شب خوں
سیاہ دنوں کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کی پاداش میں اب تک بھٹک رہے ہیں۔ پانچ جولائی 1977ء کا اپنا مقام ہے۔
سیاہ دنوں کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کی پاداش میں اب تک بھٹک رہے ہیں۔ پانچ جولائی 1977ء کا اپنا مقام ہے۔ سینتیس سال گزر گئے اور وہ زخم بھر نہ پائے۔ اب ان زخموں میں ہر دن کوئی نہ کوئی نئی صورت بنتی ہے۔ کسی کو 12 اکتوبر 1999ء کو شب خون دکھائی دیتا ہے، کسی کو 5 جولائی 1977ء۔ ہیں تو دونوں شب خوں مگر اورنگزیب کے بعد مذہب کو ہتھیار بنا کر استعمال ضیاء الحق نے کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ سرمایہ داری مفادات کے بین الاقوامی آقا کو بھی ہمارے مذہب سے اسٹریٹجک مفاد تھے اور پھر اوپر ہماری سرحدوں پر بالآخر سوویت یونین آ کر بیٹھ گیا۔
پہلی جنگ عظیم و دوسری جنگ عظیم میں فوجیں آمنے سامنے ہوا کرتی تھیں، گھمسان کی جنگ ہوا کرتی تھی۔ پھر دنیا کا نیا بٹوارا ہوا، فوجیں ایک جگہ رک گئیں، دنیا کا نیا نقشہ بنا۔ کردوں جیسی ایسی قومیں بھی تھیں جو چار ملکوں میں تقسیم ہو گئیں۔ پنجابیوں اور بنگالیوں کا بھی بٹوارا ہوا۔ پٹھانوں کا تو کئی سال پہلے ڈیورنڈلائن کے تحت بٹوارا ہوا، بلوچوں کا بھی ہوا، اترپردیش سے بہت سے مسلمان پاکستان آ گئے۔ عربوں کو تو کئی ممالک میں تقسیم کر دیا گیا اور ان پر آمریتیں مسلط کر دی گئیں۔ یہ سب بٹوارے غیر منصفانہ تھے۔ کشمیر پر قبضہ وہاں کے لوگوں کے حق حکومت کے منافی تھا۔
گھمسان کی جنگ نے بالآخر سرد جنگ کی شکل اختیار کر لی اور وہ سرد جنگ اندر ہی اندر سلگتی رہی۔ بہت بھیانک، بہت دیرپا رہی۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری کی جنگ بقا کی جنگ بن گئی۔ یہ وہ تضادات تھے جس کے پس منظر میں اس ملک نے آنکھ کھولی جس کی قدیم تاریخ بہت شاندار اور بہت عظیم تھی، جسے وادی سندھ کہا جاتا تھا۔ جس کے آبشار لداخ کے قریب تبت سے شروع ہوتے تھے، دریا کابل بھی اس میں جذب ہوتا تھا، جہلم، راوی، ستلج بھی۔ اس پانی سے قدیم معاشرے بنے، ٹیکسیلا، ہڑپہ، موئن جو دڑو۔ یہ وہ وادی ہے جہاں دنیا کی پہلی کتاب ''رگ وید'' سنسکرت میں لکھی گئی۔
اپنے زمان و مکاں میں وادی سندھ سے بڑی کوئی بھی تہذیب نہیں تھی۔ رومی بھی اسے سندھ کہہ کر پکارتے تھے تو ہندوستان کو ہند کہہ کر پکارتے تھے۔ ہم شروع سے دو الگ وطن تھے۔ لیکن ہم میں کبھی جنگیں نہیں ہوا کرتی تھیں اور اگر ہوا بھی کرتی تھیں تو بہت چھوٹے پیمانے کی۔ مجموعی طور پر وادی سندھ نے گنگا جمنا کی تہذیب پر بھی اپنا اثر چھوڑا۔ پھر آریاؤں نے حملہ کیا، یہ وہی جگہ ہے جہاں سے سکندراعظم، مغل، افغان، چنگیز خان وغیرہ نے حملے کیے۔
آریاؤں نے وادی سندھ کے اصل مقامی لوگوں کو دھکیل دیا۔ جو جاکر ساؤتھ ہندوستان و بنگال میں بسے، جنھیں تاریخ دراوڑ کے نام سے جانتی ہے۔ کچھ کچھ بروہوی زبان بھی اتنی قدیم ہے۔ شاید یہ دراوڑوں کی زبان تھی۔ آگے جا کر ان ہی آریاؤں سے نکلی ہندو مذہب میں برہمن جات۔ انھوں نے ہندو مذہب کی بنیادیں ڈالیں اور یہاں کے مقامی لوگوں کو غلام بنا کر ''اچھوت'' کا خطاب دے دیا۔ سکندراعظم جب آئے تو دریائے سندھ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی اس کے لیے دیوار بن گیا۔ ملتان جو وادی سندھ کا مرکز تھا اس کے قریب اسے مزاحمت کا سامنا ہوا۔ وہ زخمی سکندر اعظم ارسطو کا شاگرد بالآخر واپس یونان کو نکلتا ہے اور راستے میں انتقال کر جاتا ہے۔
اس تہذیب کے اوپر آئی تھی سردجنگ، بھیانک رات اور پھر پانچ جولائی کی سیاہ رات۔ اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو، جسے لب پہ لاؤں تو میرے ہونٹ سیاہ ہوجائیں۔ یا جس طرح رومی کہتے ہیں آگ دیکھنے میں تو لال ہوتی ہے مگر ہر شے کو سیاہ کر دیتی ہے۔ تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ حادثے اچانک جنم نہیں لیا کرتے۔ پانچ جولائی کی سیاہ رات بھی کائنات کے گھنٹہ گھر میں موجود تھی۔ دنیا سرد جنگ میں بٹی ہوئی تھی۔ حکمراں طاقت کے نشے میں چور تھے، دھاندلی کروا بیٹھے اور وہ دھاندلی سرد جنگ کے کھلاڑیوں کے لیے خوش نصیبی تھی۔ جس طرح CIA نے چلی کے ایلندے کو ایک اس کے تازہ فوجی سربراہ سے رخصت کیا، بھٹو کو بھی اپنے محبوب و تازہ فوجی جنرل سے رخصت کروایا۔
طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں، یہ اخلاقی و آئینی بات تو تھی مگر حقیقت نہ تھی۔ سرد جنگ نے دنیا میں ایسے کئی ڈی فیکٹو طاقتوں کو جنم دیا جن کی عوام میں کوئی جڑیں نہ تھیں اور وہ اپنے آقا امریکا کے تابع تھیں۔ سرد جنگ کے مفاد میں ایسٹ پاکستان تھا ہی نہیں، جب تک وہ پاکستان کا حصہ تھا یہاں جمہوری قوتوں کو مضبوط کرتا تھا اور سوائے بھٹو کے وہ جمہوری قوتیں اس سردجنگ کے بٹوارے میں سوویت یونین کی طرف نہرو کی طرح جھکاؤ رکھتی تھیں۔ سرد جنگ کے آقا کے لیے وہی حقیقت تھی جو 1850ء میں برطانیہ سامراج کے لیے تھی کہ روس گرم حماموں تک آنا چاہتا ہے۔
اس زمانے سے لے کر افغانستان کا اسٹیٹس بغیر اسٹیٹ والا رہا۔ سرد جنگ کے آقاؤں نے جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے ایسٹ پاکستان سے جان چھڑائی تو بھٹو صاحب کو لانا ان کی مجبوری تھی، تا کہ یہ زخم کچھ وقت کے لیے بھر جائیں۔ شیخ مجیب کتنا بھی جناح سے دور ہو مگر گیارہ اگست کے تسلسل میں اس نے اپنے ملک کو سیکولر آئین دیا جب کہ بھٹو صاحب جناح کی اس تقریر سے اختلاف کر بیٹھے۔ قرارداد مقاصد بھی اس پس منظر میں تھی کہ یہاں کے لوگوں سے حق حکومت لیا جائے، دیا نہ جائے۔ بہت مبہم کر دیا ہر بات کو، جو چاہے وہ اس کی تشریح کچھ بھی کر سکتا تھا۔ بہت موضوعی تھی قرارداد مقاصد، نہ کہ معروضی۔ ہاں بھٹو صاحب نے اس کو آئین کا حصہ نہ بنایا، نہ ایوب نے بنایا، نہ 1956ء کے آئین میں بنی۔ مگر جنرل ضیا الحق نے قرارداد مقاصد کو آرٹیکل 2A کا درجہ دیا۔
یہ ہے وہ خاص بات جو 12 اکتوبر 1999ء والے شب خوں میں نہیں، کسی بھی سیاہ رات میں نہیں۔ مگر پانچ جولائی 1977ء کی سیاہ رات نے اس ملک میں مذہبی پیچیدگیوں کو جنم دیا اور ہم جو بہت دور تھے عرب دنیا سے، ترکوں سے، ان کے تضادوں کے اور قریب آ گئے۔ اب کوئی پاکستان کو پاکستان کہتا ہے، کوئی رمضان کو رمدان اور مجھ جیسے قاضی کو قادی کہتا ہے۔ اب کے بار عرب دنیا میں جو رسم چلی ہے یہ اسی بٹوارے کے خلیوں سے نکلی ہوئی شکل ہے، جو سردجنگ نے دنیا کے نقوش پر اجارہ داری کرتے ہوئے عربوں کے لیے بنائی تھی۔ سرد جنگ میں سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکا کا اور دماغ خراب ہوا، اس نے عراق کو نشانہ بنایا، اس نے افغانستان کو نشانہ بنایا۔
بہت پرانی دوستی تھی مصر کی مذہبی پارٹیوں کے ساتھ CIA کی، وہ جمال ناصر کو شکست دینا چاہتے تھے، کمال اتاترک بھی سیکولرازم آمریتوں کے گھوڑوں پر چڑھ کر ترکوں پہ مسلط ہوئے۔ جس کی ضد میں مسلمانان ہند اور رجعت پرست ہوئے۔ خلافت تحریک چلی، خاکسار تحریک بنی۔ انگریزوں نے ہی مسلمانان ہند پر اجارہ داری کرنے کے لیے بریلوی و دیوبندی تقسیم کی۔
آج پانچ جولائی کیا آئی، میرے سارے زخم ابل پڑے۔ اور یہ تصویر میرے جذبوں کی عکاسی نہیں فقط حقیقت ہے جو آپ کی نذر ہے۔
آج ضرب عضب ہے تو تحفظ پاکستان کا بول بالا ہے۔ مگر یہ سب شارٹ ٹرم باتیں ہیں اور اگر ان کا استعمال غلط ہوا تو پھر نتیجے اور بھی بھیانک ہوں گے۔
پانچ جولائی سے جو سبق ہم کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ مذہب اور ریاست دو الگ الگ حقیقتیں ہیں انھیں اگر گڈمڈ کیا جائے گا تو پھر یاد رکھیں یہی کچھ ہونے کو جائے گا جو آج کل ہو رہا ہے۔
حیرانی ہے جنرل بیگ، میاں صاحب وغیرہ کو 12 اکتوبر تو دکھائی دیتا ہے مگر پانچ جولائی نہیں۔ تو کیا ہم ضیا الحق سے پہلے مسلمان نہیں تھے۔ اگر تھے تو پھر اس آمر کی ہر ایک ترمیم کو آئین سے آئینی طریقہ اختیار کرتے ہوئے نکالنا ہو گا۔
12 اکتوبر آئین میں محفوظ نہیں اور اگر ہے تو عورتوں کے حقوق و اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے۔ مگر 5 جولائی آئین کی جڑوں میں پہنچ گئی ہے۔ سب راستے آگے نکلنے کے روک کر بیٹھ گئی ہے۔ فیصلہ یہ اس قوم کو کرنا ہے کہ کیا آپ کو جناح کا پاکستان چاہیے یا پھر جنرل ضیا الحق والا۔
12 اکتوبر ہو یا 5 جولائی یا کوئی بھی شب خوں ہو۔ شب خوں، شب خوں ہی ہوتا ہے۔ لیکن جو پانچ جولائی ہوتا ہے ویسا کوئی نہیں ہوتا۔