14 اگست ۔ نظریہ پاکستان کی تکمیل کا دن

آج بھی بھارت میں جھانک کر دیکھیں تو مسلمانوں کا بچہ چاہے وہ عقیل ہے یا شکیل ہے مگر زندگی اس کی ذلیل ہے


August 14, 2024
(فوٹو: فائل)

ماہِ اگست کے آغاز ہی سے یومِ آزادی مثل شادی منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ ہر طرف گہماگہمی کا سماں ہوتا ہے۔ وطنِ عزیز کے شہروں اور دیہاتوں کے گلی کوچوں کو خوب سجایا جاتا ہے پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر یومِ آزادی کی مناسبت سے بہت کچھ پڑھنے اور سننے کو میسر آتا ہے۔

تاہم یومِ آزادی کے تناظر میں یہ عظیم دن پاکستانی قوم سے کیا تقاضے رکھتا ہے اور ان تقاضوں کی تکمیل کے ضمن میں ہماری من حیث القوم کیا ترجیحات اور ذمہ داریاں ہیں،ان عوامل کو پورے سیاق وسباق کے ساتھ اجاگر کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید اتنی کبھی پہلے نہ تھی۔ بنا بریں، ذیلی سطور میں انہی خطوط پرروشنی ڈالنے کی سعی کی گئی ہے۔

اس مبارک دن کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہماری موجودہ نسل کو مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے پس منظر سے پوری طرح روشناس کرانے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ انہیں اس بات کا کامل ادراک ہونا چاہیے کہ آزادی سے پہلے ہم تمام کلمہ گو مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب کے سب غیر مسلموں کے قبضے میں تھے۔ ہماری تہذیب و تمدن، ہماری ثقافت و شرافت، ہماری عزت و ناموس، ہمارا قرآن، ہمارا ایمان، ہمارا اسلام، سرورِ کائنات کا پیغامِ تزک و احتشام، تمام کا تمام غیر مسلموں اور استبدادی طاقتوں کا غلام تھا۔ پاکیزہ و غیر پاکیزہ معاشرے کا باہمی ادغام تھا، مسلمانوں کے لئے باعثِ غم وآلام تھا۔

ہماری نوجوان نسل کو یہ باور کرانا ہوگا کہ انگریز دور میں برصغیر میں صبح مسلمانو ں کے لیے پیغامِ صبا نہ لاتی تھی پیغامِ بلا لاتی تھی۔ یہاں کا دن ان کے لئے نرک دن تھا۔ ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔ ہر سو جابرانہ ہتھکنڈوں کی برسات تھی۔ ہماری نشستن، خوردن، برخاستن، آمدن اور رفتن ہمارے اپنے بس میں نہ تھا۔ حاکم ظالم تھے۔ ہر بات ان کے رحم و کرم پر تھی۔ ہماری نہ معیشت تھی نہ تجارت تھی۔ سفاکانہ سلوک میں غلامانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ لب کشائی کی تاب تک نہ رکھتے تھے۔ بے قصور مسلمان مارے جاتے تھے اور بہت مشکل کے اوقات گزارے جاتے تھے۔

آج بھی بھارت میں جھانک کر دیکھیں تو مسلمانوں کا بچہ چاہے وہ عقیل ہے یا شکیل ہے مگر زندگی اس کی ذلیل ہے۔ اگرچہ اس کے اندر پنپنے کی صلاحیتیں موجود ہیں مگر ہندو اپنے ظالمانہ رویہ سے مفلوج اور مجروح کردیتے ہیں۔ جبراً مشقت لینے پر کوئی پابندی نہیں۔ رکشہ کھینچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔کسی مسلمان کی بیوی، بہن، بہو یا بیٹی کسی ہندو کو پسند آجائے تو اسے پامال کردینے کی کھلی چھٹی ہے۔ آبروریزی پر اتر آئے تو کوئی قید نہیں۔ دن دیہاڑے عصمت دری کرے تو کوئی روک ٹوک نہیں۔ غرض جب چاہے جو چاہے کر سکتا ہے۔ کوئی قید وبند نہیں۔

مگر مسلمان جس کی عزت سے یوں کھیلا جاتا ہے وہ غیرت کی آگ میں سلگ سلگ کر راکھ ہوجائے تو ہوجائے مگر ساکھ کے لٹ جانے پر نہ اس کا مداوا کرسکتا ہے نہ دعویٰ کر سکتا ہے۔مقبوضہ وادی جموں و کشمیر کی پچھلی سات دہائیوں سے سارے حالات و واقعات سے بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتاہے کہ خدانخواستہ اگر وطنِ عزیز بھی آزاد نہ ہوا ہوتا تو ہم سب لوگوں کا کیا انجام ہوتا۔اس لئے ہم سب کو اس بات کا صحیح ادراک ہونا لازم ہے کہ اس خداداد مملکت کے قیام سے قبل کیا حالات تھے جس کی بناء پر بیسویں صدی کی عظیم الشان تحریک آزادی برپا ہوئی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

تحریکِ پاکستان کیا تھی، اصل میں تحریکِ عرفان تھی۔ گویا خدا کی پہچان تھی اسلام کی شمعیں روشن ہونا تھیں جو روشن ہوئیں اور اسلام کا بیج بوتی رہیں۔ شگوفوں نے اس وقت پنپنا تھا جب ہند کی مٹی نے راہ سے ہٹنا تھا۔ دوسرا بڑا تقاضا اس یومِ آزادی کا یہ ہے کہ ہم اپنی صفوں میں کامل اتحاد پیدا کریں۔ کسی بھی طرح کے گروہی، لسانی وصوبائی عصبیت پسندی یا کسی بھی دیگر بنیاد پر تفریق کا شکار نہ ہوں۔

بابائے قوم حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح نے قوم کے لیے رہنما خطوط فراہم کرتے ہوئے فرمایا تھا: اتحاد، ایمان، تنظیم۔ یعنی کسی بھی قوم کے لئے ترقی و کامرانی حاصل کرنے کے لئے سنہری اصول یہی تین ہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھے۔ اپنی دیانت داری اور ایمان کو ہمیشہ اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کررکھے اور ساتھ ہی ساتھ پوری قوم نظم و ضبظ پر چابکدستی سے کاربند ہو۔ 14اگست کا دن ہر سال ہم سب پاکستانیوں کے لئے حریت اور استقلال کا پیغام بن کر آتا ہے اور جہدو جہد ِ آزادی اور قربانیوں کی یا د ذہنوں میں تازہ کر تا ہے آج ہماری آزاد ی کو 77سال ہو چکے ہیں۔

آزادی ایک بہت بڑی نعمت عظمیٰ ہے آزادی کے حصول کیلئے ہزاروں علماء ،بزرگوں و خواتین کی عظیم قربانیوں پر ہمیں فخر ہے، جن کی بدولت مملکت پاکستان وجود میں آئی اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں پو ری ملت نے شاندار خدمات سر انجام دیں،جن کی عظیم جدو جہدپر قیامت تک اہل وطن خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے،اس سلسلہ میں عظیم جدوجہد میں شامل بزرگوں و خواتین حضرات و اکا بر علماء کرام کی لازوال قربانیوں پر ان کوسلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔

جن علماء کرام،مشائخ عظام پر بانی ء پاکستان کو اعتماد تھا اورعلماء کرام کی قربانیوں پر نہ صرف فخر تھا بلکہ مکمل اعتماد تھا جن کا اظہار انہوں نے مملکت کا وجود عمل میں آنے کے بعد مشرقی پاکستان میں علامہ ظفر احمد عثمانی اور مغربی پاکستان میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے پاکستان کی پرچم کشائی کراکر در اصل ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لاالہ الا للہ کے نام پر حاصل کئے گئے وطن عزیز میں نفاذ اسلام اور نظام مصطفی کا نفاذ ازحد ضروری ہے تاکہ قائد اعظم اور شہداء پاکستان کی روحیں خوشی سے جوم اٹھیں۔

1857 میں جب انگریزوں کے قدم ہندوستان میں مضبوطی سے جم گئے تو ہندوستان میں مسلمانوں پر مایوسی اور غلامی کی سیاہ رات نے ہر طرف اپنے پر پھیلادیئے، مایوسی اور بددلی کے اس عالم میں مسلمانوں کو کسی راہ نما کی ضرورت تھی۔ غلامی کا یہ احساس دلوں میں دبی چنگاریاں بن کر سلگتا رہااور اپنے حقوق حاصل کرنے کا خیال مسلمانوں کے دلوں میں کروٹیں بدلتا رہا، اور آخر کار اس خیال نے ایک دن اجتماعی شکل اختیار کرلی۔ 1906ء میں مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے اپنی ایک جماعت قائم کرکے ہندؤں کی تنظیم کانگریس کے ساتھ مل کرانگریزوں سے آزادی کی جہدوجہد شروع کردی۔

آہستہ آہستہ آزادی کایہ مطالبہ شدت پکڑتا گیا اور ہندو مسلم دونوں قومیں متحد ہوکر پورے جوش و خروش کے ساتھ آزادی کے نصب العین کی طرف بڑھنے لگیں۔انگریزوں نے پوری قوت سے مسلمانوں اور ہندؤں کی اس متحدہ طاقت کو توڑنے کی کوشش کی، پولیس اور فوج نے ان کے پر امن جلوسوں پر گولیاں چلائیں اور جیلوں میں بند کردیا۔ لیکن آزادی کے متوالے بڑے صبر و تحمل اور عزم و استقامت کے ساتھ سب صعوبتیں برداشت کر تے رہے بالآخر انگریزوں کو اتحاد کی اس قوت کے آگے سر جھکانا پڑا اور ہندوستانیوں کو بہت سی مراعات حاصل ہوگئیں جوں جوں یہ مراعات ملتی رہیں ہندؤں نے پر نکالنے شروع کردیئے، مسلمان ہندؤں کے روئیے سے برابر یہ اندازہ لگاتے رہے کہ انھیں اپنے مذہب، زبان اور تہذیب کو زندہ رکھنے کے لئے انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندؤں سے بھی علیحدگی اختیار کرنا پڑے گی۔

چنانچہ 1930ء میں ایک اجتماع میں علامہ اقبال نے اسی طرح کی ایک تجویز پیش کی اور اسی تصور کی بنیا د پر مسلم لیگ نے پاکستان کو اپنا نصب العین بنالیا۔ مسلم لیگ کے اس فیصلے کے بعد انگریز اور ہندو اس کوشش میں مصروف ہوگئے کہ مسلمانوں کا یہ تصور ِ آزادی صرف ایک خواب بن کر رہ جائے۔

لیکن قائدِاعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمان تہیہ کرچکے تھے کہ وہ پاکستان لے کر رہیں گے۔آخر کا ر مسلمانوں کے عزم محکم اور قائد اعظم کے سیاسی تدبر کے سامنے انگریزوں کو ان کی بات ماننا پڑی اور 14اگست 1947ء کو ہندوستان تقسیم ہوگیا اور پاکستان کے نام سے مسلمانوں کی ایک نئی مملکت وجود میں آگئی۔الحمد اللہ اب پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے قائم ہوچکا ہے اور ان شاء اللہ قائم و دائم رہے گا 14 اگست کا دن یوم مسرت بھی ہے اور یوم تجدید عہدبھی، اگر ہمیں اپنی آزادی عزیز ہے تو اس کی تعمیر و ترقی اور تحفظ کے لئے ہمیں اپنی تمام تر قوتوں کوایک قوم بن کر صرف اور صرف پاکستان کے لئے وقف کرنا ہو گا 14 اگست کو جب ہم جشنِ آزادی مناتے ہیں تو اس مبارک موقع پر ہم سب کو یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم نے اب تک پاکستان کے استحکام کے لئے کتنا کام کیا؟

پاکستان بنانے کے لیے علماء کرام، بزرگوں، نوجوانوں، بچوں، یعنی مسلمانوں نے بہت قربانیاں دی ہیں، 14 اگست 1947ء کا سورج برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا پیام بن کر طلوع ہوا تھا۔ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ انگریزوں بلکہ ہندؤوں کی متوقع غلامی سے بھی ہمیشہ کے لیے نجات ملی تھی۔ آزادی کا یہ حصول کوئی آسان کام نہیں تھا جیسا کہ شاید آج سمجھا جانے لگا ہے۔

نواب سراج الدولہ سے لے کر سلطان ٹیپو شہید اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تک کی داستاں ہماری تاریخ حریت و آزادی کی لازوال داستان ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے المناک واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سات سمندر پار سے تجارت کی غرض سے آنے والی انگریز قوم کی مسلسل سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی گئیں۔ اگرچہ مسلمان حکمرانوں اور مختلف قبائل کے سرداروں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اور جان و مال کی عظیم قربانیاں دے کر انگریزوں کو یہاں تسلط جمانے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں تھیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا خوبصورت بات کی تھی۔ پاکستان اسی دن یہاں قائم ہو گیا تھا، جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا، حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے کبھی بھی انگریز کی حکمرانی کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ انگریزوں اور ان کے نظام سے نفرت اور بغاوت کے واقعات وقفے وقفے کے ساتھ بار بار سامنے آتے رہے تھے۔ برطانوی اقتدار کے خاتمے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دی ہیں اور جو بے مثال جدوجہد کی ہے۔

یہ ان کے اسلام اور دو قومی نظریے پر غیر متزلزل ایمان و یقین کا واضح ثبوت ہے۔ انہی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ پاکستان کو پیارا پاکستان اور دنیائے اسلام کا سہارا بنائیں گے، کیونکہ یہ ہماری شناخت ہے، ہماری پہچان ہے، ہمارا ایمان بلکہ ہماری جان ہے۔ہمیں اس جشن آزادی کے موقع پر پاکستان کی خاطر سوچنے اور کام کرنے کا پختہ ارادہ کرکے اس پر عمل کرنا ہوگا، یہ مت سوچو کہ پاکستان نے کیا دیا بلکہ یہ سوچو کہ تم نے پاکستان کو کیا دیا ہے۔ امید ہے اس 14 اگست کا سورج پاکستان میں امن و خوشحالی کا پیغام لے کر طلوع ہوگا انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اپنی ذمّہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔