بانی مزدور تحریک مرزا محمد ابراہیم
مرزا صاحب نے بڑھ چڑھ کر یونین سازی میں حصہ لیا وہ بہترین مقرر تھے
برصغیر اور پاکستان میں ٹریڈ یونین اور ترقی پسند تحریک کے بانی بابائے محنت کش، مرزا محمد ابراہیم کی 11 اگست کو 25 ویں برسی منائی جارہی ہے، وہ 1999 کو اپنے شہر جہلم میں انتقال کرگئے تھے۔ مرزا ابراہیم انسانی برابری، انصاف پر مبنی ایک غیر طبقاتی نظام اور سوشل ازم کے حامی تھے اور ساری عمر اس نظام کے لیے جدوجہد کرتے رہے، وہ ممتاز مفکر اور دانشور کارل مارکس، لینن، ماؤزے تنگ اور ہوچی منہ کے نظریات کے کٹر حامی تھے اور آخری دم تک اس پر قائم رہے۔
وہ ساری دنیا کے عوام کے ساتھ اپنے ملک کے عوام کی بھی خوشحالی چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ مرزا ابراہیم 1905ء میں جہلم کے ایک گاؤں کالا گجراں میں مرزا عبداللہ کے گھر پیدا ہوئے۔ اسی گاؤں میں بھارت کے ایک وزیر اعظم اندرکمال گجرال اور بھارتی فوج کے جنرل اروڑا بھی پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی، بھٹہ مزدور اور پھر ریلوے میں برج ورکشاپ جہلم سے بطور معاون ہیلپرکیا۔
انہوں نے اپنی عملی جدوجہد کا آغاز خلافت موومنٹ سے کیا جو اس وقت برطانوی سامراج کے خلاف تھی اور پورے برصغیر میں تھی اور 1920-21 میں زوروں پر تھی، جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کر رہے تھے، وہ 1926 میں برج ورکشاپ جہلم میں ملازم ہوگئے، وہیں سے انہوں نے یونین میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
1920 میں ہندوستان نارتھ ویسٹرن ریلوے میں ہڑتالیں ہو رہی تھیں، 1920 میں ریلوے میں یونین بن گئی تھی اور پھر 1926 میں پہلا ٹریڈ یونین ایکٹ بنا۔ مرزا ابراہیم کو یونین میں حصہ لینے کی وجہ سے جہلم سے تبادلہ کر کے کیرج شاپ مغل پورہ لاہور بھیج دیا گیا اور وہ 1930 میں لاہور آگئے جہاں وہ ساری عمر رہے اور 1999 اپریل میں اپنے گاؤں چلے گئے اس وقت ریلوے میں 2 یونینز تھیں ، جن میں (نارتھ ویسٹرن ریلوے ) NWR یونین میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کر دیا، وہ اس یونین کے مغل پورہ ورکشاپس کے صدر مقرر ہوئے، جس کا مرکزی صدر J.B Miller ایک انگریز تھا۔
مرزا صاحب نے بڑھ چڑھ کر یونین سازی میں حصہ لیا وہ بہترین مقرر تھے۔ بعد ازاں ان کا رابطہ ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہوگیا۔ مرزا ابراہیم نے ہمیں بتایا کہ مجھے کمیونسٹ پارٹی نے اسٹڈی سرکل میں خود پڑھایا، سرمایہ کیا ہے، سامراج کیا ہے، محنت کیا ہے، سرمایہ داری کیا ہے، مذہب کیا ہے، سر پلس ویلیوکیا ہے، طبقات کیا ہیں اورکس طرح مزدور طبقہ جدوجہد کرکے اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے۔
1917 میں روس میں انقلاب آچکا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی سے رابطے کے بعد وہ لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہوئے۔ بعد میں پارٹی نے کانگریس سے مل کر ریلوے میں فیڈریشن (Railway man Federation) کی بنیاد رکھی، جس کے بانیوں میں وہ شامل تھے اور فیڈریشن کے سینئر نائب صدر مقرر ہوئے جبکہ صدر وی وی گری (V.V. Gire) بنے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بھی بنے۔
اس دور میں انگریزوں کے خلاف سخت نفرت اور بغاوت تھی، دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے، ان کو فارغ کردیا جائے جس کے خلاف ریلوے میں فیڈریشن نے سخت احتجاج کیا۔ 1946 ہندوستان میں بغاوتوں کا سال تھا۔ اسی دوران دہلی میں پولیس ملازمین نے ہڑتال کردی، دوسری طرف نیول فوج اور انبالہ میں رائل ایئر فورس نے بھی بغاوت کردی۔
فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال دے دی۔ یکم مئی 1946 یوم مئی کے موقع پر زبردست احتجاجی جلسے کیے اور پھر صبح 7 بجے تا 11 بجے چارگھنٹے کے لیے ریل کا پہیہ جام کردیا اور پھر 27 جون 1946 کو رات 12 بجے سے مکمل ہڑتال کرنے کا نوٹس دے دیا۔ اس طرح پورے ہندوستان میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اسٹرائیک کمیٹی بنائی گئی اور ملازمین سے ہڑتال کے حق میں فارم بھروائے گئے جس کا سر براہ مرزا ابراہیم کو بنایا گیا۔ 96 ہزار ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فارم بھرے اور اسٹرائیک فنڈ بھی دیا گیا۔ اس موقعے پر حکمرانوں نے مرزا ابراہیم کو پیش کش کی کہ وہ ہڑتال سے لا تعلق ہوجائیں۔ اسپتال میں داخل ہوجائیں، اس کے عوض بھاری معاوضہ دیا جائے گا۔ ملک تقسیم ہو رہا ہے،آپ کو حیدرآباد ورکشاپ میں اسسٹنٹ منیجر بنا دیا جائے گا۔ آپ کے ساتھیوں کو بھی نوازا جائے گا، آپ پاکستان چلے جائیں مگر انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا، بعد میں حکومت نے مرزا ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنا کر انہیں گرفتارکرنے کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
مرزا ابراہیم زیر زمین چلے گئے چونکہ پورے ہندوستان میں بغاوت تھی اس لیے حکمرانوں کو فیڈریشن کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑے اور اس طرح ڈیڑھ لاکھ مزدور بے روزگار ہونے سے بچ گئے اور حکومت کو 9 تا 10 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں مزدوروں کو دینے پڑے۔ اس طرح یہ تاریخ ساز ہڑتال ختم ہو سکی، مگر اس کی پاداش میں مرزا ابراہیم کو تقسیم سے 5 ماہ قبل مارچ 1947 میں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
اس وقت ان کی ملازمت کو 23 سال ہو چکے تھے اور وہ وائر مین کے عہدے پر فائز تھے۔ حکومت اور ریلوے انتظامیہ نے ان کو کوئی معاوضہ نہ دیا یہ ایک مزدور رہنما کی بڑی قربانی تھی۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ پارٹی اور فیڈریشن کے کل وقت کا رکن بن گئے اور انہوں نے پاکستان کی پہلی مزدور فیڈریشن کی بنیاد 1948 میں رکھی جس کا نام پاکستان ٹریڈ فیڈریشن رکھا، جس کے وہ بانی صدر مقرر ہوئے۔ فیڈ ریشن میں ان کے ساتھ فیض احمد فیض، سی آر اسلم، ایرک اسپرین، سردار شوکت علی، سوبھوگیان چندانی بھی شریک تھے جبکہ سیکریٹری ایم اے مالک بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر بھی بنے۔
اس طرح یہ پہلی مزدور فیڈریشن تھی۔ مرزا ابراہیم نے برصغیر کے کئی ایک بڑے بڑے نامور سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں اورکام بھی کیا، جن میں موہن داس گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، خان عبد الغفار خان، جی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی سمیت کئی رہنما شامل تھے۔ جن کے ساتھ جیل کاٹی اور کام کیا، ان میں سجاد ظہیر، حسن ناصر، دادا امیر حیدر، فیروز الدین منصور، محمود الحق عثمانی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، سی آر اسلم، انیس ہاشمی، سوبھوگیان چندانی، امام علی نازش ڈاکٹر، اعزاز نذیر، سردار شوکت علی، میجر محمد اسحق، افضل بنگش، غلام نبی کلو، عابد حسین منٹو، کنیز فاطمہ، احمد الطاف، کیپٹن ظفراللہ یونس، محمد حسین عطا، طفیل عباس، چوہدری فتح محمد، حیدر بخش جتوئی سمیت کئی ایک رہنما شامل تھے۔ تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر میں وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی۔
اس موقعے پر لیاقت علی خان نے ان سے کہا کہ '' اب پاکستان بن گیا ہے جس کی حمایت کمیونسٹ پارٹی نے بھی کی ہے، آپ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں ، آپ کو وزارت محنت کا قلمدان دیا جائے گا۔'' انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور یوں ان کا ٹکراؤ پہلی مرتبہ حکومت سے ہوگیا۔ پھر انہیں دسمبر 1947 میں گرفتار کر لیا گیا اور یوں وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بن گئے۔ رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیزکردیں، انہیں 1949 میں گرفتار کر لیا گیا۔ پھر 1951 میں گرفتار کر لیے گئے، جہاں سے انہوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے جن کے مقابلے پر پاکستان مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی تھے۔
اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انہیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے، جو الیکشن کے موقع پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے۔ محنت کش عوام میں بڑا جوش وخروش تھا۔ مرزا صاحب جیل میں تھے ان کی کامیابی کا اعلان بھی کیا گیا۔ بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت پر سرکاری اہلکاروں نے راتوں رات ہارنے والے امیدوار احمد سعید کرمانی کو کامیاب قرار دے دیا۔ مرزا ابراہیم کے ڈھائی ہزار ووٹوں کو رد کردیا گیا۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن پر پابندی لگا کر ایک مرتبہ پھر انہیں گرفتارکر لیا گیا۔ مختصر یہ کہ مرزا ابراہیم 17 مرتبہ جیل گئے اور 6 مرتبہ قلعے میں نظر بند کیا گیا، ہر مرتبہ سی کلاس کے قیدی رہے۔ 1970 میں حکومت نے الیکشن کرائے۔ مرزا ابراہیم کو ذوالفقارعلی بھٹو نے پیشکش کی کہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں مگر انہوں نے انکارکردیا۔ غرض یہ کہ مرزا صاحب ایک عظیم الشان اور سیاسی مزدور رہنما تھے۔ مزدور کا یہ قلندر 11 اگست 1999 میں عوام کو سوگوار کرگیا۔
وہ ساری دنیا کے عوام کے ساتھ اپنے ملک کے عوام کی بھی خوشحالی چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ مرزا ابراہیم 1905ء میں جہلم کے ایک گاؤں کالا گجراں میں مرزا عبداللہ کے گھر پیدا ہوئے۔ اسی گاؤں میں بھارت کے ایک وزیر اعظم اندرکمال گجرال اور بھارتی فوج کے جنرل اروڑا بھی پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی، بھٹہ مزدور اور پھر ریلوے میں برج ورکشاپ جہلم سے بطور معاون ہیلپرکیا۔
انہوں نے اپنی عملی جدوجہد کا آغاز خلافت موومنٹ سے کیا جو اس وقت برطانوی سامراج کے خلاف تھی اور پورے برصغیر میں تھی اور 1920-21 میں زوروں پر تھی، جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کر رہے تھے، وہ 1926 میں برج ورکشاپ جہلم میں ملازم ہوگئے، وہیں سے انہوں نے یونین میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
1920 میں ہندوستان نارتھ ویسٹرن ریلوے میں ہڑتالیں ہو رہی تھیں، 1920 میں ریلوے میں یونین بن گئی تھی اور پھر 1926 میں پہلا ٹریڈ یونین ایکٹ بنا۔ مرزا ابراہیم کو یونین میں حصہ لینے کی وجہ سے جہلم سے تبادلہ کر کے کیرج شاپ مغل پورہ لاہور بھیج دیا گیا اور وہ 1930 میں لاہور آگئے جہاں وہ ساری عمر رہے اور 1999 اپریل میں اپنے گاؤں چلے گئے اس وقت ریلوے میں 2 یونینز تھیں ، جن میں (نارتھ ویسٹرن ریلوے ) NWR یونین میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کر دیا، وہ اس یونین کے مغل پورہ ورکشاپس کے صدر مقرر ہوئے، جس کا مرکزی صدر J.B Miller ایک انگریز تھا۔
مرزا صاحب نے بڑھ چڑھ کر یونین سازی میں حصہ لیا وہ بہترین مقرر تھے۔ بعد ازاں ان کا رابطہ ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہوگیا۔ مرزا ابراہیم نے ہمیں بتایا کہ مجھے کمیونسٹ پارٹی نے اسٹڈی سرکل میں خود پڑھایا، سرمایہ کیا ہے، سامراج کیا ہے، محنت کیا ہے، سرمایہ داری کیا ہے، مذہب کیا ہے، سر پلس ویلیوکیا ہے، طبقات کیا ہیں اورکس طرح مزدور طبقہ جدوجہد کرکے اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے۔
1917 میں روس میں انقلاب آچکا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی سے رابطے کے بعد وہ لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہوئے۔ بعد میں پارٹی نے کانگریس سے مل کر ریلوے میں فیڈریشن (Railway man Federation) کی بنیاد رکھی، جس کے بانیوں میں وہ شامل تھے اور فیڈریشن کے سینئر نائب صدر مقرر ہوئے جبکہ صدر وی وی گری (V.V. Gire) بنے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بھی بنے۔
اس دور میں انگریزوں کے خلاف سخت نفرت اور بغاوت تھی، دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے، ان کو فارغ کردیا جائے جس کے خلاف ریلوے میں فیڈریشن نے سخت احتجاج کیا۔ 1946 ہندوستان میں بغاوتوں کا سال تھا۔ اسی دوران دہلی میں پولیس ملازمین نے ہڑتال کردی، دوسری طرف نیول فوج اور انبالہ میں رائل ایئر فورس نے بھی بغاوت کردی۔
فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال دے دی۔ یکم مئی 1946 یوم مئی کے موقع پر زبردست احتجاجی جلسے کیے اور پھر صبح 7 بجے تا 11 بجے چارگھنٹے کے لیے ریل کا پہیہ جام کردیا اور پھر 27 جون 1946 کو رات 12 بجے سے مکمل ہڑتال کرنے کا نوٹس دے دیا۔ اس طرح پورے ہندوستان میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اسٹرائیک کمیٹی بنائی گئی اور ملازمین سے ہڑتال کے حق میں فارم بھروائے گئے جس کا سر براہ مرزا ابراہیم کو بنایا گیا۔ 96 ہزار ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فارم بھرے اور اسٹرائیک فنڈ بھی دیا گیا۔ اس موقعے پر حکمرانوں نے مرزا ابراہیم کو پیش کش کی کہ وہ ہڑتال سے لا تعلق ہوجائیں۔ اسپتال میں داخل ہوجائیں، اس کے عوض بھاری معاوضہ دیا جائے گا۔ ملک تقسیم ہو رہا ہے،آپ کو حیدرآباد ورکشاپ میں اسسٹنٹ منیجر بنا دیا جائے گا۔ آپ کے ساتھیوں کو بھی نوازا جائے گا، آپ پاکستان چلے جائیں مگر انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا، بعد میں حکومت نے مرزا ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنا کر انہیں گرفتارکرنے کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
مرزا ابراہیم زیر زمین چلے گئے چونکہ پورے ہندوستان میں بغاوت تھی اس لیے حکمرانوں کو فیڈریشن کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑے اور اس طرح ڈیڑھ لاکھ مزدور بے روزگار ہونے سے بچ گئے اور حکومت کو 9 تا 10 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں مزدوروں کو دینے پڑے۔ اس طرح یہ تاریخ ساز ہڑتال ختم ہو سکی، مگر اس کی پاداش میں مرزا ابراہیم کو تقسیم سے 5 ماہ قبل مارچ 1947 میں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
اس وقت ان کی ملازمت کو 23 سال ہو چکے تھے اور وہ وائر مین کے عہدے پر فائز تھے۔ حکومت اور ریلوے انتظامیہ نے ان کو کوئی معاوضہ نہ دیا یہ ایک مزدور رہنما کی بڑی قربانی تھی۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ پارٹی اور فیڈریشن کے کل وقت کا رکن بن گئے اور انہوں نے پاکستان کی پہلی مزدور فیڈریشن کی بنیاد 1948 میں رکھی جس کا نام پاکستان ٹریڈ فیڈریشن رکھا، جس کے وہ بانی صدر مقرر ہوئے۔ فیڈ ریشن میں ان کے ساتھ فیض احمد فیض، سی آر اسلم، ایرک اسپرین، سردار شوکت علی، سوبھوگیان چندانی بھی شریک تھے جبکہ سیکریٹری ایم اے مالک بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر بھی بنے۔
اس طرح یہ پہلی مزدور فیڈریشن تھی۔ مرزا ابراہیم نے برصغیر کے کئی ایک بڑے بڑے نامور سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں اورکام بھی کیا، جن میں موہن داس گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، خان عبد الغفار خان، جی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی سمیت کئی رہنما شامل تھے۔ جن کے ساتھ جیل کاٹی اور کام کیا، ان میں سجاد ظہیر، حسن ناصر، دادا امیر حیدر، فیروز الدین منصور، محمود الحق عثمانی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، سی آر اسلم، انیس ہاشمی، سوبھوگیان چندانی، امام علی نازش ڈاکٹر، اعزاز نذیر، سردار شوکت علی، میجر محمد اسحق، افضل بنگش، غلام نبی کلو، عابد حسین منٹو، کنیز فاطمہ، احمد الطاف، کیپٹن ظفراللہ یونس، محمد حسین عطا، طفیل عباس، چوہدری فتح محمد، حیدر بخش جتوئی سمیت کئی ایک رہنما شامل تھے۔ تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر میں وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی۔
اس موقعے پر لیاقت علی خان نے ان سے کہا کہ '' اب پاکستان بن گیا ہے جس کی حمایت کمیونسٹ پارٹی نے بھی کی ہے، آپ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں ، آپ کو وزارت محنت کا قلمدان دیا جائے گا۔'' انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور یوں ان کا ٹکراؤ پہلی مرتبہ حکومت سے ہوگیا۔ پھر انہیں دسمبر 1947 میں گرفتار کر لیا گیا اور یوں وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بن گئے۔ رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیزکردیں، انہیں 1949 میں گرفتار کر لیا گیا۔ پھر 1951 میں گرفتار کر لیے گئے، جہاں سے انہوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے جن کے مقابلے پر پاکستان مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی تھے۔
اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انہیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے، جو الیکشن کے موقع پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے۔ محنت کش عوام میں بڑا جوش وخروش تھا۔ مرزا صاحب جیل میں تھے ان کی کامیابی کا اعلان بھی کیا گیا۔ بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت پر سرکاری اہلکاروں نے راتوں رات ہارنے والے امیدوار احمد سعید کرمانی کو کامیاب قرار دے دیا۔ مرزا ابراہیم کے ڈھائی ہزار ووٹوں کو رد کردیا گیا۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن پر پابندی لگا کر ایک مرتبہ پھر انہیں گرفتارکر لیا گیا۔ مختصر یہ کہ مرزا ابراہیم 17 مرتبہ جیل گئے اور 6 مرتبہ قلعے میں نظر بند کیا گیا، ہر مرتبہ سی کلاس کے قیدی رہے۔ 1970 میں حکومت نے الیکشن کرائے۔ مرزا ابراہیم کو ذوالفقارعلی بھٹو نے پیشکش کی کہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں مگر انہوں نے انکارکردیا۔ غرض یہ کہ مرزا صاحب ایک عظیم الشان اور سیاسی مزدور رہنما تھے۔ مزدور کا یہ قلندر 11 اگست 1999 میں عوام کو سوگوار کرگیا۔