3شہریوں کی حراست پر ڈی جی رینجرز اور آئی جی سے جواب طلب
رینجرز، پولیس ، سی آئی ڈی اور ایس آئی یو کے نمائندے تینوں کی رہائی کیلیے 20 لاکھ رشوت طلب کررہے ہیں،درخوست گزار
سندھ ہائیکورٹ نے3 شہریوں کو رشوت کیلیے حراست میں لینے کے متعلق درخواست پر ڈی جی رینجرز ، آئی جی سندھ ، سی آئی ڈی اور ایس آئی یو کے سربراہوں سمیت دیگر کو 10جولائی کیلیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں2 رکنی بینچ نے سجاد عالم کی درخواست کی سماعت کی، ماڑی پور ٹرک اڈے کے رہائشی درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ 27جون کو رینجرزاور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا ، درخواست گزار کے بیٹے شہزاد عالم ،چچا سعید الرحمٰن اورخواجہ عالم کو لے گئے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ تینوں افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ،اس حوالے سے رینجرز، پولیس ، سی آئی ڈی اور ایس آئی یو کے نمائندے تینوں افرادکی رہائی کیلیے 20 لاکھ روپے رشوت طلب کررہے ہیں ، درخواست گزار نے موقف اختیارکیا ہے کہ وہ ایک غریب آدمی ہے اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتا ، مدعا علیہان کو رہائی کے لیے حکم جاری کیا جائے۔
عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد مدعا علیہان ، ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو 10جولائی کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے تینوں افراد کی گرفتاری سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ، عدالت نے شہری زاہد خان کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا ، مسمات سلطانہ خاتون نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ رینجرز اور پولیس اہلکار اس کے بیٹے زاہد خان کو یکم جولائی کو گرفتار کرکے لے گئے، نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ، زاہد خان کی رہائی کیلیے بھاری رشوت طلب کی جارہی ہے۔
جمعرات کو سماعت کے موقع پر عدالت نے ایس ایچ او سچل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جمعہ کوطلب کیا تھا ، سماعت کے موقع پر مذکورہ افسر کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر پیش ہوکر عدم حاضری کی وضاحت کریں ، عدالت کو بتایا گیا کہ زاہد خان پولیس مقابلے میں ہلاک ہوچکا جس پر عدالت نے حکم دیا کہ مقابلے کی رپورٹ پیش کی جائے، عدالت نے مقیت کی گمشدگی سے متعلق درخواست پر قانون نافذکرنے والے اداروں کو 10جولائی کیلیے نوٹس جاری کردیے ہیں ، درخواست گزار محمد لیاقت نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس کا بیٹا 16جون کو نیو کراچی گیا تھا جہاں سے واپسی پر لاپتہ ہوگیا ۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں2 رکنی بینچ نے سجاد عالم کی درخواست کی سماعت کی، ماڑی پور ٹرک اڈے کے رہائشی درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ 27جون کو رینجرزاور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا ، درخواست گزار کے بیٹے شہزاد عالم ،چچا سعید الرحمٰن اورخواجہ عالم کو لے گئے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ تینوں افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ،اس حوالے سے رینجرز، پولیس ، سی آئی ڈی اور ایس آئی یو کے نمائندے تینوں افرادکی رہائی کیلیے 20 لاکھ روپے رشوت طلب کررہے ہیں ، درخواست گزار نے موقف اختیارکیا ہے کہ وہ ایک غریب آدمی ہے اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتا ، مدعا علیہان کو رہائی کے لیے حکم جاری کیا جائے۔
عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد مدعا علیہان ، ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو 10جولائی کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے تینوں افراد کی گرفتاری سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ، عدالت نے شہری زاہد خان کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا ، مسمات سلطانہ خاتون نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ رینجرز اور پولیس اہلکار اس کے بیٹے زاہد خان کو یکم جولائی کو گرفتار کرکے لے گئے، نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ، زاہد خان کی رہائی کیلیے بھاری رشوت طلب کی جارہی ہے۔
جمعرات کو سماعت کے موقع پر عدالت نے ایس ایچ او سچل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جمعہ کوطلب کیا تھا ، سماعت کے موقع پر مذکورہ افسر کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر پیش ہوکر عدم حاضری کی وضاحت کریں ، عدالت کو بتایا گیا کہ زاہد خان پولیس مقابلے میں ہلاک ہوچکا جس پر عدالت نے حکم دیا کہ مقابلے کی رپورٹ پیش کی جائے، عدالت نے مقیت کی گمشدگی سے متعلق درخواست پر قانون نافذکرنے والے اداروں کو 10جولائی کیلیے نوٹس جاری کردیے ہیں ، درخواست گزار محمد لیاقت نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس کا بیٹا 16جون کو نیو کراچی گیا تھا جہاں سے واپسی پر لاپتہ ہوگیا ۔