آلو لے لو بھائی …

کیا حکمرانوں کے سینوں میں دل نہیں ہے؟ کہ انھیں غریبوں کا احساس تک نہیں ہوتا؟


انیس منصوری July 04, 2014
[email protected]

کیا حکمرانوں کے سینوں میں دل نہیں ہے؟ کہ انھیں غریبوں کا احساس تک نہیں ہوتا؟ یہ کیا تماشہ لگا ہوا ہے کہ اسلامی مملکت خدا داد پاکستان میں بابرکت رمضان المبارک آتے ہی مہنگائی بڑھ گئی۔ شاید حکومت ہی بس اس مہینے میں برکت حاصل کرنا چاہتی ہے ۔کمرہ عدالت میں سناٹا سا تھا اور جج صاحب شاید اتنے عرصے سے ہوائوں کو ہی حکم دے رہے تھے اسی لیے وہ خود پر کنٹرول نہ کر سکے اور جب ایک بار پھر حکومتی نمائندوں نے مزید ڈیٹا جمع کرانے کی بات کی تو کہنے لگے ۔ہمیں ڈیٹا نہیں چاہیے۔ کیونکہ غریب کے پیٹ میں ڈیٹا ڈالنے سے کچھ نہیں ہوگا۔

امیروں کو چھوٹ دے کر غریبوں کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ جج صاحب کی بات ابھی مکمل نہیں ہو ئی تھی۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ کمیٹیاں بنا بنا کر بس معاملے کو مٹی میں دبا دیا جاتا ہے اس لیے کہنے لگے کہ یہ کمیٹیاں بنانے کا وقت نہیں ہے یہ عمل کا وقت ہے ۔اور جب جج صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ کمیٹیاں بننے سے گاڑیوں اور کھانے کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں لیکن غریب کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ تو پھر مسئلہ کیسے حل ہو گا ۔

ہم سب تو نا جانے کتنے سانپوں سے روز ڈسے جاتے ہیں۔ پل پل مرتے ہیں اور جیسے ہی جینے کی آس کسی انقلابی کی شکل میں اٹھنے لگتی ہے تو پھر وہ ہی سانپ پل پل ڈسنے لگ جاتا ہے۔ نا جانے جج صاحب کس سانپ کا ذکر کر رہے تھے اور کہنے لگے کہ کون جیے گا اُس وقت تک جب تک حکومت دوا کرے گی۔ سپریم کورٹ میں کئی مہینوں سے آٹے کی قیمت پر ایک سماعت جاری ہے جس میں ہر بار ایک نہیں تاریخ ایک نئی کمیٹی اور ایک نئی معلومات کے بعد اگلی سماعت کی تاریخ آ جاتی ہے ۔

جج صاحب نے ریمارکس دیے کہ سرکاری افسر ان ائرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف کاغذوں کا پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔ قانون تو بن جاتا ہے اُس پر عمل نہیں ہوتا ۔

کیا بھیاناک تضاد پایا جا تا ہے۔ یہ ماہ مبارک جو ہمارے لیے رحمتیں لاتا ہے۔ یہ ماہ مبارک جس میں جنت کے دروازے کھُل جاتے ہیں یہ ماہ مبارک جو ہمیں صبر سیکھاتا ہے۔ یہ ماہ مبارک جو ہمیں روزے کی صورت میں دوسروں کی بھوک کا احساس دلاتا ہے۔ ہم اجتماعی طور پر اس کے بالکل مخالف نظر آتے ہیں ۔ چاند نظر آتے ہی ہمارے حکمران ایک پیغام بھیج دیتے ہیں۔ ہمیں مبارک باد دیتے ہیں لیکن حقیقی طور پر ہمیں الفاظ کے ہیر پھیر میں گھما کر ہمارے بچوں کے سامنے ہماری تذلیل کرتے ہیں۔

ایک روایتی سا اعلان ''حکومت اس سال اربوں روپے کی سبسڈی دے گی'' اُس پر ٹھیک تو کہا جج صاحب نے کہ کوئی محلات میں رہتا ہو یا جھونپڑی میں آپ نے اعلان کر دیا کہ سب کے لیے اربوں کی چھوٹ دے دی۔ مگر ہوتا کیا ہے اُس سے صرف امیر فائدہ اٹھاتے ہیں ، اور غریب ہر کریانے کی دکان پر ایک ایک چاول کے دانے کے لیے جہاد کر رہا ہوتا ہے۔

بچت بازار لگائے جائیں گے۔ لیکن اُس میں ہر چیز مہنگی بیچی جاتی ہے۔ اسٹال لگانے سے لے کر مال بیچنے تک کرپشن ہی کرپشن۔ اگر کسی غریب کو ایک کلو گرام آٹا خریدنا ہو تو کیا وہ پچاس روپے کا کرایہ خرچ کر کے آٹا لینے جائے گا۔ آخر کب تک چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ لگا کر ہمیں بیوقوف بنایا جائے گا ۔ کبھی کوئی پالیسی بن سکے گی؟ جناب اب بالکل چھ ہزار نئے یوٹیلٹی اسٹورز بنائیے مگر کبھی تو، کسی کو تو اُس کے گھر کے پاس سہولت فراہم کر دیں۔ آپ ہی بتا دیں کہ آپ نے یہ سبسڈی کے دعوئوں کے علاوہ کون سے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں جس پر ہر افطار کے وقت ہمارے دل سے دعائیں نکل رہی ہوں ۔

آپ کے لیے دو روپے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہوںگے لیکن ایک غریب کے لیے یہ آپ کے بھاری بھرکم اور شاہانہ زندگی کی طرح ہیں۔

آپ کو ہمیشہ اپنا پچھلا دور یاد کرنے کا بہت شوق ہے۔جس میں آپ کے بقول دودھ کی نہریں بہا کرتی تھیں۔ تو آپ کو یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ جس وقت آپ کی حکومت ختم ہوئی اُس وقت اوسطاً پورے ملک میں آٹے کی قیمت 9 روپے فی کلوگرام تھی۔ جو آج تقریباً 42 سے 45 روپے ہیں ۔اب آپ بچوں کی طرح یہ بہانہ مت کیجیے گا کہ یہ کھلونا میں نے نہیں توڑا بلکہ پڑوس کا بچہ توڑ گیا۔ ماشااللہ سے آپ کی حکومت کو ایک سال ہو چکا ہے۔ اور آٹے کی قیمت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے۔ آپ کے دو روپے والے تندور تو سارے ٹھنڈے ہو گئے۔ کیوں کہ آپ نے ایک عارضی حل دیا۔ ایک پراجیکٹ دیا ۔ ہر پراجیکٹ کی ایک مدت ہوتی ہے۔ اور اُس کے بعد ختم۔ کاش آپ ایک پالیسی دے پاتے۔

جس ملک میں آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ آٹے کی قیمت کس طرح سے مقرر کر کے اُس کو اُسی قیمت پر فروخت بھی کیا جا سکے اور سپریم کورٹ اُس کی سماعت پر سماعت کر رہی ہو وہاں اور بھی کئی تندور لگا دیے جائیں تو وہ بھی اگلے رمضان تک ٹھنڈے ہو جائیں گے ۔

آپ ہمیشہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ایٹم بم کا دھماکا کر کے ہمیں پوری دنیا کے اندر سُرخرو کر دیا تو جناب عزت مآب یہ بھی بتا دیں کہ وہ کون سی چھڑی تھی جوکہیںکھو گئی ہے اور اب آپ اندھیرے میں یہاں وہاں ہاتھ مار مار کر غریبوں کو ختم کرنے پر بضد ہے۔ اور اب آپ نے غریبوں کے لیے دال کو بھی مرغی بنا دیا۔ ایٹم بم کی طرح یہ بھی تو یاد کیجیے کہ اُس وقت چنے کی دال 24 روپے کلو گرام تھی جو آج 105 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ وزیر خزانہ صاحب فرما دیں کہ اس کی ذمے داری ہماری نہیں کیونکہ مہنگائی ہم نے نہیں کی ہمیں ورثہ میں ملی ہے۔ تو اور کوئی ہے حکومت میں جو یہ بتا دے کہ جناب پچھلے سال یہ 95 روپے کی تھی اس سال دس روپے کا اضافہ کیسے ہو گیا؟ تو یقیناً یہ فرما دیا جائے گا کہ ملک حالت جنگ میں ہے۔

لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے قبائلی علاقوں سے ہجرت کی ہے اس لیے دال کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور پورے ملک سے دالیں وہیں جا رہی ہیں اس لیے منافع خوروں نے پیسہ کمانا شروع کر دیا ہے۔ اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب انتظام اور انتظامیہ کا یہ حال ہو تو پھر کمشنر کراچی کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے خبروں میں زندہ رہنا چاہیے۔ آپ کو بھی چاہیے کہ اُن کے نقش قدم کو اپنائیں اور سب سے پہلے خواجہ سرائوں کی ایک فوج جمع کیجیے۔ میڈیا کے لوگوں کو دعوت دیجیے۔ اور اہم کمیٹیوں اور میٹنگ میں اُن کی شرکت کو یقینی بنا دیں۔ کمشنر کراچی کا تو معلوم نہیں کہ اُن کے اس نرالے تجربے سے مہنگائی میں کتنی کمی ہوئی لیکن یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ خبروں میں بڑی جگہ مل جائے گی۔

حکومت ہم جیسے غریبوں کو بھی بتا دے کہ جن کا بجٹ عام دنوں میں خسارے میں جاتا ہے رمضان میں تو کوئی قرضہ بھی نہیں دیتا۔ کراچی میں دودھ کے نرخ 70 روپے کا دعوی تھا مگر 80 میں فروخت ہو رہا ہے۔ اب ہم جیسے غریبوں کو کون قرض دے گا حکومت نے ایک سال میں 6 کھرب اور 21 کروڑ کا قرضہ ہم غریبوں کے نام پر لے لیا کوئی ہمیں بھی ٹوٹکا بتا دو کہ ہم بھی قرض کی مے پی لیں، اور فاقہ مستی کے دن گزار لیں .... اور اپنے بچوں کو مہنگا دودھ پلا کر اس بات کے لیے تیار کر لیں کہ جب وہ جوان ہوں تو انھیں کس طرح قرض لینا ہے۔

چلتے چلتے ایک اور خادم کا کارنامہ بھی پڑھتے جائیںکہ پہلے روزے کو لاہور میں سرکاری طور پر آلو کی قیمت 59 روپے تھی جو دوسرے روزے کو 64 روپے کی کر دی گئی۔ لیکن مارکیٹ میں 75 روپے بکتا رہا۔ ماہر نجوم بتا رہے ہیں کہ آلو پھر مارکیٹ سے غائب ہو رہا ہے اور وزیر خزانہ کو سب کچھ چھوڑ کر آلو کے پیچھے جانا ہو گا کہ کہیں پھر سے کوئی آلو نہ آ جائے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں