یہ حلیف کم ہیں حریف زیادہ

وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے صدر مملکت کے لیے ایئرپورٹ نہ جانے کا کوئی جواز تو سامنے نہیں آیا

m_saeedarain@hotmail.com

لاہور میں مینار پاکستان پر صدرآصف زرداری کی 69 ویں سالگرہ کی تقریب منعقد کرنے کی اجازت نہ دینے پر پیپلز پارٹی لاہور کے رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور مینار پاکستان کے قریب سالگرہ کی تقریب منعقد ہوئی اور رہنماؤں نے اپنی حلیف جماعت مسلم لیگ (ن) پر سخت تنقید کی۔

پنجاب کے پی پی رہنما وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے اس لیے بھی خفا ہیں کہ صدر مملکت کے حالیہ دورہ لاہور میں صدر مملکت کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ کیوں نہیں آئیں، پی پی رہنماؤں کا موقف ہے کہ پی پی کے اصل سربراہ آصف زرداری ہی کی وجہ سے عمران خان کو ہٹا کر پیپلز پارٹی نے میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا تھا ورنہ نواز شریف کی وطن واپسی نہ ہوتی نہ شہباز شریف وزیر اعظم بنائے جاتے۔

آٹھ فروری کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی حمایت کی وجہ سے شہباز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب کرائے گئے اور پنجاب میں مریم نواز وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں، اگر پیپلز پارٹی (ن) لیگ کی حلیف نہ بنتی تو میاں شہباز شریف، مریم نواز اور (ن) لیگی رہنما حکومت میں نہ ہوتے۔ پی پی رہنماؤں کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ مریم نواز کو صدر مملکت کے استقبال کے لیے جانا چاہیے تھا وہ بعد میں بھی صدر سے ملنے نہیں گئیں اور اب ان کی حکومت نے پی پی کو اپنے صدر کی سالگرہ نہیں منانے دی۔

پنجاب حکومت کے پاس سالگرہ تقریب کی اجازت نہ دینے کا یہ معقول جواز موجود ہے کہ صوبے میں دفعہ 144 نافذ ہے، اگر یہ اجازت دے بھی دی جاتی اور تحریک انصاف کو لاہور میں جلسہ کرنے کی اجازت نہ ملنے پر حکومت پر تنقید کا موقعہ مل جاتا اور عدالت سے انھیں جلسے کی اجازت مل جاتی۔ عدالتی نظام سے منسلک کچھ شخصیات جس طرح پی ٹی آئی کو مظلوم سمجھتی ہیں وہ پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی ویسے بھی اجازت دلوا دیتیں اور حکومت اسی طرح منہ دیکھتی رہ جاتی جیسے پنجاب پولیس بانی پی ٹی آئی کے 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کالعدم کیے جانے پر ہے۔


وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے صدر مملکت کے لیے ایئرپورٹ نہ جانے کا کوئی جواز تو سامنے نہیں آیا مگر یہ بھی درست ہے کہ ماضی میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف اور شہباز شریف بھی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور صدر آصف زرداری کی آمد پر استقبال کرنے نہیں جاتے تھے کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے سخت مخالف تھیں اور سیاست میں پی ٹی آئی کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

جنرل پرویز کے خوف سے دونوں پارٹیوں نے لندن میں پہلی بار مل کر معاہدہ میثاق جمہوریت کیا تھا اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئی تھیں اور 2008 کے بعد سے دونوں میں پہلے جیسی ایک دوسرے کی مخالفت نہیں رہ گئی۔ دونوں کے تعلقات میں ججز بحالی، پی پی حکومت میں پنجاب میں گورنر راج پھر (ن) لیگی حکومت میں بلوچستان میں (ن) لیگی وزیر اعلیٰ کو پی پی کی طرف سے ہٹائے جانے پر ناراضگی ضرور تھی مگر پھر عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں پارٹیوں کا پھر ایک دوسرے کے قریب آنا مجبوری یا ضرورت بن گیا تھا کیونکہ عمران خان کا اقتدار شریفوں اور زرداریوں کے لیے انتہائی انتقامی اور پریشان کن ثابت ہوا تھا مگر عمران خان اب دونوں پارٹیوں کے مشترکہ اقتدار میں شاہانہ قید کاٹ رہے ہیں اور دونوں پارٹیاں عدالتی خوف سے عمران اور پی ٹی آئی سے وہ انتقام لے نہیں پا رہیں جو دونوں سے لیا گیا تھا۔

1988 کے بعد سے (ن) لیگ اور پی پی ایک دوسرے کی سخت ترین حریف رہیں۔ دونوں نے اپنی اپنی حکومتوں میں احتساب کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف بھرپور انتقامی کارروائیاں کیں مگر دونوں کے خلاف وہ سلوک مشرف دور میں بھی نہیں ہوا جو عمران خان کی حکومت میں ہوا تھا اس لیے اب دونوں ایک بار پھر حلیف صرف اقتدار کے لیے ہیں اور سیاسی طور پر دونوں اب بھی حریف ہیں کیونکہ دونوں نے اپنی سیاست بچانی ہے کیونکہ پی ٹی آئی اب بھی دونوں پارٹی رہنماؤں کے خلاف ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین کو طویل قید میں رکھنے کے باوجود پی ٹی آئی حکومت ثبوت پیش کر کے کرپشن میں کسی کو سزا نہیں دلا سکی تھی اور وہ سب رہا ہوگئے تھے۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی حکومت 2023 تک برقرار رہتی اور عمران خان اپنے محسنوں سے بے وفائی اور ان پر ناحق الزام تراشی نہ کرتے تو وہ دوبارہ الیکشن جیت سکتے تھے مگر انھوں نے اپنی تمام توانائیاں اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے پر صرف کیں اور بالاتروں سے بھی بگاڑ لی جس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اٹھایا اور دونوں اقتداری حلیف بن گئیں مگر دونوں کی سیاست مختلف اور ایک دوسرے کے خلاف ہے۔ دونوں بظاہر حلیف مگر اصل میں سخت سیاسی حریف ہیں اور دونوں کی سیاست دائیں اور بائیں بازو والی رہی ہے۔

پی ٹی آئی کی وجہ سے ملک بھر میں پی پی اور (ن) لیگ کی مقبولیت سخت متاثر ہوئی ہے اور آصف زرداری دور اندیش اور اپنے رہنماؤں کی قدر کرنے اور انھیں ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عوام میں دونوں پارٹیوں سے نفرت کا فائدہ پی ٹی آئی اٹھا رہی ہے اور (ن) لیگ کا بیانیہ اپنا کر مقبولیت بڑھا رہی ہے جس کا توڑ اقتداری پارٹیوں کے پاس نہیں ہے اور دونوں کی حکومتوں نے مہنگائی کرکے عوام کو اپنے سخت خلاف بھی کر لیا ہے مگر دونوں کا ساتھ رہنا دونوں کی اشد ضرورت و مجبوری ہے اور اس کا پی پی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے اور اس کے رہنما (ن) لیگ پر برس بھی رہے ہیں اور حکومتی مراعات سے بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور عوام ان کی حکومت میں پس رہے ہیں۔
Load Next Story