کراچی تعلیمی سیشن ڈھائی ماہ تاخیر کے باوجود کتب کی مارکیٹ میں عدم دستیابی

30 سے 40 فی صد درسی کتب مارکیٹ میں موجود ہی نہیں، ٹیکس عائد ہونے سے والدین پر بوجھ بڑھ گیا، اردو بازار ٹریڈرز


Staff Reporter August 12, 2024
(فوٹو: فائل)

شہر قائد میں تعلیمی سیشن کے ڈھائی ماہ تاخیر سے شروع ہونے کے باوجود درسی کتب تاحال مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔


اُردو بازار ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں ساجد یوسف، حسین عباس، علی محمد اعوان، ندیم اختر اور فرحان کاغذی نے کہا ہے کہ تعلیمی سیشن ڈھائی ماہ کی تاخیر سے شروع کرنے کے باوجود بازار میں 30 سے 40 فیصد درسی کتابیں موجود ہی نہیں ہیں۔


پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران ٹریڈرز کا کہنا تھا کہ بازار میں دسویں جماعت کی ریاضی، جماعت پنجم کی اردو، نہم تا بارہویں جماعت کی کیمیا، نہم تا بارہویں کی طبعیات، دسویں کی انگریزی کی کتاب دستیاب نہیں ہے جب کہ گزشتہ 6 ماہ سے نویں اور دسویں جماعت کی کمپیوٹر کی کتاب ہی نہیں ہے۔


اسی طرح گیارہویں اور بارہویں کی حیاتیات کی کتاب بھی بازار سے غائب ہے۔جنرل سیکرٹری اردو بازار ٹریڈر حسین عباس نے کہا ہے کہ اس وقت اسٹیشنری پر بجٹ کے بعد 18 سے 20 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، ٹیکس عائد کرنے کے باعث والدین پر بوجھ بڑھ گیا ہے، پنسل، واٹر کلر، ربر اور روشنائیس میت سب چیزوں پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے، اس حوالے سے فوراً ایک کمیٹی بنائی جائے۔


اردو بازار ٹریڈرایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین ساجد یوسف نے کہا کہ صوبے کے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں اور کتابوں کی چھپائی میں تاخیر کی وجہ سے تعلیمی سال اپریل کے بجائے اگست سے شروع ہوا ہے۔ گزشتہ برس بھی کتابیں بچوں کو دیر سے ملی تھیں جس کی وجہ چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ حکام اور پبلشرز کی نااہلی اور لالچ ہے۔ ان کی وجہ سے کتابیں تاخیر سے شائع ہوئیں۔


انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کتابیں دیر سے ملنے کی وجہ سے انٹر کے طلبہ فیل بھی ہوئے۔ اس سال بھی ایک پبلیشرز بار بار عدالت جانے سے کتابوں کی چھپائی میں تاخیر ہوئی۔ 60 فیصد مفت کتابیں سرکاری اسکولوں میں پہنچ گئی ہیں مگر بازار میں ابھی بیشتر کتابیں دستیاب نہیں جب کہ یہ طے ہوا تھا کہ پبلشرز ہول سیلرز کو ساڑھے 17 فیصد رعایت دیں گے لیکن ہمیں 15 فیصد رعایت دی جا رہی ہے۔


فرحان کاغذی کا کہنا تھا کہ والدین کتابوں کے حصول کے لیے اردو بازار کے چکر کاٹ رہے ہیں مگر انہیں مکمل کورس نہیں مل رہا۔ تعلیمی سال اگست کے بجائے یکم اپریل کو شروع کیا جائے اور آئندہ برس کے لیے کتابوں کی چھپائی کا سلسلہ ابھی سے شروع کیا جائے تاکہ بچوں کو کتابیں وقت پر مل سکیں۔اُن کا کہنا تھا کہ میرا ایک اور مطالبہ ہے کہ کسی ایک پبلشر کے پاس زیادہ کتابوں کی چھپائی کا ٹھیکہ نہ دیا جائے بلکہ اسے محدود کر کے 20 ہزار کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں