بجلی بلوں میں سود کے 323 روپے فی یونٹ وصولی بند کی جائے صنعتکاروں کا مطالبہ
کے الیکٹرک کہتی ہے حکومت ہمیں فنڈز فراہم کرے پھر کراچی والوں کو ریلیف دیں گے، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری
کراچی کے صنعتکاروں نے وفاقی حکومت سے 2021 سے زیرالتوا 33ارب روپے کا ریلیف جاری کرنے اور پاور ہولڈنگ کمپنی کے سود کے 3.23 روپے فی یونٹ کی وصولیاں بند کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ یہ مطالبہ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر جوہر قندھاری نے پیر کو سینیٹر حسیب خان زبیر چھایا ودیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے صنعتکار کے الیکٹرک سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ اگر ایک ہفتے میں کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا تو احتجاج سمیت عدالت سے بھی رجوع کریں گے۔
ہمیں سڑک پر احتجاج کرنا پڑا یا دھرنا دینا پڑا تو وہ بھی کریں گے۔ نیپرا ٹریبونل نے ایک ماہ قبل ہمارے حق میں فیصلہ جاری کیا تھا جس کے بعد فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک ملک میں سب سے مہنگی بجلی بنا رہا ہے۔ کراچی کے صنعتکاروں کے 33 ارب روپے کے الیکٹرک نے روک رکھے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے دور میں حکومت نے 2021 کے وفاقی بجٹ میں ملک بھر کی صنعتوں کو ریلیف دیا تھا۔ ملک کی تمام شہروں میں یہ ریلیف مل گیا لیکن کے الیکٹرک یہ ریلیف دینے کو تیار نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک کہتی ہے حکومت ہمیں پہلے فنڈز فراہم کرے پھر کراچی والوں کو ریلیف دیں گے۔ کراچی کے صنعتکاروں نے جب یہ معاملہ اٹھایا تو کے الیکٹرک نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے معاملہ نیپرا ٹریبونل کو بھیجا اور پھر نیپرا ٹریبونل نے سماعت میں کے الیکٹرک کو مسترد کرتے ہوئے کراچی کی صنعتوں کو ریلیف دینے کی ہدایت کی لیکن کے الیکٹرک نے نیپرا کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی صنعتوں اور شہریوں کی بلوں میں 1 روپے 52 پیسے کا سرچارج بھی وصول کیا جارہا ہے۔ جو مہنگی بجلی بنانے کی وجہ سے ہے جو ملک کے کسی اور شہر میں نہیں ہے۔
پی ایچ ایل سرکلر ڈیٹ پر عائد سود بھی کراچی کے شہریوں سے وصول کیے جارہے ہیں۔ پی ایچ ایل کی مد میں کراچی والوں سے 683 ارب روپے لیے جارہے ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کاٹی کے سابق صدر سینیٹر حسیب خان نے کہا کہ زائد یوٹیلیٹی چارجز کی وجہ سے صنعتیں بتدریج بند ہورہی ہیں، حکومت جان بوجھ کر قانون شکنی کی مرتکب ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی ترجیحات مسائل حل کرنے کے بجائے سیاسی مفادات کے حصول پر ہے۔ حکومت صرف طاقت کے بل بوتے پر مسائل حل کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صنعتی تنظیموں کو مہذب انداز میں حکومت کے سامنے طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے صنعتکار کے الیکٹرک سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ اگر ایک ہفتے میں کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا تو احتجاج سمیت عدالت سے بھی رجوع کریں گے۔
ہمیں سڑک پر احتجاج کرنا پڑا یا دھرنا دینا پڑا تو وہ بھی کریں گے۔ نیپرا ٹریبونل نے ایک ماہ قبل ہمارے حق میں فیصلہ جاری کیا تھا جس کے بعد فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک ملک میں سب سے مہنگی بجلی بنا رہا ہے۔ کراچی کے صنعتکاروں کے 33 ارب روپے کے الیکٹرک نے روک رکھے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے دور میں حکومت نے 2021 کے وفاقی بجٹ میں ملک بھر کی صنعتوں کو ریلیف دیا تھا۔ ملک کی تمام شہروں میں یہ ریلیف مل گیا لیکن کے الیکٹرک یہ ریلیف دینے کو تیار نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک کہتی ہے حکومت ہمیں پہلے فنڈز فراہم کرے پھر کراچی والوں کو ریلیف دیں گے۔ کراچی کے صنعتکاروں نے جب یہ معاملہ اٹھایا تو کے الیکٹرک نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے معاملہ نیپرا ٹریبونل کو بھیجا اور پھر نیپرا ٹریبونل نے سماعت میں کے الیکٹرک کو مسترد کرتے ہوئے کراچی کی صنعتوں کو ریلیف دینے کی ہدایت کی لیکن کے الیکٹرک نے نیپرا کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی صنعتوں اور شہریوں کی بلوں میں 1 روپے 52 پیسے کا سرچارج بھی وصول کیا جارہا ہے۔ جو مہنگی بجلی بنانے کی وجہ سے ہے جو ملک کے کسی اور شہر میں نہیں ہے۔
پی ایچ ایل سرکلر ڈیٹ پر عائد سود بھی کراچی کے شہریوں سے وصول کیے جارہے ہیں۔ پی ایچ ایل کی مد میں کراچی والوں سے 683 ارب روپے لیے جارہے ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کاٹی کے سابق صدر سینیٹر حسیب خان نے کہا کہ زائد یوٹیلیٹی چارجز کی وجہ سے صنعتیں بتدریج بند ہورہی ہیں، حکومت جان بوجھ کر قانون شکنی کی مرتکب ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی ترجیحات مسائل حل کرنے کے بجائے سیاسی مفادات کے حصول پر ہے۔ حکومت صرف طاقت کے بل بوتے پر مسائل حل کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صنعتی تنظیموں کو مہذب انداز میں حکومت کے سامنے طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔