نئی خلافت کا چیلنج

عراق اور شام کی خانہ جنگی میں ملوث تنظیم داعش نے خلافت کے قیام کا اعلان کرکے مسلم دنیا


Dr Tauseef Ahmed Khan July 04, 2014
[email protected]

عراق اور شام کی خانہ جنگی میں ملوث تنظیم داعش نے خلافت کے قیام کا اعلان کرکے مسلم دنیا کو ایک نئے چیلنج سے دوچار کردیا۔ تنظیم دولت اسلامی عراق ، شام )آئی ایس آئی ایس(ISISنے شام اور عراق میں زیر کنٹرول علاقوں میں خلافت کے قیام کا فیصلہ کیاہے۔ تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو خلیفہ مقررکیا گیاہے۔ خلیفہ ابو بکر البغدادی کا کہنا ہے کہ وہ تمام مسلمان حکمرانوں کے خلیفہ ہیں اور خلافت کا دائرہ عرب ممالک، ایران ، پاکستان ، افغانستان سے لے کر یورپ تک وسیع ہوگا۔

برطانوی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ تنظیم نے اسلامی خلافت کاایک نقشہ بھی جاری کیا ہے، یہ تنظیم 5 سال کے دوران اپنی خلافت کی حدود میں توسیع کرے گی ۔ایس آئی ایس اپریل 2013 میں عراق میں متحرک القاعدہ سے علیحدہ ہوکر وجود میں آئی۔

یہ تنظیم شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے متحرک رہی ، اس تنظیم میں پاکستان دوسرے اسلامی ممالک یورپ خاص طور پر برطانیہ میں آباد مسلمان شامل ہیں۔ جب گزشتہ ماہ آئی ایس آئی ایس کے جنگجوئوں نے عراق کے شہر موصل پر قبضہ کیا تو بین الاقوامی سطح پر اس تنظیم کی اہمیت کو محسوس کیا گیا ، موصل پر فیصلے کے بعد امریکا اور ایران میں عراق کی اس تنظیم کی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے پہلی دفعہ رابطہ ہوا ، امریکا اب کرد اور سنی مسلمانوں کو عراق کی حکومت میں شامل کرکے آئی ایس آئی ایس کی پیش قدمی روکنے کی حکمت عملی تیارکررہا ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے رہنما ابو بکر البغدادی 1971میں عراق کے شہر سمارا میں پیداہوئے جب امریکا نے 2003میں عراق پر حملہ کیا تو البغدادی امریکا اور اتحادی فوجوں کے خلاف مزاحمتی تحریک میں شامل ہوگئے ، البغدادی 2010میں القاعدہ کے ایک متحرک رہنما کی حیثیت سے ذرائع ابلاغ کے سامنے آئے جب القاعدہ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت میں حصہ بننے لگی اس گروہ نے مارچ 2013میں شام کے شہر رافع پر قبضہ کیا۔ اس سال جنوری میں جب عراقی حکومت اورسنی اقلیت میں کشیدگی بڑھی تو آئی ایس آئی ایس نے عراق کے شہر فلوجہ پر قبضہ کیا۔

اس تنظیم نے ترکی اور شام سے متصل کئی شہروں پر اپنی حاکمیت قائم کرلی ہے، مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی دنوں میں سعودی عرب ، خلیجی ممالک کے شیوخ نے آئی آیس آئی ایس کو مالیاتی امداد فراہم کی ۔ کویت کی حکومت شا م کے صدر بشارالاسد کے خلاف اس تنظیم کی مزاحمت پر بہت خوش تھی اور تنظیم کو بڑے پیمانے پر فنڈز فراہم کیے تھے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس نے شام میں اپنے زیر کنٹرول علاقے سے قیمتی نوادرات فروخت کرکے خاطر خواہ دولت حاصل کی ۔

برطانیہ کے ایک ماہر پروفیسر نیوسن کا کہنا ہے کہ موصل پر قبضے سے پہلے آئی ایس آئی ایس کے اثاثہ جات 900ملین ڈالر تھے جو بڑھ کر 2بلین ڈالر تک پہنچ گئے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ القاعدہ کے رہنما الظواہری نے ہدایات دی تھی کہ یہ تنظیم شام تک محدود رہے مگر البغدادی نے القاعدہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خلافت کا اعلان کیا ہے ، دنیا میں افغانی طالبان رہنما ملا عمرکی خلافت موجود ہے ۔ ملا عمرکواب بھی القاعدہ کی حمایت حاصل ہے ، اسلامی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ ایک وقت میں دو خلیفہ موجود ہیں ، اب مسلمان کس کی اطاعت کریں گے یہ سوال اہم ہے۔

معروف تجزیہ کار اور سینئر صحافی Robert Fisk اس صورتحال کو تاریخی تناظرمیں دیکھتے ہیں کہ ان کا کہنا ہے کہ شمالی اور مشرقی شام اور جنوبی عراق پر سنی فرقے کے کنٹرول کی لڑائی ہے ، پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کے بکھرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کی سازش سے نافذ ہونے والا نقشہ مکمل طور پر بدل جائے گا، یوں عراق ،شام،لبنان ، فلسطین کی حدود تبدیل ہوجائیں گی ۔ گزشتہ صدی کی آخری تین دہائیوں میں امریکا نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں مذہبی اور فرقہ وارانہ جنون کو سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کے خاتمے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرکے مسلمانوں کے لیے حیرت انگیز مسائل پیدا کیے ، ایران میں شاہ ایران کے خلاف مذہبی علماء کمیونسٹ تودہ پارٹی اور سوشلسٹ گروپوں مجاہدین اور فدائین خلق نے تاریخی جدوجہد کی۔

جب آیت اللہ خمینی پیرس سے 10سالہ جلا وطنی ختم کرکے ایران آئے تو شاہ ایران کے خلاف تحریک میں مذہبی رنگ مضبوط ہوا، امریکا کی ایما ء پرعراق نے ایران پر حملہ کیا۔ اس 10سالہ جنگ میں سعودی عرب ، کویت خلیجی ممالک وغیرہ نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر عراق کی مدد کی ، یوں لاکھوں افراد کی ہلاکت کے باوجود یہ جنگ بغیر مقصد حاصل کیے ختم ہوئی ۔ امریکا نے افغانستان میں نور محمد تراکئی کی انقلابی حکومت کے خاتمے کے لیے سلفی فرقے کے انتہا پسندوں کو استعمال کرنا شروع کیا یوں دنیا بھرسے جہادی پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے ، اس طرح ڈاکٹر نجیب اللہ کی جدید طرزحکومت کا خاتمہ ہوا۔

افغانستان میں مکمل طور پر امن نہ ہوسکا ، اس صورتحال کے نتیجے میں القاعدہ طالبان جیسی انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں ۔ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ ، جنرل حمید گل وغیرہ نے افغان مجاہدین کی مدد سے دنیا بھر میں جہاد برآمد کرنے کا سلسلہ شروع کیا یوں اسامہ بن لادن طالبان کے روحانی خلیفہ بن گئے اور نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد دنیا کی شکل تبدیل ہوگئی ۔ عراق میں صدر صدام کی مرکزی حکومت کو طاقت کے ذریعے ختم کیا گیا اور عراق میں خانہ جنگی شروع ہوگئی ۔ المالکی کی حکومت قائم تو ہوئی مگر اس حکومت نے کردوں اور سنی اقلیت کو نمائندگی نہیں دی۔ دو سال قبل عرب ممالک میں برسر اقتدار حکومتوں کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو امریکا نے شام میں صدر بشارالاسد اور لیبیا میں صدر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے لیے القاعدہ اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کی حمایت شروع کردی۔

سعودی عرب ، کویت اور خلیجی ممالک نے ان انتہا پسندتنظیموں کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے ، یوں انتہا پسند تنظیموں کو ایک نئی زندگی مل گئی ، اب تقسیم کے خطرے سے دوچار عراق کی المالکی حکومت کو درپیش خطرات کا حل پھر فرقہ وارانہ بنیادوں پر تلاش کیا جارہا ہے ۔ سعودی عرب کے اخبار عرب نیوز کے اپنی ایک اداریے میں تحریر کیا گیا ہے کہ المالکی حکومت کردوں اورسنی اقلیت کو اقتدار میں شامل کرنے پر تیار نہیں تھی جس کا انتہا پسندوں نے فائدہ اٹھایا ہے ،

اس لیے ضروری ہے کہ نوری المالکی حکومت کو ختم کیا جائے اور نئی حکومت میں کردوں اورسنی اقلیت کو شامل کیا جائے۔ اس تجویز پر عملدرآمد سے فور ی طورپر عراق میں وسیع حکومت قائم ہوسکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے علاوہ برطانیہ اور یورپ کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے جہادی آئی ایس آئی ایس میں شامل ہیں اور شام میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ان ملکوں میں آرہی ہیں ۔ برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے اس معاملے پر خصوصی توجہ دی ہے ۔

بلاشبہ امریکا کی مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی سے مسلمان ممالک ایک نئے عذاب میں مبتلا ہورہے ہیں۔ مگر اس کا منطقی حل یہ ہے کہ امریکا سعودی عرب ، خلیجی ممالک فور ی طور پرشام میں باغیوں کی مدد ختم کردیں، شام ، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں جمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ، البغدادی اور ملا عمر کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ مسلمان ممالک میں سیکولر قوتوں کی حوصلہ افزائی اور غربت کے خاتمے اور اچھی طرز حکومت کے ذریعے ہی آئی ایس آئی ایس جیسی انتہا پسند تنظیموں کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔

اسلامی ممالک سعودی عرب اور خلیجی ممالک پر زور دیں کہ وہ انتہا پسند تنظیموں کی مالیاتی امداد بند کریں۔ رابرٹ فسک 1918میں نافذ کیے گئے نقشے کے خاتمے کی پیشگوئی کررہے ہیں ، اگر تقسیم فرقہ وارانہ بنیادوں پرہوئی تو مسلمانوں کو تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا اس مسئلے کا حل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا جائے ، روشن خیالی ، ترقی پسند سوچ کی حوصلہ افزائی کی جائے ، ترقی پسند سوچ اور جمہوری طرز فکر سے ہی فرقہ ورانہ تعصب ختم ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں