چٹکی انقلاب اور انقلابی
ہماری فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہے۔
ہماری فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہے۔ فضائی حملوں کے بعد زمینی حملے بھی شروع ہو گئے ہیں۔ شمالی وزیرستان سے تقریباً 6 لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو افغانستان ہجرت کر گئے ہیں۔ تقریباً 5 لاکھ افراد نے ملک کے اندر رہتے ہوئے اپنا گھر بار چھوڑا ہے، اور یہ لوگ انتہائی پریشانی کے عالم میں کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ شدید گرم موسم میں چھوٹے چھوٹے شیر خوار بچے، بوڑھے، مرد، خواتین، انتہائی کسمپرسی کی حالت کا سامنا کر رہے ہیں۔ فوج کے میڈیکل کور کے ڈاکٹرز اور اسٹاف ان مہاجرین کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، حکومت کی طرف سے بھی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ وفاق اور صوبے ہر سطح پر کام کر رہے ہیں۔ تاجر برادری اور عوام بھی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔
ہم ماضی میں کئی بار دیکھ چکے ہیں کہ ہم پاکستانی ہر مشکل کے وقت ایک ہوکر مسائل زدگان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ زلزلہ ہو، سیلاب ہو، تھر میں قحط سالی ہو، ہر برے وقت میں ہم صرف انسان بن جاتے ہیں۔ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی اور شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث یہ ساری پہچانیں پیچھے رہ جاتی ہیں اور انسان ابھر کر اوپر آ جاتا ہے۔ ہاں یہ تو میں بھول گیا کہ مشکل کے وقت عوام اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو بھی لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔
اور ہم سب اس بار پھر یہ مظاہرہ دیکھیں گے کہ عوام شمالی وزیرستان کے مہاجرین کے لیے ایک ہوکر خدمت کریں گے، مگر یہ چند سیاست دان کیا کھیل کھیلنے جا رہے ہیں، یہ سمجھ سے باہر ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے پاکستان روانگی سے قبل بیان جاری کرتے ہیں ''فوج اسلام آباد، راولپنڈی کے بے نظیر ایئرپورٹ کو اپنے اختیار میں لے لے'' گویا ڈاکٹر صاحب یہ چاہ رہے تھے کہ آپریشن ضرب عضب سے توجہ ہٹا کر فوج ان کی حفاظت کے لیے ہوائی اڈے پر اپنا مکمل کنٹرول کرلے۔
خیر علامہ صاحب کے فرمان پر کسی نے توجہ نہیں دی اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے ہزاروں عقیدت مند بے نظیربھٹو ایئرپورٹ پہنچ گئے اور پولیس کی خوب درگت بنائی۔ حکومت نے ملک کے نازک ترین حالات کے پیش نظر مناسب سمجھا کہ علامہ صاحب کو لاہور پہنچا دیا جائے تا کہ وہ جی ٹی روڈ پر موجود خطرات سے محفوظ رہ سکیں۔ علامہ صاحب کا غیرملکی فضائی کمپنی کا طیارہ لاہور ایئرپورٹ پر اتر گیا تو علامہ صاحب نے فوج کے لیے ایک اور فرمان جاری فرمایا ''فوج کا کوئی کورکمانڈر مجھ سے آ کر ملے، تب میں طیارے سے باہر آؤں گا۔'' فوج حالت جنگ میں تھی اور علامہ کا فرمان! میں اس فرمان کو بلاتبصرہ چھوڑتا ہوں کہ ایسی بات پر کیا دھیان دینا، پھر علامہ نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا کہ ''انقلاب تو چٹکی بجاتے ہی آ سکتا ہے۔''
دنیا نے بہت سے انقلاب دیکھے ہیں، ابھی حال ہی میں ایران کا انقلاب ہم سب نے دیکھا ہے۔ رضا شاہ پہلوی جیسا بادشاہ کیسے پسپا ہوا۔ اس انقلاب کے قائد امام خمینی کی طویل جدوجہد، قربانیاں اور فیصلے کی گھڑی آئی تو امام خمینی بوڑھے ہوچکے تھے، پوری دنیا نے دیکھا امام خمینی کے چہرے پر سنجیدگی، متانت، بردباری، طویل جدوجہد کے مہ و سال کے بعد چہرے پر ابھر آئی لکیریں اور آنکھوں میں ریاضتوں کا نور۔ ایسے ہوتے ہیں انقلابی! یا سیدنا عمر فاروقؓ جیسے کردار ہوتے ہیں انقلابی کہ غلام اونٹ پر بیٹھا ہے اور خلیفہ نے مہار پکڑ رکھی ہے۔ فاتح ایران اور اصول دیکھیں!
عمران خان کی جماعت کو صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت وہاں کے عوام سے عطا فرمائی ہے، یہی وہ صوبہ ہے کہ جہاں افواج پاکستان دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے، اور عمران خان جنوبی پنجاب میں سیاسی جلسے میں مصروف نظر آئے۔ کپتان صاحب نے اعلان کردیا ہے کہ 14 اگست 2014ء کے دن دارالحکومت اسلام آباد میں سونامی داخل ہو گا۔ 10 لاکھ افراد جمع ہوں گے۔ یہ وقت تو یکجہتی کا ہے۔ ملک کی آن بان شان بچانے کا وقت! دہشت گرد بری طرح سے پسپا ہو رہے ہیں۔ مگر سیاسی انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کوئی بھی بڑی کارروائی کر سکتے ہیں، اگر ایسا ہو گیا تو یہ ''سیاسی افراتفری'' والے کیا منہ لیے پھریں گے۔ عوام سوچ رہے ہیں کہ وہ کون سی دودھ اور شہد کی نہریں ہیں جو آصف زرداری نہ بہا سکے اور اب نواز شریف بھی نہیں بہا پا رہے۔
کپتان کے پاس صوبہ خیبرپختونخوا ہے، وہاں 5 لاکھ سے زیادہ مہاجرین بنوں کے علاقے میں بیٹھے ہوئے ہیں ''سونامی'' کو وہاں ہونا چاہیے۔ کل کے ڈکٹیٹر کے ساتھی، جن کی موجودگی میں ڈکٹیٹر بڑکیں مارتا تھا، مکے لہراتا تھا اور سیاستدان درباری بنے ہوئے تھے، اب وہی ڈکٹیٹر کے ''درباری'' ہر سیاسی جماعت میں بیٹھے نظر آتے ہیں ''وطن کا پاس انھیں تھا نہ ہو سکے گا کبھی'' کیونکہ یہ اپنی حرص کے بندے ہیں اور ان کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں، کل کے ظالموں کے حواری کیا ''چٹکی انقلاب'' لائیں گے! عوام جانتے ہیں۔
عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی نے 30 اپریل 2009ء کے دن کراچی پریس کلب میں حبیب جالب امن ایوارڈ وصول کرتے ہوئے اپنا ایک مختصر تحریری بیان پڑھا تھا (مشکل ہے مگر شاید ان ''درباریوں'' پر کچھ اثر ہو جائے) اس تحریری بیان سے اقتباس پیش کرتا ہوں ''عام طور پر میں اپنے کام کی مصروفیات اور بیماری کی وجہ سے ایوارڈ لینے کے لیے نہیں جاتا، لیکن آج میں یہ ایوارڈ وصول کرنے اس لیے آیا ہوں کیونکہ ہم دونوں کے نظریات ایک ہیں۔ جالب سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب وہ کراچی نشتر پارک میں (1964) میں اپنی نظم دستور پڑھ رہے تھے اور لوگ پرجوش ہو کر ان کو داد دے رہے تھے۔
میں سیاست دان نہیں اور نہ ہی میرا سیاست سے کوئی واسطہ ہے۔ ایک سماجی کارکن ہونے کے ناتے گزشتہ 62 سالوں سے معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہا ہوں کیونکہ میرے سامنے آ کر انسانیت ( پاکستان میں ) ننگی ہو جاتی ہے ایک ماں اپنے بچے کے علاج کے لیے جسم بیچنے پر مجبور ہو جاتی ہے ہر مہینے ہزاروں لوگ بھوک اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایک طرف ملک کے 95 فیصد عوام ہیں جو گزشتہ 62 سالوں سے بے وقوف بنائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف 5 فیصد وہ جاگیردار، سرمایہ دار اور لٹیرے ہیں جو بظاہر تو علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں لیکن اصل میں ایک ہوتے ہیں اور عوام کو لوٹ رہے ہوتے ہیں، اسمبلیاں ہوں یا سینیٹ، یہی لوگ یا ان کی اولاد منتخب ہو کر آتی ہیں، جو گزشتہ 62 سالوں سے اقتدار پر قابض ہیں۔ ملک میں ہر سطح پر کرپشن ہے سرمایہ دار صرف 10 فیصد ٹیکس دیتا ہے، غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی جنم لے رہی ہے، آپس میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں، مگر اب یہ نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، آئندہ آنے والے وقت میں مجھے خونی انقلاب کے آثار نظر آ رہے ہیں، لگتا ہے اس کے علاوہ نجات کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔''
یہ خطاب آج سے پانچ سال پہلے کیا گیا تھا اور گزشتہ پانچ سال میں کیا کیا خونریزیاں ہوئی ہیں، ایدھی صاحب کے مطابق وہ انقلاب دیکھ رہے ہیں، اور یہ سدا کے ''درباری'' کیا یہ انقلاب لائیں گے! اور وہ بھی اپنے خلاف! کیا اقتدار کیا اختلاف، ہر جگہ ظلم کے کردار بیٹھے ہیں، یہ انقلاب کیا لائیں گے، ایدھی کا انقلاب عوام لائیں گے۔ مگر یہ وقت دھرتی بچانے کا وقت ہے۔ دھرتی ہو گی تو انقلاب آئے گا اور وہ انقلاب اب بہت قریب ہے۔ جالب کے چند مصرعے اور اجازت:
ہنسیں گی سہمی ہوئی نگاہیں
چمک اٹھیں گی وفا کی راہیں
ہزار ظالم سہی اندھیرا
سحر بھی لیکن قریب تر ہے
قریب تر ہے
قریب تر ہے