معاشی سروے برائے سال 202324 کا مختصر جائزہ
سروے کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں 807 لوگوں کے لیے ایک رجسٹرڈ ڈاکٹر ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے معاشی سروے برائے سال 2023-24 ء کا اجراء کیا جاچکا ہے۔ یہ سروے گذشتہ مالی سال کی معاشی کارکردگی اور آنے والے خطرات کی نشان دہی کرتا ہے۔ معاشی سروے میں جو اعدادوشمار لیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر گذشتہ جولائی سے لے کرکر مارچ تک کے ہوتے ہیں۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے سروے کے اہم مندرجات کا خلاصہ پیش ہے۔
سروے میں گذشتہ مالی سال میںِ بڑھوتری کی شرح (گروتھ ریٹ) 2.3% بتایا گیا ہے، جب کہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ جو کہ اپریل2024ء میں شائع ہوئی، اس میں گروتھ ریٹ کا تخمینہ 1.8%لگایا گیا تھا۔ سروے کے مطابق اگر کُل قومی آمدنی کو تمام لوگوں میں تقسیم کردیا جائے تو ہر ایک کے حصے میں $1680 آتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اگر ایک گھر میں دو میاں بیوی اور دو بچے ہوں تو اس کی سالانہ آمدنی $1680*4=6720 ہے، جو کہ پاکستانی روپیے میں 19لاکھ روپے سے کچھ زیادہ بنتی ہے۔
ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے معاشی سروے اس بات کی نشان دہی کرتاہے کہ ملک میں سرمایہ کاری مجموعی داخلی پیداوار ( GDP) کا 14% ہے جوکہ نہ صرف بہ تدریج کم ہو رہی ہے بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ سروے اس خطرے کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ شرح مستقبل کی معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ صنعتوں کو درپیش مسائل کا اعادہ کرتے ہوئے سروے میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ بڑی صنعتوں کی منفی شرح نمو کی بنیادی وجوہات میں پیداواری لاگت میں اضافہ اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں شامل ہیں۔
حکومتی اخراجات وآمدنی کے حوالے سے سروے میں اس اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ پرائمری بیلنس سرپلس میں ہے یعنی اگر سود کی ادائی کو ہٹاکر دیکھا جائے تو حکومتی آمدنی اخراجات سے زیادہ ہے۔ تاہم کُل بجٹ کا خسارہ مالی سال 2024ء کے پہلے نو ماہ میں GDPکا 3.7% رہا۔ تاہم پورے مالی سال کے حوالے سے سروے میں بجٹ کا خسارہ GDPکا 6.5% تخمین کیا گیا ہے۔ اس خسارے کی بڑی وجہ سود کی ادائے ہے جو کہ کل اخراجات کا 40% ہے۔ سود کی ادائی میں اضافے کی بنیادی وجہ اونچی شرح سود کو قرار دیا گیا ہے۔
سروے کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں 807 لوگوں کے لیے ایک رجسٹرڈ ڈاکٹر ہے۔ تاہم تعلیم اور صحت کے دیگر اشاریے تازہ اعدادوشمار نہ ہونے کی وجہ سے 2019-20ء کے Social and living standard measurement survey(PSLM) سے لیے گئے ہیں۔ تعلیم پر ہونے والے اخراجات GDP کے تناسب سے2019 ء میں 2% سے کم ہوکر اس سال 1.5% تھے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 0.2% کم ہیں۔ اسی طرح صحت پر خرچ کیے جانے والے اخراجات کے بارے میں سروے نشان دہی کرتا ہے کہ پچھلے سال یہ رقم GDP کا ایک فی صد تھی۔ سروے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی میں زبردست اضافہ تقریبا 62% شرح نمو بتائی گئی ہے۔ تاہم اگر کمپنیوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو 2022 میں لسٹڈ فرمز 530 تھیں جب کہ 2024ء میں 524 ہیں۔
افراط زر ...مہنگائی کے حوالے سے سروے میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ مہنگائی کی شرح بتدریج کم ہورہی ہے۔ مالی سال2024ء میں جولائی سے اپریل تک قیمتوں میں 26% اضافہ ہوا جو کہ گذشتہ سال 28.2% تھا۔ یعنی 100روپیے والی چیز 128کی ہوکر اب 26% کے اضافے سے اب 161.28کی ہوگئی ہے۔ افراط زر کی وجوہات میں طلب کا رسد سے زیادہ ہونا ایک بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ بجلی کی قیمتوں اور روپے کی قدر کا انتہائی کم ہونا بھی مہنگائی کا مؤجب ہے۔ سروے میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ بڑھی ہوئی شرح سود سے سرمایہ کاری کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے جو کہ مہنگائی کا باعث ہوسکتا ہے۔ مہنگائی کے باعث لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے۔
سروے میں Food and Agriculture Organization(FAO)کی ایک رپورٹ کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک اوسط پاکستانی خاندان کو صحت بخش خوراک کے لیے کم ازکم ماہانہ 53000 روپے چاہییں جو کہ تقریباً 82 فی صد پاکستانی خاندان خرید نہیں سکتے! بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے سروے میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ ایکسپورٹ میں اضافہ اور امپورٹ میں کمی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ US$4.1Billionسے کم ہوکر US$0.5Billion رہ گیا ہے۔ مزید یہ کہ آئندہ آنے والے سال میں حکومت پُرامید ہے کہIMF سے کوئی طویل مدتی معاہدہ طے پاجائے گا، جس سے مزید قرضے کا حصول ممکن ہوگا۔
سروے میں بتا گیا کہ حکومتی قرضوں کی مجموعی مالیت مارچ 2024ء تک 67.525Trillion تک پہنچ گئی ہے، جس میں سے 35.68% غیرملکی قرضے ہیں۔ سروے میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے جو قرضہ چاہیے تھا، اس سال اس کا 88 فی صد اندرونی قرضوں سے حاصل کیا گیا ہے، اور حکومت کی کوشش رہی کہ طویل مدتی قرضے حاصل کیے جائیں۔ مالی سال 2024ء کے ابتدائی نو ماہ میں ان قرضوں پر ادا کیے جانے والے سود کی مالیت 5.517Trillion تھی، جس میں سے 4.807Trillion ملکی قرضوں پر ادا کیا گیا ہے۔ سود کی رقم کا اس قدر بڑھ جانے کی ایک بنیادی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ملکی قرضوں کا 74 فی صد اس شرط پر ہے کہ شرح سود میں تبدیلی کے ساتھ ان پر ادا کیے جانے والی سود کی شرح بھی تبدیل ہوجائے گی۔
آبادی کا تخمینہ 241.5Million ہے جس کا 39 فی صد شہروں میں رہتا ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں شہروں میں رہنے والی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ آبادی کی کثافت 303 افراد فی مربع کلومیٹر ہوگئی ہے، جب کہ آبادی میں اضافہ کی شرح 2.55 فی صد ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی آمدنی کی گروتھ Real GDP growth اس سے زیادہ ہوگی تو ہی عوام کے معیار زندگی living standard میں اضافہ ممکن ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فی صد بتائی گئی ہے جو کہ لیبرفورس سروے 2021ء سے لی گئی ہے۔ سماجی فلاح و بہبود اور حکومتی سپورٹ کے حوالے سے سروے ڈیٹا بتاتا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ کی مد میں جولائی سے مارچ 313.4 بلین خرچ کیے گئے جس سے 9.4 ملین لوگ استفادہ کر رہے ہیں جن کو 10500/-روپے تین ماہ کے خرچے کے لیے دیے گئے۔ اسی مدت میں بے نظیر تعلیمی وظائف میں 36.9 بلین روپے2.2Million بچوں میں تقسیم کیے گئے۔ غیرسودی قرضوں کی مد میں 12.2بلین دیے گئے جس سے تقریباً 274,730 لوگوں نے استفادہ کیا، جس کا مطلب ہے کہ اوسط 44,407/- روپے ایک آدمی کے حصے میں قرضہ آیا۔ تاہم سروے میں اس بات کا بھی اظہار کیا گیا کہ لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب ہے بار بار کے IMF کے پروگرام نے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے پر مجبور کردیا ہے، ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے، عوامی فلاح و بہبود پر کیے جانے والے اخراجات بشمول سبسیڈی کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا معیار زندگی اور کم ہوگیا ہے۔
معاشی کارکردگی کے اشاریے اس بات کی پر زور دیتے ہیں کہ ملک اندرونی و بیرونی عوامل کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ ایک طرف قرضوں کا بوجھ اور ان پر دیے جانے والے سود کی ادائی کا مسئلہ، مسلسل کم ہوتی ہوئی سرمایہ کاری، تعلیم وصحت کی ناکافی سہولیات جن کے باعث پاکستان کے انسانی ترقی کے اشاریہ Human Development Index(HDI) کا مزید کم ہوکر 164 ویں نمبر پر آجانا جو کہ انڈیا، بنگلادیش، سری لنکا، مالدیپ، نیپال، بھوٹان سے بھی کم ہے۔ ان سب سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے جس میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا ناگزیر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قلیل مدت اور طویل مدت کے اہداف متعین کیے جائیں۔ ایک آزاد معاشی پالیسی اختیار کی جائے جو صرف ملک کا مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔
سروے میں گذشتہ مالی سال میںِ بڑھوتری کی شرح (گروتھ ریٹ) 2.3% بتایا گیا ہے، جب کہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ جو کہ اپریل2024ء میں شائع ہوئی، اس میں گروتھ ریٹ کا تخمینہ 1.8%لگایا گیا تھا۔ سروے کے مطابق اگر کُل قومی آمدنی کو تمام لوگوں میں تقسیم کردیا جائے تو ہر ایک کے حصے میں $1680 آتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اگر ایک گھر میں دو میاں بیوی اور دو بچے ہوں تو اس کی سالانہ آمدنی $1680*4=6720 ہے، جو کہ پاکستانی روپیے میں 19لاکھ روپے سے کچھ زیادہ بنتی ہے۔
ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے معاشی سروے اس بات کی نشان دہی کرتاہے کہ ملک میں سرمایہ کاری مجموعی داخلی پیداوار ( GDP) کا 14% ہے جوکہ نہ صرف بہ تدریج کم ہو رہی ہے بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ سروے اس خطرے کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ شرح مستقبل کی معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ صنعتوں کو درپیش مسائل کا اعادہ کرتے ہوئے سروے میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ بڑی صنعتوں کی منفی شرح نمو کی بنیادی وجوہات میں پیداواری لاگت میں اضافہ اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں شامل ہیں۔
حکومتی اخراجات وآمدنی کے حوالے سے سروے میں اس اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ پرائمری بیلنس سرپلس میں ہے یعنی اگر سود کی ادائی کو ہٹاکر دیکھا جائے تو حکومتی آمدنی اخراجات سے زیادہ ہے۔ تاہم کُل بجٹ کا خسارہ مالی سال 2024ء کے پہلے نو ماہ میں GDPکا 3.7% رہا۔ تاہم پورے مالی سال کے حوالے سے سروے میں بجٹ کا خسارہ GDPکا 6.5% تخمین کیا گیا ہے۔ اس خسارے کی بڑی وجہ سود کی ادائے ہے جو کہ کل اخراجات کا 40% ہے۔ سود کی ادائی میں اضافے کی بنیادی وجہ اونچی شرح سود کو قرار دیا گیا ہے۔
سروے کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں 807 لوگوں کے لیے ایک رجسٹرڈ ڈاکٹر ہے۔ تاہم تعلیم اور صحت کے دیگر اشاریے تازہ اعدادوشمار نہ ہونے کی وجہ سے 2019-20ء کے Social and living standard measurement survey(PSLM) سے لیے گئے ہیں۔ تعلیم پر ہونے والے اخراجات GDP کے تناسب سے2019 ء میں 2% سے کم ہوکر اس سال 1.5% تھے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 0.2% کم ہیں۔ اسی طرح صحت پر خرچ کیے جانے والے اخراجات کے بارے میں سروے نشان دہی کرتا ہے کہ پچھلے سال یہ رقم GDP کا ایک فی صد تھی۔ سروے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی میں زبردست اضافہ تقریبا 62% شرح نمو بتائی گئی ہے۔ تاہم اگر کمپنیوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو 2022 میں لسٹڈ فرمز 530 تھیں جب کہ 2024ء میں 524 ہیں۔
افراط زر ...مہنگائی کے حوالے سے سروے میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ مہنگائی کی شرح بتدریج کم ہورہی ہے۔ مالی سال2024ء میں جولائی سے اپریل تک قیمتوں میں 26% اضافہ ہوا جو کہ گذشتہ سال 28.2% تھا۔ یعنی 100روپیے والی چیز 128کی ہوکر اب 26% کے اضافے سے اب 161.28کی ہوگئی ہے۔ افراط زر کی وجوہات میں طلب کا رسد سے زیادہ ہونا ایک بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ بجلی کی قیمتوں اور روپے کی قدر کا انتہائی کم ہونا بھی مہنگائی کا مؤجب ہے۔ سروے میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ بڑھی ہوئی شرح سود سے سرمایہ کاری کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے جو کہ مہنگائی کا باعث ہوسکتا ہے۔ مہنگائی کے باعث لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے۔
سروے میں Food and Agriculture Organization(FAO)کی ایک رپورٹ کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک اوسط پاکستانی خاندان کو صحت بخش خوراک کے لیے کم ازکم ماہانہ 53000 روپے چاہییں جو کہ تقریباً 82 فی صد پاکستانی خاندان خرید نہیں سکتے! بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے سروے میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ ایکسپورٹ میں اضافہ اور امپورٹ میں کمی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ US$4.1Billionسے کم ہوکر US$0.5Billion رہ گیا ہے۔ مزید یہ کہ آئندہ آنے والے سال میں حکومت پُرامید ہے کہIMF سے کوئی طویل مدتی معاہدہ طے پاجائے گا، جس سے مزید قرضے کا حصول ممکن ہوگا۔
سروے میں بتا گیا کہ حکومتی قرضوں کی مجموعی مالیت مارچ 2024ء تک 67.525Trillion تک پہنچ گئی ہے، جس میں سے 35.68% غیرملکی قرضے ہیں۔ سروے میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے جو قرضہ چاہیے تھا، اس سال اس کا 88 فی صد اندرونی قرضوں سے حاصل کیا گیا ہے، اور حکومت کی کوشش رہی کہ طویل مدتی قرضے حاصل کیے جائیں۔ مالی سال 2024ء کے ابتدائی نو ماہ میں ان قرضوں پر ادا کیے جانے والے سود کی مالیت 5.517Trillion تھی، جس میں سے 4.807Trillion ملکی قرضوں پر ادا کیا گیا ہے۔ سود کی رقم کا اس قدر بڑھ جانے کی ایک بنیادی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ملکی قرضوں کا 74 فی صد اس شرط پر ہے کہ شرح سود میں تبدیلی کے ساتھ ان پر ادا کیے جانے والی سود کی شرح بھی تبدیل ہوجائے گی۔
آبادی کا تخمینہ 241.5Million ہے جس کا 39 فی صد شہروں میں رہتا ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں شہروں میں رہنے والی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ آبادی کی کثافت 303 افراد فی مربع کلومیٹر ہوگئی ہے، جب کہ آبادی میں اضافہ کی شرح 2.55 فی صد ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی آمدنی کی گروتھ Real GDP growth اس سے زیادہ ہوگی تو ہی عوام کے معیار زندگی living standard میں اضافہ ممکن ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فی صد بتائی گئی ہے جو کہ لیبرفورس سروے 2021ء سے لی گئی ہے۔ سماجی فلاح و بہبود اور حکومتی سپورٹ کے حوالے سے سروے ڈیٹا بتاتا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ کی مد میں جولائی سے مارچ 313.4 بلین خرچ کیے گئے جس سے 9.4 ملین لوگ استفادہ کر رہے ہیں جن کو 10500/-روپے تین ماہ کے خرچے کے لیے دیے گئے۔ اسی مدت میں بے نظیر تعلیمی وظائف میں 36.9 بلین روپے2.2Million بچوں میں تقسیم کیے گئے۔ غیرسودی قرضوں کی مد میں 12.2بلین دیے گئے جس سے تقریباً 274,730 لوگوں نے استفادہ کیا، جس کا مطلب ہے کہ اوسط 44,407/- روپے ایک آدمی کے حصے میں قرضہ آیا۔ تاہم سروے میں اس بات کا بھی اظہار کیا گیا کہ لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب ہے بار بار کے IMF کے پروگرام نے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے پر مجبور کردیا ہے، ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے، عوامی فلاح و بہبود پر کیے جانے والے اخراجات بشمول سبسیڈی کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا معیار زندگی اور کم ہوگیا ہے۔
معاشی کارکردگی کے اشاریے اس بات کی پر زور دیتے ہیں کہ ملک اندرونی و بیرونی عوامل کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ ایک طرف قرضوں کا بوجھ اور ان پر دیے جانے والے سود کی ادائی کا مسئلہ، مسلسل کم ہوتی ہوئی سرمایہ کاری، تعلیم وصحت کی ناکافی سہولیات جن کے باعث پاکستان کے انسانی ترقی کے اشاریہ Human Development Index(HDI) کا مزید کم ہوکر 164 ویں نمبر پر آجانا جو کہ انڈیا، بنگلادیش، سری لنکا، مالدیپ، نیپال، بھوٹان سے بھی کم ہے۔ ان سب سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے جس میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا ناگزیر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قلیل مدت اور طویل مدت کے اہداف متعین کیے جائیں۔ ایک آزاد معاشی پالیسی اختیار کی جائے جو صرف ملک کا مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔