مقدمات کی تیسری قسم
آج کوئی ’’چور‘‘ ہے تو کل وہی حکمران ہوتا ہے اورآج کوئی حکمران ہے تو کل چور بھی ثابت ہوتا ہے
اگر کوئی یہ کہتا ہے یا سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک وہی ''تعزیرات ہند'' چل رہا ہے جو ہمارے سبز چشم اور سفید جسم مہربان چھوڑ گئے ہیں تو یہ سراسر غلط ہے، بیشک وہ اپنا بہت کچھ چھوڑگئے ہیں اپنے سبز قدم بھی چھوڑ گئے ، اپنا سفید رنگ بھی اپنے جانشینوں کے خون میں ڈال گئے ہیں لیکن تعزیرات ہند کو ہم نے بدل کر نہ صرف تعزیرات پاکستان بنالیا ہے بلکہ اس میں بہت ساری تبدیلیاں اوراضافے بھی کیے ۔
مثال کے طور پر ان کا تعزیرات ہند تھا اس میں دو ہی قسم کے قوانین ہوتے تھے ایک فوجداری دفعات جن کا تعلق ''جسم'' سے تھا یا جو ''جان'' کی حفاظت کے لیے تھے اور دوسرے دیوانی جو ''مال'' کی حفاظت پر مبنی تھے۔
ویسے وہ زیادہ قصووار بھی نہیں تھے کہ ان دنوں انسان کے پاس یہی دوچیزیں ہوا کرتی تھیں لیکن ان کے جانے کے بعد ہمارے ہاتھ ایک اور بھی آگئی، ''کرسی'' وہ تو تخت والے تھے ان کو کرسی کا مسئلہ نہیں تھا لیکن اپنا تخت تو وہ لے گئے اورہمیں کرسی دے گئے ، ظاہر ہے کہ کرسی بھی قیمتی چیز ہے اوراس کی حفاظت بھی لازمی ہوتی ہے، چنانچہ تعزیرات ہند کو تعزیرات پاکستان بناتے ہوئے جان اورمال کے ساتھ کرسی کی حفاظت کے لیے قوانین بھی لاگو ہوگئے ، انھیں آپ فوجداری اوردیوانی کے ساتھ سیاسی کا مجموعہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی فوجداری جمع دیوانی مساوی سیاسی۔
ظاہر ہے کہ ہرنئی چیز بہت جلد پاپولر ہوجاتی ہے چنانچہ آج سیاسی مقدمات کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کوئی پتھر کنکر بھی اٹھائیے تو اس کے نیچے بھی دوچار سیاسی مقدمات چلے نظر آئیں گے ۔
ایک زمانہ تھا کہ اکثر وکیل دیوانی مقدمات کو زیادہ منہ نہیں لگاتے تھے کہ اس میں محنت زیادہ لگتی تھی اورکمائی کم ہوتی تھی چنانچہ فوجداری مقدمات والے وکیل زیادہ ہوتے تھے اوردیوانی والے کم۔ بلکہ کمائی کے ساتھ ساتھ مشہوری بھی فوجداری مقدمات میں زیادہ ہوتی تھی اورٹاپ کلاس کے وکیل فوجداریاں ہی لیتے تھے
ان ہی دنوں ہمارے محترم شاعر وادیب مورخ و محقق دوست محمد کامل بھی وکالت کا پیشہ کرتے تھے لیکن ہمیں یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کس قسم کے مقدمات لڑتے تھے لیکن ایک دن ہمارے رشتہ داروں میں ایک قتل وقتال کامعاملہ ہوگیا تو رشتہ داروں نے ''وکیل '' کی ذمے داری ہم پر ڈال دی اورہم نے اپنے محترم کامل صاحب سے رجوع کیا۔ لیکن کامل صاحب نے سخت انکار کیا اوریہ پتہ ہمیں اس وقت چلا کہ فوجداری اور دیوانی مقدمات کیا ہوتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ وہ فوجداری مقدمات نہیں لیتے صرف دیوانی مقدمات لڑتے ہیں جو اگرچہ مشکل اورکم انکم والے ہوتے ہیں لیکن ضمیر پر بوجھ نہیں ڈالتے ۔ دیوانی مقدمات میں اگر میں کسی غلط فریق کو جتادوں تو کوئی خاص بات نہیں ، مال، دولت اورجائیداد وغیرہ آنی جانی چیزیں ہیں لیکن اگر فوجداری مقدمات میں کسی بے گناہ کو سزادلاوں یا گناہ گار کو چھٹکارا دلاؤں تو اس کی تلافی کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ جان کاکوئی متبادل نہیں ، نہ مقتول کو واپس لایاجاسکتا ہے نہ پھانسی پانے والے کو ۔ اس لیے میں صرف دیوانی مقدمات لیتا ہوں ۔یہی سے مقدمات اورقوانین کے بارے میں ہماری جانکاری کا آغاز ہوا، اس لیے ہمیں اچھی طرح پتہ ہے کہ سیاسی مقدمات کا بالکل ہی الگ خاندان ہے ان کا ایک حصہ اگر فوجداری ہے تو دوسرا دیوانی ۔ یا یوں کہیے کہ یہ ''بھی ہیں اور وہ بھی '' ہیں یا یہ بھی نہیں اوروہ بھی نہیں ۔
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
بلکہ کہیے تو یہ چوں چوں کا مربہ اوراچار مکس ہوتے ہیں اورسب سے بڑی بات یہ کہ یہ ہوتے ہی نہیں ہے لیکن پھر بھی ''ہوتے'' دکھائی دیتے ہیں اسے شاعرانہ زبان میں کہیں، تو سب مایا ہے ، دھوئیں کے پہاڑ اور رائی کا پربت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن بہترین شعر یہ ہے کہ ؎
بہت شورسنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
ایسے مقدمات کے ڈھول اتنے زورسے بجتے ہیں کہ دوردور تک سنائی دیتے ہیں لیکن جب ڈھول کا پول کھلتا ہے تو بالکل ''پونم پول '' نکلتا ہے جب یہ چلتے ہیں تو یہ بڑے بڑے بیانات آتے ہیں ، بلیک اینڈ وائٹ کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں، ہرطرف ہر جگہ اورہر وقت بس انھیں کے چرچے ،خرچے اورپرچے ہوتے ہیںلیکن آخر میں پتہ چلتا ہے کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا سب کچھ کرم کلایا بند گوبھی نکلتا ہے
صرف پتے ہی پتے اندر کچھ بھی نہیں
کہتے ہیں کہ کسی جگہ ایک پیڑ پر کوئی ڈھول لٹکا ہوا تھا جب ہوا چلتی تھی تو درخت کی ٹہنیوں اورڈھول کے تصادم سے بڑی اونچی آواز بھی نکلتی تھی ۔ ایک گیدڑ کی اس پر نظر پڑی تو سوچنے لگا کہ اگر یہ ہاتھ لگ جائے تو مزے آجائیں گے چنانچہ وہیں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا ، کافی دنوں تک بھوکا پیاسا اس ڈھول کے گرنے کاانتظار کرنے لگا ، آخر قسمت مہربان ہوئی ، تیزبارش اورآندھی چلی تو ڈھول بھی نیچے گرپڑا ، گیدڑجھپٹتا ، ڈھول کے تسمے تو چمڑے کے تھے جس کی بو پاکر گیدڑسرشار ہوکر منہ مارنے لگا لیکن بچارے کو پتہ نہیں تھا کہ بارش سے تسمے کھچے گئے ہیں منہ مارا تو ایک تسمہ منہ پر اتنے زور سے پڑا کہ وہیں پر مرگیا ۔
دراصل یہ سیاسی مقدمات کا سلسلہ سانپ سیڑھی جیسا کھیل ہے آج کوئی سیڑھی چڑھ رہاہے تو اگلا خانہ اسے سانپ کے منہ میں لے جاتا ہے ، سانپ کی دم سے نکلتا ہے تو اگلے خانے میں سیڑھی چڑھتا نظرآتا ہے ۔
آج کوئی ''چور'' ہے تو کل وہی حکمران ہوتا ہے اورآج کوئی حکمران ہے تو کل چور بھی ثابت ہوتا ہے اورآج کل تو ان سیاسی مقدمات کا اتنا زور ہے کہ دیوانی اورفوجداری دونوں قسم کے مقدمات کاغذات ہی میں سڑتے گلتے رہتے ہیں کہ کرسی کے مقدمات بیسٹ سیلر ہوگئے ہیں ؎
شام ہو یا کہ سحر یاد اسی کی رکھنی
دن ہو یا رات ہمیں ذکر انھی کا کرنا
مثال کے طور پر ان کا تعزیرات ہند تھا اس میں دو ہی قسم کے قوانین ہوتے تھے ایک فوجداری دفعات جن کا تعلق ''جسم'' سے تھا یا جو ''جان'' کی حفاظت کے لیے تھے اور دوسرے دیوانی جو ''مال'' کی حفاظت پر مبنی تھے۔
ویسے وہ زیادہ قصووار بھی نہیں تھے کہ ان دنوں انسان کے پاس یہی دوچیزیں ہوا کرتی تھیں لیکن ان کے جانے کے بعد ہمارے ہاتھ ایک اور بھی آگئی، ''کرسی'' وہ تو تخت والے تھے ان کو کرسی کا مسئلہ نہیں تھا لیکن اپنا تخت تو وہ لے گئے اورہمیں کرسی دے گئے ، ظاہر ہے کہ کرسی بھی قیمتی چیز ہے اوراس کی حفاظت بھی لازمی ہوتی ہے، چنانچہ تعزیرات ہند کو تعزیرات پاکستان بناتے ہوئے جان اورمال کے ساتھ کرسی کی حفاظت کے لیے قوانین بھی لاگو ہوگئے ، انھیں آپ فوجداری اوردیوانی کے ساتھ سیاسی کا مجموعہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی فوجداری جمع دیوانی مساوی سیاسی۔
ظاہر ہے کہ ہرنئی چیز بہت جلد پاپولر ہوجاتی ہے چنانچہ آج سیاسی مقدمات کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کوئی پتھر کنکر بھی اٹھائیے تو اس کے نیچے بھی دوچار سیاسی مقدمات چلے نظر آئیں گے ۔
ایک زمانہ تھا کہ اکثر وکیل دیوانی مقدمات کو زیادہ منہ نہیں لگاتے تھے کہ اس میں محنت زیادہ لگتی تھی اورکمائی کم ہوتی تھی چنانچہ فوجداری مقدمات والے وکیل زیادہ ہوتے تھے اوردیوانی والے کم۔ بلکہ کمائی کے ساتھ ساتھ مشہوری بھی فوجداری مقدمات میں زیادہ ہوتی تھی اورٹاپ کلاس کے وکیل فوجداریاں ہی لیتے تھے
ان ہی دنوں ہمارے محترم شاعر وادیب مورخ و محقق دوست محمد کامل بھی وکالت کا پیشہ کرتے تھے لیکن ہمیں یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کس قسم کے مقدمات لڑتے تھے لیکن ایک دن ہمارے رشتہ داروں میں ایک قتل وقتال کامعاملہ ہوگیا تو رشتہ داروں نے ''وکیل '' کی ذمے داری ہم پر ڈال دی اورہم نے اپنے محترم کامل صاحب سے رجوع کیا۔ لیکن کامل صاحب نے سخت انکار کیا اوریہ پتہ ہمیں اس وقت چلا کہ فوجداری اور دیوانی مقدمات کیا ہوتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ وہ فوجداری مقدمات نہیں لیتے صرف دیوانی مقدمات لڑتے ہیں جو اگرچہ مشکل اورکم انکم والے ہوتے ہیں لیکن ضمیر پر بوجھ نہیں ڈالتے ۔ دیوانی مقدمات میں اگر میں کسی غلط فریق کو جتادوں تو کوئی خاص بات نہیں ، مال، دولت اورجائیداد وغیرہ آنی جانی چیزیں ہیں لیکن اگر فوجداری مقدمات میں کسی بے گناہ کو سزادلاوں یا گناہ گار کو چھٹکارا دلاؤں تو اس کی تلافی کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ جان کاکوئی متبادل نہیں ، نہ مقتول کو واپس لایاجاسکتا ہے نہ پھانسی پانے والے کو ۔ اس لیے میں صرف دیوانی مقدمات لیتا ہوں ۔یہی سے مقدمات اورقوانین کے بارے میں ہماری جانکاری کا آغاز ہوا، اس لیے ہمیں اچھی طرح پتہ ہے کہ سیاسی مقدمات کا بالکل ہی الگ خاندان ہے ان کا ایک حصہ اگر فوجداری ہے تو دوسرا دیوانی ۔ یا یوں کہیے کہ یہ ''بھی ہیں اور وہ بھی '' ہیں یا یہ بھی نہیں اوروہ بھی نہیں ۔
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
بلکہ کہیے تو یہ چوں چوں کا مربہ اوراچار مکس ہوتے ہیں اورسب سے بڑی بات یہ کہ یہ ہوتے ہی نہیں ہے لیکن پھر بھی ''ہوتے'' دکھائی دیتے ہیں اسے شاعرانہ زبان میں کہیں، تو سب مایا ہے ، دھوئیں کے پہاڑ اور رائی کا پربت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن بہترین شعر یہ ہے کہ ؎
بہت شورسنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
ایسے مقدمات کے ڈھول اتنے زورسے بجتے ہیں کہ دوردور تک سنائی دیتے ہیں لیکن جب ڈھول کا پول کھلتا ہے تو بالکل ''پونم پول '' نکلتا ہے جب یہ چلتے ہیں تو یہ بڑے بڑے بیانات آتے ہیں ، بلیک اینڈ وائٹ کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں، ہرطرف ہر جگہ اورہر وقت بس انھیں کے چرچے ،خرچے اورپرچے ہوتے ہیںلیکن آخر میں پتہ چلتا ہے کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا سب کچھ کرم کلایا بند گوبھی نکلتا ہے
صرف پتے ہی پتے اندر کچھ بھی نہیں
کہتے ہیں کہ کسی جگہ ایک پیڑ پر کوئی ڈھول لٹکا ہوا تھا جب ہوا چلتی تھی تو درخت کی ٹہنیوں اورڈھول کے تصادم سے بڑی اونچی آواز بھی نکلتی تھی ۔ ایک گیدڑ کی اس پر نظر پڑی تو سوچنے لگا کہ اگر یہ ہاتھ لگ جائے تو مزے آجائیں گے چنانچہ وہیں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا ، کافی دنوں تک بھوکا پیاسا اس ڈھول کے گرنے کاانتظار کرنے لگا ، آخر قسمت مہربان ہوئی ، تیزبارش اورآندھی چلی تو ڈھول بھی نیچے گرپڑا ، گیدڑجھپٹتا ، ڈھول کے تسمے تو چمڑے کے تھے جس کی بو پاکر گیدڑسرشار ہوکر منہ مارنے لگا لیکن بچارے کو پتہ نہیں تھا کہ بارش سے تسمے کھچے گئے ہیں منہ مارا تو ایک تسمہ منہ پر اتنے زور سے پڑا کہ وہیں پر مرگیا ۔
دراصل یہ سیاسی مقدمات کا سلسلہ سانپ سیڑھی جیسا کھیل ہے آج کوئی سیڑھی چڑھ رہاہے تو اگلا خانہ اسے سانپ کے منہ میں لے جاتا ہے ، سانپ کی دم سے نکلتا ہے تو اگلے خانے میں سیڑھی چڑھتا نظرآتا ہے ۔
آج کوئی ''چور'' ہے تو کل وہی حکمران ہوتا ہے اورآج کوئی حکمران ہے تو کل چور بھی ثابت ہوتا ہے اورآج کل تو ان سیاسی مقدمات کا اتنا زور ہے کہ دیوانی اورفوجداری دونوں قسم کے مقدمات کاغذات ہی میں سڑتے گلتے رہتے ہیں کہ کرسی کے مقدمات بیسٹ سیلر ہوگئے ہیں ؎
شام ہو یا کہ سحر یاد اسی کی رکھنی
دن ہو یا رات ہمیں ذکر انھی کا کرنا