھیں ابلے جاتی تھیں۔
''بدتمیز...! جانتا ہوں، تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہیں بنے بنائے نوٹس تھمادوں اور تمہیں محنت نہ کرنا پڑے!''
صمد بدستور صفائیاں دیتا رہا ، لیکن جب استاد کسی طالب علم کے درپے ہو جائے تو پھر اس اکیلے کی کہاں چلی ہے۔ لگے سب کے سب صمد کو برا بھلا کہنے دیکھو کیسا ''بدتمیز'' ہے!
کسی بھی شاگرد کو بدتمیز قرار دے کر کلاس سے نکال باہر کرنا ، استاد کا بہت کارآمد ہتھیار ہے۔ صمد ہر استاد سے ہی اس کے لیکچر کے سوالات کرتا اور اسی وجہ سے پوری کلاس کی بھی معلومات میں اضافہ ہوتا۔ کالج انتظامیہ کی طرف سے بھی بہت سی سہولیات حاصل کرانے میں صمد کا نام نمایاں تھا۔ دوسری طرف بہت سے ہم جماعت اس کے باوجود حسد میں ایسے مبتلا تھے کہ ان کا جی چاہتا کہ وہ کسی طرح صمد کو خود سے پیچھے دھکیل دیں۔
بڑھ چڑھ کر ہر استاد سے بات کر لینے سے صمد کا اعتماد کئی گنا بڑھ گیا. اور اب یہ اعتماد طلبہ کے حقوق کے ساتھ اس کے ذاتی تعلقات تک جا پہنچا ۔ پرنسپل سے لے کر مختلف شعبوں تک۔ ہر جگہ اسی کا سکہ چلنے لگا۔ ایسے میں دیگر ہم جماعتوں کی بے چینی بڑھنا فطری تھا... وہ بھی دیگر ہم جماعتوں کی طرح انہیں اپنا حریف تصور کرنے لگا تھا۔ یوں غیر ذمہ دار اساتذہ اور کالج انتظامیہ کے سینے پر مونگ دلنے والا صمد اب غیر متنازع نہ رہا۔
کئی بار اس نے قبل ازوقت امتحانی پرچے حاصل کیے اور اپنی نمایاں کام یابی کو محنت کا پھل قرار دیا۔ وہ اساتذہ میں واضح طور پر اثر رسوخ رکھنے لگا۔ طلبہ کے حقوق کے لیے متحد رہنے والی کلاس اب صمد کی اوچھی حرکتوں پر برہم سی رہنے لگی۔ صمد کا اعتماد بھی غرور بن گیا۔ کالج میں طلبہ کے لیے سب سے زیادہ کام کرنے والے کی حیثیت سے وہ خود ستایش کرتے نہ تھکتا۔
دوسری طرف کالج انتظامیہ طلبہ کے بڑھتے ہوئے حوصلے سے پریشان ہوئے جاتی تھی۔ طلبہ دھڑلے سے ہر چیز پر سوال اٹھاتے اور انہیں چارو ناچار جواب دینا پڑتا۔ بہت سے غیر ذمہ دار اساتذہ انتظامیہ کی ہم آواز تھی کہ طلبہ کو لگام دیا جائے، مگر کیسے؟ اس کے لیے صمد اور باقی کلاس کے درمیان پائی جانے والی سرد جنگ سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے تحت پہلے صمد کو ہدف بنایا گیا۔
انہوں نے محسوس کر لیا گیا تھا کہ پوری کلاس اب صمد کا ساتھ نہیں دے گی۔ چناں چہ آج خلاف معمول بھری کلاس میں صمد کو ''بدتمیز'' قرار دے دیا گیا۔ صمد نے تو صرف اپنے حق کی بات کی تھی، جو اس کا ہی نہیں پوری کلاس کا بھی حق تھا، مگر پوری کلاس تو صمد سے دشمنی میں کچھ اور سوچنے پر تیار ہی نہ تھی۔ اب صمد اپنے ہم جماعتوں اور اساتذہ کے اتحاد کے سامنے تنہا رہ گیا۔
صمد مرغا بنے دہائی دے رہا ہے '' یاروں، میں تو تم میں سے ہوں۔ آخر تم میرا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ میں نے تو تمہاری جنگ بھی لڑی۔ اور میں نے تو فقط اپنے حق کے لیے بات کی تھی۔ دیکھو میرے ساتھ ایسا نہ کرو۔ یہ کارروائی مجھ سے تو شروع ہوئی ہے، کل تمہاری باری بھی آئے گی، مگر کلاس کا تو چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی صمد کی حالت سے لطف اٹھا رہا ہے۔
صمد کو اب یاد آرہا ہے کہ وہ حق کی جدوجہد کرتے کرتے ذاتی مفادات کی دلدل میں اتر گیا تھا. اوپر والوں سے گٹھ جوڑ کرکے بہت سی جگہ پر بددیانتی بھی کی۔ پھر جن کے تعلقات نے اس کے بڑھتا قد اونچا کیا تھا، وہ بھی اس پر ہلہ بولے ہوئے تھے۔
کلاس میں بہت شور مچ رہا ہے۔ سب ہی صمد کے انجام پر شادماں ہیں اور اس کو کالج سے نکالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ فاتحانہ انداز میں بید تھامے ہیڈ ماسٹر کی بانچھیں کھل رہی ہیں۔
میں بھی اسی کلاس کا ایک طالب علم ہوں۔ ہونقوں کی طرح سب دیکھ رہا ہوں۔ ستم یہ کہ صمد کے اوچھے ہتھکنڈوں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی۔ اس لیے مجھے صمد قربانی کا پہلا بکرا نظر آرہا ہے، اور ہیڈ ماسٹر کوئی قصاب، اسی ریوڑ کے ایک بکرے کی طرح خوف زدہ ہو کر پوچھ رہا ہوں ''تمہیں کاہے کی خوشی۔ کیا بات یہیں پر ختم ہو جائے گی؟ انہیں صمد سے جس ''بدتمیزی'' کی شکایت ہے، تو کل ہم سے نہ ہوگی کیا۔ہم بھی اسی جیسے ایک طالب علم ٹھہرے۔ کل کو ہم بھی ''بدتمیزی'' کے الزام میں دھر لئے جائیں گے اور پھر جیون کی باقی گھڑیاں سر جھکا کر بسر کرنا پڑیں گی۔
سماعت تباہ کردینے والے شور میں میری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن گئی ہے. اور مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ کیوں کہ میں بھی ''بدتمیز'' ہوں!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
'' تمہیں استاد سے بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا...تم بدتمیز ہو...!''
استاد صمد پر برہم تھے۔ مؤودب صمد اپنی صفائی میں کہے جا رہا تھا، میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، میں نے فقط آپ کے لیکچر کا عنوان جاننے کی جسارت کی ہے، مگر دوسری طرف استاد کی آنکھیں ابلے جاتی تھیں۔
''بدتمیز...! جانتا ہوں، تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہیں بنے بنائے نوٹس تھمادوں اور تمہیں محنت نہ کرنا پڑے!''
صمد بدستور صفائیاں دیتا رہا ، لیکن جب استاد کسی طالب علم کے درپے ہو جائے تو پھر اس اکیلے کی کہاں چلی ہے۔ لگے سب کے سب صمد کو برا بھلا کہنے دیکھو کیسا ''بدتمیز'' ہے!
کسی بھی شاگرد کو بدتمیز قرار دے کر کلاس سے نکال باہر کرنا ، استاد کا بہت کارآمد ہتھیار ہے۔ صمد ہر استاد سے ہی اس کے لیکچر کے سوالات کرتا اور اسی وجہ سے پوری کلاس کی بھی معلومات میں اضافہ ہوتا۔ کالج انتظامیہ کی طرف سے بھی بہت سی سہولیات حاصل کرانے میں صمد کا نام نمایاں تھا۔ دوسری طرف بہت سے ہم جماعت اس کے باوجود حسد میں ایسے مبتلا تھے کہ ان کا جی چاہتا کہ وہ کسی طرح صمد کو خود سے پیچھے دھکیل دیں۔
بڑھ چڑھ کر ہر استاد سے بات کر لینے سے صمد کا اعتماد کئی گنا بڑھ گیا. اور اب یہ اعتماد طلبہ کے حقوق کے ساتھ اس کے ذاتی تعلقات تک جا پہنچا ۔ پرنسپل سے لے کر مختلف شعبوں تک۔ ہر جگہ اسی کا سکہ چلنے لگا۔ ایسے میں دیگر ہم جماعتوں کی بے چینی بڑھنا فطری تھا... وہ بھی دیگر ہم جماعتوں کی طرح انہیں اپنا حریف تصور کرنے لگا تھا۔ یوں غیر ذمہ دار اساتذہ اور کالج انتظامیہ کے سینے پر مونگ دلنے والا صمد اب غیر متنازع نہ رہا۔
کئی بار اس نے قبل ازوقت امتحانی پرچے حاصل کیے اور اپنی نمایاں کام یابی کو محنت کا پھل قرار دیا۔ وہ اساتذہ میں واضح طور پر اثر رسوخ رکھنے لگا۔ طلبہ کے حقوق کے لیے متحد رہنے والی کلاس اب صمد کی اوچھی حرکتوں پر برہم سی رہنے لگی۔ صمد کا اعتماد بھی غرور بن گیا۔ کالج میں طلبہ کے لیے سب سے زیادہ کام کرنے والے کی حیثیت سے وہ خود ستایش کرتے نہ تھکتا۔
دوسری طرف کالج انتظامیہ طلبہ کے بڑھتے ہوئے حوصلے سے پریشان ہوئے جاتی تھی۔ طلبہ دھڑلے سے ہر چیز پر سوال اٹھاتے اور انہیں چارو ناچار جواب دینا پڑتا۔ بہت سے غیر ذمہ دار اساتذہ انتظامیہ کی ہم آواز تھی کہ طلبہ کو لگام دیا جائے، مگر کیسے؟ اس کے لیے صمد اور باقی کلاس کے درمیان پائی جانے والی سرد جنگ سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے تحت پہلے صمد کو ہدف بنایا گیا۔
انہوں نے محسوس کر لیا گیا تھا کہ پوری کلاس اب صمد کا ساتھ نہیں دے گی۔ چناں چہ آج خلاف معمول بھری کلاس میں صمد کو ''بدتمیز'' قرار دے دیا گیا۔ صمد نے تو صرف اپنے حق کی بات کی تھی، جو اس کا ہی نہیں پوری کلاس کا بھی حق تھا، مگر پوری کلاس تو صمد سے دشمنی میں کچھ اور سوچنے پر تیار ہی نہ تھی۔ اب صمد اپنے ہم جماعتوں اور اساتذہ کے اتحاد کے سامنے تنہا رہ گیا۔
صمد مرغا بنے دہائی دے رہا ہے '' یاروں، میں تو تم میں سے ہوں۔ آخر تم میرا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ میں نے تو تمہاری جنگ بھی لڑی۔ اور میں نے تو فقط اپنے حق کے لیے بات کی تھی۔ دیکھو میرے ساتھ ایسا نہ کرو۔ یہ کارروائی مجھ سے تو شروع ہوئی ہے، کل تمہاری باری بھی آئے گی، مگر کلاس کا تو چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی صمد کی حالت سے لطف اٹھا رہا ہے۔
صمد کو اب یاد آرہا ہے کہ وہ حق کی جدوجہد کرتے کرتے ذاتی مفادات کی دلدل میں اتر گیا تھا. اوپر والوں سے گٹھ جوڑ کرکے بہت سی جگہ پر بددیانتی بھی کی۔ پھر جن کے تعلقات نے اس کے بڑھتا قد اونچا کیا تھا، وہ بھی اس پر ہلہ بولے ہوئے تھے۔
کلاس میں بہت شور مچ رہا ہے۔ سب ہی صمد کے انجام پر شادماں ہیں اور اس کو کالج سے نکالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ فاتحانہ انداز میں بید تھامے ہیڈ ماسٹر کی بانچھیں کھل رہی ہیں۔
میں بھی اسی کلاس کا ایک طالب علم ہوں۔ ہونقوں کی طرح سب دیکھ رہا ہوں۔ ستم یہ کہ صمد کے اوچھے ہتھکنڈوں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی۔ اس لیے مجھے صمد قربانی کا پہلا بکرا نظر آرہا ہے، اور ہیڈ ماسٹر کوئی قصاب، اسی ریوڑ کے ایک بکرے کی طرح خوف زدہ ہو کر پوچھ رہا ہوں ''تمہیں کاہے کی خوشی۔ کیا بات یہیں پر ختم ہو جائے گی؟ انہیں صمد سے جس ''بدتمیزی'' کی شکایت ہے، تو کل ہم سے نہ ہوگی کیا۔ہم بھی اسی جیسے ایک طالب علم ٹھہرے۔ کل کو ہم بھی ''بدتمیزی'' کے الزام میں دھر لئے جائیں گے اور پھر جیون کی باقی گھڑیاں سر جھکا کر بسر کرنا پڑیں گی۔
سماعت تباہ کردینے والے شور میں میری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن گئی ہے. اور مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ کیوں کہ میں بھی ''بدتمیز'' ہوں!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔