طبقاتی نظام کیوں محفوظ ہے

دنیا کی آبادی کا لگ بھگ 80 فیصد حصہ غربت کا شکار ہے، اس 80 فیصد میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

دنیا کی آبادی کا لگ بھگ 80 فیصد حصہ غربت کا شکار ہے، اس 80 فیصد میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بھی لگ بھگ 50 فیصد ہے ویسے تو اس تفریق کو عموماً 98/2 کہا جاتا ہے یعنی ایک طرف وہ 98 فیصد لوگ ہیں جو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں اور دوسری طرف وہ دو فیصد لوگ ہیں جنھیں دنیا کی ہر نعمت حاصل ہے اور یہ نصیحتیں دو فیصد کو اس لیے حاصل ہیں کہ وہ دنیا کی دولت کے 80 فیصد حصے پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور یہ 80 فیصد دولت اس 98 فیصد کی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے جسے ہم عرف عام میں عوام کہتے ہیں۔

ہر سوچنے والے کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو فیصد کے اس ظلم و استحصال کے خلاف 98 فیصد آواز کیوں نہیں اٹھاتا ہتھیار کیوں نہیں اٹھاتا؟ میڈیا میں آئے دن اس قسم کی خبریں آتی رہتی ہیں کہ شہریوں نے ڈاکوؤں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر اتنا مارا کہ ڈاکو مرگئے۔ ڈاکوؤں کا تعلق بھی غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے اور وہ عموماً حالات کی ستم ظریفیوں کی وجہ سے ڈکیتیوں کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن عوام ان چھوٹی موٹی ڈکیتیوں کو بھی برداشت نہیں کرتے اگر ڈاکو ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو وہ ان پر اتنا تشدد کرتے ہیں کہ وہ جان سے چلے جاتے ہیں وہ ڈکیت یا اسٹریٹ کرائم کے عادی لوگ جو مسلح ہوتے ہیں۔

عوام کے ہجوم کے سامنے عوام سے ان کا مال چھین لیتے ہیں اور عوام ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ عوام نہتے ہوتے ہیں اور ڈکیت مسلح ہوتے ہیں لیکن بعض موقعوں پر عوام مسلح ڈکیتوں کو بھی پکڑ لیتے ہیں اور ان کی خوب درگت بناتے ہیں ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ عوام متحد ہوتے ہیں اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ان چھوٹی موٹی ناانصافیوں کے خلاف ڈنڈا اٹھانے والے عوام آخر قومی دولت کے ڈاکوؤں کے خلاف کیوں ڈنڈا نہیں اٹھاتے؟ اس اہم سوال کا جواب یہ ہے کہ اول تو انھیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ قومی دولت کے اصل مالک وہ ہیں اور یہ دولت ان ہی کی اجتماعی محنت کا ثمر ہے دوئم یہ کہ اس بڑی لڑائی کے لیے ان کے درمیان اتحاد نہیں ہے اور یہ بڑی لڑائی عوام کے اتحاد کے بغیر لڑی نہیں جاسکتی، عوام جن کی مشترکہ میراث غربت ہے، غربت کے خلاف متحد کیوں نہیں ہوتے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ عوام تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔

پہلی بڑی اور انتہائی موثر تقسیم مذہب کے حوالے سے مثلاً دنیا کے 7 ارب کے لگ بھگ انسان ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی وغیرہ میں تقسیم ہیں اور یہ تقسیم اس قدر گہری ہے کہ انھیں طبقاتی بنیادوں پر متحد ہونے نہیں دیتی۔ بلکہ بالادست طبقات نے ایک منظم اور مربوط منصوبے کے تحت اس تقسیم کو نفرت اور تعصب میں بدل دیا ہے اور یہ نفرت یہ تعصب اس قدر گہری ہے کہ اس حوالے سے غریب غریب کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیتا ہے۔ اس بڑی تقسیم کے بعد دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یعنی مسلمانوں میں ایک اور تقسیم خود ان کے درمیان ہے وہ تقسیم فقہہ یا مسلک کی ہے یہ تقسیم اگرچہ کہ بہت پرانی ہے لیکن اس میں شدت حال ہی میں آئی ہے۔

مثال کے طور پر عراق کو لے لیں، عراق ایک طویل عرصے سے شیعہ سنی اور کرد میں بٹا ہوا تھا لیکن یہ تقسیم نفرتوں کی ان حدوں کو پار نہیں کر رہی تھی جہاں ایک انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ تقسیم امریکا کی عراق میں آمد کے بعد اس قدر گہری ہوگئی کہ تین تقسیموں میں بٹے ہوئے انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ آج عراق اس تقسیم ہی کی وجہ سے لہولہان ہے ہر روز بم پھٹ رہے ہیں، بارود کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے اور غریب عوام کی وہ طاقت جسے طبقاتی ظلم کے خلاف استعمال ہونا تھا غریب طبقات کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، غریب غریب کا خون بہا رہا ہے۔ یہ خونریزی اس انتہا کو امریکا کے عراق میں آنے اور جانے کے بعد ہی کیوں پہنچی؟

پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ نظام موجود ہے پاکستان کے عوام کی 50 فیصد تعداد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے لوگ بھوک سے تنگ آکر انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں امکان یہ تھا کہ پاکستان کے عوام طبقاتی استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے کہ یہاں بھی فقہی تقسیم کو ہتھیار بناکر دہشت گردوں نے آگ اور خون کا کھیل شروع کردیا اور عوام میں پائی جانے والی تقسیم کو اس قدر گہرا کردیا کہ عوام ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اگرچہ اس خونریزی کی ذمے داری مٹھی بھر دہشت گردوں پر آتی ہے۔


پاکستان مذہب کے نام پر وجود میں آنے والا دنیا کا دوسرا ملک ہے لیکن پاکستانی عوام شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، سندھی، پنجابی، مہاجر،پٹھان اور بلوچ میں تقسیم ہیں اور سیاسی اشرافیہ مذہبی اور لسانی اشرافیہ کی مدد سے اس تقسیم کو گہرا کر رہی ہے کیونکہ عوام کے ان حوالوں سے منقسم رہنے سے سیاسی اشرافیہ کا اقتدار پر قبضہ مضبوط ہوجاتا ہے۔

دنیا کے عوام کی دوسری بڑی تقسیم قوم و ملک کے حوالے سے کی گئی ہے ابن آدم کو ہندوستانی، پاکستانی، امریکی ،برطانوی، چینی، جاپانی، عرب، یہود سمیت سیکڑوں حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ یہ تقسیم اگر محض انسانوں کی شناخت تک محدود ہوتی تو کسی کو اعتراض ہوتا نہ انسان تقسیم اور نفرتوں کا شکار ہوتا۔ اس تقسیم کو اس قدر گہرا کردیا گیا کہ اس کے پیچھے سے نفرت جھانکنے لگی۔ اس تقسیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قومی مفادات کے نام پر وہ وسائل تقسیم کا شکار ہوگئے جنھیں اگر انسانوں کی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جاتا تو دنیا سے غربت کا نام و نشان مٹ جاتا۔

مثال کے طور پر ہندوستان اور پاکستان ہی کو لے لیجیے دونوں ملکوں کے عوام ایک تو مذہبی تقسیم کا شکار ہیں دوسرے کشمیر کی وجہ یہ تقسیم اس قدر گہری کردی گئی ہے کہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسا خطرناک تنازعہ بن گیا ہے یا بنادیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں اور اسلحے کی دوڑ پر دونوں غریب ملک اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں اس تقسیم کی وجہ ایک طرف عوام میں دوری پیدا ہوگئی ہے اور وہ طبقاتی استحصال کے خلاف لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اربوں روپوں کے وسائل دفاع پر خرچ ہو رہے ہیں اگر یہ وسائل عوام کی غربت دور کرنے پر خرچ کیے جاتے تو پاکستان میں غربت کا وہ عالم نہ ہوتا جو ہے۔

مشرق وسطیٰ تیل کی دولت سے مالا مال ہے اس دولت کا سب سے زیادہ فائدہ سامراجی ملکوں کے تاجروں کو ہو رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ اگرچہ کہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن وہاں بھی غربت اور طبقاتی استحصال موجود ہے عوام کی توجہ اس اصل مسئلے کی طرف سے ہٹانے کے لیے انھیں عرب اور اسرائیل میں تقسیم کردیا گیا یوں طبقاتی جنگ کو فرقہ وارانہ جنگ کے نیچے دبادیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارے کھیل اتفاقی ہیں یا منصوبہ بند؟

دنیا میں طبقاتی استحصال کے خلاف ایک آواز اٹھی یہ آواز تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیلنے لگی اور دنیا کا 1/3 حصہ اس طبقاتی استحصال سے آزاد ہوا۔ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے سرپرستوں نے اس خطرے کو محسوس کرلیا۔ یہ خطرہ کسی فرد گروہ یا ملک کے لیے نہیں تھا بلکہ اس طبقاتی استحصال کو لاحق تھا جس نے دنیا کو 98/2 میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے دنیا کی 80 فیصد دولت پر قابض دو فیصد طبقے کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اگر اس طوفان کو نہ روکا گیا تو یہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

چنانچہ اس نظام کے خلاف سازشوں کے جال بچھائے جانے لگے اور آخر کار اس نظام کو ناکام بنادیا گیا۔ یہاں بھی اور کئی ہتھکنڈوں کے ساتھ یہ ہتھکنڈا بھی استعمال کیا گیا کہ اس اینٹی سرمایہ دارانہ نظام کا خالق یہودی تھا۔ اب یہ پروپیگنڈا شدت سے جاری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نظام فطرت ہے دنیا کی بقا اسی نظام سے وابستہ ہے اور بدقسمتی سے مڈل کلاس کا ایک بڑا حصہ اس نظام کے خلاف عوام کی رہنمائی کرنے کے بجائے اس بدترین طبقاتی نظام کا دفاع کر رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا کے 7 ارب کے لگ بھگ غریب انسان اس نظام زر کے خلاف متحد ہوں گے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ان عوام کو تقسیم در تقسیم اور ان کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرنا پڑے گا اور یہ کام ان تمام لوگوں کی ذمے داری ہے جو اس نظام کی حشر سامانیوں سے واقف ہیں یہ کام کٹھن بھی ہے اور اس میں مشکلات بھی ہیں لیکن چونکہ یہ نظام دنیا کی آبادی کے 98 فیصد حصے کے خلاف ہے اور 98 فیصد لوگ اس نظام سے شعوری اور غیر شعوری طور پر چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اس نظام کا خاتمہ جلد یا بدیر ہونا ناگزیر ہے۔
Load Next Story