سیدھا رابن ہڈ الٹا رابن ہڈ
یہ بات تو آپ پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ مملکت ناپرساں ایک الٹ پلٹ ملک ہے
یہ بات تو آپ پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ مملکت ناپرساں ایک الٹ پلٹ ملک ہے جہاں جو بھی ہوتا ہے اُلٹا ہی ہوتا ہے، اسی لیے اس حکومت کا نام بھی ''الٹا رابن ہڈ'' ہے، رابن ہڈ کے بارے میں تو سب لوگ جانتے ہیں کہ بمقام برطانیہ ایک بڑا ہی عابد و زاہد متقی و پرہیز گار نیک و صالح اور سخی ڈاکو گزرا ہے۔ وہ امیروں کو لوٹتا تھا اور پھر لوٹ کا مال نہایت ایمان داری کے ساتھ غریبوں میں بانٹتا تھا، لیکن حکومت ناپرساں عرف کاواں والی سرکار نے اس پرانے برطانوی رابن ہڈ سے ذرا الگ منفرد ممتاز اور حسب حال نام رکھنے کے لیے اس کے ساتھ ''الٹا'' بھی لگا دیا ۔
اینکر : یہ بتایئے جناب عالی ۔۔۔ کہ یہ رابن ہڈ جو ہے یہ مملکت ناپرساں میں آکر الٹا کیسے ہو گیا۔
سیخ : صرف رابن ہڈ ہی کیا، یہاں بڑے بڑے آکر الٹ جاتے ہیں۔
سیخ : نہیں یہ تو میں نے ایسے ہی ایک مثال دی ہے اور تم نے رابن ہڈ کے بارے میں صحیح جواب نہیں دیا ہے، وہ صرف لوٹتا نہیں تھا بلکہ تقسیم بھی کرتا تھا۔
اینکر : ہاں سنا ہے لوٹ کی حلال کمائی وہ غریبوں میں بانٹتا تھا۔
سیخ : یہ تو سیدھے رابن ہڈ کا کام تھا، اب الٹا رابن ہڈ کیا کرے گا۔۔۔؟
اینکر : اچھا سمجھ گیا ۔۔۔ رابن ہڈ کے کام کو الٹا کرنے والا الٹا رابن ہڈ۔
سیخ : اب بات آئی ہے تمہاری سمجھ دانی میں۔
اینکر : مطلب یہ کہ الٹا رابن ہڈ یعنی ناپرساں کی سرکار غریبوں کو لوٹتی ہے اور امیروں میں بانٹتی ہے۔
سیخ : بالکل سو فیصد ۔۔۔ مجال ہے جو کوئی غریب بچ کر جائے اور کوئی امیر جھولیاں بھر بھر کر نہ لے جائے۔
علامہ : دیکھو ! باز آجاؤ ورنہ ایسا عمل کروں گا کہ تیری یہ دوسری منحوس آنکھ بھی پھوٹ جائے گی۔
اینکر : دیکھئے دیکھئے آپ لڑیئے مت جناب سیخ کبابی سے کچھ حاصل کیجیے ۔
چشم : کیا خاک حاصل کریں، آتے ہوئے دس پندرہ سیخ کباب ہی لے آتے میرے لیے اور علامہ کے لیے ۔۔۔۔۔۔
علامہ : استغفراللہ ۔۔۔ میں اور ۔۔۔۔۔
چشم : نہیں جوتوں پر ملنے کے لیے
اینکر : خبردار اگر ایک لفظ بھی بولے تم دونوں ۔۔۔ ہاں جناب سیخ کبابی ۔۔۔ وہ الٹا رابن ہڈ
سیخ : میں نے بتایا نا کہ ہماری ناپرساں کی حکومت اسم بامسمیٰ ہے، رابن ہڈ کو الٹا کر دیجیے ہماری سرکاری نکل آئے گی۔
سیخ : وہ ایسا ہے کہ ناپرساں کے عوام پیدائشی طور پر لٹنے کے ذرا زیادہ شوقین ہوتے ہیں خود ہی اپنے لیے لٹیرے پالتے پوستے ہیں،طاقت ور بناتے ہیں، مسلح کرتے ہیں زندہ باد مردہ باد سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
اینکر : مطلب یہ کہ شہر کے لوگ اتنے ظالم نہیں ہوتے جتنے یہ مرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔
سیخ : بالکل اور پھر ناپرسان کی حکومت عرف الٹے رابن ہڈ کے پاس ہتھیار بھی بڑے زبردست ہوتے ہیں۔
اینکر : مثلاً ۔۔۔۔۔
سیخ : مثلاً قومی یکجہتی، سلامتی، محفوظ ہاتھ، اتفاق اتحاد حب الوطنی اور سب سے بڑا ہتھیار نظریہ پاکستان عرف اے کے 444
اینکر : اچھا ۔
سیخ : اوپر سے بجٹ، ٹیکس، نرخ نامے، بل، زکوٰۃ ، عشر اور نہ جانے کیا کیا۔
چشم : لٹنے والوں کو گولی ماریئے لوٹ مار کے بعد مال غنیمت کے بارے میں بتایئے اس میں سے حصہ پانے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے ،کوئی فارم پروفارما یا رجسٹریشن کرنا پڑتا ہے یا کیا کرنا چاہیے۔
علامہ : ہاں یہ بات ضروری ہے کیونکہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
سیخ : ایسا کچھ نہیں ہے، پہلے ہی سے وہ لوگ پیدائشی طور پر رجسٹرڈ ہیں، ان کے اپنے اپنے خاندان ہیں جن کو حصہ بقدر جُثہ ملتا ہے۔
اینکر : تو نئے لوگ شامل نہیں ہو سکتے ۔
سیخ : ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جمہوریت کا ایک بڑا سا پاپڑ بیلنا پڑتا ہے پھر ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ہمارا تعلق لٹنے والوں سے نہیں بلکہ لوٹنے والے خاندانوں اور طبقے سے ہے۔
اینکر : اچھا پھر
سیخ : پہلے سے رجسٹرڈ شدہ خاندانوں کے ساتھ نئے نئے خاندانوں کو پہلے عارضی طور پر بھرتی کیا جاتا ہے، جن کو منتخب نمائندے کہا جاتا ہے، یہ ایک طرح کا امتحان ہوتا ہے، آزمائشی طور پر ان کو مال غنیمت کی کچھ مقدار دی جاتی ہے، جسے فنڈ کہتے ہیں۔
چشم : یہ نام میں نے سنا ہے دیکھا نہیں ہے۔
علامہ : اور دیکھنے کی از حد ہوس ہے۔
سیخ : ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں ، یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ، جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا۔
اینکر : آپ تو شاعری پر اتر آئے۔
سیخ : ہاں کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ فنڈز کی تقسیم میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کی پھر ساری راہیں کھل جاتی ہیں اور لوٹ مار کی ساری رقم الٹا رابن ہڈ ان میں تقسیم کرتا ہے۔
چشم : اس الٹے رابن ہڈ سے رابطہ کیسے قائم کیا جا سکتا ہے۔علامہ : ایسے لوگوں کی ملاقات میں سرتا سر ثواب ہی ثواب ہوتا ہے۔
سیخ : کچھ کرنے کی ضرورت نہیں اگر آپ لٹنے والوں میں سے ہیں تو الٹا رابن ہڈ آپ کا خود مہمان بن جائے گا۔
علامہ : لیکن ہم مال غنیمت میں سے کچھ حصہ چاہتے ہیں۔
سیخ : تو پھر اٹھئے آگے بڑھئے اور کسی منتخب نمائندے کا دامن پکڑ لیجیے
اینکر : یہ بتایئے جناب عالی ۔۔۔ کہ یہ رابن ہڈ جو ہے یہ مملکت ناپرساں میں آکر الٹا کیسے ہو گیا۔
سیخ : صرف رابن ہڈ ہی کیا، یہاں بڑے بڑے آکر الٹ جاتے ہیں۔
سیخ : نہیں یہ تو میں نے ایسے ہی ایک مثال دی ہے اور تم نے رابن ہڈ کے بارے میں صحیح جواب نہیں دیا ہے، وہ صرف لوٹتا نہیں تھا بلکہ تقسیم بھی کرتا تھا۔
اینکر : ہاں سنا ہے لوٹ کی حلال کمائی وہ غریبوں میں بانٹتا تھا۔
سیخ : یہ تو سیدھے رابن ہڈ کا کام تھا، اب الٹا رابن ہڈ کیا کرے گا۔۔۔؟
اینکر : اچھا سمجھ گیا ۔۔۔ رابن ہڈ کے کام کو الٹا کرنے والا الٹا رابن ہڈ۔
سیخ : اب بات آئی ہے تمہاری سمجھ دانی میں۔
اینکر : مطلب یہ کہ الٹا رابن ہڈ یعنی ناپرساں کی سرکار غریبوں کو لوٹتی ہے اور امیروں میں بانٹتی ہے۔
سیخ : بالکل سو فیصد ۔۔۔ مجال ہے جو کوئی غریب بچ کر جائے اور کوئی امیر جھولیاں بھر بھر کر نہ لے جائے۔
علامہ : دیکھو ! باز آجاؤ ورنہ ایسا عمل کروں گا کہ تیری یہ دوسری منحوس آنکھ بھی پھوٹ جائے گی۔
اینکر : دیکھئے دیکھئے آپ لڑیئے مت جناب سیخ کبابی سے کچھ حاصل کیجیے ۔
چشم : کیا خاک حاصل کریں، آتے ہوئے دس پندرہ سیخ کباب ہی لے آتے میرے لیے اور علامہ کے لیے ۔۔۔۔۔۔
علامہ : استغفراللہ ۔۔۔ میں اور ۔۔۔۔۔
چشم : نہیں جوتوں پر ملنے کے لیے
اینکر : خبردار اگر ایک لفظ بھی بولے تم دونوں ۔۔۔ ہاں جناب سیخ کبابی ۔۔۔ وہ الٹا رابن ہڈ
سیخ : میں نے بتایا نا کہ ہماری ناپرساں کی حکومت اسم بامسمیٰ ہے، رابن ہڈ کو الٹا کر دیجیے ہماری سرکاری نکل آئے گی۔
سیخ : وہ ایسا ہے کہ ناپرساں کے عوام پیدائشی طور پر لٹنے کے ذرا زیادہ شوقین ہوتے ہیں خود ہی اپنے لیے لٹیرے پالتے پوستے ہیں،طاقت ور بناتے ہیں، مسلح کرتے ہیں زندہ باد مردہ باد سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
اینکر : مطلب یہ کہ شہر کے لوگ اتنے ظالم نہیں ہوتے جتنے یہ مرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔
سیخ : بالکل اور پھر ناپرسان کی حکومت عرف الٹے رابن ہڈ کے پاس ہتھیار بھی بڑے زبردست ہوتے ہیں۔
اینکر : مثلاً ۔۔۔۔۔
سیخ : مثلاً قومی یکجہتی، سلامتی، محفوظ ہاتھ، اتفاق اتحاد حب الوطنی اور سب سے بڑا ہتھیار نظریہ پاکستان عرف اے کے 444
اینکر : اچھا ۔
سیخ : اوپر سے بجٹ، ٹیکس، نرخ نامے، بل، زکوٰۃ ، عشر اور نہ جانے کیا کیا۔
چشم : لٹنے والوں کو گولی ماریئے لوٹ مار کے بعد مال غنیمت کے بارے میں بتایئے اس میں سے حصہ پانے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے ،کوئی فارم پروفارما یا رجسٹریشن کرنا پڑتا ہے یا کیا کرنا چاہیے۔
علامہ : ہاں یہ بات ضروری ہے کیونکہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
سیخ : ایسا کچھ نہیں ہے، پہلے ہی سے وہ لوگ پیدائشی طور پر رجسٹرڈ ہیں، ان کے اپنے اپنے خاندان ہیں جن کو حصہ بقدر جُثہ ملتا ہے۔
اینکر : تو نئے لوگ شامل نہیں ہو سکتے ۔
سیخ : ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جمہوریت کا ایک بڑا سا پاپڑ بیلنا پڑتا ہے پھر ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ہمارا تعلق لٹنے والوں سے نہیں بلکہ لوٹنے والے خاندانوں اور طبقے سے ہے۔
اینکر : اچھا پھر
سیخ : پہلے سے رجسٹرڈ شدہ خاندانوں کے ساتھ نئے نئے خاندانوں کو پہلے عارضی طور پر بھرتی کیا جاتا ہے، جن کو منتخب نمائندے کہا جاتا ہے، یہ ایک طرح کا امتحان ہوتا ہے، آزمائشی طور پر ان کو مال غنیمت کی کچھ مقدار دی جاتی ہے، جسے فنڈ کہتے ہیں۔
چشم : یہ نام میں نے سنا ہے دیکھا نہیں ہے۔
علامہ : اور دیکھنے کی از حد ہوس ہے۔
سیخ : ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں ، یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ، جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا۔
اینکر : آپ تو شاعری پر اتر آئے۔
سیخ : ہاں کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ فنڈز کی تقسیم میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کی پھر ساری راہیں کھل جاتی ہیں اور لوٹ مار کی ساری رقم الٹا رابن ہڈ ان میں تقسیم کرتا ہے۔
چشم : اس الٹے رابن ہڈ سے رابطہ کیسے قائم کیا جا سکتا ہے۔علامہ : ایسے لوگوں کی ملاقات میں سرتا سر ثواب ہی ثواب ہوتا ہے۔
سیخ : کچھ کرنے کی ضرورت نہیں اگر آپ لٹنے والوں میں سے ہیں تو الٹا رابن ہڈ آپ کا خود مہمان بن جائے گا۔
علامہ : لیکن ہم مال غنیمت میں سے کچھ حصہ چاہتے ہیں۔
سیخ : تو پھر اٹھئے آگے بڑھئے اور کسی منتخب نمائندے کا دامن پکڑ لیجیے