مشرق وسطیٰ اور امریکی ایجنڈا
مشرق وسطیٰ کی چوکیداری کے لیے ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی موزوں ترین ٹھہرا
پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد عثمانی سلطنت کے حصے بخرے ہو گئے اور برطانوی سامراج نے اپنی مرضی سے اس وسیع علاقہ کو مختلف ملکوں میں تقسیم کر دیا۔ اپنی مرضی کے حکمران چُنے۔ نہ صرف ان ریاستوں کی سرپرستی کی بلکہ ان کی حفاظت کی ذمے داری بھی لے لی۔ جب برطانوی سامراج کی جگہ امریکی سامراج نے لی تو مڈل ایسٹ کا سارا کنٹرول امریکا کے پاس چلا گیا۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ امریکا بہت دور تھا تو اس وسیع اور عریض علاقہ پر نظر کون رکھے۔
جہاں بے پناہ توانائی کے ذخائر تھے۔ چنانچہ اس کے لیے اسرائیل نامی ریاست وجود میں لائی گئی۔ جو نہ صرف عرب حکمرانوں پر نظر رکھے بلکہ عرب عوام پر بھی۔ ابتدا میں تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کو مصر ، شام، عراق، لیبیا سے خطرہ تھا لیکن جب 1967 کی جنگ میں تمام عرب ممالک کی متحدہ فوجی قوت بھی اسرائیل کو شکست نہ دے سکی تو اسرائیل اس کے بعد سے تو عرب ملکوں کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن گیا۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے باوجود اسرائیل عرب ملکوں کے مقابلے میں رقبہ کے لحاظ سے ایک چھوٹی ریاست تھی اور آبادی بھی مقابلۃً بہت کم تھی۔ تو اب کیا کیا جائے؟ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظر انتخاب ایران پر جا ٹھہری۔ ایران رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہونے کے علاوہ تیل پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ملکوں میں سے تھا۔
مشرق وسطیٰ کی چوکیداری کے لیے ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی موزوں ترین ٹھہرا۔ کیونکہ شہنشاہ کے ذریعے ایرانی تیل پر تصرف حاصل کیا جا سکتا تھا۔ دوسری طرف شہنشاہ کی امریکا نوازی کے سبب ایرانی عوام میں غم و غصہ پیدا ہو رہا تھا۔ ان حالات میں عوامی حمایت کے سبب محمد مصدق وزیر اعظم بنے تو انھوں نے تمام برطانوی اور امریکن تیل کی کمپنیوں کو قومیا لیا۔ جو ایرانی تیل ٹکے سیر خرید کر ایرانی قوم کو بے پناہ نقصان پہنچا رہی تھیں۔ اب یہاں سے امریکی سی آئی اے نے مصدق حکومت کے خلاف سازشوں کا جال بُننا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ مصدق حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایرانی تیل کے ذخائر مکمل طور پر امریکی سامراج کے کنٹرول میں آگئے جب کہ دیگر خلیجی ریاستوں کا تیل پہلے ہی سے اس کے کنٹرول میں تھا۔ اب ستے خیراں تھی۔ پورے مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مکمل قبضہ ہو گیا۔
اطمینان بخش صورتحال یہ تھی کہ اب اسرائیل اور ایران دونوں مل کر خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کر رہے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ایران پر امریکی کنٹرول بڑھتا چلا گیا ویسے ویسے ایرانی عوام میں امریکی سامراج کے خلاف نفرت بڑھتی چلی گئی۔ نتیجہ بے پناہ جبر ، ظلم و تشدد سیکڑوں ہزاروں ایرانی عوام کی ہلاکتوں کی شکل میں نکلا۔ آخری نتیجہ میں ایران میں ایسا عوامی انقلاب آیا جس نے شہنشاہ ایران کا تختہ اُلٹ دیا۔ یہ تو امریکی سامراج کے لیے ایک خوفناک زلزلہ تھا۔ ایران میں امریکی مفادات کا جنازہ نکل گیا۔ امریکا سمیت پوری مغربی دنیا میں وہ ماتم برپا ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ میں بغرض تعلیم وہیں مقیم اور عینی شاہد بھی ہوں۔
امام خمینی نے واپس تہران پہنچتے ہی اسرائیل کو نمبر ون دشمن فلسطینیوں کی مکمل غیر مشروط حمایت اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یہ تو اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنے والی بات تھی۔ اس ناقابل معافی جرم کی سزا یہ دی گئی کہ تہران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی گئی جس میں ایران کا بے پناہ جانی، مالی ، عسکری نقصان ہوا۔ لیکن بات پھر بھی نہ بنی۔ ایران اپنی روش سے پھر بھی باز نہ آیا۔ بے پناہ امریکی سازشوں کے باوجود جب ایرانی قیادت کو شکست نہ دی جا سکی تو امریکی سامراجی اسٹیبلشمنٹ نے نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا فارمولا اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر کے حزب اللہ کو شکست دیتے ہوئے شام پر حملہ آور ہونا اور وہاں سے ایران میں داخل ہو کر ایرانی قیادت اور حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔ لیکن اسرائیل جس نے عرب ملکوں کی متحدہ افواج کو 1967میں شکست دی تھی وہ حزب اللہ کے ہاتھوں ایسی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا کہ پوری دنیا حیران رہ گئی۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ غزہ جنگ شروع ہونے سے پہلے مشرق وسطیٰ میں کیا ایکٹیوٹی ہو رہی تھی۔ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے تھے۔ جو امریکا نے سی پیک کا متبادل روٹ بنایا تھا جو بھارت سے شروع ہو کر سعودی عرب اور اسرائیل سے ہوتا ہوا یورپ تک جانا تھا۔ اس طرح بھارت پورے خطے کی سُپر پاور بن جاتا۔ اسرائیل اور بھارت دو بڑی طاقتیں مل کر اس خطے پر حکمرانی کرتے ۔ یعنی بھارت کو وہ رول مل جاتا جو ماضی میں شہنشاہ ایران کو حاصل تھا۔ اس صورتحال میں پاکستان کہاں کھڑا ہوتا؟ بھارت اسرائیل تجارتی روٹ تعطل کا ضرور شکار ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔
حماس حملہ اس لیے نہیں ہوا تھا کہ اُن پر بہت ظلم ہو رہا تھا، اُن پر ظلم کا آغاز تو تقریباً ایک صدی پہلے 1936سے شروع ہو گیا تھا۔ حماس حملہ نے امریکی ایجنڈے کو خاک میں ملا دیا۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا حماس حملہ نے ہماری برسوں کی منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیا۔ اب ایک عرصے تک باقی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا مطلب یہ ہے کہ حماس حزب اللہ ایرانی قوت کا خاتمہ۔ یہی تو وہ بیچاری تین قوتیں ہیں جو اسرائیل ، امریکا ، یورپ کی قہر آلود قوتوں کا ''اکیلے ''مقابلہ کر رہی ہیں ۔ موجودہ حالات میں ایران پاکستان ایک دوسرے کی لائف لائن ہیں۔ اگر ایرانی ایٹمی تنصیبات کو کچھ ہوتا ہے تو پاکستانی ایٹمی تنصیبات بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ پاکستان کی بدترین تباہ کن معاشی صورتحال ایک طرف تو دوسری طرف آئی ایم ایف اور برادر اسلامی ممالک کی مالی مدد؟ مشرق وسطیٰ کی اس مجوزہ صورتحال میں پاکستان معمولی سا دباؤ بھی برداشت نہیں کر سکے گا۔ مجبور محض بن کر رہ جائے گا۔
جہاں بے پناہ توانائی کے ذخائر تھے۔ چنانچہ اس کے لیے اسرائیل نامی ریاست وجود میں لائی گئی۔ جو نہ صرف عرب حکمرانوں پر نظر رکھے بلکہ عرب عوام پر بھی۔ ابتدا میں تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کو مصر ، شام، عراق، لیبیا سے خطرہ تھا لیکن جب 1967 کی جنگ میں تمام عرب ممالک کی متحدہ فوجی قوت بھی اسرائیل کو شکست نہ دے سکی تو اسرائیل اس کے بعد سے تو عرب ملکوں کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن گیا۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے باوجود اسرائیل عرب ملکوں کے مقابلے میں رقبہ کے لحاظ سے ایک چھوٹی ریاست تھی اور آبادی بھی مقابلۃً بہت کم تھی۔ تو اب کیا کیا جائے؟ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظر انتخاب ایران پر جا ٹھہری۔ ایران رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہونے کے علاوہ تیل پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ملکوں میں سے تھا۔
مشرق وسطیٰ کی چوکیداری کے لیے ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی موزوں ترین ٹھہرا۔ کیونکہ شہنشاہ کے ذریعے ایرانی تیل پر تصرف حاصل کیا جا سکتا تھا۔ دوسری طرف شہنشاہ کی امریکا نوازی کے سبب ایرانی عوام میں غم و غصہ پیدا ہو رہا تھا۔ ان حالات میں عوامی حمایت کے سبب محمد مصدق وزیر اعظم بنے تو انھوں نے تمام برطانوی اور امریکن تیل کی کمپنیوں کو قومیا لیا۔ جو ایرانی تیل ٹکے سیر خرید کر ایرانی قوم کو بے پناہ نقصان پہنچا رہی تھیں۔ اب یہاں سے امریکی سی آئی اے نے مصدق حکومت کے خلاف سازشوں کا جال بُننا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ مصدق حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایرانی تیل کے ذخائر مکمل طور پر امریکی سامراج کے کنٹرول میں آگئے جب کہ دیگر خلیجی ریاستوں کا تیل پہلے ہی سے اس کے کنٹرول میں تھا۔ اب ستے خیراں تھی۔ پورے مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مکمل قبضہ ہو گیا۔
اطمینان بخش صورتحال یہ تھی کہ اب اسرائیل اور ایران دونوں مل کر خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کر رہے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ایران پر امریکی کنٹرول بڑھتا چلا گیا ویسے ویسے ایرانی عوام میں امریکی سامراج کے خلاف نفرت بڑھتی چلی گئی۔ نتیجہ بے پناہ جبر ، ظلم و تشدد سیکڑوں ہزاروں ایرانی عوام کی ہلاکتوں کی شکل میں نکلا۔ آخری نتیجہ میں ایران میں ایسا عوامی انقلاب آیا جس نے شہنشاہ ایران کا تختہ اُلٹ دیا۔ یہ تو امریکی سامراج کے لیے ایک خوفناک زلزلہ تھا۔ ایران میں امریکی مفادات کا جنازہ نکل گیا۔ امریکا سمیت پوری مغربی دنیا میں وہ ماتم برپا ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ میں بغرض تعلیم وہیں مقیم اور عینی شاہد بھی ہوں۔
امام خمینی نے واپس تہران پہنچتے ہی اسرائیل کو نمبر ون دشمن فلسطینیوں کی مکمل غیر مشروط حمایت اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یہ تو اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنے والی بات تھی۔ اس ناقابل معافی جرم کی سزا یہ دی گئی کہ تہران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی گئی جس میں ایران کا بے پناہ جانی، مالی ، عسکری نقصان ہوا۔ لیکن بات پھر بھی نہ بنی۔ ایران اپنی روش سے پھر بھی باز نہ آیا۔ بے پناہ امریکی سازشوں کے باوجود جب ایرانی قیادت کو شکست نہ دی جا سکی تو امریکی سامراجی اسٹیبلشمنٹ نے نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا فارمولا اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر کے حزب اللہ کو شکست دیتے ہوئے شام پر حملہ آور ہونا اور وہاں سے ایران میں داخل ہو کر ایرانی قیادت اور حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔ لیکن اسرائیل جس نے عرب ملکوں کی متحدہ افواج کو 1967میں شکست دی تھی وہ حزب اللہ کے ہاتھوں ایسی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا کہ پوری دنیا حیران رہ گئی۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ غزہ جنگ شروع ہونے سے پہلے مشرق وسطیٰ میں کیا ایکٹیوٹی ہو رہی تھی۔ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے تھے۔ جو امریکا نے سی پیک کا متبادل روٹ بنایا تھا جو بھارت سے شروع ہو کر سعودی عرب اور اسرائیل سے ہوتا ہوا یورپ تک جانا تھا۔ اس طرح بھارت پورے خطے کی سُپر پاور بن جاتا۔ اسرائیل اور بھارت دو بڑی طاقتیں مل کر اس خطے پر حکمرانی کرتے ۔ یعنی بھارت کو وہ رول مل جاتا جو ماضی میں شہنشاہ ایران کو حاصل تھا۔ اس صورتحال میں پاکستان کہاں کھڑا ہوتا؟ بھارت اسرائیل تجارتی روٹ تعطل کا ضرور شکار ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔
حماس حملہ اس لیے نہیں ہوا تھا کہ اُن پر بہت ظلم ہو رہا تھا، اُن پر ظلم کا آغاز تو تقریباً ایک صدی پہلے 1936سے شروع ہو گیا تھا۔ حماس حملہ نے امریکی ایجنڈے کو خاک میں ملا دیا۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا حماس حملہ نے ہماری برسوں کی منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیا۔ اب ایک عرصے تک باقی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا مطلب یہ ہے کہ حماس حزب اللہ ایرانی قوت کا خاتمہ۔ یہی تو وہ بیچاری تین قوتیں ہیں جو اسرائیل ، امریکا ، یورپ کی قہر آلود قوتوں کا ''اکیلے ''مقابلہ کر رہی ہیں ۔ موجودہ حالات میں ایران پاکستان ایک دوسرے کی لائف لائن ہیں۔ اگر ایرانی ایٹمی تنصیبات کو کچھ ہوتا ہے تو پاکستانی ایٹمی تنصیبات بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ پاکستان کی بدترین تباہ کن معاشی صورتحال ایک طرف تو دوسری طرف آئی ایم ایف اور برادر اسلامی ممالک کی مالی مدد؟ مشرق وسطیٰ کی اس مجوزہ صورتحال میں پاکستان معمولی سا دباؤ بھی برداشت نہیں کر سکے گا۔ مجبور محض بن کر رہ جائے گا۔