عراق تقسیم کی جانب گامزن
البغدادی کی قیادت میں جلد ہی شام میں بھی داعش نے الرقہ، حلب اور دیگر علاقوں میں اپنے پنجے مضبوط کرلیے۔
اقوام متحدہ کی منشاء کے برعکس اور عالمی توانائی ایجنسی ''آئی اے، ای اے'' کے معائنہ کاروں کی تردید کے باوجود امریکا بہادر نے 2003ء میں یہ کہہ کرحملہ کیا کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی، حیاتیاتی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں جو پوری دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
سپاہ کو بغداد کی جانب پیش قدمی کا حکم جاری کرنے سے قبل حملے کے تین مقاصد بتائے گئے۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تباہی، صدام حسین کی آمریت کی جگہ سلطانی جمہور کے نظام کا قیام اور ملک کو امن وامان کا گہوارہ بناتے ہوئے دنیا کو عراق سے لاحق خطرات سے محفوظ رکھنا تھا۔
یہ تین بنیادی مقاصد اس وقت کے عراق کے لیے امریکی ناظم الامور مسٹر پال بریمر نے نیویارک میں ایک نیوز کانفرنس میں بیان کیے۔ کم وبیش یہی اعلانات اور دعوے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر کے تھے۔ عراق میں وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیار تو تھے ہی نہیں، اس لیے ان کا قصہ ہی ختم۔ تاہم صدام حسین کا قصہ تمام کردیا گیا۔ وہ اپنے انجام کو پہنچے مگرجمہوریت؟ آج گیارہ سال بعد کا ملک صدام حسین کے بھوکے ننگے عراق سے کہیں زیادہ خوفناک، پرخطر، تباہ کن اور دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے۔
تسلیم کہ صدام حسین کی آمرانہ حکومت کا اگر کوئی جواز نہیں تھا مگر وہ کٹھ پتلی نہیں تھا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جہاں جہاں بھی جنگوں کے ذریعے اپنے کٹھ پتلی بٹھائے وہ اسی طرح ناکامی سے دوچار ہوئے۔ عراق میں نوری المالکی اور افغانستان میں حامد کرزئی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔چونکہ ہم عراق کی تازہ شورش پہ بات کررہے ہیں، اس لیے ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ آیا مٹھی بھر مسلح جنگجوؤں پر مشتمل ایک گروپ کے پاس ایسی کون سی طلسماتی چھڑی تھی جس نے بلک جھپکتے عراق کا ایک چوتھائی حصہ پکے ہوئے پھل کی طرح ان (جنگجوؤں) کی جھولی میں ڈال دیا؟
کیا جنگجو گروپ ''دولت اسلامیہ عراق وشام''داعش(ISIS) واقعی مادی، معنوی اور دفاعی اعتبار سے اتنا طاقت ور ہے کہ اسے شام اور عراق مل کربھی شکست نہیں دے سکے ؟ اور اس ضمن میں تیسرا سوال یہ کہ آیا عراق وشام کے درمیان دنیا کے نقشے پر ایک نئی ریاست''مملکت اسلامی عراق وشام'' کی جغرافیائی سرحدیں بننے جا رہی ہیں؟ اس کے نتیجے میں عراق حصے بخرے ہونے جا رہاہے۔ امریکی کٹھ پتلی نوری المالکی کی ہٹ دھرمی کیا رنگ لائے گی؟
مقدور بھرکوشش کے باجود یہ بات ناقابل فہم کہ ایران اور سعودی عرب عراق کو اپنی دو طرفہ جنگ کا محاذکیوں بنانا چاہتے ہیں اگر یہ دونوں ملک مخلص ہیں تو مل کر اس مسئلے کا حل کیوں نہیں نکال رہے ہیں؟ کیا شام اس کے لیے کافی نہیں تھا؟ لیکن ہمیں یہ بات ضرور دیکھنی چاہیے کہ یہاں مسئلہ صرف ایران اور سعودی عرب کا نہیں بلکہ عالمی مفادات کے تصادم کا ہے۔
امریکا نے 2003ء میں عراق پر جو جنگ مسلط کی اس پر اس کے 50 بلین ڈالر خرچ ہوئے۔ لیکن امریکیوں نے عراق کے تیل سے یہ خسارہ پورا کرلیا۔امریکا کسی بھی صورت میں متحدہ عراق کا خواہاں نہیں ہے۔ کوئی مانے نہ مانے عراق کی تقسیم خود امریکا کی سازش ہے۔ امریکی تجزیہ نگار بھی یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ عراق کو تقسیم سے دوچار کرنے کے لیے حالات کی سازگاری میں واشنگٹن کا کلیدی کردار ہے۔ البتہ خطے کے بعض ممالک اپنی غلط پالیسیوں اور اپنے اپنے مفادات کے باعث جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔
ایک عشرہ پیشتر جب امریکیوں نے عراق میں قدم رکھا توانہیں صرف صدام حسین کی فوج کے کچھ گروپوں کی طرف سے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ القاعدہ کا نام ونشان نہ تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکیوں کی موجودگی میں القاعدہ نواز گروپوں نے نہ صرف عراق کو اپنا مرکز بنایا بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں سفر کے لیے عراق کو راہ داری کے طورپر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ سب کچھ امریکی ''پاسبانان امن'' کی ناک کے نیچے جاری تھا۔
گوکہ داعش کا مفصل تعارف الگ سے کرایا جائے گا لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ اس تنظیم کا قیام 2006ء میں عمل میں آیا، جس کے بعد عراق میں روز مرہ کی بنیاد پر بم دھماکے اور خود کش حملے ہونے لگے۔ پانچ لاکھ عراقیوں کا خون بہانے میں جتنا ہاتھ امریکیوں کا ہے اتنا ہی ان کے پروردہ دہشت گرد گروپوں کا ہے۔ 2012ء میں امریکا نے عراق سے اپنی فوجیں ایک ایسے وقت میں نکالنے کا فیصلہ کیا جب ملک دس سال کے بدترین سیکیورٹی بحران کا شکار تھا۔
روزانہ درجنوں بم دھماکوں میں سیکڑوں معصوم شہری مارے جاتے، لیکن امریکیوں کو صرف ''محفوظ'' واپسی کی فکردامن گیر تھی۔ آج امریکا کو عراق کی صورت حال پر تشویش ہے تو یہ ''بے وقت کی راگنی'' ہے۔ امریکی اس وقت عراق کیوں چھوڑ گئے جب دہشت گردی اپنے بام عروج پرتھی؟ آج اگر داعش پہلے سے زیادہ طاقت ور ہے تو امریکیوں اور نوری المالکی کو سمجھ لینا چاہیے کہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اب یہ جنگ محض دولت اسلامیہ عراق وشام کی نہیں بلکہ عراق کے استحصال زدہ طبقے کی جنگ ہے، جو صدام حسین کے جبر کے بعد نوری المالکی اور جلال طالبانی کے دور جبروتشدد میں بدترین حالات کا سامنا کرر رہے ہیں۔
عراق کے موجودہ بحران سے باخبر لوگ نہایت خطرناک پیشن گوئیاں کررہے ہیں۔ داعش نے عراق کے بہت بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد وہاں اسلامی خلافت کا اعلان کردیا ہے، اگر یہ مملکت قائم نہ بھی رہ سکی تب بھی عراق کی تقسیم کا امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عراق کے صوبہ کردستان میں علاحدگی کی تحریک نئی نہیں۔ موجودہ بحران سے کردوں کے علاحدگی کے مطالبے کو مزید تقویت ملی ہے۔ امریکی اخبار''واشنگٹن پوسٹ'' کے ایک باوثوق ذریعے کا کہنا ہے کہ وزیرخارجہ جان کیری کی عراقی کردستان کے وزیراعظم مسعود بارزانی سے ملاقات میں بار بار یہ مطالبہ سننے کو ملا کہ امریکا کردستان کو الگ ریاست کے طورپر تسلیم کرلے۔
گوکہ جان کیری نے فوری طورپر اس کی حمایت نہیں کی لیکن وہ نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں۔مبصرین کے خیال میں موجودہ شورش کے طول پکڑنے سے عراق تین حصوں میں تقسیم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ صوبہ الانبار، فلوجہ، تکریت، اور بغداد جیسے شہر سنی اکثریت کے لیے الگ ریاست کا درجہ اختیار کرسکتے ہیں۔ نجف، کربلا اور بعض دوسرے شہر اہل تشیع مسلک کے حامیوں کا گڑھ ہونے کی بناء پر شیعہ ریاست اور کرد باشندے اپنی الگ سے حکومت کے قیام کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ گوکہ موجودہ حالات میں عراق کے بارے میں ایسا سوچنا نہایت خوفناک ہے لیکن نوری المالکی کی ،نااہلی اور ہٹ دھرمی ایسے حالات کی راہ ہموار کرہی ہے۔
امریکا، ایران، سعودی عرب اور خطے کے بڑے کھلاڑیوں نے عارضی طورپر عراق میں ایک نئی حکومت کی تشکیل کی مساعی شروع کی ہیں۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ چونکہ ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ عراق میں موجودہ لڑائی صرف داعش کی نہیں۔ اس تنظیم کے تو چند درجن جنگجوؤں نے عراق کی سرحد کے اندر موصل کے ایک قصبے پر یلغار کرکے وہاں اپنا پرچم لہرا دیا، جس پر وہاں کی مقامی آبادی اور قبائلی جنگجوؤں نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور جوق درجوق تنظیم میں شامل ہوتے گئے۔ حتیٰ کہ جنگجوؤں میں کم عمر لڑکے بھی شامل ہوگئے، جس پرعالمی میڈیا میں یہ طوفان اٹھا کہ ''داعش'' کم عمرلڑکوں کو جنگ میں جھونک رہی ہے۔
چونکہ اب یہ جنگ صرف داعش کی نہیں بلکہ موجودہ استحصالی نظام کے ستائے ہوئے لوگوں کی ہے۔اس لیے اگر عراق میں عوام کی منشاء اور تمام طبقات کی نمائندہ حکومت قائم ہوجاتی ہے تو ''داعش'' عراقی عوام کی حمایت سے محروم ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں تنظیم گوریلا کارروائیاں تو کرسکتی ہے مگر اتنی تیزی کے ساتھ شہروں کے شہر فتح کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ نوری المالکی کوعہدہ چھوڑنے اور ایک نئی نمائندہ حکومت کی تشکیل پر راضی کرلیا گیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک قومی حکومت تشکیل پاجائے لیکن عراق میں امن وامان کا قیام ایک طویل مدت کا متقاضی ہے اور اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہاں کے تمام باشندوں کو بلا امتیاز ان کے بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں جوکہ ابھی تک نہیں ہوسکے ہیں۔n
''داعش'' تعارف، تنظیم کی طاقت
شام کے بعد اب عراق میں سرگرم عمل تنظیم ''داعش'' چار حروف کا مرکب ہے۔ جو ''دولت اسلامیہ عراق وشام'' کا اختصار ہے۔ انگریزی میں اسےISIS یعنی Iraq Syria Islamic State کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسامہ بن لادن کی فکرسے متاثرہ چند شدت پسندوں نے اس تنظیم کی بنیاد15 اکتوبر2006ء کو بغداد میں رکھی۔ ابو عمر البغدادی تنظیم کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے۔''داعش'' کے قیام کا بنیادی مقصد عراق اور شام کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ ان کے نزدیک عراق اور شام کی 1932ء میں قائم کردہ حدود بے معنی ہیں او ر وہ دونوں ملکوں کو ایک ریاست میں ضم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔آغاز میں تنظیم کا ڈھانچا، وسائل اور اس کی افرادی قوت صرف عراق کے چند علاقوں تک محدود تھی۔
19 اپریل2010ء کو ابو عمر البغدادی ایک میزائل حملے میں مارا گیا، جس کے بعد اس کے نائب ابو بکر الغدادی کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔زمام کار ابوبکر البغدادی کے ہاتھ میں آتے ہی تنظیم کی کارکردگی میں ایک ڈرامائی تبدیلی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے داعش نے عراق کے طول و عرض میں دھماکے شروع کردیے۔ عراقی حکومت اور امریکیوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ القاعدہ نے اچانک اتنی طاقت کیسے پکڑ لی۔امریکا جس القاعدہ کی کمرتوڑنے کے مسلسل دعوے کیے جا رہا تھا وہ پورے قد کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ مارچ 2011ء میں شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف عوام نے علم بغاوت بلند کیاتو شام میں بھی''داعش'' کی موجودگی کی خبریں سنائی دینے لگیں۔
البغدادی کی قیادت میں جلد ہی شام میں بھی داعش نے الرقہ، حلب، اللاذقیہ،دمشق، دیرالزور،حمص، حسکہ اور ادلب میں اپنے پنجے مضبوط کرلیے۔ اس تنظیم کی جنگی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے ایک طرف شامی فوج کا مقابلہ کیا اور دوسری طرف شام کے باغی گروپوں کے خلاف بھی بھرپور جنگ جاری رکھی۔
جون کے اوائل میں تنظیم نے عراق کے اندر گوریلا کارروائیوں کے بجائے باقاعدہ شہروں کو فتح کرنے کی پالیسی اپنائی اور صرف دو ہفتوں کے دوران سات ہزار مربع میل کے علاقے پرقبضہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ داعش چند دنوں میں پورے عراق کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ شام کے کئی شہروں کے بعد اب عراق میں موصل، تکریت، صوبہ الانبار مرکزی شہر فلوجہ تلعفر اور جبل المنصوریہ پرقبضہ کرتے ہوئے اس نے بغداد پر دستک دینا شروع کردی ہے۔ تا دم تحریر داعش کے جنگجو بغداد سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر ہیں ۔ اگر فضائی بمباری کے ذریعے ان کی پیش قدمی نہ روکی گئی تو دنیا ایک مرتبہ پھر سقوط بغداد کا ایک نیا سانحہ دیکھے گی۔
جہاں تک تنظیم کی موجودہ دفاعی،جنگی، مادی اور افرادی طاقت کا سوال ہے تو کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ داعش صرف ایک گروپ کا نام ہے۔ اب اس سے عراق میں سنی مسلک کے کئی گروپوں اور القاعدہ کے النصرہ فرنٹ نے بھی الحاق کرلیا ہے جس کے بعد عراق میں تنظیم کے جنگجوؤں کی تعداد 20 ہزار پیشہ ور کمانڈوز سے تجاوز کرچکی ہے۔ شام اور عراق کے مختلف شہروں پرقبضے کے بعد داعش نے ''مال غنیمت'' کے نام پر بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی ہے جس کے بعد اب اس کے اثاثے چار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔ یہ تمام رقم اسلحہ کے حصول اور جنگجوؤں کی تیاری صرف کی جا رہی ہے۔
لوٹ مار کے نتیجے میں حاصل کردہ دولت کے بعد داعش کو دنیا کا امیر ترین جنگجو گروپ قرار دیا گیا ہے۔داعش کے اثاثے صومالیہ، الجزائر، افغانستان اور دنیا کے دیگر خطوں میں موجود شدت پسندوں کے کل اثاثوں سے تجاوز کرگئے ہیں۔چونکہ داعش نے طاقت کے ذریعے عراق اور شام کے درمیان اپنا نیٹ ورک مضبوط کرلیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند اسے ایک محفوظ ٹھکانے کے طورپر دیکھ رہے ہیں اور ان کا رخ اب انہی علاقوں کی طرف ہے۔ یوں دن بہ دن داعش کی افرادی قوت میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ داعش کو صرف فضائی قوت کے استعمال سے پسپا کیا جاسکتا ہے۔ د و بدو لڑائی میں فی الوقت ا س کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔
سپاہ کو بغداد کی جانب پیش قدمی کا حکم جاری کرنے سے قبل حملے کے تین مقاصد بتائے گئے۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تباہی، صدام حسین کی آمریت کی جگہ سلطانی جمہور کے نظام کا قیام اور ملک کو امن وامان کا گہوارہ بناتے ہوئے دنیا کو عراق سے لاحق خطرات سے محفوظ رکھنا تھا۔
یہ تین بنیادی مقاصد اس وقت کے عراق کے لیے امریکی ناظم الامور مسٹر پال بریمر نے نیویارک میں ایک نیوز کانفرنس میں بیان کیے۔ کم وبیش یہی اعلانات اور دعوے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر کے تھے۔ عراق میں وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیار تو تھے ہی نہیں، اس لیے ان کا قصہ ہی ختم۔ تاہم صدام حسین کا قصہ تمام کردیا گیا۔ وہ اپنے انجام کو پہنچے مگرجمہوریت؟ آج گیارہ سال بعد کا ملک صدام حسین کے بھوکے ننگے عراق سے کہیں زیادہ خوفناک، پرخطر، تباہ کن اور دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے۔
تسلیم کہ صدام حسین کی آمرانہ حکومت کا اگر کوئی جواز نہیں تھا مگر وہ کٹھ پتلی نہیں تھا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جہاں جہاں بھی جنگوں کے ذریعے اپنے کٹھ پتلی بٹھائے وہ اسی طرح ناکامی سے دوچار ہوئے۔ عراق میں نوری المالکی اور افغانستان میں حامد کرزئی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔چونکہ ہم عراق کی تازہ شورش پہ بات کررہے ہیں، اس لیے ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ آیا مٹھی بھر مسلح جنگجوؤں پر مشتمل ایک گروپ کے پاس ایسی کون سی طلسماتی چھڑی تھی جس نے بلک جھپکتے عراق کا ایک چوتھائی حصہ پکے ہوئے پھل کی طرح ان (جنگجوؤں) کی جھولی میں ڈال دیا؟
کیا جنگجو گروپ ''دولت اسلامیہ عراق وشام''داعش(ISIS) واقعی مادی، معنوی اور دفاعی اعتبار سے اتنا طاقت ور ہے کہ اسے شام اور عراق مل کربھی شکست نہیں دے سکے ؟ اور اس ضمن میں تیسرا سوال یہ کہ آیا عراق وشام کے درمیان دنیا کے نقشے پر ایک نئی ریاست''مملکت اسلامی عراق وشام'' کی جغرافیائی سرحدیں بننے جا رہی ہیں؟ اس کے نتیجے میں عراق حصے بخرے ہونے جا رہاہے۔ امریکی کٹھ پتلی نوری المالکی کی ہٹ دھرمی کیا رنگ لائے گی؟
مقدور بھرکوشش کے باجود یہ بات ناقابل فہم کہ ایران اور سعودی عرب عراق کو اپنی دو طرفہ جنگ کا محاذکیوں بنانا چاہتے ہیں اگر یہ دونوں ملک مخلص ہیں تو مل کر اس مسئلے کا حل کیوں نہیں نکال رہے ہیں؟ کیا شام اس کے لیے کافی نہیں تھا؟ لیکن ہمیں یہ بات ضرور دیکھنی چاہیے کہ یہاں مسئلہ صرف ایران اور سعودی عرب کا نہیں بلکہ عالمی مفادات کے تصادم کا ہے۔
امریکا نے 2003ء میں عراق پر جو جنگ مسلط کی اس پر اس کے 50 بلین ڈالر خرچ ہوئے۔ لیکن امریکیوں نے عراق کے تیل سے یہ خسارہ پورا کرلیا۔امریکا کسی بھی صورت میں متحدہ عراق کا خواہاں نہیں ہے۔ کوئی مانے نہ مانے عراق کی تقسیم خود امریکا کی سازش ہے۔ امریکی تجزیہ نگار بھی یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ عراق کو تقسیم سے دوچار کرنے کے لیے حالات کی سازگاری میں واشنگٹن کا کلیدی کردار ہے۔ البتہ خطے کے بعض ممالک اپنی غلط پالیسیوں اور اپنے اپنے مفادات کے باعث جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔
ایک عشرہ پیشتر جب امریکیوں نے عراق میں قدم رکھا توانہیں صرف صدام حسین کی فوج کے کچھ گروپوں کی طرف سے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ القاعدہ کا نام ونشان نہ تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکیوں کی موجودگی میں القاعدہ نواز گروپوں نے نہ صرف عراق کو اپنا مرکز بنایا بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں سفر کے لیے عراق کو راہ داری کے طورپر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ سب کچھ امریکی ''پاسبانان امن'' کی ناک کے نیچے جاری تھا۔
گوکہ داعش کا مفصل تعارف الگ سے کرایا جائے گا لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ اس تنظیم کا قیام 2006ء میں عمل میں آیا، جس کے بعد عراق میں روز مرہ کی بنیاد پر بم دھماکے اور خود کش حملے ہونے لگے۔ پانچ لاکھ عراقیوں کا خون بہانے میں جتنا ہاتھ امریکیوں کا ہے اتنا ہی ان کے پروردہ دہشت گرد گروپوں کا ہے۔ 2012ء میں امریکا نے عراق سے اپنی فوجیں ایک ایسے وقت میں نکالنے کا فیصلہ کیا جب ملک دس سال کے بدترین سیکیورٹی بحران کا شکار تھا۔
روزانہ درجنوں بم دھماکوں میں سیکڑوں معصوم شہری مارے جاتے، لیکن امریکیوں کو صرف ''محفوظ'' واپسی کی فکردامن گیر تھی۔ آج امریکا کو عراق کی صورت حال پر تشویش ہے تو یہ ''بے وقت کی راگنی'' ہے۔ امریکی اس وقت عراق کیوں چھوڑ گئے جب دہشت گردی اپنے بام عروج پرتھی؟ آج اگر داعش پہلے سے زیادہ طاقت ور ہے تو امریکیوں اور نوری المالکی کو سمجھ لینا چاہیے کہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اب یہ جنگ محض دولت اسلامیہ عراق وشام کی نہیں بلکہ عراق کے استحصال زدہ طبقے کی جنگ ہے، جو صدام حسین کے جبر کے بعد نوری المالکی اور جلال طالبانی کے دور جبروتشدد میں بدترین حالات کا سامنا کرر رہے ہیں۔
عراق کے موجودہ بحران سے باخبر لوگ نہایت خطرناک پیشن گوئیاں کررہے ہیں۔ داعش نے عراق کے بہت بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد وہاں اسلامی خلافت کا اعلان کردیا ہے، اگر یہ مملکت قائم نہ بھی رہ سکی تب بھی عراق کی تقسیم کا امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عراق کے صوبہ کردستان میں علاحدگی کی تحریک نئی نہیں۔ موجودہ بحران سے کردوں کے علاحدگی کے مطالبے کو مزید تقویت ملی ہے۔ امریکی اخبار''واشنگٹن پوسٹ'' کے ایک باوثوق ذریعے کا کہنا ہے کہ وزیرخارجہ جان کیری کی عراقی کردستان کے وزیراعظم مسعود بارزانی سے ملاقات میں بار بار یہ مطالبہ سننے کو ملا کہ امریکا کردستان کو الگ ریاست کے طورپر تسلیم کرلے۔
گوکہ جان کیری نے فوری طورپر اس کی حمایت نہیں کی لیکن وہ نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں۔مبصرین کے خیال میں موجودہ شورش کے طول پکڑنے سے عراق تین حصوں میں تقسیم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ صوبہ الانبار، فلوجہ، تکریت، اور بغداد جیسے شہر سنی اکثریت کے لیے الگ ریاست کا درجہ اختیار کرسکتے ہیں۔ نجف، کربلا اور بعض دوسرے شہر اہل تشیع مسلک کے حامیوں کا گڑھ ہونے کی بناء پر شیعہ ریاست اور کرد باشندے اپنی الگ سے حکومت کے قیام کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ گوکہ موجودہ حالات میں عراق کے بارے میں ایسا سوچنا نہایت خوفناک ہے لیکن نوری المالکی کی ،نااہلی اور ہٹ دھرمی ایسے حالات کی راہ ہموار کرہی ہے۔
یہ نقشہ ''داعش'' نے اپنے پانچ سالہ منصوبے کے طور پر جاری کیا ہے جس کے مطابق اگلے پانچ برسوں کے دوران نقشے میں سیاہ رنگ میں دکھائے گئے دنیا کے علاقے مسلم خلافت کے زیرکنٹرول ہوں گے۔ اس منصوبے کے مطابق پاکستان، ایران، مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک، افریقہ کے عرب ممالک حتیٰ کہ بعض یورپی ممالک بھی اسلامی خلافت میں شامل ہوںگے۔ عراق میں اسلامی ریاست کے قیام کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ ابوبکر بغدادی تمام دنیا کے مسلمانوں کے حکمران ہیں۔
امریکا، ایران، سعودی عرب اور خطے کے بڑے کھلاڑیوں نے عارضی طورپر عراق میں ایک نئی حکومت کی تشکیل کی مساعی شروع کی ہیں۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ چونکہ ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ عراق میں موجودہ لڑائی صرف داعش کی نہیں۔ اس تنظیم کے تو چند درجن جنگجوؤں نے عراق کی سرحد کے اندر موصل کے ایک قصبے پر یلغار کرکے وہاں اپنا پرچم لہرا دیا، جس پر وہاں کی مقامی آبادی اور قبائلی جنگجوؤں نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور جوق درجوق تنظیم میں شامل ہوتے گئے۔ حتیٰ کہ جنگجوؤں میں کم عمر لڑکے بھی شامل ہوگئے، جس پرعالمی میڈیا میں یہ طوفان اٹھا کہ ''داعش'' کم عمرلڑکوں کو جنگ میں جھونک رہی ہے۔
چونکہ اب یہ جنگ صرف داعش کی نہیں بلکہ موجودہ استحصالی نظام کے ستائے ہوئے لوگوں کی ہے۔اس لیے اگر عراق میں عوام کی منشاء اور تمام طبقات کی نمائندہ حکومت قائم ہوجاتی ہے تو ''داعش'' عراقی عوام کی حمایت سے محروم ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں تنظیم گوریلا کارروائیاں تو کرسکتی ہے مگر اتنی تیزی کے ساتھ شہروں کے شہر فتح کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ نوری المالکی کوعہدہ چھوڑنے اور ایک نئی نمائندہ حکومت کی تشکیل پر راضی کرلیا گیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک قومی حکومت تشکیل پاجائے لیکن عراق میں امن وامان کا قیام ایک طویل مدت کا متقاضی ہے اور اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہاں کے تمام باشندوں کو بلا امتیاز ان کے بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں جوکہ ابھی تک نہیں ہوسکے ہیں۔n
''داعش'' تعارف، تنظیم کی طاقت
شام کے بعد اب عراق میں سرگرم عمل تنظیم ''داعش'' چار حروف کا مرکب ہے۔ جو ''دولت اسلامیہ عراق وشام'' کا اختصار ہے۔ انگریزی میں اسےISIS یعنی Iraq Syria Islamic State کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسامہ بن لادن کی فکرسے متاثرہ چند شدت پسندوں نے اس تنظیم کی بنیاد15 اکتوبر2006ء کو بغداد میں رکھی۔ ابو عمر البغدادی تنظیم کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے۔''داعش'' کے قیام کا بنیادی مقصد عراق اور شام کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ ان کے نزدیک عراق اور شام کی 1932ء میں قائم کردہ حدود بے معنی ہیں او ر وہ دونوں ملکوں کو ایک ریاست میں ضم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔آغاز میں تنظیم کا ڈھانچا، وسائل اور اس کی افرادی قوت صرف عراق کے چند علاقوں تک محدود تھی۔
19 اپریل2010ء کو ابو عمر البغدادی ایک میزائل حملے میں مارا گیا، جس کے بعد اس کے نائب ابو بکر الغدادی کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔زمام کار ابوبکر البغدادی کے ہاتھ میں آتے ہی تنظیم کی کارکردگی میں ایک ڈرامائی تبدیلی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے داعش نے عراق کے طول و عرض میں دھماکے شروع کردیے۔ عراقی حکومت اور امریکیوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ القاعدہ نے اچانک اتنی طاقت کیسے پکڑ لی۔امریکا جس القاعدہ کی کمرتوڑنے کے مسلسل دعوے کیے جا رہا تھا وہ پورے قد کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ مارچ 2011ء میں شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف عوام نے علم بغاوت بلند کیاتو شام میں بھی''داعش'' کی موجودگی کی خبریں سنائی دینے لگیں۔
البغدادی کی قیادت میں جلد ہی شام میں بھی داعش نے الرقہ، حلب، اللاذقیہ،دمشق، دیرالزور،حمص، حسکہ اور ادلب میں اپنے پنجے مضبوط کرلیے۔ اس تنظیم کی جنگی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے ایک طرف شامی فوج کا مقابلہ کیا اور دوسری طرف شام کے باغی گروپوں کے خلاف بھی بھرپور جنگ جاری رکھی۔
جون کے اوائل میں تنظیم نے عراق کے اندر گوریلا کارروائیوں کے بجائے باقاعدہ شہروں کو فتح کرنے کی پالیسی اپنائی اور صرف دو ہفتوں کے دوران سات ہزار مربع میل کے علاقے پرقبضہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ داعش چند دنوں میں پورے عراق کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ شام کے کئی شہروں کے بعد اب عراق میں موصل، تکریت، صوبہ الانبار مرکزی شہر فلوجہ تلعفر اور جبل المنصوریہ پرقبضہ کرتے ہوئے اس نے بغداد پر دستک دینا شروع کردی ہے۔ تا دم تحریر داعش کے جنگجو بغداد سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر ہیں ۔ اگر فضائی بمباری کے ذریعے ان کی پیش قدمی نہ روکی گئی تو دنیا ایک مرتبہ پھر سقوط بغداد کا ایک نیا سانحہ دیکھے گی۔
جہاں تک تنظیم کی موجودہ دفاعی،جنگی، مادی اور افرادی طاقت کا سوال ہے تو کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ داعش صرف ایک گروپ کا نام ہے۔ اب اس سے عراق میں سنی مسلک کے کئی گروپوں اور القاعدہ کے النصرہ فرنٹ نے بھی الحاق کرلیا ہے جس کے بعد عراق میں تنظیم کے جنگجوؤں کی تعداد 20 ہزار پیشہ ور کمانڈوز سے تجاوز کرچکی ہے۔ شام اور عراق کے مختلف شہروں پرقبضے کے بعد داعش نے ''مال غنیمت'' کے نام پر بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی ہے جس کے بعد اب اس کے اثاثے چار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔ یہ تمام رقم اسلحہ کے حصول اور جنگجوؤں کی تیاری صرف کی جا رہی ہے۔
لوٹ مار کے نتیجے میں حاصل کردہ دولت کے بعد داعش کو دنیا کا امیر ترین جنگجو گروپ قرار دیا گیا ہے۔داعش کے اثاثے صومالیہ، الجزائر، افغانستان اور دنیا کے دیگر خطوں میں موجود شدت پسندوں کے کل اثاثوں سے تجاوز کرگئے ہیں۔چونکہ داعش نے طاقت کے ذریعے عراق اور شام کے درمیان اپنا نیٹ ورک مضبوط کرلیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند اسے ایک محفوظ ٹھکانے کے طورپر دیکھ رہے ہیں اور ان کا رخ اب انہی علاقوں کی طرف ہے۔ یوں دن بہ دن داعش کی افرادی قوت میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ داعش کو صرف فضائی قوت کے استعمال سے پسپا کیا جاسکتا ہے۔ د و بدو لڑائی میں فی الوقت ا س کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔