یوم آزادی تجدید عہد وفا
تحریک پاکستان اور مشاہیر آزادی کی حیات و خدمات کا مطالعہ ہمیں ایک پیمانہ عطا کر دیتا ہے
آزادی ایک لفظ نہیں، ایک عظیم نعمت ہے۔جو قومیں اس نعمت کی قدر نہیں کرتیں، وقت انھیں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ یقینا آزاد قومیں اپنی اجتماعی زندگی کا رخ متعین کرنے والے لمحات کو یاد رکھتی ہیں۔ آزادی کی قدر و قیمت مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں سے پوچھنی چاہیے۔آزادی کی حقیقت اور اہمیت کو وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے غلامی کی زندگی گزاری ہو، آزادی کی قدر وہ ہی جانتا ہے جس نے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا ہو اور اس راہ میںاپنے پیاروں کی قربانیاں دی ہوں ۔
آج پاکستان کا یوم آزادی ہے۔ اس روز برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں آزاد اور خود مختار ملک مل گیا۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے الگ تشخص کا نام ہے، انگریز نے حکومت چونکہ مسلمانوں سے چھینی تھی، اس لیے اسے زیادہ ردعمل کا خوف بھی مسلمانوں سے ہی تھا ۔ انگریز سامراج کی ہر شعبہ ہائے زندگی میں یہی کوشش رہی کہ مسلمانوں کو پسماندہ رکھا جائے، کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ دوبارہ قوت حاصل کرکے انگریز حکومت کے خلاف مزاحمت کا پرچم بلند نہ کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اختیار سے ہی محروم نہیں کیا گیا بلکہ ذہنی پس ماندگی میں دھکیل دیا گیا۔
کسی بھی خطہ کے محکوم لوگوں کے لیے غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنا اُس صورتحال میں بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے جب اس سرزمین پر بسنے والی اکثریت بھی مخالفت پر اُتر آئے۔ مسلم قیادت کو احساس ہو گیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ان کے معاشرتی اور مذہبی حقوق حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ پاکستان بھی انھی حالات و مراحل سے گزر کر معرض وجود میں آیا۔ انگریز حکومت اور ہندوستان کی قوم پرست اکثریت نے بادل نخواستہ مطالبہ پاکستان تو مان لیا مگر قیام پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کیا۔ انگریزوں نے سرحد کی لائن کھینچنے کے دوران کئی علاقے ہندوستان میں شامل کردیے ، گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تھپکی سے بھارتی حکومت نے کشمیر کو دبوچ لیا۔
تحریک پاکستان اور مشاہیر آزادی کی حیات و خدمات کا مطالعہ ہمیں ایک پیمانہ عطا کر دیتا ہے جس کے ذریعے ہم ایثار اور قربانی کے ان مجسموں اور سیاسی میدان کے موجودہ افراد کا بآسانی موازنہ کر سکتے ہیں۔ آزادی کی اس تحریک میں، جو بعد میں تحریکِ پاکستان بن گئی، ہم قائد اعظم کی پوری جدوجہد کا خلاصہ کریں تو وہ تین الفاظ کے گرد گھومتی ہے جو قائدِ اعظم کے پاکستان کا بنیادی تصور بھی ہیں۔ (1) قانون کی حکمرانی (Rule of Law)، (2) جمہوریت (Democracy)، (3) ''مذہبی آزادی'' انھی تین باتوں پر وہ بیک وقت حکومت برطانیہ سے بھی لڑتے رہے اور کانگریس اور دیگر قوم پرستوں سے بھی لڑے اور پاکستان کا مقدمہ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
کیا موجودہ پاکستان تحریک آزادی کے کارکنوں اور قائداعظمؒ کے پیروکاروں کے خوابوں کی تعبیر بن سکا ہے؟ جوابات کے لیے ہمیں چند تاریخی حقائق پر نظر ڈالنا ہوگی۔ ہم تحریک پاکستان کا جتنا زیادہ گہرائی میں جا کر مطالعہ کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ہم پر بانی پاکستان کی عظمت کردار اور ان کے بے لوث ساتھیوں کا خلوص آشکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ تحریک عہد حاضر کی دیگر تحریکوں سے کتنی مختلف اور اس میں شامل افراد کتنے منفرد جذبوں کے مالک تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ ان میں اُن علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے جنھیں بخوبی علم تھا کہ ان کے علاقے کسی صورت پاکستان کا حصہ نہ بن سکیں گے۔
پاکستان وجود میں آیا تو یہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت تھی۔ اس کا قیام درحقیقت باطل قوتوں کے سینے میں خنجر پیوست ہو جانے کے مترادف تھا۔ چنانچہ وہ اس ہزیمت کا انتقام لینے پر تل گئیں۔ ان کی ریشہ دوانیوں نے اس مملکت کے اندرونی حالات کو اس قدر ابتر کردیا کہ عالمی طاقتوں کی آشیرباد سے اس کے ازلی دشمن بھارت کو کاری وار کر گزرنے کا موقع مل گیا۔ 1971میں یہ مملکت دولخت ہوگئی۔
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود یہ مملکت عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گئی۔ اس کے وجود کے درپے دشمنوں کی اُمیدوں پر ہمیشہ کے لیے اوس پڑگئی مگر ان کا خبث باطن برقرار رہا۔ جب ان کے لیے پاکستان کو عسکری لحاظ سے تسخیر کرنا ممکن نہ رہا تو انھوں نے اسے اندرونی خلفشار اور عدم استحکام کا شکار بنانے کی سازشیں شروع کر دیں۔ آج کل یہ سازشیں عروج پر ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں آگ لگانے کے بعد اب پاکستان کو دہشت گردی، فرقہ واریت اور مسلکی اختلافات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، وطن عزیز کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور وقت آنے پر اپنی سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے جو دہشت گردوں کے خلاف سر بکف ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ان عناصر کا ببانگ دہل محاسبہ کیا جائے، چاہے انھیں اور ان کے غیر ملکی آقاؤں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ اس وقت ریاست پاکستان کو چہار اطراف سے دشمنوں کی یلغار کا سامنا ہے۔ وہ دہشت گردوں کو تربیت، اسلحہ اور مالی امداد فراہم کر کے ہمارے خلاف پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔
افغانستان نے اپنی سرزمین کو دہشت گردوں گروہوں کے لیے پناہ گاہ بنایا ہوا ہے، افواج پاکستان دہشت گردوں کے خلاف پرعزم ہیں، اور ان کا قلع قمع کررہی ہے۔ایک طرف ہم پاکستان کو جدید مُلک بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں، حالاں کہ اگر ہم اس ضمن میں واقعی سنجیدہ ہیں، تو پھر ہمیں انفرادی و اجتماعی ہر دو اعتبار سے اپنی اصلاح کرنی ہوگی کہ جدید پاکستان کا خواب اُسی وقت ہی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے کہ جب ہم معاشی طور پر خود مختار ہوں۔ خود انحصاری کے بغیر ہم دُنیا میں اپنا مقام نہیں بنا سکتے، دُنیا کی آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملا سکتے۔
قدرت نے پاکستان کو بیش بہا قدرتی وسائل سے نوازا ہے، جنھیں نیک نیتی سے بروئے کار لا کر مُلک کو معاشی طور پر خود مختار بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ٹور ازم انڈسٹری ہی میں خاصے مواقع موجود ہیں، اگر صرف اس پر ہی توجہ دی جائے، تو ہم صرف سیاحت کے شعبے ہی سے ٹھیک ٹھاک زرِمبادلہ کما سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مُلک میں بائی سائیکلز، موٹر سائیکلز، پنکھوں، سولر سسٹمز اور یو پی ایس سسٹم وغیرہ کے ہُنر مند بھی بڑی تعداد موجود ہیں اور ان انڈسٹریز کے فروغ سے بھی ہم اپنی مصنوعات دوسرے ممالک کو فروخت کر کے اپنی معیشت مضبوط کر سکتے ہیں۔
جدید پاکستان ایک ایسا پاکستان ہے کہ جہاں جہالت اور انتہا پسندی نہ ہو اور جہاں کسی کو اُس کے مذہب، مسلک، زبان، قوم اور قبیلے کی بنیاد پر قتل نہ کیا جاتا ہو، جہاں تعلیم کو اولین ترجیح دی جائے۔ جہاں مَردوں کے ساتھ خواتین کو بھی تعلیم کے یکساں مواقعے میسر ہوں اور جہاں ایک استاد کی ویسی ہی عزت ہو، جیسی قرونِ اولیٰ کے اساتذہ کی تکریم کی جاتی تھی۔ جدید پاکستان سے مُراد ایسا پاکستان ہے کہ جو معتدل، منظم اور مربوط انداز میں ترقی کی راہ پر گام زن رہے۔
جہاں کا ہر نوجوان خودی کے جذبے سے لیس ہو اور جو اقوامِ عالم کی قیادت کرے۔ ہمیں پاکستان کو بد عنوانی سے پاک کرنے، اچھی سیاسی اور جمہوری روایات کے فروغ، محنت سے کام کرنے اور بانیان پاکستان کی فکر کے مطابق سماجی روایات کی ترویج کا عہد کرنا ہو گا۔ آزادی کا جشن مناتے ہوئے ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، وطن عزیز کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور وقت آنے پر پاک فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے جو دہشت گردوں کے خلاف سربکف ہیں۔
آج کے دن ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کوکلین اینڈ گرین بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ ہماری قومی زندگی کتنے ہی نشیب و فراز کیوں نہ آئیں، ہم وطن عزیز کو ایک جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت کے قالب میں ڈھال کر دم لیں گے۔ رب ذوالجلال ہمیں اپنی آزادی کی حفاظت کی ہمت عطا فرمائے۔ (آمین)
آج پاکستان کا یوم آزادی ہے۔ اس روز برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں آزاد اور خود مختار ملک مل گیا۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے الگ تشخص کا نام ہے، انگریز نے حکومت چونکہ مسلمانوں سے چھینی تھی، اس لیے اسے زیادہ ردعمل کا خوف بھی مسلمانوں سے ہی تھا ۔ انگریز سامراج کی ہر شعبہ ہائے زندگی میں یہی کوشش رہی کہ مسلمانوں کو پسماندہ رکھا جائے، کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ دوبارہ قوت حاصل کرکے انگریز حکومت کے خلاف مزاحمت کا پرچم بلند نہ کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اختیار سے ہی محروم نہیں کیا گیا بلکہ ذہنی پس ماندگی میں دھکیل دیا گیا۔
کسی بھی خطہ کے محکوم لوگوں کے لیے غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنا اُس صورتحال میں بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے جب اس سرزمین پر بسنے والی اکثریت بھی مخالفت پر اُتر آئے۔ مسلم قیادت کو احساس ہو گیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ان کے معاشرتی اور مذہبی حقوق حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ پاکستان بھی انھی حالات و مراحل سے گزر کر معرض وجود میں آیا۔ انگریز حکومت اور ہندوستان کی قوم پرست اکثریت نے بادل نخواستہ مطالبہ پاکستان تو مان لیا مگر قیام پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کیا۔ انگریزوں نے سرحد کی لائن کھینچنے کے دوران کئی علاقے ہندوستان میں شامل کردیے ، گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تھپکی سے بھارتی حکومت نے کشمیر کو دبوچ لیا۔
تحریک پاکستان اور مشاہیر آزادی کی حیات و خدمات کا مطالعہ ہمیں ایک پیمانہ عطا کر دیتا ہے جس کے ذریعے ہم ایثار اور قربانی کے ان مجسموں اور سیاسی میدان کے موجودہ افراد کا بآسانی موازنہ کر سکتے ہیں۔ آزادی کی اس تحریک میں، جو بعد میں تحریکِ پاکستان بن گئی، ہم قائد اعظم کی پوری جدوجہد کا خلاصہ کریں تو وہ تین الفاظ کے گرد گھومتی ہے جو قائدِ اعظم کے پاکستان کا بنیادی تصور بھی ہیں۔ (1) قانون کی حکمرانی (Rule of Law)، (2) جمہوریت (Democracy)، (3) ''مذہبی آزادی'' انھی تین باتوں پر وہ بیک وقت حکومت برطانیہ سے بھی لڑتے رہے اور کانگریس اور دیگر قوم پرستوں سے بھی لڑے اور پاکستان کا مقدمہ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
کیا موجودہ پاکستان تحریک آزادی کے کارکنوں اور قائداعظمؒ کے پیروکاروں کے خوابوں کی تعبیر بن سکا ہے؟ جوابات کے لیے ہمیں چند تاریخی حقائق پر نظر ڈالنا ہوگی۔ ہم تحریک پاکستان کا جتنا زیادہ گہرائی میں جا کر مطالعہ کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ہم پر بانی پاکستان کی عظمت کردار اور ان کے بے لوث ساتھیوں کا خلوص آشکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ تحریک عہد حاضر کی دیگر تحریکوں سے کتنی مختلف اور اس میں شامل افراد کتنے منفرد جذبوں کے مالک تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ ان میں اُن علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے جنھیں بخوبی علم تھا کہ ان کے علاقے کسی صورت پاکستان کا حصہ نہ بن سکیں گے۔
پاکستان وجود میں آیا تو یہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت تھی۔ اس کا قیام درحقیقت باطل قوتوں کے سینے میں خنجر پیوست ہو جانے کے مترادف تھا۔ چنانچہ وہ اس ہزیمت کا انتقام لینے پر تل گئیں۔ ان کی ریشہ دوانیوں نے اس مملکت کے اندرونی حالات کو اس قدر ابتر کردیا کہ عالمی طاقتوں کی آشیرباد سے اس کے ازلی دشمن بھارت کو کاری وار کر گزرنے کا موقع مل گیا۔ 1971میں یہ مملکت دولخت ہوگئی۔
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود یہ مملکت عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گئی۔ اس کے وجود کے درپے دشمنوں کی اُمیدوں پر ہمیشہ کے لیے اوس پڑگئی مگر ان کا خبث باطن برقرار رہا۔ جب ان کے لیے پاکستان کو عسکری لحاظ سے تسخیر کرنا ممکن نہ رہا تو انھوں نے اسے اندرونی خلفشار اور عدم استحکام کا شکار بنانے کی سازشیں شروع کر دیں۔ آج کل یہ سازشیں عروج پر ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں آگ لگانے کے بعد اب پاکستان کو دہشت گردی، فرقہ واریت اور مسلکی اختلافات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، وطن عزیز کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور وقت آنے پر اپنی سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے جو دہشت گردوں کے خلاف سر بکف ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ان عناصر کا ببانگ دہل محاسبہ کیا جائے، چاہے انھیں اور ان کے غیر ملکی آقاؤں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ اس وقت ریاست پاکستان کو چہار اطراف سے دشمنوں کی یلغار کا سامنا ہے۔ وہ دہشت گردوں کو تربیت، اسلحہ اور مالی امداد فراہم کر کے ہمارے خلاف پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔
افغانستان نے اپنی سرزمین کو دہشت گردوں گروہوں کے لیے پناہ گاہ بنایا ہوا ہے، افواج پاکستان دہشت گردوں کے خلاف پرعزم ہیں، اور ان کا قلع قمع کررہی ہے۔ایک طرف ہم پاکستان کو جدید مُلک بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں، حالاں کہ اگر ہم اس ضمن میں واقعی سنجیدہ ہیں، تو پھر ہمیں انفرادی و اجتماعی ہر دو اعتبار سے اپنی اصلاح کرنی ہوگی کہ جدید پاکستان کا خواب اُسی وقت ہی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے کہ جب ہم معاشی طور پر خود مختار ہوں۔ خود انحصاری کے بغیر ہم دُنیا میں اپنا مقام نہیں بنا سکتے، دُنیا کی آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملا سکتے۔
قدرت نے پاکستان کو بیش بہا قدرتی وسائل سے نوازا ہے، جنھیں نیک نیتی سے بروئے کار لا کر مُلک کو معاشی طور پر خود مختار بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ٹور ازم انڈسٹری ہی میں خاصے مواقع موجود ہیں، اگر صرف اس پر ہی توجہ دی جائے، تو ہم صرف سیاحت کے شعبے ہی سے ٹھیک ٹھاک زرِمبادلہ کما سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مُلک میں بائی سائیکلز، موٹر سائیکلز، پنکھوں، سولر سسٹمز اور یو پی ایس سسٹم وغیرہ کے ہُنر مند بھی بڑی تعداد موجود ہیں اور ان انڈسٹریز کے فروغ سے بھی ہم اپنی مصنوعات دوسرے ممالک کو فروخت کر کے اپنی معیشت مضبوط کر سکتے ہیں۔
جدید پاکستان ایک ایسا پاکستان ہے کہ جہاں جہالت اور انتہا پسندی نہ ہو اور جہاں کسی کو اُس کے مذہب، مسلک، زبان، قوم اور قبیلے کی بنیاد پر قتل نہ کیا جاتا ہو، جہاں تعلیم کو اولین ترجیح دی جائے۔ جہاں مَردوں کے ساتھ خواتین کو بھی تعلیم کے یکساں مواقعے میسر ہوں اور جہاں ایک استاد کی ویسی ہی عزت ہو، جیسی قرونِ اولیٰ کے اساتذہ کی تکریم کی جاتی تھی۔ جدید پاکستان سے مُراد ایسا پاکستان ہے کہ جو معتدل، منظم اور مربوط انداز میں ترقی کی راہ پر گام زن رہے۔
جہاں کا ہر نوجوان خودی کے جذبے سے لیس ہو اور جو اقوامِ عالم کی قیادت کرے۔ ہمیں پاکستان کو بد عنوانی سے پاک کرنے، اچھی سیاسی اور جمہوری روایات کے فروغ، محنت سے کام کرنے اور بانیان پاکستان کی فکر کے مطابق سماجی روایات کی ترویج کا عہد کرنا ہو گا۔ آزادی کا جشن مناتے ہوئے ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، وطن عزیز کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور وقت آنے پر پاک فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے جو دہشت گردوں کے خلاف سربکف ہیں۔
آج کے دن ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کوکلین اینڈ گرین بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ ہماری قومی زندگی کتنے ہی نشیب و فراز کیوں نہ آئیں، ہم وطن عزیز کو ایک جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت کے قالب میں ڈھال کر دم لیں گے۔ رب ذوالجلال ہمیں اپنی آزادی کی حفاظت کی ہمت عطا فرمائے۔ (آمین)