حکومت کے پہلے سودن

لیڈر، قائد یارہنما کیا مختلف شخصیات کے پرتو ہیں یا پھر یہ تمام الفاظ ایک ہی انسان میں یکجا ہوجاتے ہیں

raomanzarhayat@gmail.com

لیڈر، قائد یارہنما کیا مختلف شخصیات کے پرتو ہیں یا پھر یہ تمام الفاظ ایک ہی انسان میں یکجا ہوجاتے ہیں!کیا ایک اچھے حاکم کا ملنا حالات کے استحقاق پر منحصر ہے یا یہ قدرت کا ایک انعام ہوتا ہے!کیا یہ بھی ضروری ہے کہ کسی بھی قوم کے مشکل مراحل میں کوئی انسان سامنے آجائے اور قافلے کو منزل کی جانب گامزن کردے!اگر سوچ کے دھارے کو اس سے بھی آگے لے کر چلیں،توکئی کامیاب اقوام کو اچھے حکمران تسلسل سے کیوں ملتے رہتے ہیں! میں سویڈن، ناروے، جرمنی اورڈنمارک کا توذکر ہی نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ ان ممالک کے نظام لوگوں کی بہبود کے زاویہ سے اتنے توانا ہوچکے ہیں کہ اب شائد ان کے ملکی سیاسی نظام میں اوسط درجے کا وزیراعظم یا صدر بھی ملک کو ترقی کے راستے سے ہٹا نہیں سکتا۔

حد تویہ ہے کہ پچھلے دس بارہ برس میں افریقی ممالک کے حکمرانوں نے پُرتاثیر معاشی ترقی اوراپنے لوگوں کے لیے امن کا سایہ قائم کردیاہے۔ان تمام معاملات پر نظر ڈالنے کے بعد ایک فطری سوال ہر اہل فکر کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ ہمارے ملک کے معاملات اتنی پستی کی جانب رواں کیوں ہیں؟ امید کی ہر کرن ہمارے ملک کی دہلیز پر آکر دم کیوں توڑ دیتی ہے! الیکشن اپنے اندر عام آدمی کے لیے مصائب کا ایک نیا طوفان کیوں لے کر آتاہے؟

امریکی صدر روز ویلٹ نے کہا تھا کہ آپ کسی بھی حکمران کا مستقبل ایک بنیاد پر آسانی سے بتاسکتے ہیں کہ اس کی حکومت کے پہلے سو دن کیسے گزرے ہیں۔اس نے کتنے مشکل فیصلے کیے ہیںاوراس کی لوگوںکے مسئلوںکوحل کرنے کے متعلق انداز فکر کیاہے۔سنگاپور1965میں آزادہوا۔لی کوآن یو اس وقت سنگاپور کا وزیراعظم تھا۔وہ اپنے ملک کو ترقی کی معراج پر لے جانے کے لیے ہر وقت سوچتا اورمحنت کرتارہتاتھا۔وہ کئی کئی راتیںمسلسل جاگتاتھا۔کام کی زیادتی سے وہ بیمار ہوگیا۔برطانوی وزیراعظم ہیرلڈ ولسن نے اس کی خیریت اورصحت کے متعلق تشویش کا اظہار کیا۔لی کوآن یو کا جواب انتہائی مضبوط تھا۔اُس نے کہا "آپکو سنگاپور کے متعلق کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے۔

مصیبت کے اس وقت کے دوران میں اورمیری ٹیم دانا اورمنطقی انداز میں کام کرنے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔ہم سیاست کی شطرنج پر کوئی بھی چال چلنے سے پہلے اس کے ردعمل پر لاکھوں بارسوچیں گے" سنگاپور میں مختلف مذاہب اورقومیت کے لوگ رہتے تھے۔لی کوون یو نے سرکاری سطح پر مذہبی ہم آہنگی کی فضا کو فروغ دیا۔ ملک میں مختلف قوموں جیسے ملایااور چینی نژاد افراد کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی سرکاری پالیسی اپنائی۔ان دونوں کاموں کے لیے ریاست کی طاقت کو بھر پور طریقے سے استعمال کیاگیا۔اس نے کسی بھی مذہب کے شدت پسندوں کو پذیرائی نہیں دی۔سنگاپور آزادی کے وقت بہت زیادہ دفاعی خطرات کا شکار تھا۔

لی کوآن نے دنیا کے بہترین ملکوں سے ماہرین کو اکٹھا کرکے اپنی فوج اورپولیس کے محکمہ کو ایسے شاندار خطوط پر ترتیب دیاکہ آج سنگاپور دنیا کا محفوظ ترین ملک ہے۔اس نے ایک" نیشنل سروس"قائم کردی۔اٹھارہ برس کے لڑکوں کو فوج،پولیس اورسول ڈیفنس کی لازمی ٹریننگ دی جانے لگی۔اس کے دور رس فیصلوں کی بدولت آج سنگاپور میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔آزادی کے وقت ملک میں کرپشن کا راج تھا۔

لی کوآن یو نے اس کرپشن کو روکنے کے لیے قانون کے ذریعے ایک نیا محکمہ بنایا۔اس محکمہ کا نامCorrupt Practices Investigation Bureauتھا۔اس محکمہ کے پاس کسی بھی سرکاری یا نجی شعبے میں کرپشن کے خلاف تحقیقات کے لامحدود اختیار تھے۔بطور وزیراعظم اس نے اپنے پورے دور حکومت میں اس محکمہ کے سربراہ کو کبھی کوئی سفارش نہیں کی۔کسی کو جرات نہیں تھی کہ وہ تحقیقات میں دخل اندازی کرسکے۔اسے محسوس ہوا کہ کرپشن کی ایک وجہ سرکاری ملازمین کی کم تنخواہ ہے۔چنانچہ اس نے ججز،وزراء اورسرکاری ملازمین کی تنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر کے برابر کردیں۔آج سنگاپور میں کسی بھی سطح پر کوئی کرپشن نہیں۔

اسکول میں ایک مرتبہ دیر سے آنے پر لی کوآن کو ہیڈ ماسٹر نے بید مارے تھے۔اس کے بعد وہ کبھی کسی جگہ تاخیر سے نہیں پہنچا۔اس کے ذہن میں یہ سزا نقش ہوچکی تھی۔اس نے بیالیس کے قریب جرائم کی سزا مجرم کو بید مارنا رکھی۔یہ سزا منشیات کے عادی اشخاص اورغیر قانونی طریقے سے سنگاپور آنے والے لوگوں کو خصوصی طور کو دیجاتی تھی۔پوری دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس سزا کی بھر پور مخالفت کی۔مگر وہ کہتا تھا کہ مغربی ممالک کو سنگاپور کے مقامی حالات کا کوئی علم نہیں ہے۔وہ ہر جگہ اپنی مثال دیتا تھا کہ بچپن میں چھ بید کھانے کے بعد وہ پوری زندگی کے لیے وقت کی پابندی کو سمجھ چکا ہے۔


یہ سزا سنگاپور میں آج بھی موجود ہے۔لی کوآن یو نے اپنی انتظامیہ کو ایک تاریخی جملہ کہا،"اگر میں بستر مرگ پر بھی ہوایامجھے قبر میں دفن کیاجارہاہوا،اورمجھے معلوم ہوا کہ سنگاپور میں کوئی غلط کام ہورہا ہے، تو میں بستر مرگ اورقبر سے بھی اٹھ کر واپس آئونگااوراس غلطی کو روکنے کی بھر پور کوشش کرونگا"۔میری دانست میں اس کے بعد مجھے لی کوآن یو کی اپنے ملک کے ساتھ ذہنی وابستگی کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ان تمام فیصلوں کی بنیاد پہلے سودن میں رکھی گئی۔

برطانیہ میں1945کے بعد پہلی بار مخلوط حکومت وجود میں آئی ہے۔ڈیوڈ کیمرون اس حکومت کے انتظامی سربراہ ہیں۔جب ان کی حکومت وجود میں آئی تو برطانیہ اقتصادی طور پر شدید دبائو کا شکار تھا۔کچھ ماہر معاشیات یہ بھی کہتے تھے کہ برطانیہ کی حالت یونان جیسی ہوسکتی ہے۔اس کا مطلب تھا کہ وزیراعظم کو انتہائی سنجیدہ اورتکلیف دہ فیصلے کرنے تھے۔مخلوط حکومت کے ہوتے ہوئے یہ کام نہ صر ف بہت مشکل تھا بلکہ یہ بھی خدشہ تھا کہ عوامی ردعمل بہت منفی ہوگا۔مگر وزیراعظم اوران کی کابینہ نے اپنے پہلے سودن میں بہت مشکل مگر حیرت انگیز فیصلے کیے۔

یہ ایک خاموش طرز کا معاشی انقلاب تھا۔برطانیہ کے وزیراعظم نے تمام وزراء سے سرکاری گاڑی اورسرکاری ڈرائیور کی سہولت واپس لے لی۔وزراء کے لیے ایک گاڑیوں کا پول بنادیاگیا۔جس وزیر کو کہیں جانے کی ضرورت ہوتی تھی۔وہ گاڑی کو مرکزی پول سے منگوالیتا تھا۔ ڈیوٹی کے بعد سرکاری کار واپس چلی جاتی تھی۔تمام وزراء کی تنخواہ کو پانچ فیصد کم کردیاگیا۔پرائمری صحت کے ٹرسٹ اورتمام ہیلتھ اتھارٹیوں کو ختم کردیاگیا۔عام لوگوں کی سہولت کے لیے مقامی ڈاکٹروں کو 80بلین پائونڈ دیے گئے۔چنانچہ عام لوگوں کے لیے نجی شعبے کے برابر کی طبی سہولیات فراہم ہونی شروع ہوگئیں۔یوکے کی فلم کونسل کو بند کردیا گیا۔

نومقامی ترقیاتی اداروں کا تنقیدی جائزہ لیاگیا۔ معلوم ہوا کہ یہ ترقیاتی ادارے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔انھیں ختم کر کے مقامی معاشی اشتراک شروع کردیاگیا۔ کائونٹی کی جن عدالتوں کی کارگردگی تسلی بخش نہیں تھی۔انکو بھی بند کردیاگیا۔اس طرح 157 عدالتیںبند کر دی گئیں۔تعلیمی شعبے میں سات سو پروجیکٹ بند کردیے گئے کیونکہ یہ حکومت سے ملنے والی گرانٹ کے باوجود معیاری تعلیم مہیا نہیں کرپارہے تھے۔یہ کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔یہ55بلین پائونڈ کی وہ امداد تھی جو ان تعلیمی اداروں کو دی جارہی تھی۔یہ تھے پہلے سو دن کے فیصلے!

نیلسن مینڈیلانے جب سائوتھ افریقہ میں حکومت سنبھالی تو معاملات خطرناک حد تک مخدوش تھے۔پورے معاشرہ میں انتشار اورانتقام کی فضا تھی۔لیکن نیلسن مینڈیلاکے پہلے سودن کے فیصلوں نے ہر چیز تبدیل کردی۔ اس نےTruth and Reconciliation Commissionبنایا۔اس کمیشن کے پاس کوئی عدالتی اختیار نہیں تھا۔اس کا کام صرف اورصرف واقعات کی حقیقت کو جاننا اورزخموں پر مرہم رکھنا تھا۔مینڈیلا اپنے بدتر ین دشمنوں کے پاس خود گیا۔انکو یقین دلایا کہ انھیں کسی انتقامی کاروائی کا نشانہ نہیں بنایاجائیگا۔پھر اس نے ان دشمنوں سے التجا کی کہ وہ حکومتی معاملات میں اس کی رہنمائی کریں۔

پہلے سو دن میں وہ ایک عارضی دستور،بنیادی حقوق کا چارٹر اورقوم کی تعمیرنو کے لیےReconstruction and Development Programreبناچکاتھا۔اس نے ہر ترقیاتی منصوبہ کو مقامی لوگوں کی کمیٹی کے حوالے کردیا۔اس نے بچوں اورعورتوں کے لیے طبی سہولتیں مفت کردیں۔شدید غربت کی بدولت لوگ اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتے تھے۔اس نے تمام پرائمری اسکولوں میں بچوں کے لیے مفت کھانے کا انتظام کرڈالا۔جنگ سے متاثرہ علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر سڑکوں،اسکولوں،بجلی کی فراہمی اورہسپتالوں کا جال بچھا دیاگیا۔

کیپ فلیٹس اور پورٹ الزبتھ جیسے تباہ حال علاقوں کو ہر طریقے سے بہتر بنانے کے عملی اقدامات شروع کردیے۔نیلسن مینڈیلا کہتاتھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ہر بات صیح کرتا ہو اوراس کا ہر فیصلہ درست ہو۔ اس کی کسی بھی پالیسی سے اختلاف کرنا ایک جائز حق ہے۔وہ تنقید کرنے والے گروپ یا اشخاص کے پاس چلاجاتاتھا اوران کی رائے سے اپنے تمام پروگرام بہتر کرنے کی کوشش میں لگا رہتاتھا۔اس نے مشاورتی عمل میں سب کو شامل کر کے ایک قومی اتفاق رائے قائم کرڈالا۔یہ اس کے پہلے سو دن کے فیصلے تھے۔آج سائوتھ افریقہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

جب میں اپنے ملک کے حالات کی طرف نظر ڈالتا ہوں تودل ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ہر سیاست دان دوسرے سے ناراض ہے۔سیاسی اختلافات اب ذاتی اورشخصی دشمنیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔اب تو سرکاری ملازم بھی سیاسی تفریق کا شکار ہیں اوروزیر اعلیٰ اوروزیر اعظم کا نام استعمال کرکے ایک دوسرے سے بدلے لے رہے ہیں۔ہر حکومت کی اَسی فیصد طاقت اپنے آ پ کو بچانے میں صرف ہورہی ہے!انتہائی عامیانہ اور سطحی طرز کی پروپیگنڈا جنگ شروع ہے!کوئی بھی ایسا مدبر نہیں جو زخموں پر مرہم رکھ سکے!کوئی بھی نہیں جو ہر سیاسی طاقت کے بہترین دماغ اکٹھا کرکے ملک کے لیے ترقی کی راہ نکال سکے!ہماری ہر حکومت کے پہلے سو دن بھی ان کے آخری سو دنوں کی طرح ہوتے ہیں!
Load Next Story