بوڈاپسٹ… دنیا کامنفرد شہر
ہنگری میں مردوں کی اوسط عمر71 سال اور خواتین کی اوسط عمر78 سال ہے
ان دنوں میں ہنگری کے دارالحکومت بوڈا پسٹ میں ہوں۔ تاریخ کا طالبعلم ہو یا بین الاقوامی تعلقات کا تجزیہ نگار، یورپ کے فطری حسن کا دلدادہ ہو یا عام سیاح، بوڈاپسٹ کا شہر سب کے لیے کشش رکھتا ہے۔ مشرقی یورپ اور مغربی یور پ کے وسط میں واقع ہنگری رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بہت بڑ املک نہیں لیکن اس میں ہر وہ کشش موجود ہے جو کسی بھی طرح کے سیاح اور محقق کے تجسس کو مطمئن کر سکتی ہے۔
بوڈاپسٹ دریا ڈینیوب کے کنارے آباد ہے۔ یہ دریا شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک کنارے پر بوڈا کا قدیم شہر آباد ہے جب کہ دوسرے کنارے پر پسٹ کا شہر ہے۔ ان دونوں شہروں کو پلوں کے ذریعے ملایا گیا ہے۔
ہنگری کی آبادی تقریباً 98لاکھ ہے جن میں سے 20لاکھ افرد بوڈاپسٹ میں رہتے ہیں۔ خواندگی کا تناسب 99 فیصد ہے۔ یہاں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان جرمن ہے۔ اس کے بعد مقامی زبان ہنگری بولی جاتی ہے۔ ملک میں سائن بورڈز انگریزی زبان میںملتے ہیں۔ ہنگری سیاحوں کے لیے محفوظ ملک ہے۔ آبادی کی اکثریت رومن کیتھولک ہے جب کہ تناسب کے اعتبار سے یہاں سولہ فیصد افراد یہودی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ مسلمانوں کی تعدا د بہت کم ہے۔ آبادی کے اعتبار سے ایک فیصد سے کم مسلمان یہاں آباد ہیں۔ بوڈاپسٹ میں ایک صوفی بزرگ ''گل بابا'' کا مزار بھی ہے۔ یہ جگہ سیاحوں کے لیے خاصی کشش رکھتی ہے۔
روایات کے مطابق پانچ سو سال قبل یہ صوفی بزرگ بوڈاپسٹ میں آئے تھے۔ انھیں پھول اگانے کا بہت شوق تھا، اس لیے ان کا نام گل بابا مشہور ہو گیا۔ بوڈاپسٹ کی ایک اونچی پہاڑی پر ان کا مزار ہے۔ ہنگری کی حکومت نے ترکی کے تعاون سے اس کی تزین و آرائش کا کام کیا ہے۔ مزار کی عمارت انتہائی پر کشش ہے۔ یہاں ایک مسجد بھی ہے اور آنے والے مہمانوں کے تاثرات لکھنے کے لیے''مہمانوں کی کتاب'' بھی رکھی گئی ہے۔ ہنگری میں پاکستانیوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق صرف 145 پاکستانی ہنگری میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
ہنگری میں مردوں کی اوسط عمر71 سال اور خواتین کی اوسط عمر78 سال ہے۔ صحت عامہ، تعلیم اور سوشل سیکیورٹی کی سہولت کے باعث یہاں کے لوگ صحت مند اور توانا نظر آتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کی رفتار کے اعتبار سے ہنگری غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آبادی کی بڑھوتری منفی 34 فیصد ہے۔
ہنگری کی دستاویزی تاریخ ساڑھے تین ہزار سال پرانی ہے۔ مشرقی یورپ سے خانہ بدوش ہجرت کر کے اس خطے میں آئے اور دریا کنارے بستی بسائی۔ یہ خطہ رومن سلطنت کے تابع بھی رہا۔ یہاں یونان نے بھی حکمرانی کی۔ بعدازاں جرمن قبائل نے اس خطے پر اپنا اثر قائم کیا۔ قبائلی دور میں ہنگری کا انتظام وقفے وقفے سے طاقتور قبائل کے قبضے میں آتا رہا حتیٰ کہ 435ء میں یہاںایک طاقتور قبیلے ''Huns'' نے حکومت قائم کر لی اور اس علاقے کا نام ہنگری قرار پایا۔ ہنگری کا لفظ بلگور اور ترکی زبان سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ''دس تیر، Ten Arrows'' ہے۔ ہنگری کے عوام بطور ایک قوم 900ء میں متحد ہوئے جب کہ کیتھولک ریاست 1000ء میں قرار پائی۔
بارھویں صدی کے وسط میں منگولوں نے اس خطے کو تاراج کیا۔1526سے 1699تک تقریباً پونے دو سو سال سلطنت عثمانیہ کے تحت مسلمانوں کی عملداری میں رہا۔ اس کے علاوہ روسیوں نے بھی یہاں حکمرانی کی۔ یہ ملک دو عالمی جنگوں کا میدان بھی رہا۔ ان جنگوں کے دوران بوڈاپسٹ شہر کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
بوڈاپسٹ میں ہنگری کی پارلیمنٹ بلڈنگ کے قریب دریائے ڈینیوب کے کنارے اسٹیل کے بہت سے جوتے نصب ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران بوڈاپسٹ میں رہنے والے یہودیوں کو دریا کے کنارے کھڑا کر کے جوتے اتارنے کا حکم دیا گیا اور پھر گولی مار کر دریا میں گرا دیا گیا۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق نازیوں نے یہودیوں کو ان کی سازشوں کی سزا دینے کے لیے یہ عمل کیا۔
آج یہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے تصاویر اتارنے کی ایک اہم جگہ شمار کی جاتی ہے۔ یہاں دن بھر سیاحوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ہٹلر کے نظریات کو پھیلانے کے لیے قائم کی گئی تنظیم Arrow Cross Party نے اسی ہزار سے زائد یہودیوں کو ہنگری سے نکل جانے کا حکم دیا۔ ان میں سے بیس ہزار یہودیوں نے خود کو بوڈاپسٹ میں روپوش کر لیا تھا۔ اس عسکری تنظیم نے ان کو ڈھونڈ نکالا اور حکم عدولی کرنے پر ان کو دریائے ڈینیوب کے کنارے اپریل 1945میں یہ مثالی سزا دی۔
بوڈاپسٹ دریا ڈینیوب کے کنارے آباد ہے۔ یہ دریا شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک کنارے پر بوڈا کا قدیم شہر آباد ہے جب کہ دوسرے کنارے پر پسٹ کا شہر ہے۔ ان دونوں شہروں کو پلوں کے ذریعے ملایا گیا ہے۔
ہنگری کی آبادی تقریباً 98لاکھ ہے جن میں سے 20لاکھ افرد بوڈاپسٹ میں رہتے ہیں۔ خواندگی کا تناسب 99 فیصد ہے۔ یہاں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان جرمن ہے۔ اس کے بعد مقامی زبان ہنگری بولی جاتی ہے۔ ملک میں سائن بورڈز انگریزی زبان میںملتے ہیں۔ ہنگری سیاحوں کے لیے محفوظ ملک ہے۔ آبادی کی اکثریت رومن کیتھولک ہے جب کہ تناسب کے اعتبار سے یہاں سولہ فیصد افراد یہودی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ مسلمانوں کی تعدا د بہت کم ہے۔ آبادی کے اعتبار سے ایک فیصد سے کم مسلمان یہاں آباد ہیں۔ بوڈاپسٹ میں ایک صوفی بزرگ ''گل بابا'' کا مزار بھی ہے۔ یہ جگہ سیاحوں کے لیے خاصی کشش رکھتی ہے۔
روایات کے مطابق پانچ سو سال قبل یہ صوفی بزرگ بوڈاپسٹ میں آئے تھے۔ انھیں پھول اگانے کا بہت شوق تھا، اس لیے ان کا نام گل بابا مشہور ہو گیا۔ بوڈاپسٹ کی ایک اونچی پہاڑی پر ان کا مزار ہے۔ ہنگری کی حکومت نے ترکی کے تعاون سے اس کی تزین و آرائش کا کام کیا ہے۔ مزار کی عمارت انتہائی پر کشش ہے۔ یہاں ایک مسجد بھی ہے اور آنے والے مہمانوں کے تاثرات لکھنے کے لیے''مہمانوں کی کتاب'' بھی رکھی گئی ہے۔ ہنگری میں پاکستانیوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق صرف 145 پاکستانی ہنگری میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
ہنگری میں مردوں کی اوسط عمر71 سال اور خواتین کی اوسط عمر78 سال ہے۔ صحت عامہ، تعلیم اور سوشل سیکیورٹی کی سہولت کے باعث یہاں کے لوگ صحت مند اور توانا نظر آتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کی رفتار کے اعتبار سے ہنگری غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آبادی کی بڑھوتری منفی 34 فیصد ہے۔
ہنگری کی دستاویزی تاریخ ساڑھے تین ہزار سال پرانی ہے۔ مشرقی یورپ سے خانہ بدوش ہجرت کر کے اس خطے میں آئے اور دریا کنارے بستی بسائی۔ یہ خطہ رومن سلطنت کے تابع بھی رہا۔ یہاں یونان نے بھی حکمرانی کی۔ بعدازاں جرمن قبائل نے اس خطے پر اپنا اثر قائم کیا۔ قبائلی دور میں ہنگری کا انتظام وقفے وقفے سے طاقتور قبائل کے قبضے میں آتا رہا حتیٰ کہ 435ء میں یہاںایک طاقتور قبیلے ''Huns'' نے حکومت قائم کر لی اور اس علاقے کا نام ہنگری قرار پایا۔ ہنگری کا لفظ بلگور اور ترکی زبان سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ''دس تیر، Ten Arrows'' ہے۔ ہنگری کے عوام بطور ایک قوم 900ء میں متحد ہوئے جب کہ کیتھولک ریاست 1000ء میں قرار پائی۔
بارھویں صدی کے وسط میں منگولوں نے اس خطے کو تاراج کیا۔1526سے 1699تک تقریباً پونے دو سو سال سلطنت عثمانیہ کے تحت مسلمانوں کی عملداری میں رہا۔ اس کے علاوہ روسیوں نے بھی یہاں حکمرانی کی۔ یہ ملک دو عالمی جنگوں کا میدان بھی رہا۔ ان جنگوں کے دوران بوڈاپسٹ شہر کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
بوڈاپسٹ میں ہنگری کی پارلیمنٹ بلڈنگ کے قریب دریائے ڈینیوب کے کنارے اسٹیل کے بہت سے جوتے نصب ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران بوڈاپسٹ میں رہنے والے یہودیوں کو دریا کے کنارے کھڑا کر کے جوتے اتارنے کا حکم دیا گیا اور پھر گولی مار کر دریا میں گرا دیا گیا۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق نازیوں نے یہودیوں کو ان کی سازشوں کی سزا دینے کے لیے یہ عمل کیا۔
آج یہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے تصاویر اتارنے کی ایک اہم جگہ شمار کی جاتی ہے۔ یہاں دن بھر سیاحوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ہٹلر کے نظریات کو پھیلانے کے لیے قائم کی گئی تنظیم Arrow Cross Party نے اسی ہزار سے زائد یہودیوں کو ہنگری سے نکل جانے کا حکم دیا۔ ان میں سے بیس ہزار یہودیوں نے خود کو بوڈاپسٹ میں روپوش کر لیا تھا۔ اس عسکری تنظیم نے ان کو ڈھونڈ نکالا اور حکم عدولی کرنے پر ان کو دریائے ڈینیوب کے کنارے اپریل 1945میں یہ مثالی سزا دی۔