نسلی امتیاز اور ریاستی جبرکی پالیسی
اسرائیل کے حوالے سے جانبدارانہ موقف اختیار کرنے سے بھارت میں سیاسی شگاف پیدا ہوا ہے
اسرائیلی فوج نے درندگی کی انتہا کرتے ہوئے نماز پڑھتے فلسطینیوں پر ہزاروں پاؤنڈ وزنی بم گرا دیے جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 100 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ دوسری جانب میانمار سے فرار ہونے والے روہنگیا شہریوں پر کیے گئے حملے میں بچ جانے والے تین لوگوں نے بتایا کہ 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے۔ روہنگیا اقلیت کو میانمار میں انتہائی ظلم و ستم کا سامنا ہے۔
مہذب دنیا میں اس بات کا تصور کرنا بھی محال سمجھا جاسکتا ہے کہ اسپتال یا اسکول یا علاقے چھوڑنے والے نہتے قافلوں پر بمباری کی جائے یا پناہ گزین کیمپوں پر بم گرائے جائیں۔ یہ ظلم، بربریت اور سفاکیت کی انتہا ہے کہ جسے فلسطینیوں کی نسل کُشی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی بربریت اور سفاکیت اسی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ غزہ سے نقل مکانی کرنے والوں کو بھی اسرائیلی طیارے نشانہ بنا رہے ہیں۔ غزہ میں ہزاروں مکانات اور عمارات ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ اسرائیلی فوج غزہ میں متعدد اسپتالوں کو نشانہ بنا چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ پر اسرائیلی بمباری کے بعد وہاں سے دس لاکھ سے زائد فلسطینی نقل مکانی کر چکے ہیں جب کہ غزہ کی ناکہ بندی کی وجہ سے وہاں پانی سمیت خوراک کی اشیاء کی قلت کے ساتھ ہر طرح کے امدادی سامان کی ترسیل رُکی ہوئی ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک39 ہزار 700 فلسطینی شہید اور 91 ہزار 700 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی مظالم، بربریت اور سفاکیت کی یہ تفصیل اپنی جگہ کچھ کم افسوسناک، الم ناک، شرمناک اور ہیبت ناک نہیں کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور یورپ کے کچھ دوسرے ممالک حسبِ سابق اسرائیل کی پُشت پناہی پر کمربستہ ہیں۔ جوبائیڈن غزہ پر وحشیانہ حملوں کے معاملے پر اسرائیل کو بری الذمہ اور دوسرے فریق (حماس) کو اس کا ذمے دار قرار دینے کے ساتھ اسرائیل کو ہر طرح کی امداد دینے کے عزم کا اعادہ کرچکے ہیں۔
تاریخ میں وسط ایشیا سے تعلق رکھنے والے تاتاریوں اور منگولوں کی سفاکیت اور بربریت کا ذکر ملتا ہے کہ چنگیزخان اور ہلاکو خان جیسے ان کے حکمران کیسے اپنے مد مقابل لشکروں کو شکست سے دوچارکرتے ہوئے ان کا قتلِ عام ہی نہیں کرتے تھے بلکہ مقتولین کے سروں کو کاٹ کر جہاں ان کی کھوپڑیوں کے مینار بنایا کرتے تھے وہاں مفتوحہ علاقوں، بستیوں اور آبادیوں کو تہس نہس کر کے انھیں خس و خاشاک بنا دیا کرتے تھے۔
ہلاکو خان کے ہاتھوں عباسی خلفاء کے دارالخلافہ بغداد جیسے تہذیب و تمدن اور علم و ثقافت کے مرکز کی تباہی کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ خیر سفاکیت اور بر بریت کے یہ واقعات اور تفاصیل گزرے ہوئے ادوار سے تعلق رکھتی ہیں۔ موجودہ دور میں اس طرح کی سفاکیت، بر بریت اور جارحیت کا تصور کرنا بھی محال ہے، لیکن انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسرائیل کی صیہونی حکومت غزہ کی پٹی اور دریائے اُردن کے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں جو کچھ کر رہی ہے وہ تاتاریوں اور منگولوں کی سفاکیت اور بربریت سے بھی بڑھ کر ہے۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی طرف سے حالیہ دِنوں میں جس بر بریت اور سفاکیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور بدستور جاری ہے وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کی طرف سے یہودیوں پر کیے جانے والے مظالم اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہو سکتے۔ اسرائیل کی جارحیت، بربریت، سفاکیت اور اس کے سر پرستوں کی طرف سے اس کی تائید اور حمایت کی یہ تفصیل بلاشبہ انتہائی شرمناک اور افسوس ناک ہے۔ تاہم یہ صورتِ حال ہمارے لیے اور بھی تکلیف دہ اور پریشان کُن روپ دھار لیتی ہے کہ امتِ مسلمہ اِس کا مداوا کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔ دنیا میں اسلامی ممالک کی تعداد 55 سے زائد اور ان کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔
اسلامی ممالک کی اپنی تنظیمیں اور فورمز ہیں جہاں سے وہ مسلم ممالک کے مسائل کے بارے میں آوازیں ہی نہیں بلند کر سکتے ہیں بلکہ ٹھوس لائحہ عمل بھی پیش کر سکتے ہیں۔ ماضی میں تقریباً سبھی اسلامی ممالک آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی) کا حصہ رہے ہیں تو ایشیا اور افریقہ کے عرب ممالک نے عرب لیگ کے نام سے الگ تنظیم بھی قائم کر رکھی تھی۔ اب بھی اسلامی ممالک او آئی سی کا حصہ ہیں لیکن یہ تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس سے تبدیل ہو کر اسلامی تعاون تنظیم (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) بن چکی ہے۔ خلیج تعاون کونسل نے عرب لیگ کی جگہ سنبھال لی ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی ممالک کی یہ تنظیمیں یا فورمز اسلامی ممالک کے مسائل کا کوئی ٹھوس حل نکالنے میں آج تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ دوسری جانب بھارت تاریخی طور پر فلسطین کے مسئلے میں اسرائیل کا حامی رہا ہے۔ سیاسی اور اقتصادی حمایت سے بڑھ کر اب دفاعی شعبے میں بھی بھارت اسرائیل کا حامی بن گیا ہے۔ 1947 میں بھارت نے فلسطین کی تقسیم کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ دیا اور پہلا غیر عرب ملک بن گیا جس نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینیوں کی قانونی اور نمایندہ تنظیم تسلیم کرلی۔ بھارت ان ممالک میں شامل تھا۔
جنھوں نے 1988 میں فلسطین کو تسلیم کیا، اگرچہ بھارت نے 1950 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا تاہم 1992 تک دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ ماضی کی روایات کے برعکس طوفان الاقصی میں بھارت نے اسرائیل کی سیاسی حمایت شروع کی۔ نریندر مودی اور بھارتی وزیر خارجہ ان عالمی رہنماؤں میں سے تھے جنھوں نے طوفان الاقصی کے بعد ابتدائی لمحات میں ہی فلسطینیوں کے اس حملے کی مذمت کی۔ غزہ میں صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے خالف اسٹینڈ لینے کے بجائے نریندر مودی نے کئی مرتبہ اسرائیلی وزیراعظم کو اپنا دوست قرار دیا ہے۔
بھارت کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اس حد تک بڑھی کہ 27 اکتوبرکو بھارت نے اقوام متحدہ میں غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ دینے سے بھی گریز کیا۔ مودی حکومت کے اس اقدام کی بھارت میں مذمت کی گئی۔ اسرائیل کے حوالے سے جانبدارانہ موقف اختیار کرنے سے بھارت میں سیاسی شگاف پیدا ہوا ہے۔ مودی کی قیادت میں برسر اقتدار جماعت اسرائیل کی حامی ہے جب کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس فلسطین کی حمایت کا اعادہ کرتی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں دونوں کے درمیان دفاعی تعلقات بھی بڑھ گئے ہیں۔ مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھارت نے 662 ملین ڈالر کے ہتھیار اسرائیل سے خریدے ہیں۔
فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودیوں کی آبادکاری کے لیے رہائشی کالونیاں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ بھارت سے ہزاروں مزدور ان مکانات کی تعمیرات میں حصہ لے رہے ہیں۔ بھارتیوں کو ملازمت مل رہی ہیں، اگرچہ غزہ جنگ کی وجہ سے ہزاروں بھارتیوں کو علاقہ چھوڑنا پڑا ہے۔ صہیونی فورسز کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں بھارتی فوجیوں کا بھی ہاتھ ہے اور فلسطینیوں پر اسرائیلی فورسز کے مظالم پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔درحقیقت اسرائیلی حکام اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سیکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں، اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے جب کہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔ سنگین ریاستی ظلم کی یہ شکلیں منظم جبر کے مترادف ہیں اور یہ صورتحال نسلی امتیاز کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔
اسی طرح روہنگیا کے مسلمانوں کی وجہ سے میانمارکی حکومت پر عالمی اقتصادی پابندیوں کا معاملہ سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی ذمے داری ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کو انسانی تاریخ کی بدترین نسل کشی اور نسلی امتیازکا سامنا ہے۔ برما کی فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں بے گناہ روہنگیا مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ شہید کیا اور ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ مسلمان ممالک، عالمی برادری اور اقوام متحدہ بھی روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کو برما کی دہشت گرد حکومت اور فوج سے تحفظ دلانے میں بری طرح ناکام ہیں۔
مقتدر ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اس شرط کے ساتھ مشروط کردیں کہ اسرائیلی حکام اپنے ان جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔ ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کونسی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہی ہیں، انسانی حقوق کو متاثرکر رہی ہیں اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کی جائے جو ان سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔