لاوا
جیفرسن کہتا ہے غاصبوں اور آمروں کے خلاف بغاوت خدا کی اتباع ہے۔
جیفرسن کہتا ہے غاصبوں اور آمروں کے خلاف بغاوت خدا کی اتباع ہے۔ 19 ویں صدی کے وسط تک تقریباً پوری دنیا میں اختیارات بادشاہوں و آمروں سے عوام تک منتقل ہو چکے تھے جب کہ پوری دنیا کے برعکس 20 ویں صدی میں بھی پاکستان کے عوام اختیارات سے محروم ہیں اور اپنے اختیارات حاصل کر نے کی جدوجہد میں مصروف ہیں جب کہ اختیارات کے اصل مالک عوام ہی ہوتے ہیں آزادی کے 66 سال گزر جانے کے بعد بھی آج ہم وہیں کھڑے ہیں، جہاں سے ہم نے سفر کا آغاز کیا تھا۔
سفر کے آغاز کے وقت لوگوں نے خو شحالی، ترقی اور بااختیار ہونے کے خواب دیکھے تھے اور اس خواب کو سچ ثابت کر نے کے لیے انھوں نے طویل جدوجہد کی۔ ان گنت جانی و مالی قربانیاں دیں لیکن 66 سال بیت جانے کے بعد بھی ملک کے اصل مالک غریب ، مفلس، بدحال، لاچار اور بے اختیار ہی رہے خو شحال، بااختیار ہونے کے خواب پورا ہونے کے بجائے ڈرائونے خواب بن کر رہ گئے۔ 18 ویں صدی میں انگلینڈ میں رونما ہونے والا صنعتی انقلاب یقینا اہم تھا لیکن یہ رینگتا ہوا آگے بڑھا اور بہت سے لوگوں کو اس کی آمد تک کچھ پتہ نہ چلا اور کچھ ہی لوگوں نے اس کی اہمیت کو محسو س کیا جب کہ اس کے برعکس انقلاب فرانس اچانک پھٹ پڑا اور یورپ حیران رہ گیا۔
یورپ اس وقت بادشاہوں اور شہنشاہوں کے چنگل میں تھا۔ قدیم رومن سلطنت فعال نہیں رہی تھی لیکن یہ کاغذوں میں موجود تھی اور اس کا بھو ت پورے یورپ پر سایہ فگن تھا بادشاہوں، شہنشاہوں، دربا روں اور محلوں کی دنیا کے برعکس عام لوگوں کی سطح سے یہ حیرت انگیز اور خو فناک طو فان اٹھا جس نے مراعات یافتہ طبقہ، امرا، اور بادشاہ کو پٹک کر رکھ دیا حیران کن بات یہ ہے کہ یورپ کے بادشاہ اور مراعات یافتہ طبقہ اس عوامی انقلاب کے سامنے خو ف سے کانپنے لگا اور اسی عوام سے خوفزدہ ہو گئے جن کو ذرہ برابر اہمیت نہ دی جاتی تھی۔
اسی عوام کو انھوں نے ایک طویل عرصے نظرانداز کر رکھا تھا اور انہیں بری طرح سے دبا کے رکھا ہوا تھا، انقلاب فرانس آتش فشاں کی طرح پھٹا۔ انقلاب اور آتش فشاں کسی وجہ یا طویل عمل کے بغیر اچانک نہیں پھٹا کرتے ہم اچانک دھماکے کو دیکھتے ہیں اور حیران و پریشان ہو جاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ پلک جھپکنے میں نہیں ہوا کرتا ہے۔ زمین کی بالائی سطح کے نیچے بہت سے قوتیں ایک عرصے تک ایک دوسرے کے خلاف کام کرتی ہیں۔
لاوہ پکتا رہتا ہے پھر زمین کی پرت اسے مزید دبانے میں ناکام ہو جاتی ہے اور پگھلتا ہوا لاوہ پہاڑ کا دھانہ پھاڑ کر باہر بہہ نکلتا ہے بالکل اسی طرح جو قوتیں انقلاب میں پھٹ کر باہر آ نکلتی ہیں وہ دراصل معاشرے کی زمین کے نیچے عرصے تک لاوہ کی طرح پکتی رہتی ہیں اگر پانی کو گرم کریں تو بالآخر وہ ابل پڑتا ہے لیکن یہ ابلنے کے نقطے تک اسی وقت پہنچتا ہے جب اسے گرم سے گرم کرتے جائیں نظریات اور اقتصادی حالات انقلاب برپا کرتے ہیں لیکن اقتدار میں بیٹھے احمق لوگ ہر اس بات سے آنکھیں بند رکھتے ہیں جوان کے لیے موزوں نہیں ہوتی اور سمجھتے رہتے ہیں کہ انقلاب احتجاج کرنے والے لوگ لاتے ہیں اور ان کو دبانے سے انقلاب دب جاتا ہے احتجاج کرنے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہوتے اور تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔
وہ بذات خو د انقلابی نہیں ہوتے لیکن ہر انقلابی دور کو ایسے عناصر کی معاونت میسر رہتی ہے جو عدم اطمینان اور ہیجان کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں لوگ محض کسی احتجا ج کے اشارے پر بڑا قدم اٹھانے کے لیے متحر ک نہیں ہوجاتے لوگ تو اپنے تحفظ کو سب چیزوں پر مقدم رکھتے ہیں ان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اسے بھی گنوانے کا خطرہ نہیں لیتے لیکن جب اقتصادی حالات، بے اختیار ی ، ان کے نمائندوں کا بے اختیار ہونا ، ان کے ووٹ کو کوئی اہمیت اور ان کی رائے کو کوئی حیثیت نہ دینا ، مہنگائی ، بے روزگاری جیسے حالات ہوں اور لوگوں کے روزمر ہ کے مسائل بڑھتے جائیں اور زندگی ناقابل برداشت بوجھ بن جائے تو پھر کمزور سے کمزور آدمی بھی خطرے سے کھیل جانے پر تیا رہو جاتا ہے پھر وہ احتجا ج کرنے والوں کی آواز بھی سن لیتا ہے۔
کیونکہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہی اس کی مصیبتوں ، دکھوں اور مشکلات کے خاتمے کا راستہ دکھا رہا ہے۔ پاکستان آج انقلاب کے دہانے پر پہنچ چکا ہے انقلاب عوام کے ذہنوں اور دلوں میں دستک دے رہا ہے ملک کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ خو شحال اور با اختیار ہونا چاہتے ہیں۔ آج جب کہ پوری دنیا میں مختلف ممالک اپنے آپ کو مزید معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کرنے کی کو ششوں میں لگے ہوئے ہیں جب کہ ہم اختیارات کے عدم توازن کے ایسے گو رکھ دھندے میں پڑے ہوئے ہیں کہ جس سے نکلنا بغیر کشیدگی کے ممکن نظر نہیں آرہا۔ پاکستان کے عوام ایسا ملک چاہے ہیں جہاں دہشت گردی نہ ہو، جہاں کوئی مذہبی جنونیت نہ ہو۔
جہاں مہنگائی اور بیروزگاری نہ ہو۔ جہاں تعلیم عام ہو۔ لوگو ں کو مفت صحت، پینے کا صاف پانی میسر ہو جہاں لو ڈشیڈنگ نہ ہو ، جہاں معاشرے میں عدم برداشت نہ ہو ارسطو کہتا ہے کہ جس نے ریاست کی بنیاد رکھی ہے وہ محسنوں میں سب سے بڑا تھا ریاست کا مقصد اچھی زندگی ہے ریاست کنبوں اور گائوں کا ایسا اجتماع ہے جس میں زندگی خو د کفیل ہو جس کے معنی پر مسرت اور باعزت زندگی ہے ایک سیاسی معاشرے کا وجود محض اجتما ع کے لیے نہیں بلکہ بہترین اعمال کے لیے تشکیل پاتا ہے وہ کہتا ہے۔
سیاست انسان تخلیق نہیں کرتی بلکہ جیسے ہیں ان ہی سے کام لیتی ہے حکومت کا کام عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے اس طرح سیاست اخلاقیات میں تبدیل ہو جاتی ہے مملکت کا وجود انسانوں کے لیے ہے انسانوں کاوجود مملکت کے لیے نہیں ہے انسان تو بس ایک ہی مقصد کے لیے پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے خوش ہونا۔ اسوقت ناانصافی ، غربت و افلاس ، عدم مساوات ، ظلم و ستم و عدم برداشت کی دنیا بھر میں سب سے زیادہ وحشت زدہ تصویر پاکستان ہے جسے دیکھ کر دنیا کے انسان دہشت زدہ ہوجاتے ہیں ۔
جتنی بر بادی اور زیادتی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہوئی ہے اس کی مثال ملنا ناممکن ہے ۔ پاکستان کے لوگوں کو پتھر سمجھنے والوں یاد رکھو وہ بھی گوشت پو ست کے بنے ہوئے ہیں ان کے سینوں میں بھی دل دھڑکتا ہے وہ بھی خواب دیکھتے ہیں ، وہ بھی سوچتے ہیں ، ان کو اتنا ذلیل و خوار نہ کرو کہ تمہار ی زندگیوں کے لالے پڑ جائیں کیونکہ جب لاوہ پھٹا ہے تو سامنے آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کر دیتا ہے یاد رکھنا ! لاوہ پھٹنے کو ہے ، دیکھتے ہیں کون بچتا ہے اور کون لا وے کی زد میں آ کر جل جاتا ہے ۔