اے اہلِ وطن شام و سحر جاگتے رہنا
اِس اجتماعی مایوسی کی فضا میں بھی وطنِ عزیز کے لیے بے دریغ جان و مال لُٹانے والے کم نہیں ہیں
اگست 2024 کا یہ مہینہ بھی سال کے باقی مہینوں کی طرح افسردگیوں ، اُداسیوں اور احساسِ ناکامی کے جلو میں آگے بڑھ رہا ہے ۔اِس مہینے کے ایک دن حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی زبردست قیادت میں ہم اسلامیانِ متحدہ ہندوستان کو آزادی ملی تھی ۔ لاتعداد اور متنوع مخالفتوں کے منہ زور اور سرکش طوفان اُمنڈ کر آئے لیکن قائد اعظم کے پائے استقامت میں لرزش پیدا ہُوئی نہ وہ علیحدہ وطن کے مطالبے سے دستکش ہُوئے ۔
پاکستان کے نام سے ایک علیحدہ وطن معرضِ عمل میں آیا : جغرافیائی لحاظ سے دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی اور نظریاتی مملکت! آج مگر وہ قائد اعظم کا بنایا گیا پاکستان کہاں ہے ؟کوئی اِس کا جواب دیتا ہے نہ اِس بارے لب کشائی پر تیار ۔ ہم 24کروڑ تو ہو گئے ہیں لیکن ہم بابائے قوم کی وراثت کی حفاظت نہ کر سکے ۔ اِسے کیا نام دیا جائے ؟ ایسے پس منظر میں ہم کس منہ سے 77واں یومِ آزادی منانے جارہے ہیں؟
ناکامی ، نامرادی اور نااُمیدی کا یہ عالم ہے کہ آج ہر پاکستانی پاکستان سے بھاگ جانا چاہتا ہے۔ معیشت پر اتھارٹی عالمی خبر رساں ادارے (بلوم برگ) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں یہ انکشاف کرکے ہمارے تمام حکمرانوں کو نادم و شرمندہ کر دیا ہے کہ جولائی2015سے جولائی 2024تک پاکستان سے 64لاکھ لوگ بیرونِ ملک چلے گئے ہیں ۔''بلوم برگ'' نے اِس ترکِ وطن کے ہمہ دَم بڑھتے خطرناک رجحان کا تجزیہ کرتے ہُوئے لکھا ہے :'' پاکستان بطورِ مملکت اِس قابل ہی نہیں رہا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان طبقے کو اُمیدیں دلا سکے، انھیں اپنے دامن میں پناہ دے سکے اور انھیں روزگار فراہم کر سکے ۔
بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی ہر قسم کی بیوروکریسی ، حکمران طبقات، اعلیٰ ترین اشرافیہ اور مقتدر سیاستدانوں نے اپنے نجی، گروہی اور خاندانی مفادات کا تحفظ تو کیا مگر پاکستان کے اکثریتی عوام کی بھلائی نہ کر سکے۔'' اِسی مایوسی کا شاید یہ نتیجہ نکلا ہے کہ شریر قوتیں حوصلہ پکڑ کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف آمادۂ تخریب ہیں ۔ ''نیکٹا'' کی تازہ ترین رپورٹ میں بھی مبینہ طور پر اِسی جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ رپورٹ زبانِ حال سے، بقول شاعر، کہہ رہی ہے :اے اہلِ وطن شام و سحر جاگتے رہنا / اغیار ہیں آمادۂ شر جاگتے رہنا !!
یومِ آزادی کے اِن ایام میں کہا تو یہ جاتا ہے کہ مایوسی اور نااُمیدی کی باتیں کہی اور پھیلائی نہ جائیں ۔ قوم کو حوصلے کی ضرورت ہے۔ ٹھیک بات ہے ، لیکن جب قوم کے اجتماعی دل ہی مرجھا چکے ہوں تو پھر خوشیوں اور مسرتوں کی پھوار کہاں سے اور کیسے برسے؟ جب مفادات زدہ حکمرانوں ، لالچی اشرافیہ اور اعلیٰ ترین سرکاری مراعات میں دن رات غرق بیوروکریسی نے کمر توڑ مہنگائی اور قاتل مہنگی ترین بجلی سے ہر پاکستانی کی زندگی جہنم زار بنا رکھی ہو تو پھر حوصلہ دینے کی آواز کون لگائے ؟ کیوںلگائے ؟ اور کیسے لگائے ؟ باجے بجاتی اِس قوم کے ذرا دل ٹٹول کر تو دیکھیے ۔ ہر دل مجروح ، ہر رُوح مایوس، ہر آنکھ اشکبار ۔ بقول شاعر: مصحفی! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم / تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا۔
اِس اجتماعی مایوسی کی فضا میں بھی وطنِ عزیز کے لیے بے دریغ جان و مال لُٹانے والے کم نہیں ہیں۔ الحمد للہ ۔ ذرا پُرخطر اور بے اماں پاک افغان بارڈر پر ڈٹے افواجِ پاکستان کے جوانوں اور افسروں کی وطن کے لیے قربانیاں تو دیکھیے ۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر ہمارے جوان اور ہر شہری ہر روز ٹی ٹی پی (جنھیں احسان فراموش افغان مُلا طالبان کی سرپرستی اور اشیرواد حاصل ہے ) کے ہاتھوں وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں ۔
افغان طالبان حکمرانوں کو ہمارے آرمی چیف نے برادرانہ طور پرمشورہ بھی دیا ہے کہ آپ لوگ ''خوارج'' کے لیے اپنے اُس برادر اور ہمسایہ ملک سے تعلقات خراب نہ کریں جو پچھلے40سال سے40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے ۔ ہمارے آرمی چیف نے ٹی ٹی پی کو متنبہ بھی کیا ہے ۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ مذکورہ دونوں فریقین ( جنھوں نے اپنے گروہی، قبائلی اور مسلکی مفادات کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا ہے) جنرل عاصم منیر صاحب کے تھوڑے اشارے کو زیادہ سمجھیں گے اور اپنے پاکستان دشمن ایجنڈے سے باز آ جائیں گے ۔ بصورتِ دیگر مملکتِ خداداد پاکستان ، پاکستانی عوام اور افواجِ پاکستان کو ٹیڑھی اُنگلیوں سے گھی نکالنا پڑے گا ۔ پھر جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔
ایسے ایام میں پرسوں 14اگست2024 کو ہم77 واں یومِ آزادی منانے جا رہے ہیں ۔احساسِ زیاں کے چھائے گمبھیر بادلوں کے باوصف یہ جشن منانا اپنی جگہ ہماری ہمت ہے ، اِس آس و اُمید کے ساتھ شاید کل کا سورج خوشیوں اور مسرتوں کے ساتھ طلوع ہو جائے ۔ اِسی اُمید پر مملکتِ خداداد کے لیے اپنا مال عطیہ کرنے والے کم نہیں ہیں ۔
تازہ مثال پاکستان کے چیف جسٹس عزت مآب قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی سامنے آئی ہے ۔ خبر کے مطابق: پاکستان کے77ویں یومِ آزادی کے مبارک و مسعود موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے 31ہزار680مربع فٹ اپنی آبائی انتہائی قیمتی زمین بلوچستان حکومت کو عطیہ کردی ہے ۔ قیمتی زمین کا یہ شاندار تحفہ اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ زمین کا یہ ٹکڑا زیارت ریذیڈنسی سے منسلک و متصل ہے ، جہاں بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے ۔ یہ زمین قائد اعظم ریذیڈنسی (بلوچستان) سے متصل انوائر منٹل سینٹر کو باقاعدہ 14اگست2024کو حوالے کی جائے گی ۔ اِس قابلِ تحسین تحفہ کے پیشکاری میں جناب چیف جسٹس کے بھائی ، قاضی عظمت عیسیٰ، بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے ہم سب پر جو احسانات ہیں ، یہ دراصل شکریہ وطن کی ایک ادا ہے ۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ملک کے دگرگوں اور ڈانواڈول سیاسی ومعاشی حالات میں ایک عام پاکستانی کی نفسی و ذہنی حالت بھی ڈانوا ڈول ہے ۔ جنھیں مگر مملکتِ خداداد کے لیے خدمت کرنی ہے ، وہ صلے اور ستائش کی تمنا کیے بغیر خدمت انجام دیے جا رہے ہیں۔ 8اگست2024کواولمپکس (پیرس) میں نوجوان پاکستانی نیزہ باز، ارشد ندیم، نے93 میٹر پر نیزہ پھینک کر عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا ہے اور سونے کا تمغہ بھی حاصل کیا ہے ۔ پاکستان کو40سال بعد یہ گولڈ میڈل ملا ہے ۔ یومِ آزادی کے اِن ایام میں ارشد ندیم نے پوری پاکستانی قوم کی جھولی میں خوشی ڈالی ہے ۔ ردِ عمل میں مفلوک الحال پاکستانی قوم نے بھی فاتح ارشد ندیم کی جھولی کروڑوں روپے کے انعامات سے بھر دی ہے۔
پاکستان کے لیے کامیابیاں سمیٹنے والوں کو ہم اپنے جان و دل پیش کرتے ہیں ۔ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی ''اداؤں'' کو چھوڑیئے ،ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایسے جوہری سائنسدانوں کو جتنی محبت دی ہے ، اتنی محبت شاید ہی کسی ملک کے عوام نے اپنے ایٹم بم سازوں کو دی ہوگی۔
اپنے محسنین سے محبت و اکرام ہم پر قرض ہے ۔ پاکستانی اور بنگلہ دیشی عوام مگر کرپٹ ، بددیانت اور لٹیرے سیاستدانوں اور ہمہ قسم کے حکمرانوں کی عزت کرنے پر ہرگز تیار نہیں ہیں ۔ یہ 5 اگست 2024 کا دن تھا جب غصے میں دہکتے بنگلہ دیشی عوام نے آمرانہ ذہنیت کی حامل اپنی منتخب وزیر اعظم کا تختہ اُلٹ دیا ۔ موصوفہ اب اپنے اور اپنے مقتول والد کے محسن ملک میں سیاسی پناہ گیر بن چکی ہیں۔ فاعتبرو یا اولوالابصار۔ ہمارے حکمران بھی ناراض پاکستانی عوام کے غصے کو فراموش نہ کریں ۔