کھیلوں کی زبوں حالی اور اکلوتا گولڈ میڈل
دہشت گردی کے ماحول میں گولڈ میڈل ملنا، پاکستانی شہریوں کے لیے مسرت کا باعث بنا ہے
پیرس اولمپکس میں پاکستان بلآخر ان ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے جنھوں نے کم ازکم ایک سونے کا تمغہ حاصل کیا ہے۔ کئی ایسے ممالک بھی ہیں، جو تاحال ایک بھی تمغہ حاصل نہیں کر سکے۔ پاکستان نے جیولین تھرو کے انفرادی مقابلے میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔
پاکستان کو 40 سال بعد اولمپک گولڈ میڈل جتوانے والے کھلاڑی ارشد ندیم کا لاہور میں شاندار استقبال کیا گیا ہے۔ میڈیا کے مطابق گولڈ میڈل جیتنے کے چند گھنٹوں بعد سوشل میڈیا پر ارشد ندیم کے لاکھوں فالوورز بڑھ گئے ہیں۔ پیرس میں جمعے کو ارشد ندیم کو سونے کا تمغہ پہنایا گیا تو پورا پاکستان خوش ہوگیا۔
موجودہ مشکل معاشی حالات اور دہشت گردی کے ماحول میں گولڈ میڈل ملنا، پاکستانی شہریوں کے لیے مسرت کا باعث بنا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی خوشی اور جوش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ارشد ندیم کے لیے انعامات کے اعلانات ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ ایک اچھی بات ہے کہ پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتنے والے کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن اس کے ساتھ حقائق سامنے رکھ کر یہ جائزہ بھی لینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر اسپورٹس میں کہاں کھڑا ہے۔
سوائے کرکٹ کے پاکستان میں کسی کھیل کی سرپرستی نہیں کی جا رہی۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک کرکٹ کے کھیل کے لیے جتنی جدوجہد اور فنڈز استعمال کیے گئے ہیں، دوسرے کسی کھیل کے لیے اس کا عشرعشیر بھی خرچ نہیں کیا گیا۔
آج صدر، وزیراعظم سے لے کر پنجاب، سندھ اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ تک ارشد ندیم کی تعریف کر رہے ہیں، انعامات کی باتیں سب کے سامنے ہیں جب کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے ارشدندیم کوسول ایوارڈ دینے کی قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کر لی۔ 92.97میٹر کی گولڈن تھرو کر کے ارشد ندیم نے تاریخ رقم کردی ہے اور اولمپکس میں نیا ریکارڈ بنا دیا ہے۔
ٹریک اینڈ فیلڈ میں پاکستان کا یہ پہلا گولڈ میڈل بھی ہے۔ ندیم ارشد نے مینز جیولین تھرو ایونٹ کے فائنل میں 92.97میٹر ریکارڈ فاصلے پر نیزہ پھینک کر نیا اولمپک ریکارڈ بنایا۔ اولمپک گیمز میں پاکستان نے 32 برس بعد کوئی میڈل جیتا ہے جب کہ سونے کا میڈل 40 سال بعد حاصل کیا ہے، ارشد ندیم کو انفرادی مقابلوں میں پاکستان کو پہلا گولڈ میڈل دلانے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔
پاکستان نے پیرس اولمپکس میں حصہ لینے کے لیے کھلاڑیوں کا جو دستہ بھیجا، اس میں سے صرف ارشد ندیم کو ہی پاکستان کی واحد میڈل امید قرار دیا جارہا تھا، ایتھلیٹس گیمز میں پاکستان کے 7 کھلاڑیوں نے حصہ لیا، 6 تو کوالیفائنگ مرحلے میں ہی آخری نمبروں پر رہے اور ایونٹ سے باہر ہوگئے۔ اس سے پاکستان کے کھلاڑیوں کی صلاحیت اور اہلیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جب کہ ان کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے والوں کے معیار اور شناخت کرنے کی صلاحیت کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی سطح پر کھیل کی وزارت ہے، اس وزارت میں یقینا افسران اور ملازمین بھی ہوں گے، جنھیں قومی خزانے سے تنخواہیں بھی ادا کی جاتی ہوں گی لیکن یہ وزارت کیا کرتی ہے، اس کا دائرہ اختیار کیا ہے، اس وزارت کے وزیر، سیکریٹری اور دیگر افسران و اہلکار اپنے ڈیوٹی آورز کیسے گزارتے ہیں، اس کے بارے میں حکومت کو کوئی وائٹ پیپر یا کوئی اور فہرست ضروری جاری کرنی چاہیے تاکہ اس ملک کے ٹیکس پیئرز کو بھی پتہ چل سکے کہ ملک کو وزارت کھیل کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں؟ اسی طرح ہاکی فیڈریشن، فٹ بال فیڈریشن اور کبڈی فیڈریشن بھی موجود ہے۔
ان پر بھی سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ ہو رہا ہے لیکن نتائج توقعات سے کم ہیں۔ ہاکی کے زوال اور فٹ بال کی پستی کے بارے میں گاہے بگاہے خبریں آتی رہتی ہیں لیکن اس حوالے سے کبھی کوئی ٹھوس اور مثبت لائحہ عمل دیکھنے میں نہیں آیا جب کہ کبڈی کے کھیل پر تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ ہی نہیں ہے۔ افسر شاہی اس کھیل کو دیہی طبقے کی تفریح سمجھتے ہیں۔ افسر شاہی کے کل پرزے چونکہ گالف، ٹینس، اسکواش، چیس، گھڑ دوڑ یا کرکٹ کھیلتے اور دیکھتے ہیں، اس لیے افسر شاہی کی نظر میں باقی سب کھیل فضول اور غیرمہذب ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان عالمی کھیلوں میں بڑا نام نہیں بن سکا ہے۔ پیرس اولمپکس میں میڈلز کی تعداد کے حوالے سے چین اور امریکا کی تو بات چھوڑیں، جمعے تک کے اعداد وشمار کے مطابق یوکرائن جیسے جنگ زدہ ملک نے تین گولڈ میڈل جیتے ہیں جب کہ چار سلور میڈل اور چار برونز میڈل جیتے ہیں اور اس کے کل میڈلز کی تعداد 11 ہے۔ ایران کے ٹوٹل میڈلز کی تعداد 6 ہے جن میں 2 سونے کے میڈل شامل ہیں۔ فلپائن بھی ایک پسماندہ ملک ہے۔ اس کے میڈلز کی تعداد 4 ہے جس میں 2 سونے کے میڈل ہیں۔ افریقہ کے ملک کینیا کے ٹوٹل میڈل 5 ہیں جن میں ایک سونے کا تمغہ بھی شامل ہے۔ ان اعداد وشمار کو دیکھ کر پاکستان کی معیشت کی حالت کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور پاکستان کی حکومتوں کی ترجیحات کا بھی بآسانی پتہ چل جاتا ہے۔
پاکستان میں پارلیمنٹیرینز کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، وزراء، مشیران اور معاونین کی بھی بھرمار ہے، ان پر بھی سرکاری خزانے سے خرچ کیا جاتا ہے لیکن ایسے کام جن سے ملک کی عزت اور شان بڑھے، ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جتنے پیسے کرکٹ بورڈ کے پاس ہیں، اگر اس کا بیس فیصد بھی والی بال، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس اور اتھلیٹکس پر خرچ کیا جائے، محنتی پروفیشنلز کو ملازمت دی جائے، تو چند برسوں میں پاکستان ان کھیلوں میں عالمی پوزیشن حاصل کر سکتا ہے۔
اسی طرح کبڈی کے کھیل کو کمرشل کر دیا جائے اور اس کی سرپرستی کی جائے تو اس کھیل میں پاکستان نمبرون پوزیشن پر رہے گا حالانکہ ان نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کبڈی کے میدان میں پہلے نمبر پر ہے۔ فٹ بال کی بات کریں تو صرف کراچی کے لیاری سے ہی پوری نیشنل ٹیم تیار ہو سکتی ہے۔ سندھ کے شیدی قبیلے کے نوجوانوں میں قوت، برداشت اور حوصلہ بھی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے ضلع مکران کے باشندے جسمانی اعتبار سے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ ان علاقوں میں فٹ بال، باکسنگ اور اتھلیٹکس کے بہترین کھلاڑی موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ مراعات یافتہ طبقوں کے نونہال باکسنگ، فٹ بال، والی بال، سو میٹر، چار سو میٹر اور میراتھن ریس میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ان کھیلوں میں غریب اور متوسط طبقے کے نوجوان ہی کامیاب ہوں گے کیونکہ وہی سخت مشقت والی گیمز کھیل سکتے ہیں۔
اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کا پس منظر بھی محنت اور مشقت کی زندگی ہے۔ اسکواش، گالف اور ٹینس جیسے کھیل انفرادی بھی ہیں اور ایک فیشن ٹرینڈ بھی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے کھیلوں کے شائق طبقے شاید باکسنگ اور لانگ جمپ جیسے کھیل نہیں کھیل سکتے۔ بہرحال اولمپک گولڈ میڈل جیتنے پر پاکستانی کرکٹرز نے ارشد ندیم کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھی ایک وڈیو جاری کی گئی، جس میں کرکٹ برادری کو ارشد ندیم کی ریکارڈ ساز کارکردگی کے بعد بھرپور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستانی کرکٹرز نے سوشل میڈیا پر اپنی خوشی اور فخر کا اظہار کیا ہے۔
بابراعظم، حارث رؤف، سرفراز احمد، نسیم شاہ، فخرزمان، شاداب خان اور عمر گل نے ارشد ندیم کو اس بے مثال کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔ اس سارے منظرنامے میں پاکستان کے لوگوں نے ارشد ندیم کی والدہ اور دوسرے نمبر پر رہنے والے بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑا کی والدہ کے تبصروں کو بہت پسند کیا ہے۔ درحقیقت متنازع سرحد کے اطراف کی دو ماؤں کی طرف سے ارشد کی یادگار کامیابی کوگلے لگانا سب سے زیادہ شاندار اورجاندار لمحات تھے۔دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کا انسانیت پر یقین اس وقت زندہ ہوگیا جب ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کی ماؤں نے نتائج کو خوش اسلوبی کے ساتھ قبول کیا اور دونوں کو اپنا ''بیٹا'' قرار دیا۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ آج کی مادیت پسند دنیا میں ایسے رویے ناپید ہوچکے ہیں۔
جس طرح دونوں ماؤں نے ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کو اپنے بیٹوں سے تشبیہ دی، ان کی باتیں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں اور لاکھوں لوگوں نے ان کی تعریف کی کہ دو خواتین نے دل گرما دینے والے محسوسات کا اظہارکرکے دو ہمسایہ ممالک کی حکومتوں کے لیے امن کی کھڑکی کھولی ہے جنھوں نے 76 برسوں میں تین جنگیں لڑی ہیں۔ یہ تو احساسات کی بات ہے، عوامی جذبات اور احساسات ہر جگہ ایسے ہی ہوتے ہیں البتہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور اداروں کو کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان کو 40 سال بعد اولمپک گولڈ میڈل جتوانے والے کھلاڑی ارشد ندیم کا لاہور میں شاندار استقبال کیا گیا ہے۔ میڈیا کے مطابق گولڈ میڈل جیتنے کے چند گھنٹوں بعد سوشل میڈیا پر ارشد ندیم کے لاکھوں فالوورز بڑھ گئے ہیں۔ پیرس میں جمعے کو ارشد ندیم کو سونے کا تمغہ پہنایا گیا تو پورا پاکستان خوش ہوگیا۔
موجودہ مشکل معاشی حالات اور دہشت گردی کے ماحول میں گولڈ میڈل ملنا، پاکستانی شہریوں کے لیے مسرت کا باعث بنا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی خوشی اور جوش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ارشد ندیم کے لیے انعامات کے اعلانات ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ ایک اچھی بات ہے کہ پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتنے والے کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن اس کے ساتھ حقائق سامنے رکھ کر یہ جائزہ بھی لینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر اسپورٹس میں کہاں کھڑا ہے۔
سوائے کرکٹ کے پاکستان میں کسی کھیل کی سرپرستی نہیں کی جا رہی۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک کرکٹ کے کھیل کے لیے جتنی جدوجہد اور فنڈز استعمال کیے گئے ہیں، دوسرے کسی کھیل کے لیے اس کا عشرعشیر بھی خرچ نہیں کیا گیا۔
آج صدر، وزیراعظم سے لے کر پنجاب، سندھ اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ تک ارشد ندیم کی تعریف کر رہے ہیں، انعامات کی باتیں سب کے سامنے ہیں جب کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے ارشدندیم کوسول ایوارڈ دینے کی قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کر لی۔ 92.97میٹر کی گولڈن تھرو کر کے ارشد ندیم نے تاریخ رقم کردی ہے اور اولمپکس میں نیا ریکارڈ بنا دیا ہے۔
ٹریک اینڈ فیلڈ میں پاکستان کا یہ پہلا گولڈ میڈل بھی ہے۔ ندیم ارشد نے مینز جیولین تھرو ایونٹ کے فائنل میں 92.97میٹر ریکارڈ فاصلے پر نیزہ پھینک کر نیا اولمپک ریکارڈ بنایا۔ اولمپک گیمز میں پاکستان نے 32 برس بعد کوئی میڈل جیتا ہے جب کہ سونے کا میڈل 40 سال بعد حاصل کیا ہے، ارشد ندیم کو انفرادی مقابلوں میں پاکستان کو پہلا گولڈ میڈل دلانے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔
پاکستان نے پیرس اولمپکس میں حصہ لینے کے لیے کھلاڑیوں کا جو دستہ بھیجا، اس میں سے صرف ارشد ندیم کو ہی پاکستان کی واحد میڈل امید قرار دیا جارہا تھا، ایتھلیٹس گیمز میں پاکستان کے 7 کھلاڑیوں نے حصہ لیا، 6 تو کوالیفائنگ مرحلے میں ہی آخری نمبروں پر رہے اور ایونٹ سے باہر ہوگئے۔ اس سے پاکستان کے کھلاڑیوں کی صلاحیت اور اہلیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جب کہ ان کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے والوں کے معیار اور شناخت کرنے کی صلاحیت کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی سطح پر کھیل کی وزارت ہے، اس وزارت میں یقینا افسران اور ملازمین بھی ہوں گے، جنھیں قومی خزانے سے تنخواہیں بھی ادا کی جاتی ہوں گی لیکن یہ وزارت کیا کرتی ہے، اس کا دائرہ اختیار کیا ہے، اس وزارت کے وزیر، سیکریٹری اور دیگر افسران و اہلکار اپنے ڈیوٹی آورز کیسے گزارتے ہیں، اس کے بارے میں حکومت کو کوئی وائٹ پیپر یا کوئی اور فہرست ضروری جاری کرنی چاہیے تاکہ اس ملک کے ٹیکس پیئرز کو بھی پتہ چل سکے کہ ملک کو وزارت کھیل کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں؟ اسی طرح ہاکی فیڈریشن، فٹ بال فیڈریشن اور کبڈی فیڈریشن بھی موجود ہے۔
ان پر بھی سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ ہو رہا ہے لیکن نتائج توقعات سے کم ہیں۔ ہاکی کے زوال اور فٹ بال کی پستی کے بارے میں گاہے بگاہے خبریں آتی رہتی ہیں لیکن اس حوالے سے کبھی کوئی ٹھوس اور مثبت لائحہ عمل دیکھنے میں نہیں آیا جب کہ کبڈی کے کھیل پر تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ ہی نہیں ہے۔ افسر شاہی اس کھیل کو دیہی طبقے کی تفریح سمجھتے ہیں۔ افسر شاہی کے کل پرزے چونکہ گالف، ٹینس، اسکواش، چیس، گھڑ دوڑ یا کرکٹ کھیلتے اور دیکھتے ہیں، اس لیے افسر شاہی کی نظر میں باقی سب کھیل فضول اور غیرمہذب ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان عالمی کھیلوں میں بڑا نام نہیں بن سکا ہے۔ پیرس اولمپکس میں میڈلز کی تعداد کے حوالے سے چین اور امریکا کی تو بات چھوڑیں، جمعے تک کے اعداد وشمار کے مطابق یوکرائن جیسے جنگ زدہ ملک نے تین گولڈ میڈل جیتے ہیں جب کہ چار سلور میڈل اور چار برونز میڈل جیتے ہیں اور اس کے کل میڈلز کی تعداد 11 ہے۔ ایران کے ٹوٹل میڈلز کی تعداد 6 ہے جن میں 2 سونے کے میڈل شامل ہیں۔ فلپائن بھی ایک پسماندہ ملک ہے۔ اس کے میڈلز کی تعداد 4 ہے جس میں 2 سونے کے میڈل ہیں۔ افریقہ کے ملک کینیا کے ٹوٹل میڈل 5 ہیں جن میں ایک سونے کا تمغہ بھی شامل ہے۔ ان اعداد وشمار کو دیکھ کر پاکستان کی معیشت کی حالت کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور پاکستان کی حکومتوں کی ترجیحات کا بھی بآسانی پتہ چل جاتا ہے۔
پاکستان میں پارلیمنٹیرینز کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، وزراء، مشیران اور معاونین کی بھی بھرمار ہے، ان پر بھی سرکاری خزانے سے خرچ کیا جاتا ہے لیکن ایسے کام جن سے ملک کی عزت اور شان بڑھے، ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جتنے پیسے کرکٹ بورڈ کے پاس ہیں، اگر اس کا بیس فیصد بھی والی بال، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس اور اتھلیٹکس پر خرچ کیا جائے، محنتی پروفیشنلز کو ملازمت دی جائے، تو چند برسوں میں پاکستان ان کھیلوں میں عالمی پوزیشن حاصل کر سکتا ہے۔
اسی طرح کبڈی کے کھیل کو کمرشل کر دیا جائے اور اس کی سرپرستی کی جائے تو اس کھیل میں پاکستان نمبرون پوزیشن پر رہے گا حالانکہ ان نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کبڈی کے میدان میں پہلے نمبر پر ہے۔ فٹ بال کی بات کریں تو صرف کراچی کے لیاری سے ہی پوری نیشنل ٹیم تیار ہو سکتی ہے۔ سندھ کے شیدی قبیلے کے نوجوانوں میں قوت، برداشت اور حوصلہ بھی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے ضلع مکران کے باشندے جسمانی اعتبار سے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ ان علاقوں میں فٹ بال، باکسنگ اور اتھلیٹکس کے بہترین کھلاڑی موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ مراعات یافتہ طبقوں کے نونہال باکسنگ، فٹ بال، والی بال، سو میٹر، چار سو میٹر اور میراتھن ریس میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ان کھیلوں میں غریب اور متوسط طبقے کے نوجوان ہی کامیاب ہوں گے کیونکہ وہی سخت مشقت والی گیمز کھیل سکتے ہیں۔
اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کا پس منظر بھی محنت اور مشقت کی زندگی ہے۔ اسکواش، گالف اور ٹینس جیسے کھیل انفرادی بھی ہیں اور ایک فیشن ٹرینڈ بھی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے کھیلوں کے شائق طبقے شاید باکسنگ اور لانگ جمپ جیسے کھیل نہیں کھیل سکتے۔ بہرحال اولمپک گولڈ میڈل جیتنے پر پاکستانی کرکٹرز نے ارشد ندیم کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھی ایک وڈیو جاری کی گئی، جس میں کرکٹ برادری کو ارشد ندیم کی ریکارڈ ساز کارکردگی کے بعد بھرپور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستانی کرکٹرز نے سوشل میڈیا پر اپنی خوشی اور فخر کا اظہار کیا ہے۔
بابراعظم، حارث رؤف، سرفراز احمد، نسیم شاہ، فخرزمان، شاداب خان اور عمر گل نے ارشد ندیم کو اس بے مثال کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔ اس سارے منظرنامے میں پاکستان کے لوگوں نے ارشد ندیم کی والدہ اور دوسرے نمبر پر رہنے والے بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑا کی والدہ کے تبصروں کو بہت پسند کیا ہے۔ درحقیقت متنازع سرحد کے اطراف کی دو ماؤں کی طرف سے ارشد کی یادگار کامیابی کوگلے لگانا سب سے زیادہ شاندار اورجاندار لمحات تھے۔دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کا انسانیت پر یقین اس وقت زندہ ہوگیا جب ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کی ماؤں نے نتائج کو خوش اسلوبی کے ساتھ قبول کیا اور دونوں کو اپنا ''بیٹا'' قرار دیا۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ آج کی مادیت پسند دنیا میں ایسے رویے ناپید ہوچکے ہیں۔
جس طرح دونوں ماؤں نے ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کو اپنے بیٹوں سے تشبیہ دی، ان کی باتیں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں اور لاکھوں لوگوں نے ان کی تعریف کی کہ دو خواتین نے دل گرما دینے والے محسوسات کا اظہارکرکے دو ہمسایہ ممالک کی حکومتوں کے لیے امن کی کھڑکی کھولی ہے جنھوں نے 76 برسوں میں تین جنگیں لڑی ہیں۔ یہ تو احساسات کی بات ہے، عوامی جذبات اور احساسات ہر جگہ ایسے ہی ہوتے ہیں البتہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور اداروں کو کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔