ماہ صفر فضائل و احکام اور اسلام میں اس کی حقیقت
یہ مہینہ زمانہء جاہلیت ہی سے لوگوں کے درمیان ایک منحوس اور آسمان سے بلائیں اترنے کا مہینہ سمجھا جاتا رہا ہے
اللہ رب العزت نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اور راتوں کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کر کے ان کی خاص خاص برکات وخصوصیات بیان فرمائی ہیں، قرآن حکیم میں ارشادباری تعالیٰ ہے۔''بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جا ن پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لوکہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔(
سورۃ التوبہ پارہ10آیت نمبر32) ماہ صفر کے متعلق ایک طرف تو بہت سی توہمات اور بدشگونیاں اور دوسری طرف اس کے بارے میں خود ساختہ حل بھی تلاش کر لئے گئے ہیں، مثلاً اس ماہ میں شادی نہ کرنا، سفر نہ کرنا، کاروبار کا آغاز نہ کرنا۔ اس ماہ کو مردوں پر بھاری سمجھنا اس کی تیرہ تاریخ کو منحوس سمجھنا وغیرہ وغیرہ، اس مہینے میں مختلف چیزیں پکا کر محلے میں بانٹنا کہ ہماری بلائیں ٹل جائیں یا دوسروں کی طرف چلی جائیںلیکن دین اسلام میں ان تمام باتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ بعض لوگ اس ماہِ صفر میں شادی بیاہ یا کوئی خوشی کا کام نہیں کرتے حالانکہ اس ماہِ صفر المظفر سن 7 ہجری میں حضور نبی کریمﷺ نے ام المومنین حضرت سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی فرمائی تھی۔
قارئین کرام سوچئے! اگر ماہِ صفر میں شادی کرنا منحوس ہوتا تو حضور نبی کریم ﷺ کیوں شادی فرماتے؟ بلکہ ماہِ صفر ہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے اور حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو فتحِ خیبر سے نوازا (البدایہ و النہایہ) عربی میں نحوست کیلئے لفظ طیرہ استعمال ہوتا ہے جو طیر سے نکلا ہے جس کے معنی پرندے کے ہیں۔
اہل عرب چونکہ پرندے کے اڑانے سے فال لیتے تھے اسی لئے طائر بدفالی کیلئے استعمال ہونا لگا یعنی بدشگون لینا۔ دین اسلام میں کوئی دن، مہینہ، جگہ یا انسان منحوس نہیں بلکہ دراصل وہ انسان کا اپنا طرزِ عمل، رویہ، اخلاق اور طریقہ ہوتا ہے جو اس کیلئے مختلف آزمائشوں کا سبب بن جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ترجمہ! کوئی بھلائی جو تمہیں پہنچے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کوئی برائی جو تمہیں پہنچے تو وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے(سورۃ النساء) ایسا شخص جو بدشگون (بدفالی) لیتا رہا اس کے بارے میں حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جو کسی چیز سے بدفالی پکڑ کر اپنے مقصد سے لوٹ آیا اس نے شرک کیا (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا) یا رسول اللہﷺ! اسکا کفارہ کیا ہو گا، ارشاد فرمایا! وہ کہے اے اللہ! تیری دی ہوئی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیری فال کے سوا کوئی فال نہیں اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں (مسند احمد) ۔
یہ مہینہ زمانہء جاہلیت ہی سے لوگوں کے درمیان ایک منحوس اور آسمان سے بلائیں اترنے کا مہینہ سمجھا جاتا رہا ہے اسی وجہ سے کوئی بھی نیک کام مثلًا نکاح وغیرہ اس مہینہ میں کرنے سے لوگ گریز کرتے تھے، اس مہینہ میں نکاح نہیں کیا جاتا تھا اور اپنی بیویوں سے دوری اختیار کر لی جاتی تھی، لہٰذا آپؐ نے آ کر بتایا کہ صفر کے مہینہ میں کوئی نحوست نہیں ہے اس کے باوجود آج بھی بعض لوگ ان باطل اور بے بنیاد نظریات میں پڑے ہوئے ہیں۔
صفر والا مہینہ نحوست کا مہینہ ہے اس بات کو پھیلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس حدیث کا سہارا لیا جو آپؐ نے کہی ہی نہیں، یہ آپ ؐ کی طرف غلط منسوب کی گئی اور ایک من گھڑت روایت لوگوں تک پہنچائی گئی وہ روایت یہ ہے کہ''جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا، میں اُسے جنت کی خوش خبری دوں گا'' اس روایت کو اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ اس مہینہ میں نحوست ہے، تبھی تو آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ مہینہ گزرنے کی خوشخبری دینے پر جنت کی بشارت ہے اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ یہ حدیث من گھڑت ہے، نبی اکرمؐ کی طرف اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔ ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں سے ایک ''اس مہینے کے آخری بدھ'' کا نظریہ بھی ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو نبی اکرم ؐ کو بیماری سے شفا ملی اور آپؐ نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذا اس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے، حالانکہ یہ بالکل خلاف حقیقت واقعہ بات ہے۔
اس دن تو نبی اکرم ؐ کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ مرض کی انتہاء اور شفاء ہوئی۔ بعض لوگوں کا یہ غلط عقیدہ بھی ہے کہ ماہ صفر کا آخری بدھ سال کا سب سے منحوس دن ہے، کیونکہ ہر سال ماہ صفر کی آخری بدھ کو تین لاکھ بیس ہزار بلائیں اترتی ہیں اور یہ سال کا سب سے خطرناک دن ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ان بلاؤں سے بچنے کے لیے ماہ صفر کی آخری بدھ کو چاشت کے وقت چار رکعات نفل نماز ایک سلام سے پڑھتے ہیں، ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ، سترہ مرتبہ سورہ کوثر، پندرہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور ایک ایک بار معوذتین پڑھتے ہیں، ایسا ہر رکعت میں کرتے ہیں، پھر سلام پھیرتے ہیں اور سلام پھیرنے کے بعد (واللہ غا لب علی امرہ ولکن اکثر الناس لایعلمون) تین سوساٹھ مرتبہ اوردرود تین مرتبہ پڑھ کر (سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین) پر اپنی دعا ختم کرتے ہیں، پھر فقیروں میں روٹی خیرات کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو شخص مذکورہ طریقے پر نماز پڑھے گا اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اسے اس دن اترنے والی ساری بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ فرمائے گا اور مذکورہ آیت پڑھنے کی برکت سے ماہ صفر کے آخری بدھ کو اترنے والی بلائیں اور آفتیں ٹل جائیں گی، اس قسم کی نماز کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
جو قومیں دین فطرت یعنی اسلام سے اعراض کرتی ہیں وہ اسی قدر توہمات اور بد شگونیوں کا شکار ہو جاتی ہیں یہ انسان کو روحانی طور پہ اندر سے کمزور کر دیتی ہیں اس کے برعکس اللہ تعالی کی ذات پر کامل و اکمل یقین انسان کو مضبوط اور مستحکم بنا دیتا ہے، پھر انسان کسی دن یا مہینے کو منحوس نہیں سمجھتا بلکہ ہر خیر و شر کا اللہ کی طرف سے ہونے کا یقین رکھتا ہے ہمیں چاہیے کہ اس ماہ میں دیگر مہینوں کی طرح درود شریف کی کثرت کی جائے پانچ نمازوں کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام کیا جائے اور تمام بدعات، توہمات اور رسومات سے بچا جائے۔
وساوس اور توہمات سے شیطان انسان کو شرک میں مبتلا کر کے اس کے اعمال ضائع کرواتا ہے، یہ توہمات و بدشگونیاں انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان و توکل انسان کو جرأت، بہادری اور اعتماد دیتا ہے، اُسے جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ چنانچہ ان توہمات اور بدشگونیوں سے دل کو پاک وصاف رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنا چاہیئے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے،بدشگونی شرک ہے تین بار ارشاد فرمایا اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں مگر (اُسے وہم ہو جاتا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے اسے دور کر دیتا ہے(سنن ابی داؤد) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ''مرض کا لگ جانا،نحوست اور اُلّو اور صفر کچھ نہیں اور جذامی سے اس طرح بچو جس طرح شیر سے بچتے ہو۔ (بخاری شریف) اور سنن ابی داؤد میں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا! کوئی بیماری متعدی نہیں، نہ اُلّو کا نکلنا کچھ ہے، نہ کسی ستارے کی کوئی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔
معلوم ہوا کہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اُذن کے بغیر کوئی چیز نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتی، نہ ہی کوئی جراثیم نہ ہی کوئی وباء۔ یعنی پہلے مریض کو بیماری جہاں سے آئی ہے، یعنی اللہ کے اُذن سے،باقی لوگوں کو بھی وہی سے آئے گی۔ البتہ انسان احتیاط کا دامن نہ چھوڑے کیونکہ تدبیر اختیار کرنے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے۔ اسباب کو اختیار کرنے ہوئے توکل و بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی ہو۔ اسی طرح ستاروں میں اثرات سمجھنا یا ان کو منحوس سمجھنا اسی طرح تاریخوں کو منحوس سمجھنا، زائچے نکلوانا یہ سب چیزیں وہمی خیالی اور باطل ہیں انکا حقائق سے کچھ تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ البتہ اچھی چیزوں کو اپنے لئے خوش بختی کی علامت سمجھنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کوئی مرض متعدی نہیں اور نہ بدفالی کوئی چیز ہے اور نیک فال یعنی اچھا کلمہ مجھے پسند ہے (بخاری شریف) حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا''(لوگو یاد رکھو!) بہترین کتاب تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) ہے اور سب سے بہترین طریقہ تمہارے لئے وہ ہے جو حضرت محمد رسول اللہﷺ کا طریقہ ہے اور بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے نکالے جائیں گے۔
ایسے سب نئے کام بدعت ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر ایک گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے(مسلم و نسائی) اور اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے رحلتِ طیبہ سے پہلے اپنی امت کو وصیت فرمائی ''میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک اُن پر عمل درآمد کرو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے، ایک اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے اور دوسری چیز میری سنت ہے(مؤطا امام مالک) ماہ صفرالمظفرکی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے۔ غزوہ ودان (2ہجری) غزوہ بئرمعونہ (4ہجری) وفدبنی عذرہ کاقبول اسلام (9ہجری) لشکراسامہ بن زیدکی روانگی (11ہجری) فتح مدائن (16ہجری) اور دیگر اہم اسلامی اور تاریخی واقعات اور غزوات کے اس ماہ میں پیش آنے کی وجہ سے کوئی بھی اہل بصیرت اس کی تاریخی اہمیت وافادیت کا انکارنہیں کر سکتا۔ البتہ قرآن وسنت کی رو سے اس مہینے کی کوئی خاص فضیلت ثابت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی مخصوص عبادت مسنون اور مشروع ہے۔ اس مہینے کی نحوست ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا''جس نے مجھے صفرکے گزر جانے کی بشارت دی، میں اس کو جنت کی بشارت دوں گا''۔ اس حدیث کی اسنادی حیثیت اس درجہ کی نہیں ہے کہ اس سے استدلال کیا جا سکے، چنانچہ ملا علی قاری نے ''الموضوعات الکبری'' میں اور دیگر کبار محدثین نے اپنی تصنیفات میں اس روایت کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔
فضائل اور وعیدات کے باب میں باتفاق روایات ضعیف روایات تو قابل قبول ہیں، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ضعف شدید نہ ہو، لیکن اس کے لیے موضوع روایات کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ۔ ماہ صفر کے ساتھ ایک اور جھوٹے واقعے کو منسلک کر کے ایک بدعت کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ بہت سے لوگ اس مہینے کے آخری بدھ کو سیروسیاحت کے لیے تفریحی مقامات پر گھومنے پھرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں اورکہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ اس دن اپنی بیماری سے شفا یاب ہو کرچہل قدمی کے لیے اپنے حجرہ اقدس سے باہرتشریف لائے تھے۔ یہ امر واقعہ نہیں، بلکہ خلاف حقیقت ہے،اس لیے کہ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس دن بیماری سے شفا یاب نہیں ہوئے تھے، بلکہ اس دن تو آپ ﷺکے مرض الوفات کا آغاز ہوا تھا، چنانچہ استاذ المحدثین مولانامحمد ادریس کاندھلوی نے سیرۃ المصطفے میں البدایۃ والنہایہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے''ماہ صفر کے اخیر عشرہ میںآ پ ﷺ ایک بار شب کو اٹھے اور اپنے غلام ابومویہبہ کوجگایا اور فرمایا مجھ کو حکم ہوا ہے کہ اہل بقیع کے لیے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعۃً مزاج ناسازہو گیا، سر میں درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔
یہ ام المومنین حضرت سیدہ میمونہؓ کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا''۔ لہٰذاخاص طور پر اس مہینہ کے آخری بدھ کو اہتمام کر کے سیر وسیاحت کے لیے نکلنا اور اس عمل کو سنت سمجھنا غلط ہے، جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایامِ بیض کے روزے سفر و اقامت میں نہیں چھوڑتے تھے(نسائی) حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارمدینہﷺ نے فرمایا''جس نے ہرماہ تین روزے رکھے اس نے گویا پوری زندگی کے روزے رکھے۔ کیونکہ اللہ عزت وجلال والے نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق کی ہے۔ (ابن ماجہ،باب الصوم) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔''جو شخص ایامِ بیض کا روزہ رکھے گا وہ سال بھر روزہ رکھنے والا قرار پائے گا'' (بخاری شریف) اس مہینے میں چاہیے کہ 13.14.15 تاریخوں میں روزہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ امر واضح ہو گیا کہ صفرکا مہینہ نحوست سے پاک ہے، اس کو منحوس سمجھناجاہلانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ فی نفسہ کسی بھی وقت اور زمانے میں نحوست نہیں ہوتی، بلکہ اصل میں نحوست انسان کے اعمال بد میں ہوتی ہے، لیکن وہ اپنے کرتوتوں کا ملبہ زمانے پر ڈال کرخود کو بری الذمہ کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم تواہم پرستی ، بدعات ،خرافات سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے اور سنت پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہو نے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سورۃ التوبہ پارہ10آیت نمبر32) ماہ صفر کے متعلق ایک طرف تو بہت سی توہمات اور بدشگونیاں اور دوسری طرف اس کے بارے میں خود ساختہ حل بھی تلاش کر لئے گئے ہیں، مثلاً اس ماہ میں شادی نہ کرنا، سفر نہ کرنا، کاروبار کا آغاز نہ کرنا۔ اس ماہ کو مردوں پر بھاری سمجھنا اس کی تیرہ تاریخ کو منحوس سمجھنا وغیرہ وغیرہ، اس مہینے میں مختلف چیزیں پکا کر محلے میں بانٹنا کہ ہماری بلائیں ٹل جائیں یا دوسروں کی طرف چلی جائیںلیکن دین اسلام میں ان تمام باتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ بعض لوگ اس ماہِ صفر میں شادی بیاہ یا کوئی خوشی کا کام نہیں کرتے حالانکہ اس ماہِ صفر المظفر سن 7 ہجری میں حضور نبی کریمﷺ نے ام المومنین حضرت سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی فرمائی تھی۔
قارئین کرام سوچئے! اگر ماہِ صفر میں شادی کرنا منحوس ہوتا تو حضور نبی کریم ﷺ کیوں شادی فرماتے؟ بلکہ ماہِ صفر ہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے اور حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو فتحِ خیبر سے نوازا (البدایہ و النہایہ) عربی میں نحوست کیلئے لفظ طیرہ استعمال ہوتا ہے جو طیر سے نکلا ہے جس کے معنی پرندے کے ہیں۔
اہل عرب چونکہ پرندے کے اڑانے سے فال لیتے تھے اسی لئے طائر بدفالی کیلئے استعمال ہونا لگا یعنی بدشگون لینا۔ دین اسلام میں کوئی دن، مہینہ، جگہ یا انسان منحوس نہیں بلکہ دراصل وہ انسان کا اپنا طرزِ عمل، رویہ، اخلاق اور طریقہ ہوتا ہے جو اس کیلئے مختلف آزمائشوں کا سبب بن جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ترجمہ! کوئی بھلائی جو تمہیں پہنچے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کوئی برائی جو تمہیں پہنچے تو وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے(سورۃ النساء) ایسا شخص جو بدشگون (بدفالی) لیتا رہا اس کے بارے میں حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جو کسی چیز سے بدفالی پکڑ کر اپنے مقصد سے لوٹ آیا اس نے شرک کیا (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا) یا رسول اللہﷺ! اسکا کفارہ کیا ہو گا، ارشاد فرمایا! وہ کہے اے اللہ! تیری دی ہوئی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیری فال کے سوا کوئی فال نہیں اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں (مسند احمد) ۔
یہ مہینہ زمانہء جاہلیت ہی سے لوگوں کے درمیان ایک منحوس اور آسمان سے بلائیں اترنے کا مہینہ سمجھا جاتا رہا ہے اسی وجہ سے کوئی بھی نیک کام مثلًا نکاح وغیرہ اس مہینہ میں کرنے سے لوگ گریز کرتے تھے، اس مہینہ میں نکاح نہیں کیا جاتا تھا اور اپنی بیویوں سے دوری اختیار کر لی جاتی تھی، لہٰذا آپؐ نے آ کر بتایا کہ صفر کے مہینہ میں کوئی نحوست نہیں ہے اس کے باوجود آج بھی بعض لوگ ان باطل اور بے بنیاد نظریات میں پڑے ہوئے ہیں۔
صفر والا مہینہ نحوست کا مہینہ ہے اس بات کو پھیلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس حدیث کا سہارا لیا جو آپؐ نے کہی ہی نہیں، یہ آپ ؐ کی طرف غلط منسوب کی گئی اور ایک من گھڑت روایت لوگوں تک پہنچائی گئی وہ روایت یہ ہے کہ''جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا، میں اُسے جنت کی خوش خبری دوں گا'' اس روایت کو اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ اس مہینہ میں نحوست ہے، تبھی تو آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ مہینہ گزرنے کی خوشخبری دینے پر جنت کی بشارت ہے اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ یہ حدیث من گھڑت ہے، نبی اکرمؐ کی طرف اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔ ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں سے ایک ''اس مہینے کے آخری بدھ'' کا نظریہ بھی ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو نبی اکرم ؐ کو بیماری سے شفا ملی اور آپؐ نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذا اس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے، حالانکہ یہ بالکل خلاف حقیقت واقعہ بات ہے۔
اس دن تو نبی اکرم ؐ کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ مرض کی انتہاء اور شفاء ہوئی۔ بعض لوگوں کا یہ غلط عقیدہ بھی ہے کہ ماہ صفر کا آخری بدھ سال کا سب سے منحوس دن ہے، کیونکہ ہر سال ماہ صفر کی آخری بدھ کو تین لاکھ بیس ہزار بلائیں اترتی ہیں اور یہ سال کا سب سے خطرناک دن ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ان بلاؤں سے بچنے کے لیے ماہ صفر کی آخری بدھ کو چاشت کے وقت چار رکعات نفل نماز ایک سلام سے پڑھتے ہیں، ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ، سترہ مرتبہ سورہ کوثر، پندرہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور ایک ایک بار معوذتین پڑھتے ہیں، ایسا ہر رکعت میں کرتے ہیں، پھر سلام پھیرتے ہیں اور سلام پھیرنے کے بعد (واللہ غا لب علی امرہ ولکن اکثر الناس لایعلمون) تین سوساٹھ مرتبہ اوردرود تین مرتبہ پڑھ کر (سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین) پر اپنی دعا ختم کرتے ہیں، پھر فقیروں میں روٹی خیرات کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو شخص مذکورہ طریقے پر نماز پڑھے گا اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اسے اس دن اترنے والی ساری بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ فرمائے گا اور مذکورہ آیت پڑھنے کی برکت سے ماہ صفر کے آخری بدھ کو اترنے والی بلائیں اور آفتیں ٹل جائیں گی، اس قسم کی نماز کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
جو قومیں دین فطرت یعنی اسلام سے اعراض کرتی ہیں وہ اسی قدر توہمات اور بد شگونیوں کا شکار ہو جاتی ہیں یہ انسان کو روحانی طور پہ اندر سے کمزور کر دیتی ہیں اس کے برعکس اللہ تعالی کی ذات پر کامل و اکمل یقین انسان کو مضبوط اور مستحکم بنا دیتا ہے، پھر انسان کسی دن یا مہینے کو منحوس نہیں سمجھتا بلکہ ہر خیر و شر کا اللہ کی طرف سے ہونے کا یقین رکھتا ہے ہمیں چاہیے کہ اس ماہ میں دیگر مہینوں کی طرح درود شریف کی کثرت کی جائے پانچ نمازوں کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام کیا جائے اور تمام بدعات، توہمات اور رسومات سے بچا جائے۔
وساوس اور توہمات سے شیطان انسان کو شرک میں مبتلا کر کے اس کے اعمال ضائع کرواتا ہے، یہ توہمات و بدشگونیاں انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان و توکل انسان کو جرأت، بہادری اور اعتماد دیتا ہے، اُسے جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ چنانچہ ان توہمات اور بدشگونیوں سے دل کو پاک وصاف رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنا چاہیئے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے،بدشگونی شرک ہے تین بار ارشاد فرمایا اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں مگر (اُسے وہم ہو جاتا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے اسے دور کر دیتا ہے(سنن ابی داؤد) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ''مرض کا لگ جانا،نحوست اور اُلّو اور صفر کچھ نہیں اور جذامی سے اس طرح بچو جس طرح شیر سے بچتے ہو۔ (بخاری شریف) اور سنن ابی داؤد میں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا! کوئی بیماری متعدی نہیں، نہ اُلّو کا نکلنا کچھ ہے، نہ کسی ستارے کی کوئی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔
معلوم ہوا کہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اُذن کے بغیر کوئی چیز نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتی، نہ ہی کوئی جراثیم نہ ہی کوئی وباء۔ یعنی پہلے مریض کو بیماری جہاں سے آئی ہے، یعنی اللہ کے اُذن سے،باقی لوگوں کو بھی وہی سے آئے گی۔ البتہ انسان احتیاط کا دامن نہ چھوڑے کیونکہ تدبیر اختیار کرنے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے۔ اسباب کو اختیار کرنے ہوئے توکل و بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی ہو۔ اسی طرح ستاروں میں اثرات سمجھنا یا ان کو منحوس سمجھنا اسی طرح تاریخوں کو منحوس سمجھنا، زائچے نکلوانا یہ سب چیزیں وہمی خیالی اور باطل ہیں انکا حقائق سے کچھ تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ البتہ اچھی چیزوں کو اپنے لئے خوش بختی کی علامت سمجھنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کوئی مرض متعدی نہیں اور نہ بدفالی کوئی چیز ہے اور نیک فال یعنی اچھا کلمہ مجھے پسند ہے (بخاری شریف) حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا''(لوگو یاد رکھو!) بہترین کتاب تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) ہے اور سب سے بہترین طریقہ تمہارے لئے وہ ہے جو حضرت محمد رسول اللہﷺ کا طریقہ ہے اور بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے نکالے جائیں گے۔
ایسے سب نئے کام بدعت ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر ایک گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے(مسلم و نسائی) اور اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے رحلتِ طیبہ سے پہلے اپنی امت کو وصیت فرمائی ''میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک اُن پر عمل درآمد کرو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے، ایک اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے اور دوسری چیز میری سنت ہے(مؤطا امام مالک) ماہ صفرالمظفرکی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے۔ غزوہ ودان (2ہجری) غزوہ بئرمعونہ (4ہجری) وفدبنی عذرہ کاقبول اسلام (9ہجری) لشکراسامہ بن زیدکی روانگی (11ہجری) فتح مدائن (16ہجری) اور دیگر اہم اسلامی اور تاریخی واقعات اور غزوات کے اس ماہ میں پیش آنے کی وجہ سے کوئی بھی اہل بصیرت اس کی تاریخی اہمیت وافادیت کا انکارنہیں کر سکتا۔ البتہ قرآن وسنت کی رو سے اس مہینے کی کوئی خاص فضیلت ثابت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی مخصوص عبادت مسنون اور مشروع ہے۔ اس مہینے کی نحوست ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا''جس نے مجھے صفرکے گزر جانے کی بشارت دی، میں اس کو جنت کی بشارت دوں گا''۔ اس حدیث کی اسنادی حیثیت اس درجہ کی نہیں ہے کہ اس سے استدلال کیا جا سکے، چنانچہ ملا علی قاری نے ''الموضوعات الکبری'' میں اور دیگر کبار محدثین نے اپنی تصنیفات میں اس روایت کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔
فضائل اور وعیدات کے باب میں باتفاق روایات ضعیف روایات تو قابل قبول ہیں، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ضعف شدید نہ ہو، لیکن اس کے لیے موضوع روایات کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ۔ ماہ صفر کے ساتھ ایک اور جھوٹے واقعے کو منسلک کر کے ایک بدعت کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ بہت سے لوگ اس مہینے کے آخری بدھ کو سیروسیاحت کے لیے تفریحی مقامات پر گھومنے پھرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں اورکہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ اس دن اپنی بیماری سے شفا یاب ہو کرچہل قدمی کے لیے اپنے حجرہ اقدس سے باہرتشریف لائے تھے۔ یہ امر واقعہ نہیں، بلکہ خلاف حقیقت ہے،اس لیے کہ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس دن بیماری سے شفا یاب نہیں ہوئے تھے، بلکہ اس دن تو آپ ﷺکے مرض الوفات کا آغاز ہوا تھا، چنانچہ استاذ المحدثین مولانامحمد ادریس کاندھلوی نے سیرۃ المصطفے میں البدایۃ والنہایہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے''ماہ صفر کے اخیر عشرہ میںآ پ ﷺ ایک بار شب کو اٹھے اور اپنے غلام ابومویہبہ کوجگایا اور فرمایا مجھ کو حکم ہوا ہے کہ اہل بقیع کے لیے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعۃً مزاج ناسازہو گیا، سر میں درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔
یہ ام المومنین حضرت سیدہ میمونہؓ کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا''۔ لہٰذاخاص طور پر اس مہینہ کے آخری بدھ کو اہتمام کر کے سیر وسیاحت کے لیے نکلنا اور اس عمل کو سنت سمجھنا غلط ہے، جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایامِ بیض کے روزے سفر و اقامت میں نہیں چھوڑتے تھے(نسائی) حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارمدینہﷺ نے فرمایا''جس نے ہرماہ تین روزے رکھے اس نے گویا پوری زندگی کے روزے رکھے۔ کیونکہ اللہ عزت وجلال والے نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق کی ہے۔ (ابن ماجہ،باب الصوم) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔''جو شخص ایامِ بیض کا روزہ رکھے گا وہ سال بھر روزہ رکھنے والا قرار پائے گا'' (بخاری شریف) اس مہینے میں چاہیے کہ 13.14.15 تاریخوں میں روزہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ امر واضح ہو گیا کہ صفرکا مہینہ نحوست سے پاک ہے، اس کو منحوس سمجھناجاہلانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ فی نفسہ کسی بھی وقت اور زمانے میں نحوست نہیں ہوتی، بلکہ اصل میں نحوست انسان کے اعمال بد میں ہوتی ہے، لیکن وہ اپنے کرتوتوں کا ملبہ زمانے پر ڈال کرخود کو بری الذمہ کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم تواہم پرستی ، بدعات ،خرافات سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے اور سنت پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہو نے کی توفیق عطا فرمائے ۔