بھارت نواز سفاک آمر کا تکبر زمین بوس
بھارتی کٹھ پتلی سیاسی جماعت کے عروج و زوال کی روداد
آمر جب حکومت میں ہو تو سمجھتا ہے کہ کوئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا ۔مگر جب زوال کا لمحہ آئے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے گرنے سے نہیں بچا پاتی۔
بنگلہ دیش کی ڈکٹیٹر، بیگم حسینہ واجد بھی خود کو ناقابل زوال عظیم ہستی سمجھتی تھی، لیکن نوجوان بنگلہ دیشی طلبہ وطالبات کی حکومت مخالف تحریک نے آخرکار ۵ اگست کی دوپہر اس کا شاندار محل زمین بوس کر ڈالا۔بیگم حسینہ نے آمرانہ ، ظالمانہ اور نفرت آمیز اقدامات سے بنگلہ دیش میں خوف ودہشت کا جو ماحول تخلیق کیا تھا، نوجوانوں کی تحریک نے اسے پاش پاش کر دیا۔ تبھی اشرافیہ حکومت کے ستائے عوام بھی تحریک کا حصّہ بن گئے اور پھر عوامی طاقت کو جرنیل بھی نہ روک سکے۔پاکستان سے بے جا نفرت و دشمنی بھی بیگم حسینہ کے زوال کا اہم سبب ثابت ہوئی۔
معاشی ترقی کا فراڈ
جنوری 2009ء سے حسینہ واجد تزک واحتشام سے حکومت کر رہی تھی۔ آغاز جولائی 2024ء میں اس کے عالی شان محل پر پہلا پتھر لگا اور ایسا انکشاف ہوا جو ہم پاکستانیوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔دراصل پچھلے چند برس سے وطن عزیز کے میڈیا میں ایسے مضامین شائع ہو رہے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ ہمارا سابقہ ساتھی، مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے، ترقی و خوشحالی کی نئی منازل طے کر رہا ہے۔
وہاں کے حکمران طبقے نے گڈ گورنس یا اچھے انتظام کو اپنا لیا ہے جس سے عمدہ نتائج برآمد ہوئے ۔ وہاں غربت وبیماری ختم ہو رہی ہے۔فی کس آمدن جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہو گئی۔جبکہ ہم پستی میں گر چکے۔ ''یہ باتیں سچ لگتی تھیں ۔یوں بنگلہ دیش پاکستانی عوام و حکمران طبقے کے لیے رشک کا مقام بن گیا تو کچھ اس سے حسد بھی کرنے لگے۔ایسے مضامین عموماً یوم پاکستان کے موقع پر شائع ہوتے ہیں۔اس یوم آزادی پر مگر بازی الٹ گئی ۔
عالمی میڈیا نے انکشاف کیا کہ بنگلہ دیشی حکمران طبقے نے اپنی ریاست کی معاشی ترقی دکھانے کے لیے فراڈ سے کام لیا...وہ یوں کہ غلط اور جھوٹے اعداد وشمار کی مدد سے ملکی ترقی بڑھا چڑھا کر دکھائی گئی تاکہ اندرون و بیرون ملک اپنی مدح کرائی جا سکے اور دکھایا جائے کہ بنگلہ دیش ترقی کی راہ پہ گامزن ہے۔ قومی معیشت کی شرح ِترقی مسلسل بڑھ رہی ہے اور عالمی سطح پہ حکومت مثالی بن جائے۔
اس انکشاف نے حسینہ واجد کی حکومت کو ننگا کر دیا اور یہ سچائی اجاگر کی کہ وہ جھوٹ اور دھوکے بازی کا سہارا لے کر اپنی تعریف وتوصیف کرانے میں مصروف تھی۔یوں حسینہ واجد حکومت نے بڑی مکّاری سے خود پر سونے کا پانی چڑھا کر جو بین الاقوامی شہرت و عزت پائی تھی، وہ نیچے سے بھدی وگھناؤنی حقیقی شکل عیاں ہونے پہ خاک میں مل گئی۔
اس کے بعد بنگلہ دیشی طلبہ وطالبات سرکاری ملازمتوںکے ناروا کوٹہ سسٹم پر حملہ آور ہوئے تو یہ تلخ سچائی سامنے آئی کہ جنوری 2009ء سے اب تک جتنی معاشی ترقی ہوئی، اس کے بیشتر ثمرات سے حکمران طبقہ ہی مستفید ہوا۔عام آدمی بدستور غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور بیماری کی لپیٹ میں رہا۔ گویا کھودا پہاڑ نکلا چوہا! جن عالمی ماہرین نے بنگلہ دیش کی حکومت کو ''ماڈل''بنا کر پیش کیا تھا، اب وہ اپنا سر پیٹ رہے ہیں۔
بنگلہ دیشی ٹیکسٹائل سیکٹر
جھوٹے اعدادوشمار ''برآمدات ''یعنی ایکسپورٹس کے شعبے میں دکھائے گئے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ برآمدات ہی ہیں جن کے سہارے بنگلہ دیش میں معاشی ترقی کا آغاز ہوا۔ان ایکسپورٹس میں ٹیکسٹائل کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ جب1971ء میں بنگلہ دیش بنا تو اس کی برآمدات نہ ہونے کے برابر تھیں۔اس کے بعد 1978ء سے سلے سلائے کپڑے کی برآمد شروع ہوئی۔
ملک میں افرادی قوت بہت سستی تھی لہذا مال تیار کرنے میں کم لاگت آتی۔ اس لیے غیر ملکی کمپنیاں کپڑے تیار کرانے کے آرڈر بنگلہ دیشیوں کو دینے لگیں۔ یوں ملک میں ٹیکسٹائل سیکٹر غیرمعمولی انداز میں ترقی کرنے لگا۔ اس کی ترقی نے برآمدات بھی بڑھا دیں۔ آج بنگلہ دیشی حکومت کے دعوی کی رو سے سالانہ برآمدات کی مالیت ''ساٹھ ارب ڈالر''تک پہنچ چکیں۔ اس کے برعکس پاکستان کی ایکسپورٹس محض چوبیس پچیس ارب ڈالر کے آس پاس ہیں۔
برآمدات میں اضافہ معاشی ترقی کی ایک بڑی نشانی ہے۔ کیونکہ اس کے معنی ہیں کہ مملکت میں معاشی سرگرمیاں زورشور سے جاری ہیں۔اس عمل سے نئی ملازمتیں جنم لیتی ہیں اور یوں عام آدمی کی آمدن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پھر ایکسپورٹس سے ریاست کو قیمتی زرمبادلہ ملتا ہے جو معاشی سرگرمی مزید بڑھا دیتا ہے۔انہی کے سہارے بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر دوسری بڑی معیشت بن چکا۔ بنگلہ دیشی حکومت کی رو سے اس کی فی کس آمدنی بھی بھارت اور پاکستان سے زیادہ ہے۔
مکار حسینہ واجد
مگر اس انکشاف کہ بعد کہ بنگلہ دیشی حکمران طبقہ برآمدات کے غلط اعدادوشمار پیش کرتا رہا ہے، معاشی ترقی کا سارا درج بالا ڈیٹا دھڑام سے گر گیا۔ سارے دعوی زمین بوس ہو گئے۔دنیا والوں کو احساس ہوا کہ معاشی ترقی کے حوالے سے بنگلہ دیشی حکومت جھوٹ بول کر انھیں دھوکا دے رہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی شرح وہ نہیں جو حکومت دکھاتی ہے بلکہ وہ خاصی کم ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اور سنگین انکشاف ہے جس نے بین الاقوامی سطح پہ حسینہ واجد حکومت کی کریڈیبلٹی یعنی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔بیگم صاحبہ نے گڈگورنس کرنے کا جو ہالہ اپنے گرد تان لیا تھا، وہ بھی اڑن چھو ہو گیا اور یہ حقیقت نمایاں ہوئی کہ حسینہ واجد تو مکار و فراڈی حکمران ہے۔
خاص طورپہ یہ انکشاف اہل پاکستان کے لیے حیران کن امر ہے کیونکہ ہمارے ہاں عام خیال یہ ہے کہ بنگلہ دیشی سادہ اور معصوم ہوتے ہیں۔ مگر بنگلہ دیش کا کم از کم حکمران طبقہ سادہ نہیں بلکہ اس نے دھوکے بازی اور فراڈ سے کام لے کر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں سے منسلک ماہرین معاشیات کو چکمہ دے ڈالا ، انھیں الّو بنا دیا۔
یہ ماہرین اپنے مضامین میں بنگلہ دیش کی تیزرفتار ترقی کو سراہتے اور ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو کہتے تھے کہ بنگلہ دیشی حکومت سے سبق سیکھو جو گڈ گورنس اور بہترین منصوبہ بندی سے کام لے کر اپنے ملک کو غربت، بیروزگاری ، جہالت اور بیماری کے عفریتوں سے نجات دلا رہی ہے۔ افسوس کہ اب انکشاف ہوا ہے، معاشی ترقی کا یہ مثالی ماڈل جھوٹ اور فراڈ کی بنیادوں پہ تعمیر ہوا تھا۔اور اس ماڈل میں مستقبل میں جس زبردست معاشی ترقی کا خواب دکھایا گیا تھا، وہ بھی ملیامیٹ ہوا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیشی حکمران طبقے نے اپنے دیس کو پوری دنیا میں شرمسار و ذلیل کروا دیا۔
فراڈ عرصے سے جاری
یہ فراڈ پچھلے چند سال نہیں کئی برس سے جاری ہے۔ بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق حکمران طبقہ عرصہ دراز سے برآمدات کی مالیت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے تاکہ عوام میں اور بیرون ممالک اپنی دھاک جما سکے۔ تاہم یہ خلا'' پانچ چھ ارب ڈالر'' کے مابین رہتا تھا۔ بنگلہ دیشی برآمدکنندگان کو علم تھا کہ حکومت ایکسپورٹس کی مالیت بڑھا دیتی ہے مگر انھوں نے کبھی یہ جھوٹ نمایاں نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ جس ایکسپورٹر نے اس خرابی کی طرف اشارہ کیا، حکومت اس کے پیچھے پڑ جاتی۔ ٹیکس نوٹس بھیج کر اسے ہراساں کیا جاتا۔ سبھی سرکاری ادارے کسی نہ کسی طرح اسے تنگ کرنے لگتے۔
بیچارے ''وسل بلوئر '' کی بُری حالت دیکھ کر دیگر برآمدکنندگان سہم جاتے ۔ وہ پھر حکومت کا فراڈ دیکھ کر بھی خاموش رہتے۔ یہ مگر مجرمانہ غفلت اور خاموشی تھی۔ کیونکہ ان کی خاموشی نے بنگلہ دیشی حکمران طبقے کو غیراخلاقی اور غیر قانونی عمل اپنانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ وہ پھر ہر سال ایکسپورٹس کی مالیت میں مزید اضافہ کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے، پچھلے مالی سال (2022 ء ۔2023ء)کے دوران ایکسپورٹس کی حقیقی مالیت اور جھوٹی مالیت کے مابین فرق ''چودہ ارب ڈالر ''تک پہنچ گیا۔
ایکسپورٹروں کا واویلا
یہ فرق اتنا چھوٹا نہ تھا کہ پوشیدہ رکھ لیا جاتا۔ اب ایکسپورٹر کھلے عام کہنے لگے کہ برآمدات کا ڈیٹا جھوٹا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسی ڈیٹا کی آڑ میں بنگلہ دیشی حکومت کمپنیوں پہ نئے ٹیکس تھوپنے کا سوچ رہی تھی۔اس نے یہ حقائق نظرانداز کر دئیے کہ پچھلے چند سال میں کمپنیوں اور کاروباری اداروں کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا۔ یہ اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں ،جبکہ آمدن میں خاص اضافہ نہیں ہوا۔ جبکہ حکمران طبقہ اپنے غلط اعدادوشمار کے بل پر انھیں پھر قربانی کا بکرا بنانے لگا تھا تاکہ اپنی آمدن بڑھائی جا سکے۔ اسی لیے انھوں نے شور مچا دیا کہ پہلے برآمدات کا ڈیٹا درست کیا جائے۔
کمپنی مالکان کے شوروغوغا پر خواب ِ غفلت کا شکار حکومت کی آنکھیں کھلیں اور اسے صنعتی، تجارتی اور کاروباری طبقوں کے شدید دباؤ پر اعلان کرنا پڑا کہ برآمدات کی مالیت میں مصنوعی طور پہ اضافہ دکھایا جا رہا ہے۔ یوں حکمران طبقہ جو دروغ گوئی عرصہ دراز سے چھپائے بیٹھا تھا، وہ آخر طشت از بام ہو گئی۔ عوام اور دنیا والے بھی بنگلہ دیشی حکومت کی دھوکے بازی سے آگاہ ہو ئے۔
حکومت نے دغابازی نہ چھوڑی
بنگلہ دیشی میڈیا نے اوائل میں دعوی کیا تھا کہ حقیقی فرق چودہ ارب ڈالر کا ہے۔ حکومت نے مگر روایتی ہیرپھیر سے کام لے کر دعوی کیا کہ فلاں فلاں ایکسپورٹ اس ڈیٹا میں شامل نہیں۔ یوں اس نے پھر دغا بازی سے کام لیتے ہوئے برآمدات کی مالیت کا فرق کم کر کے دس ارب ڈالر کرا دیا۔ اس کے باوجود دس ارب ڈالر کا فرق بھی معمولی نہیں...گویا اب بنگلہ دیش کی برآمدات کی مالیت پچاس ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ حالانکہ حقیقی طور پہ یہ مالیت چھیالیس ارب ڈالر ہے۔
برآمدات کی کمی ایک ملک میں ترقی کی شرح ظاہر کرنے والے تمام اشاریوں مثلاً سالانہ شرح ترقی،خام قومی آمدن (جی ڈی پی)، فی کس آمدن ، جاری خسارے وغیرہ پہ منفی اثرات ڈالے گی اور وہ گھٹ یا بڑھ جائیں گے۔ مطلب یہ کہ بنگلہ دیش کی حقیقی شرح ترقی سامنے آ جائے گی جو حکمران طبقے کے دعوی سے کافی کم ہو گی۔
جرنیل حکومت کے پیچھے
یہ صدمے کی بات ہے کہ بنگلہ دیشی حکمران طبقے نے اپنی تعریف وتوصیف کرانے کی خاطر جھوٹ کا سہارا لیا۔ اس میں تھوڑی سی بھی اخلاقی جرات ہوتی تو حسینہ واجد حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔جھوٹ کے اس کاروبار میں سیاست داں ہی نہیں جرنیل ، سرکاری افسر اور جج بھی شامل ہوئے کیونکہ حکمران طبقے کے یہ چاروں عناصر مل کر ہی حکومتی آسائشوں اور مراعات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ مزید براں یہ بھارت نواز جرنیل ہی ہیں جن کے سہارے حسینہ واجد پچھلے پندرہ سال سے دھڑلے سے اور ڈکٹیٹر بن کر حکومت کرتی رہی۔
معاشی ترقی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر حکمران طبقہ اپنی مراعات اور تنخواہوں میں کہیں زیادہ اضافہ کر چکا جبکہ بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت بدستور معاشی مسائل، مہنگائی، غربت، بیماری وغیرہ کے چنگل میں پھنسی ہے۔ ایکسپورٹس ڈیٹا کے فراڈ نے عیاں کر دیا کہ بنگلہ دیش کا حکمران طبقہ عوام دوست نہیں بلکہ وہ بھی اکثر ملکوں کی طرح اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کا غلام بنا بیٹھا ہے۔ اسی لیے اس کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی ۔
بنگلہ دیشی حکومت کے فراڈ اور جھوٹ سے عبرت پکڑتے اور سبق لیتے ہوئے پاکستانی حکمران طبقے کو چاہیے کہ وہ کبھی سرکاری اعدادوشمارمیں دھوکے بازی نہ کرے اور قومی معیشت کا حقیقی ڈیٹا پیش کرے چاہے وہ مایوس کن ہی ہو۔ کیونکہ تلخ سچائی بہرحال جھوٹ سے بہتر ہے۔ پھر جھوٹ ایک نہ ایک دن ظاہر ہو کر رہتا اور بولنے والے کے منہ پہ کالک مل دیتا ہے جیسے بنگلہ دیشی حکمران طبقے کے ساتھ ہوا۔بنگلہ دیش کے میڈیا نے برآمدات کے ڈیٹا میں چودہ ارب ڈالر کے فرق کو مملکت کی معاشی تاریخ کا سب سے بڑا اسیکنڈل قرار دیا ۔حسینہ حکومت مگر بے غیرت بن گئی اور اس نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔
حکمران ٹولہ ڈکٹیٹر بن چکا
بنگلہ دیشی وزیراعظم،بیگم حسینہ واجد پچھلے پندرہ برس سے ساتھی سیاست دانوں، جرنیلوں، بیوروکریسی اور ججوں کے سہارے حکومت کر رہی تھی۔اس چار کے ٹولے نے آمرانہ و ظالمانہ ہتھکنڈوں سے اپوزیشن جماعتوں کو پیس کر رکھ دیا ۔ جو رہنما تنقید کرتا، اس پہ ظلم وستم ڈھائے جاتے۔خاص کر جماعت اسلامی کے لیڈروں کو بے رحمی سے ٹارگٹ کیا گیا۔بھارت نواز سرگرمیاں وسیع پیمانے پر شروع کی گئیں۔ہر الیکشن میں شرمناک حد تک دھاندلی کی گئی۔یوں لاٹھی کے بل پہ سبھی معاصرین کو زبردستی خاموش کرا کر ملک میں مصنوعی امن قائم کر دیا گیا۔ اس عمل سے بہرحال معاشی سرگرمیاں تیز ہوئیں، خاص طور پہ ٹیکسٹائل سیکٹر پھلنے پھولنے لگا جو بنگلہ دیشی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔
معاشی ترقی سے مگر حکمران ٹولے اور ٹیکسٹائل سیکٹر کے کرتا دھرتاؤں ہی کو زیادہ مالی فائدہ ہوا۔ شہروں میں مقیم عوام کو بس یہ افاقہ ملا کہ معاشی سرگرمی بڑھنے سے ان کی آمدن میں کچھ اضافہ ہو گیا۔دیہی آبادی کی آمدن پھر بھی اتنی ہی رہی۔اس دوران کْلی اختیار پا کر حکومتی ایوانوں میں کرپشن پھلنے پھولنے لگی۔خصوصاً سیاست دانوں، جرنیلوںاور بیوروکریٹس نے سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کو بھی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔یہ کوٹہ سسٹم بنگلہ دیش بننے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے ایجاد کیا تھا۔مقصد یہ تھا کہ حکمران ٹولہ سرکاری ملازمتوں کی من پسند مروزن میں بندر بانٹ کر سکے۔یہ سسٹم ہر حکومت کے مالی وسیاسی مفادات پورے کرتا تھا، اسی لیے سبھی حکمرانوں نے اسے برقرار رکھا۔گو اس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں۔اس سسٹم کے خلاف سب سے پہلے2018 ء میں طلبہ وطالبات نے پْرزور احتجاج کیا۔
تب سسٹم کے مطابق ''65''فیصد سرکاری ملازمتیں میرٹ یا استحقاق کی پروا نہ کرتے دی جاتی تھیں۔ان میں سے ''30 ''فیصد ملازمتیں تحریک آزادی کے کارکنوں کے پس ماندگان کے لیے مخصوص تھیں۔ دس فیصد پسماندہ اضلاع کے باشندوں، دس فیصد خواتین ، پانچ فیصد اقلیتوں اور ایک فیصد معذور افراد کو ملتیں۔گویا صرف چوالیس فیصدمیرٹ پر دی جاتیں۔ مگر یہ کارروائی کاغذات تک محدود تھی۔حقیقتاً زیادہ تر پوسٹیں حکمران طبقہ اپنے منظورنظر افراد میں تقسیم کر دیتا جو سیاسی رشوت ہوتی یا پھر سائلوں سے بھاری رقم لی جاتی۔صرف چند فیصد ملازمتیں اْن مردوزن کو مجبوراً دی جاتیں جو سرکاری امتحانات میں اول آتے تھے۔گویا کوٹہ سسٹم کوحکومت نے اپنے مفادات پورے کرنے کا آلہ بنا لیا۔
نوجوانوں کی احتجاجی تحریک
اسی لیے2018ء سے خاص طور پہ بنگلہ دیشی یونیورسٹیوں کے طالبان ِ علم یہ سسٹم ختم کرنے کے لیے احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔ان میں پھیلی بیروزگاری نے اس احتجاج کو جنم دیا۔وجہ یہ کہ یونیورسٹی طلبہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں معمولی ملازمتیں نہیں کرنا چاہتے مگر بنگلہ دیش میں دیگر صنعتی، تجارتی اور کاروباری شعبے محدود ہیں اور وہاں زیادہ ملازمتیں جنم نہیں لیتیں۔اسی لیے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طالبان علم میں بیروزگاری کی شرح بہت بلند ہے۔ ان کی فرسٹریشن نے آخر سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کی طرف رخ کیا جو عدل وانصاف کے برعکس نظام ہے۔ ابتداً حسینہ واجد حکومت نے آمرانہ رویّہ اختیار کیا اور طلبہ کو زبردستی منتشر کرنا چاہا۔جب بات نہ بنی تو چال چل کر کوٹہ سسٹم ختم کر دیا۔چال یہ تھی کہ بعد ازاں حکومتی گماشتوں نے خاتمے کا اقدام ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ حالیہ ماہ جون میں حکومت نواز ججوں نے خاتمے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کوٹہ سسٹم بحال کرڈالا۔ یوں کمائی کا دھندا حکمران طبقے کو واپس مل گیا۔طالبان علم نے لیکن عدالتی حکم ماننے سے انکار کیا اور پھر کوٹہ سسٹم ختم کرانے یکم جولائی سے سڑکوں پر آ گئے۔
اس بار حکومت طالبان علم کے ساتھ سفاکی سے پیش آئی۔حسینہ واجد نے انھیں ''رضاکار''( غدّار) کہہ کر پکارا اور ڈرایا دھمکایا کہ وہ اپنا احتجاج ختم کر دیں۔طلبہ طالبات نے مگر پسپا ہونے سے انکار کر دیا۔وہ سینہ تانے سیکورٹی فورسز کے سامنے کھڑے ہوئے ۔ چھاتی پر گولیاں کھائیں، جان دے دی مگر پیچھے نہ ہٹے۔ان کی دلیری بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی۔ڈرے سہمے عوام بھی رفتہ رفتہ ہمت پا کر حکومت مخالف احتجاج میں شریک ہونے لگے۔احتجاجی مظاہرے بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے شہروں ، قصبوں اور دیہات تک پھیل گئے جن میں لاکھوں لوگ شامل ہو ئے۔
ان ملک گیر مظاہروں نے حکومت کو حواس باختہ کر دیا۔18 جولائی کی شب حکومت نے ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی۔موبائل سروس بھی نہایت محدود ہو گئی۔مدعا یہ تھا کہ احتجاجی رہنما ایک دوسرے سے رابطہ کر کے اگلا لائحہ عمل نہ بنا سکیں۔اس طریق واردات نے بنگلہ دیش میں خوف ودہشت کے ماحول کو جنم دیا۔احتجاج کرنے والوں کو محسوس ہوا کہ ان کی اور اہل خانہ کی زندگیاں خطرے میں آ چکیں۔ بیرون ممالک مقیم بنگلہ دیشی بھی اپنے پیاروں کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہوئے اظہار ِ تشویش کرنے لگے۔
حسینہ واجد حکومت نے اپنے عوام پہ براہ راست حملہ کر کے دنیا والوں کو اپنا اصلی آمرانہ و جابرانہ روپ دکھا دیا۔ اگلے دن بروز جمعہ سیکورٹی فورسز مظاہرین پہ ٹوٹ پڑیں اور کئی افراد کو گولیاں مار کے قتل کر دیا۔خیال ہے کہ ان مظاہروں میں ڈیرھ سو مظاہرین مارے گئے۔یہ امر احتجاج کی شدت عیاں کرتا ہے۔جمعہ کی شب سے حکومت نے ملک بھر میں مارشل لا لگا دیا۔احتجاجی ہم وطنوں کو فوراً گولی مارنے کے احکامات جاری ہو ئے۔ یوں بنگلہ دیش جمہوری مملکت کے بجائے پولیس اسٹیٹ بن گیا۔
ذلت ورسوائی مل گئی
یہ ظاہر ہے کہ اکثر حکمرانوں کی طرح بنگلہ دیش کا حکمران ٹولہ بھی آسائشوں سے بھری زندگی گذارتے حقائق سے کٹ چکا تھا۔اس کے گماشتے اسے ''سب ٹھیک ہے''کی رپورٹیں دیتے رہے مگر دور جدید میں حکمرانوں کی سرگرمیاں عوام سے چھپی نہیں رہ سکتیں۔وہ دیکھ رہے تھے کہ کرپشن میں لت پت حکمران شاہانہ زندگی گذار رہے ہیں ، جبکہ انھیں دو وقت کی روٹی بھی بمشکل ملتی ہے۔یوں عوام میں حکومت کے خلاف نفرت پھیلنے لگی۔ طالبان علم کا احتجاج شروع ہوا تو ان کے سینوں میں دبا لاوا بھی ابل کر باہر آ گیااور قومی سطح پر حکومت مخالف تحریک شروع ہو گئی۔
بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے بعد ازاں کوٹہ سسٹم تقریباً ختم کر دیا۔اس طرح عوامی احتجاج کو بالآخر کامیابی نصیب ہوئی۔مگر طلبہ نے جس احتجاجی تحریک کو جنم دیا ،وہ جاری رہی ۔عوام اب خوف ودہشت کا جال توڑ کر آزاد ہو چکے تھے اور وہ حسینہ واجد حکومت کی آمریت مزید برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔اوائل اگست سے طلبہ نے تحریک سول نافرمانی کا آغاز کر دیا۔4 اگست کو ڈھاکہ میں حکمران جماعت، عوامی لیگ کے غنڈوں اور پولیس نے ایک سو سے زائد طلبہ و عوام مار ڈالے۔ اس کے بعد غم وغصّے کی لہر پورے بنگلہ دیش میں پھیل گئی۔
5 اگست کی صبح سے لاکھوں لوگ کرفیو کی پروا کیے بغیر مرکزی ڈھاکہ میں جمع ہونے لگے۔مظاہرین اور پولیس کے درمیان پھرجھڑپیں ہونے لگیں۔اب جرنیلوں و بیوروکریسی المعروف بہ اسٹیبلشمنٹ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔اس نے بیگم حسینہ واجد سے استعفی مانگ لیا تاکہ مزید خون نہ بہے اور جانی و مالی نقصان نہ ہو۔ اس کے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔ اسے محسوس ہو گیا کہ اگر وہ مظاہرین کے ہاتھ لگی تو وہ اس کو مار ڈالیں گے۔ چناں چہ حسینہ دُم دبا کر فوجی ہیلی کاپٹر میں اپنے دوست ومددگار ملک ، بھارت فرار ہو گئی۔ یوں اس کو کئی مغرور ومتکبر آمروں کی طرح ذلت ورسوائی اٹھا کر اپنے دیس سے نکلنا پڑا۔
عوام میں اس کے خلاف پھیلی نفرت کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ بیگم حسینہ کے فرار کے بعد لوگوں نے اس کے باپ اور بانی بنگلہ دیش کے مجسموں پہ حملہ کر دیا اور انھیں توڑ ڈالا۔اس کی رہائش گاہ لوٹ لی گئی۔ملک بھر میں لوگوں نے عوامی لیگ کے دفاتر اور لیڈروں کے گھروں پر بھی حملے کیے، انھیں لوٹ لیا اور پھر آگ لگا دی۔اس طرح عوام کو حکمران طبقے پر جو غصّہ تھا، وہ لاوا بن کر پھٹ پڑا اور بہت کچھ جل کر خاکستر ہو گیا۔عوامی سیلاب جب جنم لے تو کوئی مائی کا لال اسے روک نہیں پاتا۔
بنگلہ دیش کے پراگندہ حالات سے پاکستانی حکمران طبقے کو بھی خبردار ہوجانا چاہیے۔ اْسے چاہیے کہ فی الفور اتحاد و یک جہتی کو فروغ دے، ذاتی و جماعتی اختلافات پس پشت ڈال کر سیاسی درجہ حرارت کم کرے اور اپنے اخراجات اور اپنا پھیلاؤ گھٹا کر سودی ادائیگی، مہنگائی، بیروزگاری، بجلی ، پٹرول و گیس کے بڑھتے بلوں پہ قابو پائے۔ آئی پی پیز کی لوٹ مار کا قلع قمع کرے ۔اسی صائب حل سے وطن عزیز میں استحکام اور معاشی خوشحالی آئے گی۔
بنگلہ دیش کی ڈکٹیٹر، بیگم حسینہ واجد بھی خود کو ناقابل زوال عظیم ہستی سمجھتی تھی، لیکن نوجوان بنگلہ دیشی طلبہ وطالبات کی حکومت مخالف تحریک نے آخرکار ۵ اگست کی دوپہر اس کا شاندار محل زمین بوس کر ڈالا۔بیگم حسینہ نے آمرانہ ، ظالمانہ اور نفرت آمیز اقدامات سے بنگلہ دیش میں خوف ودہشت کا جو ماحول تخلیق کیا تھا، نوجوانوں کی تحریک نے اسے پاش پاش کر دیا۔ تبھی اشرافیہ حکومت کے ستائے عوام بھی تحریک کا حصّہ بن گئے اور پھر عوامی طاقت کو جرنیل بھی نہ روک سکے۔پاکستان سے بے جا نفرت و دشمنی بھی بیگم حسینہ کے زوال کا اہم سبب ثابت ہوئی۔
معاشی ترقی کا فراڈ
جنوری 2009ء سے حسینہ واجد تزک واحتشام سے حکومت کر رہی تھی۔ آغاز جولائی 2024ء میں اس کے عالی شان محل پر پہلا پتھر لگا اور ایسا انکشاف ہوا جو ہم پاکستانیوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔دراصل پچھلے چند برس سے وطن عزیز کے میڈیا میں ایسے مضامین شائع ہو رہے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ ہمارا سابقہ ساتھی، مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے، ترقی و خوشحالی کی نئی منازل طے کر رہا ہے۔
وہاں کے حکمران طبقے نے گڈ گورنس یا اچھے انتظام کو اپنا لیا ہے جس سے عمدہ نتائج برآمد ہوئے ۔ وہاں غربت وبیماری ختم ہو رہی ہے۔فی کس آمدن جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہو گئی۔جبکہ ہم پستی میں گر چکے۔ ''یہ باتیں سچ لگتی تھیں ۔یوں بنگلہ دیش پاکستانی عوام و حکمران طبقے کے لیے رشک کا مقام بن گیا تو کچھ اس سے حسد بھی کرنے لگے۔ایسے مضامین عموماً یوم پاکستان کے موقع پر شائع ہوتے ہیں۔اس یوم آزادی پر مگر بازی الٹ گئی ۔
عالمی میڈیا نے انکشاف کیا کہ بنگلہ دیشی حکمران طبقے نے اپنی ریاست کی معاشی ترقی دکھانے کے لیے فراڈ سے کام لیا...وہ یوں کہ غلط اور جھوٹے اعداد وشمار کی مدد سے ملکی ترقی بڑھا چڑھا کر دکھائی گئی تاکہ اندرون و بیرون ملک اپنی مدح کرائی جا سکے اور دکھایا جائے کہ بنگلہ دیش ترقی کی راہ پہ گامزن ہے۔ قومی معیشت کی شرح ِترقی مسلسل بڑھ رہی ہے اور عالمی سطح پہ حکومت مثالی بن جائے۔
اس انکشاف نے حسینہ واجد کی حکومت کو ننگا کر دیا اور یہ سچائی اجاگر کی کہ وہ جھوٹ اور دھوکے بازی کا سہارا لے کر اپنی تعریف وتوصیف کرانے میں مصروف تھی۔یوں حسینہ واجد حکومت نے بڑی مکّاری سے خود پر سونے کا پانی چڑھا کر جو بین الاقوامی شہرت و عزت پائی تھی، وہ نیچے سے بھدی وگھناؤنی حقیقی شکل عیاں ہونے پہ خاک میں مل گئی۔
اس کے بعد بنگلہ دیشی طلبہ وطالبات سرکاری ملازمتوںکے ناروا کوٹہ سسٹم پر حملہ آور ہوئے تو یہ تلخ سچائی سامنے آئی کہ جنوری 2009ء سے اب تک جتنی معاشی ترقی ہوئی، اس کے بیشتر ثمرات سے حکمران طبقہ ہی مستفید ہوا۔عام آدمی بدستور غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور بیماری کی لپیٹ میں رہا۔ گویا کھودا پہاڑ نکلا چوہا! جن عالمی ماہرین نے بنگلہ دیش کی حکومت کو ''ماڈل''بنا کر پیش کیا تھا، اب وہ اپنا سر پیٹ رہے ہیں۔
بنگلہ دیشی ٹیکسٹائل سیکٹر
جھوٹے اعدادوشمار ''برآمدات ''یعنی ایکسپورٹس کے شعبے میں دکھائے گئے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ برآمدات ہی ہیں جن کے سہارے بنگلہ دیش میں معاشی ترقی کا آغاز ہوا۔ان ایکسپورٹس میں ٹیکسٹائل کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ جب1971ء میں بنگلہ دیش بنا تو اس کی برآمدات نہ ہونے کے برابر تھیں۔اس کے بعد 1978ء سے سلے سلائے کپڑے کی برآمد شروع ہوئی۔
ملک میں افرادی قوت بہت سستی تھی لہذا مال تیار کرنے میں کم لاگت آتی۔ اس لیے غیر ملکی کمپنیاں کپڑے تیار کرانے کے آرڈر بنگلہ دیشیوں کو دینے لگیں۔ یوں ملک میں ٹیکسٹائل سیکٹر غیرمعمولی انداز میں ترقی کرنے لگا۔ اس کی ترقی نے برآمدات بھی بڑھا دیں۔ آج بنگلہ دیشی حکومت کے دعوی کی رو سے سالانہ برآمدات کی مالیت ''ساٹھ ارب ڈالر''تک پہنچ چکیں۔ اس کے برعکس پاکستان کی ایکسپورٹس محض چوبیس پچیس ارب ڈالر کے آس پاس ہیں۔
برآمدات میں اضافہ معاشی ترقی کی ایک بڑی نشانی ہے۔ کیونکہ اس کے معنی ہیں کہ مملکت میں معاشی سرگرمیاں زورشور سے جاری ہیں۔اس عمل سے نئی ملازمتیں جنم لیتی ہیں اور یوں عام آدمی کی آمدن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پھر ایکسپورٹس سے ریاست کو قیمتی زرمبادلہ ملتا ہے جو معاشی سرگرمی مزید بڑھا دیتا ہے۔انہی کے سہارے بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر دوسری بڑی معیشت بن چکا۔ بنگلہ دیشی حکومت کی رو سے اس کی فی کس آمدنی بھی بھارت اور پاکستان سے زیادہ ہے۔
مکار حسینہ واجد
مگر اس انکشاف کہ بعد کہ بنگلہ دیشی حکمران طبقہ برآمدات کے غلط اعدادوشمار پیش کرتا رہا ہے، معاشی ترقی کا سارا درج بالا ڈیٹا دھڑام سے گر گیا۔ سارے دعوی زمین بوس ہو گئے۔دنیا والوں کو احساس ہوا کہ معاشی ترقی کے حوالے سے بنگلہ دیشی حکومت جھوٹ بول کر انھیں دھوکا دے رہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی شرح وہ نہیں جو حکومت دکھاتی ہے بلکہ وہ خاصی کم ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اور سنگین انکشاف ہے جس نے بین الاقوامی سطح پہ حسینہ واجد حکومت کی کریڈیبلٹی یعنی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔بیگم صاحبہ نے گڈگورنس کرنے کا جو ہالہ اپنے گرد تان لیا تھا، وہ بھی اڑن چھو ہو گیا اور یہ حقیقت نمایاں ہوئی کہ حسینہ واجد تو مکار و فراڈی حکمران ہے۔
خاص طورپہ یہ انکشاف اہل پاکستان کے لیے حیران کن امر ہے کیونکہ ہمارے ہاں عام خیال یہ ہے کہ بنگلہ دیشی سادہ اور معصوم ہوتے ہیں۔ مگر بنگلہ دیش کا کم از کم حکمران طبقہ سادہ نہیں بلکہ اس نے دھوکے بازی اور فراڈ سے کام لے کر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں سے منسلک ماہرین معاشیات کو چکمہ دے ڈالا ، انھیں الّو بنا دیا۔
یہ ماہرین اپنے مضامین میں بنگلہ دیش کی تیزرفتار ترقی کو سراہتے اور ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو کہتے تھے کہ بنگلہ دیشی حکومت سے سبق سیکھو جو گڈ گورنس اور بہترین منصوبہ بندی سے کام لے کر اپنے ملک کو غربت، بیروزگاری ، جہالت اور بیماری کے عفریتوں سے نجات دلا رہی ہے۔ افسوس کہ اب انکشاف ہوا ہے، معاشی ترقی کا یہ مثالی ماڈل جھوٹ اور فراڈ کی بنیادوں پہ تعمیر ہوا تھا۔اور اس ماڈل میں مستقبل میں جس زبردست معاشی ترقی کا خواب دکھایا گیا تھا، وہ بھی ملیامیٹ ہوا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیشی حکمران طبقے نے اپنے دیس کو پوری دنیا میں شرمسار و ذلیل کروا دیا۔
فراڈ عرصے سے جاری
یہ فراڈ پچھلے چند سال نہیں کئی برس سے جاری ہے۔ بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق حکمران طبقہ عرصہ دراز سے برآمدات کی مالیت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے تاکہ عوام میں اور بیرون ممالک اپنی دھاک جما سکے۔ تاہم یہ خلا'' پانچ چھ ارب ڈالر'' کے مابین رہتا تھا۔ بنگلہ دیشی برآمدکنندگان کو علم تھا کہ حکومت ایکسپورٹس کی مالیت بڑھا دیتی ہے مگر انھوں نے کبھی یہ جھوٹ نمایاں نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ جس ایکسپورٹر نے اس خرابی کی طرف اشارہ کیا، حکومت اس کے پیچھے پڑ جاتی۔ ٹیکس نوٹس بھیج کر اسے ہراساں کیا جاتا۔ سبھی سرکاری ادارے کسی نہ کسی طرح اسے تنگ کرنے لگتے۔
بیچارے ''وسل بلوئر '' کی بُری حالت دیکھ کر دیگر برآمدکنندگان سہم جاتے ۔ وہ پھر حکومت کا فراڈ دیکھ کر بھی خاموش رہتے۔ یہ مگر مجرمانہ غفلت اور خاموشی تھی۔ کیونکہ ان کی خاموشی نے بنگلہ دیشی حکمران طبقے کو غیراخلاقی اور غیر قانونی عمل اپنانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ وہ پھر ہر سال ایکسپورٹس کی مالیت میں مزید اضافہ کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے، پچھلے مالی سال (2022 ء ۔2023ء)کے دوران ایکسپورٹس کی حقیقی مالیت اور جھوٹی مالیت کے مابین فرق ''چودہ ارب ڈالر ''تک پہنچ گیا۔
ایکسپورٹروں کا واویلا
یہ فرق اتنا چھوٹا نہ تھا کہ پوشیدہ رکھ لیا جاتا۔ اب ایکسپورٹر کھلے عام کہنے لگے کہ برآمدات کا ڈیٹا جھوٹا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسی ڈیٹا کی آڑ میں بنگلہ دیشی حکومت کمپنیوں پہ نئے ٹیکس تھوپنے کا سوچ رہی تھی۔اس نے یہ حقائق نظرانداز کر دئیے کہ پچھلے چند سال میں کمپنیوں اور کاروباری اداروں کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا۔ یہ اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں ،جبکہ آمدن میں خاص اضافہ نہیں ہوا۔ جبکہ حکمران طبقہ اپنے غلط اعدادوشمار کے بل پر انھیں پھر قربانی کا بکرا بنانے لگا تھا تاکہ اپنی آمدن بڑھائی جا سکے۔ اسی لیے انھوں نے شور مچا دیا کہ پہلے برآمدات کا ڈیٹا درست کیا جائے۔
کمپنی مالکان کے شوروغوغا پر خواب ِ غفلت کا شکار حکومت کی آنکھیں کھلیں اور اسے صنعتی، تجارتی اور کاروباری طبقوں کے شدید دباؤ پر اعلان کرنا پڑا کہ برآمدات کی مالیت میں مصنوعی طور پہ اضافہ دکھایا جا رہا ہے۔ یوں حکمران طبقہ جو دروغ گوئی عرصہ دراز سے چھپائے بیٹھا تھا، وہ آخر طشت از بام ہو گئی۔ عوام اور دنیا والے بھی بنگلہ دیشی حکومت کی دھوکے بازی سے آگاہ ہو ئے۔
حکومت نے دغابازی نہ چھوڑی
بنگلہ دیشی میڈیا نے اوائل میں دعوی کیا تھا کہ حقیقی فرق چودہ ارب ڈالر کا ہے۔ حکومت نے مگر روایتی ہیرپھیر سے کام لے کر دعوی کیا کہ فلاں فلاں ایکسپورٹ اس ڈیٹا میں شامل نہیں۔ یوں اس نے پھر دغا بازی سے کام لیتے ہوئے برآمدات کی مالیت کا فرق کم کر کے دس ارب ڈالر کرا دیا۔ اس کے باوجود دس ارب ڈالر کا فرق بھی معمولی نہیں...گویا اب بنگلہ دیش کی برآمدات کی مالیت پچاس ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ حالانکہ حقیقی طور پہ یہ مالیت چھیالیس ارب ڈالر ہے۔
برآمدات کی کمی ایک ملک میں ترقی کی شرح ظاہر کرنے والے تمام اشاریوں مثلاً سالانہ شرح ترقی،خام قومی آمدن (جی ڈی پی)، فی کس آمدن ، جاری خسارے وغیرہ پہ منفی اثرات ڈالے گی اور وہ گھٹ یا بڑھ جائیں گے۔ مطلب یہ کہ بنگلہ دیش کی حقیقی شرح ترقی سامنے آ جائے گی جو حکمران طبقے کے دعوی سے کافی کم ہو گی۔
جرنیل حکومت کے پیچھے
یہ صدمے کی بات ہے کہ بنگلہ دیشی حکمران طبقے نے اپنی تعریف وتوصیف کرانے کی خاطر جھوٹ کا سہارا لیا۔ اس میں تھوڑی سی بھی اخلاقی جرات ہوتی تو حسینہ واجد حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔جھوٹ کے اس کاروبار میں سیاست داں ہی نہیں جرنیل ، سرکاری افسر اور جج بھی شامل ہوئے کیونکہ حکمران طبقے کے یہ چاروں عناصر مل کر ہی حکومتی آسائشوں اور مراعات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ مزید براں یہ بھارت نواز جرنیل ہی ہیں جن کے سہارے حسینہ واجد پچھلے پندرہ سال سے دھڑلے سے اور ڈکٹیٹر بن کر حکومت کرتی رہی۔
معاشی ترقی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر حکمران طبقہ اپنی مراعات اور تنخواہوں میں کہیں زیادہ اضافہ کر چکا جبکہ بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت بدستور معاشی مسائل، مہنگائی، غربت، بیماری وغیرہ کے چنگل میں پھنسی ہے۔ ایکسپورٹس ڈیٹا کے فراڈ نے عیاں کر دیا کہ بنگلہ دیش کا حکمران طبقہ عوام دوست نہیں بلکہ وہ بھی اکثر ملکوں کی طرح اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کا غلام بنا بیٹھا ہے۔ اسی لیے اس کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی ۔
بنگلہ دیشی حکومت کے فراڈ اور جھوٹ سے عبرت پکڑتے اور سبق لیتے ہوئے پاکستانی حکمران طبقے کو چاہیے کہ وہ کبھی سرکاری اعدادوشمارمیں دھوکے بازی نہ کرے اور قومی معیشت کا حقیقی ڈیٹا پیش کرے چاہے وہ مایوس کن ہی ہو۔ کیونکہ تلخ سچائی بہرحال جھوٹ سے بہتر ہے۔ پھر جھوٹ ایک نہ ایک دن ظاہر ہو کر رہتا اور بولنے والے کے منہ پہ کالک مل دیتا ہے جیسے بنگلہ دیشی حکمران طبقے کے ساتھ ہوا۔بنگلہ دیش کے میڈیا نے برآمدات کے ڈیٹا میں چودہ ارب ڈالر کے فرق کو مملکت کی معاشی تاریخ کا سب سے بڑا اسیکنڈل قرار دیا ۔حسینہ حکومت مگر بے غیرت بن گئی اور اس نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔
حکمران ٹولہ ڈکٹیٹر بن چکا
بنگلہ دیشی وزیراعظم،بیگم حسینہ واجد پچھلے پندرہ برس سے ساتھی سیاست دانوں، جرنیلوں، بیوروکریسی اور ججوں کے سہارے حکومت کر رہی تھی۔اس چار کے ٹولے نے آمرانہ و ظالمانہ ہتھکنڈوں سے اپوزیشن جماعتوں کو پیس کر رکھ دیا ۔ جو رہنما تنقید کرتا، اس پہ ظلم وستم ڈھائے جاتے۔خاص کر جماعت اسلامی کے لیڈروں کو بے رحمی سے ٹارگٹ کیا گیا۔بھارت نواز سرگرمیاں وسیع پیمانے پر شروع کی گئیں۔ہر الیکشن میں شرمناک حد تک دھاندلی کی گئی۔یوں لاٹھی کے بل پہ سبھی معاصرین کو زبردستی خاموش کرا کر ملک میں مصنوعی امن قائم کر دیا گیا۔ اس عمل سے بہرحال معاشی سرگرمیاں تیز ہوئیں، خاص طور پہ ٹیکسٹائل سیکٹر پھلنے پھولنے لگا جو بنگلہ دیشی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔
معاشی ترقی سے مگر حکمران ٹولے اور ٹیکسٹائل سیکٹر کے کرتا دھرتاؤں ہی کو زیادہ مالی فائدہ ہوا۔ شہروں میں مقیم عوام کو بس یہ افاقہ ملا کہ معاشی سرگرمی بڑھنے سے ان کی آمدن میں کچھ اضافہ ہو گیا۔دیہی آبادی کی آمدن پھر بھی اتنی ہی رہی۔اس دوران کْلی اختیار پا کر حکومتی ایوانوں میں کرپشن پھلنے پھولنے لگی۔خصوصاً سیاست دانوں، جرنیلوںاور بیوروکریٹس نے سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کو بھی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔یہ کوٹہ سسٹم بنگلہ دیش بننے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے ایجاد کیا تھا۔مقصد یہ تھا کہ حکمران ٹولہ سرکاری ملازمتوں کی من پسند مروزن میں بندر بانٹ کر سکے۔یہ سسٹم ہر حکومت کے مالی وسیاسی مفادات پورے کرتا تھا، اسی لیے سبھی حکمرانوں نے اسے برقرار رکھا۔گو اس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں۔اس سسٹم کے خلاف سب سے پہلے2018 ء میں طلبہ وطالبات نے پْرزور احتجاج کیا۔
تب سسٹم کے مطابق ''65''فیصد سرکاری ملازمتیں میرٹ یا استحقاق کی پروا نہ کرتے دی جاتی تھیں۔ان میں سے ''30 ''فیصد ملازمتیں تحریک آزادی کے کارکنوں کے پس ماندگان کے لیے مخصوص تھیں۔ دس فیصد پسماندہ اضلاع کے باشندوں، دس فیصد خواتین ، پانچ فیصد اقلیتوں اور ایک فیصد معذور افراد کو ملتیں۔گویا صرف چوالیس فیصدمیرٹ پر دی جاتیں۔ مگر یہ کارروائی کاغذات تک محدود تھی۔حقیقتاً زیادہ تر پوسٹیں حکمران طبقہ اپنے منظورنظر افراد میں تقسیم کر دیتا جو سیاسی رشوت ہوتی یا پھر سائلوں سے بھاری رقم لی جاتی۔صرف چند فیصد ملازمتیں اْن مردوزن کو مجبوراً دی جاتیں جو سرکاری امتحانات میں اول آتے تھے۔گویا کوٹہ سسٹم کوحکومت نے اپنے مفادات پورے کرنے کا آلہ بنا لیا۔
نوجوانوں کی احتجاجی تحریک
اسی لیے2018ء سے خاص طور پہ بنگلہ دیشی یونیورسٹیوں کے طالبان ِ علم یہ سسٹم ختم کرنے کے لیے احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔ان میں پھیلی بیروزگاری نے اس احتجاج کو جنم دیا۔وجہ یہ کہ یونیورسٹی طلبہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں معمولی ملازمتیں نہیں کرنا چاہتے مگر بنگلہ دیش میں دیگر صنعتی، تجارتی اور کاروباری شعبے محدود ہیں اور وہاں زیادہ ملازمتیں جنم نہیں لیتیں۔اسی لیے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طالبان علم میں بیروزگاری کی شرح بہت بلند ہے۔ ان کی فرسٹریشن نے آخر سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کی طرف رخ کیا جو عدل وانصاف کے برعکس نظام ہے۔ ابتداً حسینہ واجد حکومت نے آمرانہ رویّہ اختیار کیا اور طلبہ کو زبردستی منتشر کرنا چاہا۔جب بات نہ بنی تو چال چل کر کوٹہ سسٹم ختم کر دیا۔چال یہ تھی کہ بعد ازاں حکومتی گماشتوں نے خاتمے کا اقدام ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ حالیہ ماہ جون میں حکومت نواز ججوں نے خاتمے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کوٹہ سسٹم بحال کرڈالا۔ یوں کمائی کا دھندا حکمران طبقے کو واپس مل گیا۔طالبان علم نے لیکن عدالتی حکم ماننے سے انکار کیا اور پھر کوٹہ سسٹم ختم کرانے یکم جولائی سے سڑکوں پر آ گئے۔
اس بار حکومت طالبان علم کے ساتھ سفاکی سے پیش آئی۔حسینہ واجد نے انھیں ''رضاکار''( غدّار) کہہ کر پکارا اور ڈرایا دھمکایا کہ وہ اپنا احتجاج ختم کر دیں۔طلبہ طالبات نے مگر پسپا ہونے سے انکار کر دیا۔وہ سینہ تانے سیکورٹی فورسز کے سامنے کھڑے ہوئے ۔ چھاتی پر گولیاں کھائیں، جان دے دی مگر پیچھے نہ ہٹے۔ان کی دلیری بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی۔ڈرے سہمے عوام بھی رفتہ رفتہ ہمت پا کر حکومت مخالف احتجاج میں شریک ہونے لگے۔احتجاجی مظاہرے بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے شہروں ، قصبوں اور دیہات تک پھیل گئے جن میں لاکھوں لوگ شامل ہو ئے۔
ان ملک گیر مظاہروں نے حکومت کو حواس باختہ کر دیا۔18 جولائی کی شب حکومت نے ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی۔موبائل سروس بھی نہایت محدود ہو گئی۔مدعا یہ تھا کہ احتجاجی رہنما ایک دوسرے سے رابطہ کر کے اگلا لائحہ عمل نہ بنا سکیں۔اس طریق واردات نے بنگلہ دیش میں خوف ودہشت کے ماحول کو جنم دیا۔احتجاج کرنے والوں کو محسوس ہوا کہ ان کی اور اہل خانہ کی زندگیاں خطرے میں آ چکیں۔ بیرون ممالک مقیم بنگلہ دیشی بھی اپنے پیاروں کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہوئے اظہار ِ تشویش کرنے لگے۔
حسینہ واجد حکومت نے اپنے عوام پہ براہ راست حملہ کر کے دنیا والوں کو اپنا اصلی آمرانہ و جابرانہ روپ دکھا دیا۔ اگلے دن بروز جمعہ سیکورٹی فورسز مظاہرین پہ ٹوٹ پڑیں اور کئی افراد کو گولیاں مار کے قتل کر دیا۔خیال ہے کہ ان مظاہروں میں ڈیرھ سو مظاہرین مارے گئے۔یہ امر احتجاج کی شدت عیاں کرتا ہے۔جمعہ کی شب سے حکومت نے ملک بھر میں مارشل لا لگا دیا۔احتجاجی ہم وطنوں کو فوراً گولی مارنے کے احکامات جاری ہو ئے۔ یوں بنگلہ دیش جمہوری مملکت کے بجائے پولیس اسٹیٹ بن گیا۔
ذلت ورسوائی مل گئی
یہ ظاہر ہے کہ اکثر حکمرانوں کی طرح بنگلہ دیش کا حکمران ٹولہ بھی آسائشوں سے بھری زندگی گذارتے حقائق سے کٹ چکا تھا۔اس کے گماشتے اسے ''سب ٹھیک ہے''کی رپورٹیں دیتے رہے مگر دور جدید میں حکمرانوں کی سرگرمیاں عوام سے چھپی نہیں رہ سکتیں۔وہ دیکھ رہے تھے کہ کرپشن میں لت پت حکمران شاہانہ زندگی گذار رہے ہیں ، جبکہ انھیں دو وقت کی روٹی بھی بمشکل ملتی ہے۔یوں عوام میں حکومت کے خلاف نفرت پھیلنے لگی۔ طالبان علم کا احتجاج شروع ہوا تو ان کے سینوں میں دبا لاوا بھی ابل کر باہر آ گیااور قومی سطح پر حکومت مخالف تحریک شروع ہو گئی۔
بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے بعد ازاں کوٹہ سسٹم تقریباً ختم کر دیا۔اس طرح عوامی احتجاج کو بالآخر کامیابی نصیب ہوئی۔مگر طلبہ نے جس احتجاجی تحریک کو جنم دیا ،وہ جاری رہی ۔عوام اب خوف ودہشت کا جال توڑ کر آزاد ہو چکے تھے اور وہ حسینہ واجد حکومت کی آمریت مزید برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔اوائل اگست سے طلبہ نے تحریک سول نافرمانی کا آغاز کر دیا۔4 اگست کو ڈھاکہ میں حکمران جماعت، عوامی لیگ کے غنڈوں اور پولیس نے ایک سو سے زائد طلبہ و عوام مار ڈالے۔ اس کے بعد غم وغصّے کی لہر پورے بنگلہ دیش میں پھیل گئی۔
5 اگست کی صبح سے لاکھوں لوگ کرفیو کی پروا کیے بغیر مرکزی ڈھاکہ میں جمع ہونے لگے۔مظاہرین اور پولیس کے درمیان پھرجھڑپیں ہونے لگیں۔اب جرنیلوں و بیوروکریسی المعروف بہ اسٹیبلشمنٹ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔اس نے بیگم حسینہ واجد سے استعفی مانگ لیا تاکہ مزید خون نہ بہے اور جانی و مالی نقصان نہ ہو۔ اس کے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔ اسے محسوس ہو گیا کہ اگر وہ مظاہرین کے ہاتھ لگی تو وہ اس کو مار ڈالیں گے۔ چناں چہ حسینہ دُم دبا کر فوجی ہیلی کاپٹر میں اپنے دوست ومددگار ملک ، بھارت فرار ہو گئی۔ یوں اس کو کئی مغرور ومتکبر آمروں کی طرح ذلت ورسوائی اٹھا کر اپنے دیس سے نکلنا پڑا۔
عوام میں اس کے خلاف پھیلی نفرت کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ بیگم حسینہ کے فرار کے بعد لوگوں نے اس کے باپ اور بانی بنگلہ دیش کے مجسموں پہ حملہ کر دیا اور انھیں توڑ ڈالا۔اس کی رہائش گاہ لوٹ لی گئی۔ملک بھر میں لوگوں نے عوامی لیگ کے دفاتر اور لیڈروں کے گھروں پر بھی حملے کیے، انھیں لوٹ لیا اور پھر آگ لگا دی۔اس طرح عوام کو حکمران طبقے پر جو غصّہ تھا، وہ لاوا بن کر پھٹ پڑا اور بہت کچھ جل کر خاکستر ہو گیا۔عوامی سیلاب جب جنم لے تو کوئی مائی کا لال اسے روک نہیں پاتا۔
بنگلہ دیش کے پراگندہ حالات سے پاکستانی حکمران طبقے کو بھی خبردار ہوجانا چاہیے۔ اْسے چاہیے کہ فی الفور اتحاد و یک جہتی کو فروغ دے، ذاتی و جماعتی اختلافات پس پشت ڈال کر سیاسی درجہ حرارت کم کرے اور اپنے اخراجات اور اپنا پھیلاؤ گھٹا کر سودی ادائیگی، مہنگائی، بیروزگاری، بجلی ، پٹرول و گیس کے بڑھتے بلوں پہ قابو پائے۔ آئی پی پیز کی لوٹ مار کا قلع قمع کرے ۔اسی صائب حل سے وطن عزیز میں استحکام اور معاشی خوشحالی آئے گی۔